فکر و نظر

کرناٹک کی کامیابی کے بعد اپوزیشن کا اتحادضروری ،لیکن کب اور کیسے؟

’وزیر اعظم کون بنے‌گا، اس موضوع پر آخر میں بات ہونی چاہیے۔  پورا زور بی جے پی کو شکست دینے پر ہونا چاہیے۔‘

فوتو : پی ٹی آئی

فوتو : پی ٹی آئی

نئی دہلی : کرناٹک انتخاب میں بی جے پی کوشکست دینے میں کانگریس اور جے ڈی ایس اتحاد کی کامیابی نے اپوزیشن میں ایک نئی جان ڈال دی ہے۔لیکن آگے کا لائحہ عمل کیا ہو اس پر اپوزیشن پارٹیوں کے رہنمامتفق نہیں ہو پا رہے ہیں ۔قابل ذکر ہے کہ اس جنوبی ریاست میں خود سے چھوٹی پارٹی کی حمایت کرنے کے فیصلے کو لےکر علاقائی جماعتوں نے کانگریس کی تعریف کی ہے۔

واضح ہو کہ کرناٹک میں بی جے پی کی بی ایس یدورپا حکومت گرنے کے فوراً بعد مختلف علاقائی جماعتوں کی جانب سے مبارکباد کے پیغام آنے لگے تھے۔ ریاستی اسمبلی میں اکثریت حاصل کرنے کے لئے ضروری تعداداکٹھا نہیں کرنے کے بعد یدورپا نے وزیراعلیٰ کےعہدے سے استعفیٰ دے دیا۔  اس طرح، ریاست میں جے ڈی ایس-کانگریس حکومت کا راستہ ہموار ہوا۔

ریاست میں اتحاد کی قیادت کرنے کے لئے جے ڈی ایس کو حمایت دینے کو لے کر کانگریس کے فیصلے کی کئی رہنماؤں نے تعریف کی۔  نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (این سی پی)کے صدر  شرد پوار نے کانگریس کے کردار کوسمجھ بھرا بتایا۔  پوار نے بی جے پی کو اقتدار سے بےدخل کرنے کے لئے کانگریس صدر راہل گاندھی کو مبارکباد دی جبکہ مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بنرجی ان رہنماؤں میں اول تھیں، جنہوں نے اس اتحاد کو علاقائی مورچے کی جیت بتایا اور اپنے پیغام میں راہل کا ذکر نہیں کیا۔

ترنمول کانگریس صدر ممتا بنرجی نے کہا تھا، ” جمہوریت کی جیت ہوئی۔  مبارکباد ہو کرناٹک۔  دیوگوڑا جی، کمارسوامی جی، کانگریس اور دیگر کو مبارک باد۔  علاقائی مورچے کی جیت ہوئی۔  ” اس کا مطلب صاف ہے کہ کچھ علاقائی رہنما اپوزیشن کا ایک بڑا مورچہ بنانے میں کانگریس کو قیادت کی اجازت نہیں دیں‌گے۔

اپوزیشن  کے ایک رہنما کو لگتا ہے کہ بی جے پی اور آر ایس ایس کو باہر رکھنے کے لئے 2019 کے لوک سبھا انتخاب سے پہلے ایک عظیم اتحاد بنانے میں کانگریس کو کہیں زیادہ اہم کردار نبھانے کی ضرورت ہے۔  وہیں، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (سی پی آئی) کے سینئر رہنما ڈی راجہ نے کہا کہ مورچے کی قیادت کون کرے‌گا، اس کو ابھی کھلا رکھنا چاہیے۔

راہل نے کرناٹک انتخابی تشہیر کے دوران خود کو وزیر اعظم عہدے کا امیدوار بتاکر کچھ اپوزیشن رہنماؤں کو پریشان کن حالت میں ڈال دیا۔  حالانکہ، راجہ نے کہا کہ وزیر اعظم کون بنے‌گا، اس موضوع پر آخر میں گفتگو کی جانی چاہیے۔  پورا زور بی جے پی کو شکست دینے پر ہونا چاہیے۔

کرناٹک واقعہ سے واضح ہے کہ کانگریس علاقائی جماعتوں کو خوش رکھنے کی ضرورت سمجھتی ہے۔  یہ بات اس سے ظاہر ہوتی ہے کہ وہ خود سے کم سیٹیں پانے والی پارٹی جے ڈی ایس کے ذریعے کرناٹک میں حکومت کی قیادت کئے جانے پر راضی ہو گئی۔

کرناٹک میں بی جے پی کی حکومت گرنے کے بعد راہل نے اپنے بیان میں اتحاد کی جیت کے لئے جے ڈی ایس صدر دیوگوڑا کی تعریف کی۔  انہوں نے کہا، ” حزب مخالف یکجا ہوگا اور بی جے پی کو ہرانے کے لئے تال میل بٹھائے‌گا۔  ” اس کے لئے کانگریس کو ‘ ایک ہاتھ دو، دوسرے ہاتھ لو ‘ کی پالیسی پر کہیں زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہوگی۔

کانگریس کےترجمان رندیپ سرجےوالا نے پی ٹی آئی سے کہا، ” کانگریس صدر راہل گاندھی ملک یا قیادت کرنے کے لئے سب سے مناسب آدمی ہیں۔  ” حالانکہ، اس بارے میں زیادہ کچھ نہیں بتایا۔  اس طرح، کرناٹک  کی کہانی حزب مخالف کی یکجہتی کی جذباتی اپیل کرتی ہے۔

ڈی ایم کے کے ایم کے اسٹالن اور لوک تانترک جنتا دل کے شرد یادو سے لےکر تیلگودیشم پارٹی (ٹی ڈی پی)کے این چندربابو نائیڈو تک، آر جے ڈی  کے تیجسوی یادو اور ٹی آر ایس کے چندرشیکھر راؤ تک تمام علاقائی رہنماؤں نے بی جے پی کو ہرانے کے لئے باقی طاقتوں سے یکجا ہونے کی اپیل کی۔  اسٹالن نے کہا، ” یہ مذہبی رواداری پارٹیوں کو ساتھ لانے کا پیش رو ہو سکتا ہے۔  “

کرناٹک کے تیلگو  بولنے والےعلاقوں میں بی جے پی کو ہرانے کے لئے کام کرنے والے نائیڈو نے کہا، ” یہ ہم سبھی کے لئے فخر کا دن ہے۔  ” اب تمام نظریں اس پر ہیں کہ کانگریس حزب مخالف کی یکجہتی میں اپنا کردار کیسے نبھاتی ہے۔  کانگریس نے بڑے سیاسی فائدے کے لئے کرناٹک میں اپنے مفادات کی قربانی دی۔  حالانکہ، اس قدم کو ریاست میں پارٹی کے کمزور ہونے کے اشارے کے طور پر بھی دیکھا جا رہا۔

دراصل، وہ 2013 کی اپنی 122 سیٹوں سے گھٹ‌کر 2018 میں 78 پر لڑھک گئی۔  اس کو اس شکل میں بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ راہل پارٹی کو اکثریت دلانے میں ناکام رہے، جبکہ انہوں نے زوردار تشہیر کی اور قریب تین مہینوں میں 85 چھوٹی-بڑی ریلیوں کو خطاب کیا۔  غور طلب ہے کہ راہل کے گزشتہ سال کانگریس صدر بننے کے بعد سے یہ پہلا اسمبلی انتخاب تھا۔

حزب مخالف رہنماؤں نے کہا ہے کہ کانگریس کو آگے بڑھنے کے لئے کچھ کھلا پن اور لچیلا رخ دکھانا ہوگا۔  ساتھ ہی، یہ متعین کرنا ہوگا کہ اس نے دیگر پارٹیوں کو بھی جگہ دی ہے۔  این سی پی‌کے سینئر رہنما طارق انور نے کہا کہ کانگریس کو علاقائی پارٹیوں کو جگہ دینی چاہیے اور ایک مشترکہ منچ پر سبھی کو یکجا کرنے کے لئے ‘ ایک ہاتھ لو، دوسرے ہاتھ دو ‘ کی پالیسی پرکہیں زیادہ عمل کیا جانا چاہیے۔

کانگریس کے سابق رہنما نے کہا کہ اس کو ایک عام رائے والی حکومت کا ہدف رکھنا چاہیے۔  تبھی 2019 میں بی جے پی کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک اچھا قومی اتحاد بنے‌گا۔  حالانکہ، این سی پی رہنما نے یہ بھی کہا کہ کانگریس کو اعلیٰ عہدہ اپنے پاس ہی رکھنا چاہیے کیونکہ ماضی کے تجربات سے پتا چلتا ہے کہ اعلیٰ عہدہ علاقائی پارٹیوں کو دینا کامیاب نہیں ہوا۔  ایک بڑی پارٹی کو اتحاد کے مرکز میں ہمیشہ ہی رہنا چاہیے۔  وہیں، سی پی آئی کے راجہ نے کرناٹک کو ایک مثبت واقعہ بتاتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ کانگریس کو حقیقت پسند اور لچیلا ہونا چاہئیے۔

دریں اثناتیجسوی یادو کے سیاسی مشیر سنجے یادو نے اپنے ایک تازہ ترین مضمون میں لکھا ہے کہ کرناٹک کی کامیابی سے ہمیں یہ سبق لینا چاہیے کہ ابھی وقت کی ضرورت یہ ہے کہ تمام اپوزیشن پارٹیاں متحد ہوں اور پسماندہ لوگوں کی بہتری کیسے کی جاسکتی ہے اس کا لائحہعمل تیار کریں ۔انہوں نے مزید لکھا ہے کہ ؛اپوزیشن کی پارٹیوں کو اس کا بھی اعتراف کرنا چاہیے کہ کانگریس اس وقت واحد پارٹی ہے اور اس کے کارکن پورے ملک میں موجود ہیں جوکہ بی جے پی آر ایس ایس کے متبادل کے طور پر ایک اہم رول ادا کر سکتے ہیں۔ساتھ ہی کانگریس کو بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ علاقائی پارٹی الگ الگ ریاستوں میں بی جے پی سے مقابلہ کرنے میں اہم رول ادا کر سکتی ہیں جیسا کہ بہار میں لالو پرساد کی پارٹی ،بنگال میں ممتا بنرجی کی پارٹی اور دہلی میں اروند کیجریوال کی پارٹی نے کیا۔