خبریں

ممبئی : کالج نے مسلم اسٹوڈنٹ کے حجاب پہننے پر اٹھائے سوال ، اگزام دینے سے روکا

اس معاملے پر کالج کے وکیل کا کہنا ہے کہ کالج نے حجاب پہننے سے منع نہیں کیا ہے بلکہ برقع پہننے سے منع کیا گیا ہے۔

Representative image of a young woman in a hijab. Credit: Aftab Uzzaman/Flickr CC 2.0

Representative image of a young woman in a hijab. Credit: Aftab Uzzaman/Flickr CC 2.0

نئی دہلی :ممبئی میں ہومیو پیتھی کی ایک اسٹوڈنٹ نے کالج میں حجاب نہ پہننے اور کلاس اٹینڈ نہیں کرنے دینے کے بعد بامبے ہائی کورٹ کےدروازے پر دستک دی ہے۔اس کا کہنا ہے کہ اس کو اس سال جون میں ہونے والے ری پیٹر اگزام میں شامل ہونے سے روکا جارہا ہے کیوں کہ اس کی حاضری کم ہے۔غور طلب ہے کہ وہ سائی میڈیکل کالج میں پڑھتی ہے ۔پہلے سال کا اگزام نہیں دے پانے کے بعد ہی اس نے بامبے ہائی کورٹ جانے کا فیصلہ کیا ہے ۔اس نے 2016 کے دسمبر میں کالج کا انٹرنس اگزام پاس کیا تھا،لیکن پہلے سال کی پڑھائی جیسے ہی شروع ہوئی اس کو حجاب نہیں پہننے کی ہدایت دی گئی ۔

ممبئی باندرہ کی رہنے والی اس اسٹوڈنٹ نے عدالت سے مانگ کی ہے کہ اس کو جون میں ہونے والے ری پیٹر اگزام میں شامل ہونے دیا جائے۔اس نے عدالت کو بتایا کہ مسلم لڑکیوں کو حجاب پہننے سے منع کرتے ہوئے کالج نے ڈریس کوڈ لو فالو کرنے کی بات کہی تھی اور دھمکی دی تھی کہ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو انہیں کلاس کرنے نہیں دیا جائے گا۔غور طلب ہے کہ یہ کالج ایم یو ایچ ایس سے  تعلق رکھتا ہے۔اس معاملے پر کالج کے وکیل کا کہنا ہے کہ کالج نے حجاب پہننے سے منع نہیں کیا ہے بلکہ برقع پہننے سے منع کیا گیا ہے۔سیاست کے مطابق؛تین سال کالج انتظامیہ سے لڑائی لڑنے کے باوجود بھی اس طالبہ کو انصاف نہیں ملا ہے۔چوں کہ وہ پہلے سال کا اگزام نہیں دے پائی ہے اس نے یہ قدم اٹھایا ہے۔

اس سلسلے میں سکنیا شانتا کی ایک تفصیلی رپورٹ وائر نے مارچ میں شائع کی تھی ،جس میں بتایا گیا تھا کہ ؛

دوبارہ کالج  شروع کرنے  کے لیے19 سالہ  فاکہہ  کو16مہینے کی قانونی لڑائی لڑنی پڑی ۔ان سب میں اس کے ایک تعلیمی سال کا نقصان ہوا اور ذہنی اذیت کا بھی سامناکرنا   پڑا۔ واضح ہو کہ فاکہہ نے 2016 میں بھیونڈی واقع  ایک پرائیوٹ ادارے ؛ سائی ہومیوپتھک  میڈیکل کالج اورنتیانندہاسپٹل کے   5  سالہ کورس بی ایچ ایم ایس میں  داخلہ لیا تھا۔ لیکن   تین دن کے  اندر  ہی اس کو حجاب   کی وجہ سے کالج میں  داخل  ہونے  سے منع کردیا گیا۔

فاکہہ کی اتنی  کوشش اورعدالت کے آرڈر کے باوجود  انتظامیہ کے ناروا سلوک کا سامنا کررہی ہے۔انتظامیہ نےلباس کی یکسانیت(Uniformity in Clothing) کا حوالہ دے کر اس   کو  حجاب پہننے کی اجازت نہیں   دی تھی ۔لیکن فاکہہ محسوس  کرتی ہے کہ یہ Islamophobia کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ گزشتہ ہفتے بمبئی ہائی کورٹ نے فاکہہ کے حق میں فیصلہ دیا  اور کالج کو ہدایت دی  کہ وہ  اس  کو  حجاب کے ساتھ کلاس لیکچر اٹینڈ کر نے کی  اجازت دے۔

فاکہہ نے عدالت سےدرخواست کی تھی کہ اسے  بنا کسی پابندی کے اپنے مذہبی عقیدے پر عمل کرنے کی اجازت دی جائے۔ بمبئی ہائی کورٹ کے جسٹس آرایم  ساونت  اور جسٹس سارنگ کوٹوال کی ڈویژن بنچ نے  کالج کو ہدایت دی کہ وہ فاکہہ کو   ’رپیٹرز  بیچ   ‘میں  پڑھنے کی اجازت دی جائے تاکہ وہ     اپنی تعلیم مکمل کر سکے۔غور طلب ہے کہ فاکہہ جب 19مارچ کو کالج لوٹی تو اس کے سر پر حجاب تھا۔

باندرا کی رہنے والی فاکہہ کی کالج  میں داخلہ  لیتے وقت سب سے بڑی   تشویش  یہ  تھی کہ کالج   اس کے گھر سے 50  کلومیٹر دور ہے۔اس کو  6 گھنٹے سفر کرنا پڑتا تھا لیکن اور کوئی   چارا  بھی نہیں تھا ،کیونکہ یہ کالج  انہیں   ایک کامن انٹرنس ٹیسٹ کے  ذریعہ ملا تھا۔  کالج   کے اکیڈمک  سال کے آغازکے پہلے دن ہی  ٹرسٹیز نے  اسے یہ بتایا کہ اگر  وہ  یہاں پڑھنا چاہتی ہے  تو حجاب  چھوڑنا ہوگا۔ فاکہہ     کا کہنا ہے کہ وہ اس وقت کالج کے ردعمل  سے دنگ رہ گئی تھی ۔ دی وائرسے بات کرتے ہوئے فاکہہ نے کہا کہ  ”میں نے اپنی  زندگی لبرل اسپیس  میں گزاری ہے۔ حجاب پہننا  کبھی بھی  کسی  ڈسکشن کا  حصہ نہیں بنا۔ میرا مذہب میرا نجی معاملہ ہے اور اس  سے پہلے کسی نے بھی مجھے اس کو لے کر  پریشان  نہیں کیا ۔”

شروعات میں اس نے سوچا کہ  کالج  انتظامیہ  چند ایک روز میں  اس کو پریشان  کرنا بند کر دے گی لیکن دباؤ جاری رہا۔فاکہہ بتاتی ہے کہ “اگلے دن ہم میں سے چھ سات  لڑکیوں کو  روکا گیا  اور  اس کو اتارنے کے لیے کہا گیا۔انہوں نے کہا کہ صرف ایک اپرن یونیفارم کے طور پہنا جا سکتا ہے اور حجاب پہننے کی اجازت نہیں ہے۔ زیادہ تر لڑکیاں ڈر  گئیں اور انتظامیہ کی بات ماننے کو مجبور ہوئیں ۔  لیکن ہم دو لڑکیاں اپنی بات پر قائم تھیں”۔ فاکہہ نے اس وقت لڑنے کا انتخاب کیا جب کہ دوسری لڑکیاں  پیچھے  ہٹ گئیں۔

فاکہہ کے لئے یہ پہچان سے زیادہ  کا مسئلہ تھا اوراس کو  بنیادی طور یہ  اعتراض تھا کہ کالج  اس پہننے کی آزادی پر پابندی لگانا چاہتی ہے۔ فاکہہ نے مزید بتایا کہ “ایسا نہیں ہے کہ کالج میں کوئی ڈریس کوڈ ہے۔جب تک ہم اپر ن  پہنتے ہیں  تب تک  ٹھیک ہے۔لیکن کالج اپنے  قوانین 40فیصد مسلم طلبا پر نافذ  کرنا چاہتی  ہے۔  اور یہ  مجھے منظور نہیں  تھا”۔

 قابل ذکر بات ہے کہ کالج جن سیوا منڈل ٹرسٹ  کے زیر اہتمام چلتا ہے اور اس شہر میں واقع ہے  جہاں  ایک بڑی مسلمان آبادی رہتی ہے۔فاکہہ کا کہنا ہے کہ اس  علاقے کی  زیادہ تر خواتین کالج میں داخلہ لینے سے پہلے ہی حجاب  یا برقع   پہنتی ہیں۔ لیکن کالج کے سی ای او جے پی شکلا کا کہنا ہے کہ گزشتہ 12سال میں  اب تک کسی بھی  طالب علم   کی طرف سے  اس طرح کا مطالبہ نہیں کیا گیا ۔  سی ای او جے پی شکلا نے دی وائر کو بتایا “ہم  یہا ں پیشہ ور طلبا تیار کرتے ہیں ۔  ہم کسی بھی طرح کی مذہبی پہچان  کی حوصلہ افزائی نہیں  کرسکتے ،  جس کی وجہ سے دوسرے پیشہ ور طلبا کے ذہن میں تعصب پیدا  ہو۔یہ صرف ایک اچھا تجربہ ہے جس کی ہم پیروی کرنا چاہتے ہیں۔”

 فاکہہ  کے  والدین نے  عدالت  میں جانے سے پہلےمنسٹری آف اے وائی یو ایس ایچ  جس کے تحت ہومیو پتھی، آیوروید، یونانی اور یوگا جیسے کورسز  آتے  ہیں  کو  درخواست دی  تھی۔  آیوش (وائی یو ایس ایچ )کے ڈائریکٹر کلدیپ  راج کوہلی نے کالج کے اس قدم کو غیر آئینی اور مسلم مخالف قرار دیتے ہوئے نوٹس  جاری کیااور کہا تھا کہ فوری طور پر اس امتیازی سلوک کو روکا جائے۔فاکہہ کی والدہ سلطنت جو خود ایک ڈاکٹر ہیں انہوں نے یہ بتاتے ہوئے کہا کہ کالج نے اس کو بھی نظر انداز کیا ۔ انہوں نے مزید کہا کہ   “ہم اس بات کو یقینی بنانا چاہتے  تھے کہ فاکہہ کی تعلیم کسی بھی طرح متاثر نہ ہو اس لیے  ہم  تمام مذہبی سربراہان  اورمقامی سیاست دانوں کے پاس گئے ۔ہم اقلیتی کمیشن کےپاس بھی  اس امید سے گئے تھے کہ وہ کالج  پر دباؤ ڈال سکیں لیکن وہ فاکہہ  کے تعلیمی سال کو برباد کرنا چاہتے تھے۔”

انہوں نے مزید کہا کہ اب عدالت کے فیصلے کے بعد  اگرچہ  فاکہہ  کالج میں حجاب پہن سکتی ہے ،مگر دوسرے طلبا  کو مبینہ طور پر  فاکہہ  سے بات کرنے  سےمنع کیا گیا ہے  اور کالج نے اس کو جرنل اور شناختی کارڈ جاری کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ فاکہہ کا دعویٰ ہے کہ  “میں کلاس میں واحد ایسی اسٹوڈنٹ ہوں جس کو شناختی کارڈ  نہیں دیا گیا ہے۔ وہ مجھے پریشان کرنے کے نئے طریقے تلاش کر رہے ہیں”۔

چونکہ  عدالت  نے  فاکہہ  کے حق میں فیصلہ کیااس لیے   اب دوسری طالبات بھی حجاب  اور برقع پہننے کی  درخواست کر رہے ہیں۔  فاکہہ کےوکیل سارنگا اگالمگلے کا کہنا ہے کہ  ”عدالت کے آرڈو کا  اس معاملے میں   بڑے پیمانے  پر  اثر  نہیں ہواہے ۔ان کا کہنا ہے کہ یہ  عدالت کے پاس   اچھا موقع تھا کہ وہ  تعلیمی اداروں کی اس طرح  کی روک ٹوک پر  پابندی لگائے۔  کم ازکم جمہوریت ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ پگڑی یا حجاب   کی وجہ سے  کسی بھی شخص کی تعلیم    میں رکاوٹ پیدا ہو۔

فاکہہ  نے بتایا کہ جب وہ اس ہفتے  کالج  گئی  تو چند لڑکیوں نے اس سے عدالت کے فیصلے  بارے میں  پوچھا اور برقع پہننے کی  خواہش کا اظہار کیا لیکن کالج انتظامیہ نے یہ کہا کہ اگر کسی مسلم اسٹوڈنٹ کو یہ سب کرنا ہے تو اس  کورٹ سے   انفرادی طور پر آرڈر  حاصل کرنا ہوگا۔ فاکہہ کا ماننا  ہے کہ یہ عجیب ہے کیونکہ عدالت کا حکم کسی فرد کے لیے نہیں ہے ۔ انتظامیہ کو  طلباء کے مذہبی عقائد کے ساتھ مداخلت کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ فاکہہ  نے  اپنی درخواست میں دوسرے کالج میں ٹرانسفر  کی مانگ بھی کی تھی لیکن کالج نے اس سے انکار کر دیا  ۔ فاکہہ  کا کہنا ہے “میں   لبرل ماحول میں رہنا چاہتی ہوں جہاں  مجھے شدید تعصب کی فکر نہ کرنی پڑے  لیکن کالج  میری زندگی مشکل بنا نا چاہتا ہے”

 فاکہہ  کے گھر والوں  کے لیے عدالت  جانا ایک مشکل فیصلہ تھا۔وہ کہتی ہے کہ  ” ہم نے سوچا  تھاکہ عدالت کا فیصلہ مجھے  آرام پہنچائے گا  اور دوسرے طالب علموں کے مشکلات کو ختم کر دے گا۔لیکن اب محسوس ہوتا ہے کہ  یہ سب کرنے کا کوئی فائدہ بھی تھا یا نہیں”۔