خبریں

وزیر اعظم مودی نے کہا کہ کوئی کانگریسی جیل میں انقلابیوں سے نہیں ملا، لیکن سچ یہ نہیں ہے

کرناٹک اسمبلی انتخاب کے لئے تشہیر کر رہے نریندر مودی کا کانگریس کے کسی رہنما کے بھگت سنگھ اور بٹوکیشور دت  سے جیل میں نہ ملنے کے بارے میں کیا گیا دعویٰ بالکل غلط ہے۔

(فوٹو : رائٹرس / وکی پیڈیا)

(فوٹو : رائٹرس / وکی پیڈیا)

نئی دہلی: 9 مئی کو کرناٹک اسمبلی انتخاب کے لئے تشہیر کر رہے نریندر مودی نے کہا، ‘ جب ملک کی آزادی کے لئے لڑ رہے شہید بھگت سنگھ، بٹوکیشور دت، ویر ساورکر جیسے عظیم لوگ جیل میں تھے، تب کیا کانگریس کا کوئی رہنما ان سے ملنے گیا تھا؟ لیکن اب کانگریس کے رہنما جیل میں بند بدعنوانی میں ملوث  رہنماؤں سے ملتے ہیں۔ ‘ بیدر میں ہوئی اس ریلی میں نریندر مودی کایہ سیدھا اشارہ کانگریس صدر راہل گاندھی کی طرف تھا، جو کچھ دنوں پہلے چارہ گھوٹالہ کی سزا کاٹ رہے راجد سپریمو لالو پرساد یادو سے دہلی  کے ایمس میں ملے تھے۔

وزیر اعظم مودی نے یہ دعویٰ کیا کہ برٹش حکومت میں جب بھگت سنگھ، بٹوکیشور دت اور وی ڈی ساورکر جیل میں تھے، تب کانگریس کے کسی رہنما نے ان سے ملاقات نہیں کی۔

لیکن وزیر اعظم کا یہ دعویٰ غلط ہے۔ آلٹ نیوز نے اس دعویٰ کی جانچ کی اور پایا کہ وزیر اعظم کا دعویٰ تاریخی طور پر غلط ہے۔ملک کے پہلے وزیر اعظم اور کانگریس کے رہنما جواہرلال نہرو نے اپنی آپ بیتی ‘ ٹو ورڈ فریڈم : دی آٹوبایوگرافی آف جواہرلال نہرو ‘ میں بھگت سنگھ سے لاہور جیل میں ہوئی ملاقات کا ذکر کیا ہے۔ یہ ملاقات 1929 میں ہوئی تھی، جب اسمبلی میں بم دھماکے کے بعد بھگت سنگھ اوربٹوکیشور دت کو گرفتار کیا گیا تھا۔ اس کتاب کے پیج نمبر 204 کے آخری پیراگراف میں نہرو نے لکھا ہے؛

‘ جب جیل میں بھوک ہڑتال کو مہینہ بھر ہوا۔ اس وقت میں لاہور میں ہی تھا۔ مجھے جیل میں کچھ قیدیوں سے ملنے کی اجازت ملی اور میں نے اس کا فائدہ اٹھایا۔ میں نے پہلی بار بھگت سنگھ، جتیندرناتھ داس اور کچھ دوسروں کو دیکھا۔ وہ سب بےحد کمزور تھے اور بستر پر تھے اور ان کے لئے بات کرنا بھی مشکل تھا۔ بھگت سنگھ  چہرے سے دلکش اور عقلمند تھے اور نسبتاً خاموش دکھ رہے تھے۔ ان میں کسی طرح کا غصہ نہیں دکھائی دے رہا تھا۔ انہوں نے بےحد خوش مزاج طریقے سے بات کی لیکن مجھے لگتا ہے کہ کوئی ایسا آدمی جو مہینے بھر سے بھوک ہڑتال پر ہو، وہ روحانی اور خوش مزاج دکھے‌گا ہی۔ جتن داس کسی لڑکی کی طرح خوش مزاج اور مہذب دکھ رہے تھے۔ جب میں نے ان کو دیکھا تب وہ کافی تکلیف میں لگ رہے تھے۔ بھوک ہڑتال کے 61ویں  دن ان کی موت ہو گئی تھی۔ ‘

فوٹو:بشکریہ ؛ ٹوئٹر

فوٹو:بشکریہ ؛ ٹوئٹر

یہاں تک کہ ان کی اس ملاقات کے بارے میں 9 اور 10 اگست 1929 کے دی ٹریبیون اخبار میں چھپا بھی تھا۔ یہاں غور کرنے والی بات ہے کہ اس وقت ٹریبیون لاہور سے ہی چھپا کرتا تھا۔ ٹریبیون کے آرکائیو سے ملی اس رپورٹ کو نیچے پڑھا جا سکتا ہے۔

9 اگست کا دی  ٹریبیون (بہ شکریہ  : ٹریبیون آرکائیو / آلٹ نیوز)

9 اگست کا دی  ٹریبیون (بہ شکریہ  : ٹریبیون آرکائیو / آلٹ نیوز)

یہ بھی پڑھیں:ہمارے وزیر اعظم عوام کو بہکانے کے لئے جھوٹ بھی بول دیتے ہیں…

9 اگست 1929 کی اس رپورٹ میں لکھا ہے؛

‘ پنڈت جواہرلال نہرو، ڈاکٹر گوپی چند، ایم ایل سی کے ساتھ آج لاہور سینٹرل اور بورسٹل جیل گئے اور لاہور کانسپریسی کیس میں بھوک ہڑتال پر بیٹھے لوگوں سے بات چیت کی۔ پنڈت نہرو پہلے سینٹرل جیل گئے، جہاں وہ سردار بھگت سنگھ اور بٹوکیشور دت سے ملے، جن سے انہوں نے بھوک ہڑتال کے بارے میں بات کی۔ ان دو قیدیوں سے ملنے کے بعد وہ بورسٹل جیل گئے جہاں وہ بھوک ہڑتال کر رہے جتن داس، اجے  گھوش اور شیو ورما سمیت دوسرے  لوگوں سے ملے جو ہسپتال میں بھرتی تھے۔ ‘

10 اگست کا دی ٹریبیون (بہ شکریہ : ٹریبیون آرکائیو / آلٹ نیوز)

10 اگست کا دی ٹریبیون (بہ شکریہ : ٹریبیون آرکائیو / آلٹ نیوز)

10 اگست کے اخبار میں بھی نہرو کے بھوک ہڑتال کرنے والوں  کی صحت کے بارے میں فکر ظاہر کرنے کی رپورٹ چھپی تھی۔حالانکہ یہ پہلا موقع نہیں تھا جب وزیر اعظم نے کرناٹک کے انتخاب کی کسی ریلی میں اس طرح کا کوئی جھوٹ بولا ہے۔اس سے پہلے کرناٹک کے کلبرگی میں وزیر اعظم نے کہا کہ فیلڈ مارشل کے ایم کریپا اور جنرل تھیمیا کی کانگریس حکومت نے بے عزتی کی تھی۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے۔ جنرل تھیمیا کی قیادت میں ہم نے 1948 کی لڑائی جیتی تھی۔ جس آدمی نے کشمیر کو بچایا ،اس کی  وزیر اعظم نہرو اور وزیر دفاع کرشن مینن نے بے عزتی کی۔ کیا بے عزتی کی، کیسی بے عزتی کی، اس پر مودی نے کچھ نہیں کہا۔

صحیح حقیقت یہ ہے کہ48-1947 کی لڑائی میں ہندوستانی فوج کے جنرل سر فرانسس بوچر  تھے نہ کہ جنرل تھیمیا۔ جنگ کے دوران جنرل تھیمیا کشمیر میں فوج کے آپریشن کی قیادت کر رہے تھے۔ وہ 1957 میں آرمی چیف بنے۔ 1959 میں جنرل تھیمیا آرمی چیف  تھے۔ تب چین کی فوجی گولبندی کو لےکر وزیر دفاع کرشن مینن نے ان کا ووٹ ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ اس کے بعد جنرل تھیمیا نے استعفیٰ کی پیشکش کر دی جس کو وزیر اعظم نہرو نے نامنظورکر دیا تھا۔