فکر و نظر

کیا تحریک کشمیر ایک نئے دور میں داخل ہوچکی ہے؟

 کشمیر کے کسی عام قصبہ یا دیہات میں این سی، پی ڈی پی یا حریت کے ورکر کی سیاسی زبان تقریباً ایک ہی جیسی ہوتی ہے۔یہ پارٹیاں بھی کھبی گراؤنڈ پر اپنے آپ کوہندوستان  نواز نہیں کہلواتی ہیں۔

علامتی تصویر / پتریکا

علامتی تصویر / پتریکا

26مئی 2014 کو وزیر اعظم نریندر مودی کی حلف برداری کے چند روز بعد وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے اپنی رہائش گاہ پر نئی وزارتی ٹیم کو قومی میڈیا اور اشرافیہ دہلی سے متعارف کرانے کی غرض سے ضیافت کا اہتمام کیا تھا۔ وزارتی ٹیم کے اکثر اراکین چونکہ پہلی بار ہی منتخب ہوکر آئے تھے اس لیے  ان کو دارالحکومت کے آداب و انداز سے آشنا کروانے اور لوٹین دہلی کے رو برو کرانا بھی اس پارٹی کا مقصد تھا۔نئی دہلی کا کیپٹل سٹی کا علاقہ برطانوی آرکٹیکٹ ایڈوین لوٹین کا تعمیر کردہ ہے۔ اسلئے دہلی کے اشرافیہ کو ، یاجن کا اصل ہندوستان کے زمینی حالات سے کوئی مطابقت نہیں ہوتی ہے، کو طنزاً لوٹین کہا جاتا ہے ۔ مودی کو سب سے زیادہ اسی طبقہ سے چڑہے، جبکہ جیٹلی خود اسی قبیل سے تعلق رکھتے ہیں۔

 نامور وکیل اور ایوان بالا میں برسوں تک لیڈر آف اپوزیشن کا عہدہ سنبھالنے کی وجہ سے جیٹلی میڈیا کے چہیتے اور موجودہ حالات میں جہاں اکثر وزرا اور افسران پر میڈیا سے بات کرنے پر قدغن ہے، حکومت کی خبروں میں سرگرداں صحافیوں کیلئے وہ واحد رابطہ ہیں۔خیر اس ضیافت میں جس میز نے سب کی توجہ مبذول کی ہوئی تھی وہ قومی سلامتی مشیر اجیت دوبھال کی تھی۔ان کے ساتھ بی جے پی کے مقتدر لیڈران امت شاہ اور رام مادھو بھی براجمان تھے۔ امت شاہ ابھی بی جے پی کے صدر کے عہدہ پر فائز نہیں ہوئے تھے۔ مگراتر پردیش کے انچارج کی حیثیت  سے وہاں سب سے زیادہ سیٹیں دلانے کا کام کرکے وہ سبھی کی توجہ کا مرکز تھے۔ ایک منجھے ہوئے اینٹلی  جنس اہلکار کی طرز پر دوبھا ل نہایت کم گو اور لو پرفائل رکھنے والے شخص ہیں، لیکن جب گفتگو ملکی حالات سے ہوتے ہوئے نئی حکومت کی بین الاقوامی ، پاکستان اور کشمیر اپروچ پر پہنچی تو وہ گویا ہوئے۔

 ان کی گفتگو کا محور تھا کہ گزشتہ  70سالوں میں یہ پہلا اور آخری موقع ہے کہ کشمیری عوام اور پاکستان کو باور کرایا جائے کہ ان کی مانگ ناقابل حصول ہے ۔(What they want to achieve is unachievable)ان کا کہنا تھا کہ جب دونوں کو اس کا ادراک ہوجائے گا  تو ہی گفت و شنید اور سیاسی پیش رفت کے دروازے کھل سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کا کہنا تھا کہ کشمیر یوں کو اس حقیقت سے بھی روشناس کروانا ضروری ہے کہ ان کی تحریک یا مانگ کو اب عالمی سطح پر کوئی پذیرائی حاصل نہیں ہے اور پاکستان بھی ان کی مدد کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ اسلئے ایسے اداروں اور تنظیموں  کے خلاف کارروائی کرنا اور حوصلہ شکنی کرنا ضروری ہے، جو ایسا تاثر دے رہے ہوں۔

ان کا مزید کہنا تھا، کہ سابق حکومتوں نے کشمیری رہنماؤں کی چاہے وہ حریت پسند ہوں یاہندوستان  نواز ابھی تک صرف ناز برداری کی ہے ۔ ان کو حقیقت کا ادراک نہیں کروایا ہے۔ہندوستان میں جواہر لال نہرو کے پنچ شیل اور بعد میں اندر کمار گجرال کی ڈاکٹرین خارجہ پالیسی کے اہم عنصر رہے ہیں۔گجرال ڈاکٹرین کے مطابق ہندوستان کو ایک بڑے ملک ہونے کے ناطے وسیع القلبی کا مظاہر کرکے رعایت باہمی کا انتظار کئے بغیرخطے کے دوسرے ممالک کو مراعات دینی چاہیے۔مگر دوبھال کے مطابق دوسرے  ممالک خاص طور پر پاکستان کی کمزور رگوں یعنی بلوچستان اور گلگت- بلتستان پر ہاتھ ڈال کر، اس کو کشمیر سے باز رکھنا ہے۔اور کسی بھی دباؤ کو خاطر میں لائے بغیر کشمیر پر فورسز کے ذریعے Territorial Dominance حاصل کرواکے ، پاکستان اور کشمیری عوام کا مائینڈ سیٹ تبدیل کروانا ہے۔جس سے ایک طرف پاکستان تائب ہوجائے، اور دوسری طرف کشمیر یو ں پر یہ واضح ہو، کہ ہندوستان کے بغیر ان کا مستقبل کہیں اور نہیں ہے۔

اس کے علاوہ ان کا نشانہ ہندوستان  نواز کشمیر ی پارٹیاں نیشنل کانفرنس اور پیوپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) تھیں۔ ان کے مطابق یہ پارٹیاں بھی حق خود اختیاری ، خود مختاری، اور سیلف رول جیسے نعروں کے ذریعے کشمیر ی ذہنوں کو آلودہ کرتی ہیں، اور حریت پسند ی کو آکسیجن فراہم کرتی رہتی ہیں۔لہٰذا ان پارٹیوں کو بھی یہ احساس دلانا ہے کہ وہ نئی دہلی کو بلیک میل کرنے او ر سیاسی حل پیش کرکے اب او ر سیاست نہیں کرسکتی ہیں بلکہ ان کو بھی ملک کی دوسری  سیاسی پارٹیوں کی طرز پر صرف تعمیر اور ترقی کے ایشوپر ہی توجہ مرکوز کرنی  پڑے گی ۔یہ گفتگو مودی حکومت کی پچھلے چار سال سے جاری کشمیر اور پاکستان کے تئیں اپنائی گئی پالیسی کا خلاصہ ہے۔ مگر اب ایسا لگتا ہے کہ کشمیر میں بھی عوام نے یہ تہیہ کر رکھا ہے کہ جس چیز کو دوبھا ل ناقابل حصول بنانا چاہتے ہیں وہ اس کوحاصل کرکے ہی دم لیں گے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ کہ تحریک کشمیر ایک نئے دور میں داخل ہوچکی ہے۔ پوری آبادی ایک طرح سے سینہ سپر ہے۔ گزشتہ  500سالوں سے اس قوم پرجبر اور خوف کا احساس دلاکر حکومت کی گئی ہے۔ خوف تو اب دور ہوچکا ہے، پر جبر ابھی باقی ہے۔

اس پالیسی کے تحت آزادی پسند خیمہ سے تعلق رکھنے والے کارکنوں کو نشانہ بناکر پہلے تو میڈیا ٹرائل کا نشانہ بنایا گیا، بعد میں نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی کے حوالے کرکے بیشتر کو جیلوں میں ڈالا گیا۔ لیڈروں کیلئے زمین اتنی تنگ کی گئی کہ چند ایک تو خود ہی خول میں بند ہوگئے، بقیہ کے روابط ہی زمین سے دشوار کردئے گئے۔ کئی کو تو نان و شبینہ کا محتاج کرایا گیا۔ دہلی میں خیال تھا کہ حریت اوراسکے رہنماؤں کو بے بس کرنے سےہندوستان  نواز پارٹیاں یعنی حکمران پی ڈی پی اور نیشنل کانفرنس (این سی) اس کا خاطر خواہ فائدہ اٹھا کر سیاسی خلا کو پر کرے گی ۔ پی ڈی پی کو بھی ہدایت دی گئی تھی کہ حریت کی بی ٹیم کے بجائے اب اپنا سیاسی گراؤنڈ جنوبی کشمیر میں تیار کرے۔ مگر کشمیر کے بارے میں معلومات کا ایسا فقدان ہے کہ کسی کو یہ نہیں معلوم کہ کشمیر میں سیاست جو ں جوں نیچے زمینی سطح تک آتی ہے، آزادی پسند وں اور نام نہادہندوستان  نواز پارٹیوں کے درمیان امتیاز اتنا ہی مٹتا جاتا ہے۔

 کشمیر کے کسی عام قصبہ یا دیہات میں این سی، پی ڈی پی یا حریت کے ورکر کی سیاسی زبان تقریباً ایک ہی جیسی ہوتی ہے۔یہ پارٹیاں بھی کھبی گراؤنڈ پر اپنے آپ کوہندوستان  نواز نہیں کہلواتی ہیں۔ بلکہ ان کا نظریہ بھی تقریباً وہی ہے جو حریت یا کسی اور آزادی پسند تنظیم کا یعنی وہ اس خطے کو متنازعہ تسلیم کرتے ہیں اور اس کیلئے اٹانومی یعنی حق خود اختیاری یا سیلف رول کو متبادل حل کی شکل میں پیش کرتے ہیں۔ این سی کے مرحوم جنرل سکریٹری اور فاروق عبداللہ کے کزن شیخ نذیر تو اتنے ہندوستان  مخالف تھے کہ پوری زندگی انہوں نے ہندوستانی  پاسپورٹ بنانے سے انکار کیا، دہلی آنے یا کسی ہندوستانی  ایر لائنز سے سفر کرنے سے ان کو احتراز تھا۔

گزشتہ  انتخابات کے بعد بی جے پی کا دعوی ٰ تھا کہ وادی کشمیر سے انہوں نے تقریباً ڈیڑھ لاکھ ممبر بھرتی کئے ہیں ، جن میں 70ہزار کے قریب جنوبی کشمیر سے ہیں۔ اس دعوے کے بعد تو بی جے پی کو ان ممبروں کو سڑکوں پر لاکر آزادی پسندو ں کا مقابلہ کرواکے حالات ہندوستان  کے حق میں ٹھیک کروانے چاہیے تھے۔ اس سے دوگنے کانگریس کے ممبر ہونگے اور پھر این سی اور پی ڈی پی کے بھی ورکر خاصی تعداد میں ہیں۔ مگر مراعات کیلئے بی جے پی یا دیگر سیاسی جماعتوں کی ممبرشپ کے یہ فارم بھرنے والے افراد عسکریت پسندو ں کے جنازوں اور ہندوستان  مخالف جلسوں اور جلوسوں میں بھی پیش پیش رہتے ہیں۔ہندوستان  سے گلو خلاصی حاصل کرنا ایک ایسا جذبہ ہے، جس کی نگراں  حریت تو ہے، مگر یہ پارٹی وفاداریوں سے بالا تر ہے۔ یہ نکتہ دوبھا ل نہ کسی اورہندوستانی  پالیسی ساز کی سمجھ میں آتا ہے۔

این سی اور پی ڈ ی پی چونکہ انتخابات میں حصہ لیکر انتظامیہ کا حصہ بنتی ہیں ، اسی لئے ایک طرح سے ہندوستان  کے آئینی اور نرم چہرہ کی صورت میں ان کو پذیرائی حاصل ہے۔ ان کو بین الاقوامی فورمز میں کشمیر میں ہندوستان  کے سیکولر اور جمہوری چہرہ کے طور پر بھی بیچا جاتا ہے۔ مگر اس وقت سب سے قابل رحم حالت ان دونوں پارٹیوں کی ہے۔ پی ڈی پی تو اپنے گڑھ  جنوبی کشمیر سے بوریہ بسترہ گول کر ہی چکی ہے، این سی کی حالت بھی کچھ اچھی نہیں ہے۔ پی ڈی پی کے ایک مقتدر لیڈر کے بقول کشمیر میں اب ہندوستان  کا واحد چہرہ سیکورٹی  فورسز اور فوج ہے۔ سیکرٹریٹ کے علاوہ اگر کہیں ہندوستان  کا قومی پرچم نظر آتا ہے ،وہ یاتو آرمی کا کیمپ یا انٹروگیشن سینٹر ہوگا۔جو تعدیب کی نشانیان ہیں۔ ہندوستانی  وزارت داخلہ کے افسران کہتے ہیں کہ سیکورٹی کے حصار کے باوجود این سی اور پی ڈی پی کے اراکین اسمبلی جولائی 2015میں برھان وانی کی شہادت کے بعد اپنے انتخابی حلقوں میں جانے کی جرأت نہیں کر پاتے ہیں۔

اس صورت حال میں جہا ں حریت پر قد غن ہے، پی ڈی پی اور این سی عوامی غیض و غضب کا شکار ہیں، سیاسی خلا کو پر کرنے کیلئے کئی اور طاقتیں سرگرم ہوگئیں ہیں، جو نہ صرف اس خطے بلکہ ہندوستان  اور پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کردیں گیں۔ خوش قسمتی سے فی الحال ان کا دائرہ محدود ہے، مگر اگر ایسی صورت حال جاری رہی ، تو کشمیر کے دوسرے  علاقہ بھی اس کی زد میں آسکتے ہیں۔ نئی دہلی کے کئی حلقوں میں اعتراف ہے کہ پاکستان یا اسکی فوج کشمیر کی صورت حال کا اس طرح فائدہ اٹھا نہیں رہی ہے، جس کا اندیشہ تھا۔ ورنہ حریت کو بے دست و پا کرکے نیز پی ڈی پی اور این سی کو بے وزن کرکے ایک انارکی کا ماحول تیار کرواکے حالات 90-1989کی نہج تک پہنچ چکے ہیں۔ہندوستان کے حق میں صرف یہی ایک چیز ہے کہ موجودہ عسکریت پسندوں کے پاس ہتھیار معمولی ہیں اور ان کی ترسیل بند ہے۔ کئی مواقع پر مقابلوں کے بعد معلوم ہوا کہ شہید عسکریوں کے پاس جو بندوقیں یا پستول ملی ان میں میگزین ہی نہیں تھے۔

حال ہی میں جب وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے مخدوش صورتحال کے پس منظر میں ایک کل جماعتی میٹنگ بلائی تو یہ امید پیدا ہوچلی تھی کہ کم از کم اس بار یہ ہندوستان  نواز سیاسی خیمہ کوئی متفقہ لائحہ عمل اپنائے گا۔اجلاس میں بقول وزیر اعلیٰ یہ فیصلہ ہواکہ مودی حکومت کو باور کرایا جائے کہ رمضان کے مقدس مہینہ اور امر ناتھ یاترا کے پیش نظر یکطرفہ جنگ بندی کرائی جائے اور اس میں یہ بھی طے پایا تھا کہ ایک کل جماعتی وفد دہلی جائے گا جو وہاں وزیراعظم سے ملاقی ہوگا اور انہیں ان متفقہ مطالبات سے آگاہ کرنے کے علاوہ ان پر زور دے گا کہ وہ ریاست کو موجود ہ اندوہناک صورتحال سے باہر نکالنے کے لئے اعتماد سازی کے اقدامات کا اعلان کریں۔ یہ سبھی اقدامات کسی بھی زاویہ سے ہندوستان کے سیکورٹی کے مفادات کے خلاف نہیں ہیں۔ یکطرفہ جنگ بندی کے نتیجہ میں نہ صرف عوام کو فوری راحت مل جاتی بلکہ ایک سیاسی عمل کے احیا و آغاز کا موقعہ بھی فراہم ہوتا۔

جس سےہندوستان  نواز پارٹیوں کو بھی تھوڑا پیر پسارنے کا موقعہ مل جاتا۔ تاہم افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے بی جے پی اور ہندوستانی  حکومت کے افسران نے اس تجویز کو مسترد کردیا ۔ ان کا کہناہے کہ فی الوقت عسکریت پسند دباؤ میں ہیں اور فورسز کی انتھک کاوشوں کی وجہ سے ان کیلئے زمین تنگ ہوچکی ہے اور جنگ بندی کا اعلان انہیں دوبارہ ابھرنے کا موقعہ فراہم کرے گا ۔ان کا کہنا تھا کہ دو سو عسکریت پسندو ں کو آپریشن آل آوٹ کے ذریعے ختم کرنا ہے۔ مگروہ یہ تسلیم کرنے سے قاصر ہیں کہ یہ صرف عسکریت کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ ایک غالب جذبہ موجود ہے جو فوجی طاقت کے بل پر دبایا نہیں جاسکتا ہے۔اگر آپریشن آل آوٹ ہی حل ہوتا توگزشتہ برس بھی کہا گیا تھا کہ کشمیر میں اڑھائی سو عسکریت پسند موجود ہیں جن میں سے اب تک دو سو سے زائد عسکریت پسند مارے گئے ہیں ۔

اس کا واضح مطلب یہی ہے کہ عسکریت پسندوں کو مارنا مسئلہ کا حل نہیں ہے اور جتنے عسکریت پسند مارے جائیں گے،اتنے ہی نئے عسکریت پسند پیدا ہوسکتے ہیں۔ طاقت کسی مسئلہ کا حل نہیں ہے اور شاید وزیراعلیٰ اس حقیقت کو سمجھ چکی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ وہ مفاہمت پر زور دے رہی ہیں لیکن جس طرح ان کا اتحادی بی جے پی بار بار ان کی راہ میں روڑے اٹکا رہا ہے ،اس سے تو وزیراعلیٰ کے عہدے کی افادیت ہی ختم ہوکر رہ گئی ہے ۔