فکر و نظر

دہلی : منافع کی ہوس کے شکار ہوتے مزدور

دہلی میں اتنے بڑے پیمانے پر رہائشی علاقوں میں فیکٹریاں چل رہی ہیں جہاں پر مالک من مانے طریقے سے کام کرتا ہے اور کسی طرح کے لیبر لاء کو نافذ نہیں کرتا ہے۔

علامتی تصویر / فوٹو : پی ٹی آئی

علامتی تصویر / فوٹو : پی ٹی آئی

دہلی  ملک کی راجدھانی ہے جہاں پر ملک کے اصول، قانون بنانے والے اور اس کو نافذ کرانے والے رہتے ہیں۔ ملک کے دوسرے  حصوں میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ دہلی  میں لاء اینڈ آرڈر  کی حالت بہتر ہے۔ کچھ واقعات پر ہم نظر ڈالیں تو یہ خیالی پلاؤ ہی لگتا ہے۔ دہلی میں آئے دن ہوتی لوٹ اور ریپ  تو روز مرہ کا واقعہ بن چکا ہے۔ منافع کی ہوس کی وجہ سے مزدوروں کے آگ میں جل‌کر مرنے کے  واقعات بھی تیزی سے بڑھتے جا رہے ہیں۔ لوٹ، ریپ  اور مزدوروں کے آگ میں جلنے کے واقعات میں فرق ہے ؛ جہاں پہلا واقعہ سے لوگوں میں غصہ دکھتا ہے اور لوگ اس کو بات چیت میں خراب ہوتے انتظام کی مثال کے طور پر رکھتے ہیں۔

مزدوروں کے جل کر مر جانے کے واقعہ کی وجہ سے لوگوں میں وہ غصہ نہیں دکھتا اور نہ ہی اس کو انتظام کی ناکامی کے طورپر مانا جاتا ہے۔ ان دونوں واقعات میں یہ بھی ایک فرق ہے جہاں پر لوٹ (سڑک پر چھین لینا یا گھر میں گھس‌کر ڈکیتی کرنا)سرمایہ دارانہ نظام کے ذریعے پیدا کیا گیا مسئلہ ہے، وہیں ریپ  سرمایہ دارانہ بازاری ثقافت کی دین ہے۔ مزدوروں کا فیکٹری میں آگ میں جل‌کر مر جانا  سرمایہ دارانہ منافع کی ہوس کا نتیجہ ہے۔

منافع کی ہوس کی آگ میں 9 اپریل 2018 کو سلطان پوری کے راج پارک میں 4 مزدور جل‌کر مر گئے۔ سلطان پوری کا یہ علاقہ ایک درمیانی طبقہ کا رہائشی علاقہ ہے جہاں پر تقریباً 500 کے آس پاس گھر ہیں۔ ان میں سے 100 سے بھی زیادہ گھروں میں جوتے، چپل، سیلائی اور دیگر کاموں کے کارخانے چلتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر میں جوتے، چپل کا کام ہوتا ہے جس میں پیسٹنگ سے لےکر سیلائی تک کا کام ہوتا ہے۔ یہاں پر کام کرنے والے مزدوروں سے کم از کم مزدوری کے آدھے میں12-10 گھنٹے کام کرایا جاتا ہے۔ یہاں پر زیادہ تر مزدور  پیس ریٹ یا7-5ہزار روپے فی  مہینے پر کام کرتے ہیں۔ مزدوروں کو لالچ دیا جاتا ہے کہ رہنے کی جگہ دی جائے‌گی۔

شہر میں رہائش گاہ کے مسئلہ سے جوجھ رہے مزدوروں کے لئے رہنے کی جگہ ملنا بہت بڑی راحت جیسی ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ کم پیسے میں بھی کام کرنے کو راضی ہو جاتے ہیں۔ مالک کے لئے یہ سونے  پر سہاگا جیسا ہو جاتا ہے۔ ان کو 24 گھنٹے کا فری میں مزدور مل جاتا ہے جو کسی بھی وقت فیکٹری میں لوڈنگ، ان لوڈنگ، چوکیدار کا کام کرتے ہیں۔ اس کے بدلے ان کو ٹیرس (چھت) پر ایک روم  مل جاتا ہے جس میں 10-8 لوگ رہتے ہیں اور بناتے، کھاتے ہیں۔ مالک گھر جاتے وقت فیکٹری میں باہر سے تالے لگا دیتے ہیں۔ اس کی دو وجہ ہے ایک تو یہ کہ نئے مزدور کہیں کام اچھا نہ  لگنے کی وجہ سے بھاگ نہ جائے ؛ دوسری یہ  کہ مزدور رات میں چوری نہ کر لے۔

10 اپریل کو جب میں سلطان پوری کے راج پارک واقع اے719 مکان پر پہنچا (جہاں پر ایک دن پہلے آگ لگی ہوئی تھی) اس گلی میں سناٹا تھا۔ اے197 کے بغل والے گھر کے سامنے پلاسٹک کی تین ،چار کرسیاں پڑی تھیں اور گلی کے ایک چوراہے  پر کچھ لوگ آپس میں بات چیت کر رہے تھے اور مجھے دیکھ رہے تھے۔ اے197 مکان کو دیکھ‌کر پوچھنے کی ضرورت نہیں تھی کہ اسی فیکٹری نے ایک دن پہلے 4 زندگی نگل لی۔ یہ مکان چار منزلہ ہے، نیچے والی منزل پر ایک 4 فٹ کا گیٹ ہے۔ اس کے علاوہ اوپر دو روشن دان لگا ہے جو کہ آگ لگنے سے کالا ہو چکا تھا۔ گیٹ کے بغل میں کالے پتھر پر مکان نمبر اے197، انیتا سدن اور اوم لکھا ہوا ہے۔

ساتھ ہی سواستک کا دو نشان بنا ہوا ہے، دیوار کے اوپری حصے پر سی سی ٹی وی کیمرہ لگا ہوا تھا۔ لوگوں نے بتایا کہ یہ فیکٹری برجیش گپتا کی  ہے جو کہ اے83 میں رہتے ہیں۔ اے197 میں چپل بنانے کا کام ہوتا ہے جس میں تقریباً35-30 مزدور کام  کرتے تھے۔ اس علاقے میں اتوار کو چھٹی ہوتی ہے لیکن بہت سی کمپنیوں میں کام ہوتا ہے۔ جن ستا میں شائع ہوئی  خبر کے مطابق کارخانے میں کام کرنے والے محمد علی نے بتایا کہ یہ فیکٹری 15 سالوں سے چل رہی  تھی اور 9-8 اپریل کی رات 2 بجے تک مزدوروں نے کام کیا۔

9 تاریخ کی صبح یوپی کے ہردوئی ضلع کے اسمدا گاؤں کی  مزدور فیملیوں کے لئے بری خبر لےکر آئی۔ اسمدا گاؤں کے رہنے والے محمد وارث (18)، محمد ایوب (17)، محمد راضی (20) اور محمد شان (17) 10 تاریخ کی صبح نہیں دیکھ پائے اور جل‌کر فیکٹری کے اندر ہی مر گئے۔ 4 لوگوں کے علاوہ کئی لوگ جان بچانے کے لئے چھت سے کودگئے جس میں ان کو چوٹیں لگیں۔ محمد وارث اور محمد ایوب دونوں سگے بھائی ہیں جبکہ محمد راضی اور محمد شان چچا زاد بھائی ہیں۔ سلطان پوری میں آگ  کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی کارخانے میں آگ لگ چکی ہے لیکن کوئی بڑا حادثہ نہیں ہو پانے کی وجہ سے نیوز نہیں بن سکی۔

آس پاس کے لوگوں کے مطابق ،اس میں آگ تقریباً صبح 6.30 بجے کے قریب لگی۔ فائر بریگیڈ  اور پولیس کو اطلاع 6.35 پر مل چکی تھی۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ محلے کے کافی لوگ جمع  ہو گئے تھے، لیکن بجلی کٹی نہیں تھی اس لئے لوگوں نے پہل نہیں کی۔ فائر بریگیڈ  کی  درجنوں گاڑیوں نے مل‌کر قریب دو گھنٹے میں آگ پر قابو پایا  اور لوگوں کو سنجے گاندھی ہسپتال پہنچایا، جس میں سے 4لوگوں کی موت کا ڈاکٹروں نے اعلان کر دیا۔

اس طرح کا دہلی میں یہ پہلا واقعہ نہیں ہے ،ابھی جنوری مہینے میں ہی بوانا سیکٹر 5 میں آگ لگنے سے 17 مزدوروں کی جان چلی گئی۔ اس واقعہ میں بھی کہا جاتا ہے کہ کافی تعداد میں مزدوروں کی موت ہوئی، لیکن فیکٹری میں جو مزدور رہتے تھے ان کا پتا نہیں چل پایا۔ اس سے پہلے پیراگڈھی، منڈولی، شادی پور، شاہ پور جاٹ وغیرہ جگہوں پر درجنوں مزدوروں کی جانیں جا چکی ہیں۔ بوانا، سلطان پوری، نریلا کے بعد نوادا کی کراکری فیکٹری میں لگی آگ نے 3 مزدوروں کو نگل لیا ہے اور 4 مزدور لاپتا ہیں۔ یہ واقعہ بھی نریلا، سلطان پوری کے  واقعہ کی  ہی تکرار ہے۔ مالک باہر سے تالا لگاکرکام کرا رہے تھے اور دہلی  اور مرکز کی حکومت سو رہی تھی۔

اس طرح کے واقعہ کے بعد جب مذکورہ جگہ پر جاتے ہیں تو متاثر مزدور نہیں مل پاتے ہیں۔ صحیح جانکاری اکٹھا کرنا مشکل ہوتا ہے لیکن انڈسٹریئل ایریا میں ہونے سے کچھ فیکٹ  مل جاتے  ہیں۔ سلطان پوری جیسے رہائشی علاقے میں اس طرح کا واقعہ ہوتا ہے تو کسی بھی طرح کے مزدور سے مل‌کر کچھ پتا کرنا تقریباً ناممکن سی بات ہوتی ہے۔ راج پارک میں جانے پر وہی لوگ ملتے ہیں جو آس پاس کی  فیکٹریوں کے مالک ہیں۔ یہ مالک ہر آنے جانے والے باہری آدمیوں پر نگاہ رکھے ہوتے ہیں اور اپنی بات سناتے ہیں کہ مالک کی قسمت خراب تھی، وہ پھنس گئے۔ میڈیا والے غلط بیان چھاپ رہے ہیں۔لڑکے تو کام ہی نہیں کرتے تھے، وہ تو گھومنے آئے تھے، باہر سے کوئی تالا بند نہیں رہتا تھا، وغیرہ، وغیرہ۔

جب تک کوئی باہری آدمی اس علاقے میں رہتا ہے یہ لوگ نظر بنائے رکھتے ہیں کہ وہ کہاں جا رہا ہے، کس سے بات کر رہا ہے۔ پاس میں کھڑا ایک آدمی  اس مدعے کو الگ شکل دینے کے لئے بولتا ہے کہ ہندوستان ایک نہیں ہو رہا ہے لیکن سعودی عرب ایک کرنا چاہتا ہے۔ اس آدمی کا صاف صاف اشارہ ہندو مسلم کرنے کا تھا۔ ہم جان سکتے ہیں کہ اس طرح کی ذہنیت رکھنے والے آدمی محمد وارث، محمد ایوب، محمد راضی اور محمد شان کی موت پر کس طرح سوچتا ہوگا؟

گاندھی نگر ریڈی میڈ کپڑوں کا جانا مانا مارکیٹ ہے۔ اس مارکیٹ کی خبریں ایک کونے  سے دوسرے کونے  تک نہیں پہنچ پاتی ہے۔ 23-22 اپریل، 2018 کی رات لگی آگ اور دو لوگوں کی موت کا پتہ کرنے جب میں گاندھی نگر پہنچا تو بہت لوگوں کو پتہ  ہی نہیں تھا کہ یہاں پر آگ لگی ہے۔ کچھ لوگوں کو میڈیا سے معلوم   بھی ہوا  تو ان کو یہ معلوم نہیں تھا کہ آگ کدھر لگی ہے اور کیا نقصان ہوا ہے۔ کافی لوگوں سے پوچھنے کے بعد ایک نوجوان نے بتایا کہ گرودوارے والی گلی کی طرف آگ لگی ہے۔

جب میں گھاس مارکیٹ کی  مین سڑک پر گیا تب بھی کوئی آگ لگنے کی بات نہیں بتا پا رہا تھا۔ گرودوارے والی گلی میں جانے کے بعد ایک جوس بیچنے والے  نے اس گلی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ اس گھر میں آگ لگی ہے۔ جب میں اس مکان کے پاس گیا (مکان نمبر 2490) تو ماحول دیکھ‌کر نہیں لگ رہا تھا کہ اسی مکان میں دو دن پہلے دو لوگوں کی زندگی ختم ہو چکی ہے۔ اس گھر کو دیکھنے پر آگ لگنے کا پتا چل رہا ہے۔ باقی لوگ آ جا رہے تھے، کپڑے نکال‌کر گاڑی پر لادے جا رہے تھے۔ کوئی سلنگ نہیں تھی، سب کچھ عام سا لگ رہا تھا۔

اس مکان کے بغل میں ایک عورت  سے بات ہوئی تو اس نے بتایا  کہ یہاں پر دو چار گھر چھوڑ کر ہر گھر میں فیکٹری اور گودام ہے۔ 2490 نمبر مکان بھی ایک تنگ گلی میں ہے، جس میں چار پہیا گاڑی بھی مشکل سے جا سکتی ہے۔ یہ مکان 4 منزلہ ہے، جس کی تینوں منزلوں میں فیکٹری چلتی ہے۔ سب سے اوپر مکان مالک خود رہتے ہیں اور تین منزل کرائے پر دی  ہوئی  ہے۔ ان علاقوں میں کوئی لیبر  قانون پر عمل نہیں ہو رہا ہے۔ مزدوروں کو10-8 ہزار روپے فی ماہ دےکر کام کرایا جاتا ہے، ہفتے کی چھٹی کے علاوہ اور کوئی نہیں دی جاتی ہے۔

یہاں تک کہ اتنے  بڑے  واقعہ کے بعد بھی اس مکان کو خانہ پوری  جانچ  کے لئے بھی سیل بند کرنا مناسب نہیں سمجھا گیا۔ اس علاقے میں چلنے والی ہر فیکٹری میں رہائش  بھی ہے، جو کبھی بھی حادثہ کی ایک بڑی وجہ بن سکتا ہے۔ کسی بھی فیکٹری میں حفاظتی معیارات کا خیال نہیں رکھا گیا ہے۔ یہاں تک کہ ان مکانوں کے اندر ایک ہی دروازہ ہوتا ہے اور آگ سے بچاؤ کے لئے کوئی اقدام نہیں کیا گیا ہے۔ اگر انتظامیہ کا یہی رویہ رہا تو کبھی بھی یہاں بہت بڑا جان و مال کا نقصان ہو سکتا ہے۔

دہلی میں اتنے بڑے پیمانے پر رہائشی علاقوں میں فیکٹریاں چل رہی ہیں جہاں پر مالک من مانے طریقے سے کام کرتا ہے اور کسی طرح کے لیبر لاء کو نافذ نہیں کرتا ہے۔ دہلی  حکومت، مرکز  کی حکومت، ایم سی ڈی اور  انتظامیہ خاموش بیٹھا ہوا ہے۔ کیا اس طرح کا واقعہ انتظامیہ اور حکومت کی ملی بھگت کے بغیر ہو سکتا ہے؟ اس طرح کا واقعہ ہونے کے بعد صرف معاوضہ  دےکر حکومت اپنی ذمہ داری سے آزادی حاصل کر لیتی ہے۔ کیا معاوضہ  دینے سے ہی محمد وارث، محمد ایوب، محمد راضی اور محمد شان جیسے لاکھوں مزدوروں کو انصاف مل پائے‌گا؟

انتظامیہ اور حکومت کب تک ایسی فیکٹریوں کو چلتے رہنے دے‌گی، جو کہ مزدور قوانین کو طاق پر رکھ‌کر چلا رہی ہیں؟ کب تک مزدوروں کی رہائش گاہ کی مانگ کو مزدور قانون میں ایک حق کے طور پر جوڑا جائے‌گا؟ کیا اسی طرح مزدور مرتے رہیں‌گے اور مزدور، مزدور  یونینس ہاتھ پر ہاتھ تھامے بیٹھی  رہیں‌گی؟ جب دہلی میں محنت کش عوام کے ساتھ اس طرح کا سلوک ہوتا ہے تو ملک کے باقی حصوں کے بارے میں ہم سوچ سکتے ہیں۔