فکر و نظر

’وزیر اعظم نے جس ہنومان کی تعریف کی ہے وہ ہندتووادی امیج کے ساتھ فٹ بیٹھتی ہے‘

بھگوا اور کالے رنگ سے بنی ہنومان کی تصویر ، جس میں ان کی بھنویں تنی ہوئی ہیں اور تیوریاں چڑھی ہوئی ہیں۔ ہندو گرنتھوں سے الگ موجودہ تصویرخود ساختہ ہندتووادی مرد کی امیج کے ساتھ فٹ بیٹھتی ہے۔

کرن آچاریہ کی بنائی گئی ہنومان کی تصویر ان کی روایتی امیج سے الگ تاثر  پیش کرتی ہے(فوٹو: amazon.com )

کرن آچاریہ کی بنائی گئی ہنومان کی تصویر ان کی روایتی امیج سے الگ تاثر  پیش کرتی ہے(فوٹو: amazon.com )

کرناٹک انتخابی تشہیر کے دوران کانگریس کی بھول اور اس کی کامیابیوں کا مذاق اڑانے کے چکر میں وزیر اعظم نریندر مودی سے کئی غلطیاں ہوئیں لیکن انہوں نے اس کی کوئی پرواہ نہیں کی۔ کتوں سے حب الوطنی سیکھنے تک کی صلاح دی۔ لیکن اسی دوران وہ ایک نوجوان فنکار کو مبارکباد دینا بھی نہیں بھولے۔کرن آچاریہ نام کے ایک فنکار نے غصے والے ہنومان  کی تصویر بنائی تھی جو تین سالوں سے وائرل ہو رہی ہے۔  مودی نے کرناٹک انتخابی تشہیر کے دوران اچانک ایک ریلی میں اس تصویر کوایک عظیم آرٹ  کہہ‌کر اس کی تعریف کی۔ ساتھ ہی ‘ اس تصویر کو فرقہ وارانہ رنگ دینے ‘ کے لئے کانگریس کی تنقید کی۔

انہوں نے کہا، ‘ کانگریس اس کی کامیابی کو پچا نہیں پا رہی ہے اس لئے اسے تنازعات کی دلدل میں کھینچنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے۔  کانگریسیوں میں ذراسی بھی جمہوریت نہیں ہے۔  ‘ اس کے کچھ ہی دنوں بعد وزیر اعظم مودی نے چھتیج واجپئی نام کے ایک کارٹونسٹ کو ‘ بےحد با صلاحیت فنکار ‘ کہہ‌کر اس کی تعریف کی۔ اس کارٹونسٹ کے کارٹون خاص طور پر خواتین اور مسلم مخالف پیغام دینے والے ہوتے ہیں۔کسی آرٹ کا پسند آنا ہر آدمی کی پسند اور ناپسند پر منحصر کرتا ہے۔  ہو سکتا ہے کہ واجپئی کے کارٹون مودی کو کافی پسند آئے ہوں۔  لیکن اپنے سیاسی کیریئر میں مودی نے ابتک آرٹ کو لےکر کوئی خاص دلچسپی نہیں دکھائی تھی۔

نہ ہی ان کے سنگھی دوستوں نے کبھی اس میں دلچسپی لی ہے۔  ان کے لئے کسی آرٹ کی تنقید کا مطلب ہوتا ہے فنکار کے ساتھ تشدد کرنا اور ان کو ڈرانا اور دھمکانا۔کیسا المیہ ہے کہ ایک ایسی ہی ہنومان پینٹنگ نے ان سنگھیوں کو خاصا ناراض کر دیا تھا۔  مشہور پینٹر ایم ایف حسین کی اس پینٹنگ میں ہنومان کو سیتا کو بچاتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔اس عالمی شہرت یافتہ فنکار کو ہندووادی تنظیموں  کی طرف سے دھمکی ملی اور ان کو 90  سال کی عمر میں آخرکار اپنی جائے پیدائش ہندوستان کو چھوڑ‌کر دوسرے ملک میں جاکر وہاں کی شہریت لینی پڑی تھی۔

اس کے بعد سال 2000 میں نیشنل گیلری آف ماڈرن آرٹ میں ایک نمائش کو اچانک سے بند کرنا پڑا تھا کیونکہ این ڈی اے کی حکومت کو اس نمائش میں لگی ایک پینٹنگ پسند نہیں آئی تھی۔اس پینٹنگ کا عنوان تھا ‘ این ایکٹر رہرسنگ دی انٹیریئر مونولاگ آف ایکارس ‘۔  سریندرن نائر کی اس پینٹنگ میں اشوک ستون کے اوپر ایک ننگا ایکارس کو دکھایا گیا تھا۔  ایکارس گریک قدیم کہانیوں کا ایک کردار ہے۔اسی سال کناڈا میں ہندوستانی سیاسی رہنما نے ٹورنٹو میں لگے ہم عصر ہندوستانی آرٹ کے اوپر ایک نمائش کی مخالفت کی تھی۔  بی جے  پی اور سنگھ پریوار کو اس لئے آرٹ کے مداح کے طور پر نہیں جانا جاتا۔  اس لئے یہ ایک تعجب والی بات ہے کہ کسی اور نے نہیں بلکہ خود وزیر اعظم نے کسی آرٹ کو ‘ عظیم ‘ کہہ‌کر اس کی تعریف کی ہے۔

سوالوں کے گھیرے میں جو تصویر ہے وہ بھگوا اور کالے رنگ سے بنی ہنومان کی ایک تصویر ہے جس میں ان کی بھنویں تنی ہوئی ہیں اور تیوریاں چڑھی ہوئی ہیں۔  بندر کی شکل کا بھگوان ہنومان کی ہندو گرنتھوں میں ایک الگ ہی امیج پیش کی گئی ہے لیکن موجودہ تصویر میں ان کی ایک الگ ہی ناراض طاقت ور مرد کی امیج  پیش کی گئی ہے جو کہ خود ساختہ ہندتووادی مرد کی امیج کے ساتھ فٹ بیٹھتی ہے۔کرن آچاریہ کہتے ہیں کہ ان کے ہنومان ‘ غصے والے نہیں بلکہ یہ تو ان کا تیور ہے۔  وہ طاقتور ہیں نہ کہ جابرا۔  ‘ لیکن جو اس کو فخر کے ساتھ جوڑ‌کر دکھا رہے ہیں وہ ایسا شاید بالکل ایسا نہیں سوچتے۔

ہنومان کی جو روایتی تصویریں ہیں اس میں یا تو ان کو رام اور سیتا کے پیروں میں خاکساری کے ساتھ بیٹھے ہوئے دکھایا گیا ہے یا پھر اپنا سینہ چیر‌کر رام اور سیتا کی امیج دکھاتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔  کئی تصویروں میں ان کو سنجیونی جڑی بوٹی کا پہاڑ لےکر اڑتے ہوئے دکھایا گیا ہے جو کہ قدیم کہانیوں کے مطابق زندگی بچانےکی دوا ہے۔  (ابتک واقعی میں یہ دوا کسی کو حاصل نہیں ہوئی ہے۔  اتراکھنڈ حکومت کی کروڑوں روپے کی اسکیم اس کو تلاش کرنے میں اب تک ناکام رہی ہے۔  )

ہنومان حقوق کے لئے لڑنے والے بہادر ہیں۔  وہ اپنے دوست بندروں کی فوج کی قیادت کرتے ہیں لیکن شاید ہی کبھی ان کو بھگوان رام کے ایک ہمہ وقت بھکت کے علاوہ کسی اور شکل میں دکھایا گیا ہو۔  کرن آچاریہ نے ان کو بالکل ہی ایک نیا تاثر دیا ہے۔مودی اس پینٹنگ کے اس نئے انکشاف کو فوراً سمجھ گئے اور اس کے پروپگینڈہ کی اہمیت کو بھی جس کو ایودھیا میں رام مندر بنانے کی مہم میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔  یہ ایک اس طرح کی تصویر ہے، جس کا استعمال کئی مواقع پر کئی طرح سے کیا جا سکتا ہے۔  یہ وہ پیغام دے سکتی ہے جو بی جے  پی آج دینا چاہتی ہے کہ کسی کو بھی اس سے نہیں بھیڑنا چاہئے۔  ہندو اب کمزور نہیں ہیں، وہ غصے میں ہیں اور کسی سے بھی نپٹنے کو تیار ہیں، ضرورت پڑی تو تشدد آمیز طریقے سے بھی۔

ہندووادی تنظیم اپنے سیاسی فائدے کے لئے ہنومان کی امیج کے ساتھ چھیڑچھاڑ پہلے بھی کرتے رہے ہیں۔  ابھی حال ہی میں بجرنگ دل کے کارکنان نے ہنومان کے  یوم پیدائش کے موقع پر سڑکوں پر نکل‌کر تلواریں لہرائیں اور ‘ جئے ہنومان ‘ اور ‘ ہندوستان ہمارا ہے ‘ جیسے نعرے لگائے۔  یہ مذہب اور قوم پرستی کا واضح طور پر کیا گیا گھال میل تھا۔

اس تصویر کو بنانے والے آچاریہ کچھ بھی کہے لیکن اس تصویر کا استعمال جارحیت بڑھانے کے لئے کیا گیا ہے نہ کہ خوش اخلاقی سے۔ اس کے واضح طور پر نظر آ رہے مذہبی، سیاسی انکشافات کے باوجود مودی نے اس تصویر کو ایک ‘ آرٹ ‘ کہا ہے۔  انہوں نے رام یا پھر ہندو مذہب سے اس کو نہ جوڑتے ہوئے اس کو ایک فنکارانہ اور تعمیراتی آزادی کا مسئلہ بناتے ہوئے کانگریس کے اندر ‘ جمہوریت ‘ نہیں ہونے کی تنقید کی ہے۔

نریندر مودی (فوٹو : پی ٹی آئی)

نریندر مودی (فوٹو : پی ٹی آئی)

ایسا کرتے ہوئے انہوں نے اپنے آرٹ کی قیمتوں کو سمجھنے والا جتایا ہے۔  کیا یہ آرٹ کو ہال مارک کرنے کی سمت میں بی جے  پی کا پہلا قدم ہے؟  کیا پارٹی اور اس کے مفکر اس پر مہر لگائیں‌گے کہ کون سا ‘ اچھا ‘ آرٹ ہے اور کون نہیں؟  اور کیا وہ اپنے من پسند فنکاروں کو بڑھاوا دیں‌گے اور ہندوستانیت کے قائم معیارات کو چیلنج دینے والوں کو نیچا دکھائیں‌گے؟ایک لحاظ سے یہ ایک بنیادی سوال لگتا ہے۔  ہم عصر ہندوستانی فنکاروں میں آج کل کے متنازعہ مدعوں پر سوال اٹھانے کا رجحان نہیں دکھا ہے۔  بڑھتی عدم رواداری کے سوال پر اگر آپ مخالفت اورمظاہرہ کو ایک طرف رکھ دیں تو پھر ایسے آرٹ کااظہار بمشکل دکھتا ہے جس میں اس سوال کو اٹھایا گیا ہو۔

فنکاروں کی جماعت نے ایوارڈ واپسی مہم سے بھی خود کو دور ہی رکھا۔  نہ ہی کوئی ایسی بڑی نمائش لگائی گئی جس میں فرقہ پرستی یا اقلیتوں پر ہونے والے حملوں کو موضوع بنایا گیا ہو۔ایسا لگتا ہے کہ ہم عصر ہندوستانی آرٹ سماج کی سچائیوں سے دور خود میں ہی مشغول ہے اور غیر ممالک کی گیلریوں میں ٹنگ‌کر ہی خوش ہے۔  اگر کبھی کوئی بڑا فنکار بڑھتی اکثریت کے خلاف کوئی بیان دیتا ہے تب ہم دیکھیں‌گے کہ سنگھ پریوار کے لوگ کیسا رد عمل دیتے ہیں۔وزیر اعظم کے زور شور سے کی گئی تعریف بتاتی ہے کہ سنگھ پریوار ‘ آرٹ ‘ کی طاقت سے آگاہ ہے اور آرٹ کیسا ہونا چاہئے، اس کو لےکر بہت صاف نظریہ ہے ان کا۔

بد مزاج ہنومان کی امیج سنگھ کے سارے خوانچوں میں فٹ بیٹھتی ہے۔  یہ نہ صرف مرادنگی اور طاقت کی نمائش کرتی ہے بلکہ جدیدیت کی آمیزش بھی ہے اس میں۔  یہ ایک گرافک آرٹ ہے جو ممکنہ کمپیوٹر پر اسٹائلش طریقے سے تیار کیا گیا ہے تاکہ نوجوانوں کو لبھایا جا سکے۔ملک بھر میں گھروں اور دوکانوں میں لگے کلینڈر میں دکھائے گئے بھگوانوں کی تصویر ان کے لئے اب ناکافی ہے۔  کوئی بھی خود اعتمادی سے بھرپور ہندوتو کا جنگجو اپنی ایس یو  وی گاڑی پر راجا روی ورما کی بنی بھگوان کی تصویر چپکانا نہیں چاہے‌گا ،یہ والی تصویر تکنیکی طور پرتھوڑا ایڈوانس دکھتی ہے، جسے  فخر اور تکبر کے ساتھ لگایاجا سکتا ہے۔

اپنے نظریہ کو پھیلانے کے لئے آرٹ ذرائع کا استعمال کوئی نئی بات نہیں ہے۔  سوویت یونین کے وقت میں کمیونزم کو عظیم بنانے کے لئے اس کا خوب استعمال کیا گیا تھا۔  کلاسیکل گریک اور رومن آرٹس کا نازی اور ہٹلر نے نسلی جانبداری بڑھانے میں بخوبی استعمال کیا۔انہوں نے نہ صرف اس کو تقدس کا لبادہ اوڑھایا بلکہ اس کی گدلی وضاحت کی۔ اس کے پیچھے مقصد یہ تھا کہ پرانے جرمنی کے سنہرے زمانے کے جذبے کا استحصال کیا جائے جو کہ نازیوں کے  لئےمعقول تھا۔

اس کا مطلب یہ بھی تھا کہ جدیدیت کو کسی بدمعاش کی طرح پیش کی جائے۔  ہٹلر نجی طور پر کسی بھی ماڈرن آرٹ کے خلاف تھا۔  1937 میں نازیوں نے ‘ Entartete Kunst ‘ (خراب آرٹ) نام سے ایک نمائش لگائی تھی۔اس میں ماڈرن آرٹ سے جڑے 650 فن پاروں کو دکھایا گیا تھا اور بتایا گیا تھا کہ کیسے یہ آرٹ قابل قبول نہیں ہے اور اسے تطہیر کی ضرورت ہے۔  اسی طرح سے نازیوں نے اس بؤہوز اسکول کو بھی بند کروا دیا جو پرانی رومانیت بھری طرز تحریر کی جگہ پر آسان اور آسان طرز کو فروغ دینے میں لگا تھا۔

اب تک ہندتووادیوں نے آرٹ کے اوپر زیادہ دھیان نہیں دیا ہے۔  وہ اب تک تاریخ اور سینما کے اوپر ہی اپنا دھیان مرکوز کئے ہوئے تھے۔  انہوں نے سینما سے جڑے اداروں میں اپنی پسند کے آدمی کو مقرر کیا ہے تاکہ یہ طے کیا جا سکے کہ کیا دکھانا ہے اور کیا نہیں دکھانا۔ہو سکتا ہے آرٹ کو بہت خفیہ اور اشرافیہ طبقے کی چیز مان‌کر اس جانب دھیان نہیں دیا گیا۔  اور ویسے بھی ہندوستانی فنکاروں نے بھی کچھ ایسا نہیں کیا جس سے کہ وہ بے چین ہوکر اس جانب دھیان دیتے۔

لیکن یہ حالات جلد ہی بدل سکتے ہیں۔  ایک مذہبی فن پارہ کے لئے ایک نوجوان فنکار کی وزیر اعظم کی طرف سے پیٹھ تھپتھپانے کے اس واقعہ میں ہم اس کی شروعات کی آہٹ سن سکتے ہیں کہ وہ کیا پسند کریں‌گے اور کیا نہیں اس پر مہر لگاکر تصدیق کی جائےگی۔  یعنی جلد ہی ہمارے پاس سرکاری طور پر تصدیق شدہ آرٹ اور فنکار ہوں‌گے۔