گراؤنڈ رپورٹ

کوسی باندھ : جہاں زندہ رہنے کے لیے نقل مکانی مجبوری ہے

بہار سے گراؤنڈ رپورٹ : ’ Sorrow of Bihar‘کہی جانے والی کوسی ندی کے   باندھوں  کے اندر رہنے والے لوگوں سے کیا وعدہ حکومت نے آج تک نہیں نبھایا، لہذا یہاں رہنے والے لوگ بےحد غیر انسانی حالات میں زندگی جینے کو  مجبور ہیں۔

کوسی کی ایک دھارا کو موڑ‌کر دوسری دھارا سے ملانے کے لئے پانی میں کنکریٹ کے پلر ڈالے گئے ہیں۔  (فوٹو : امیش کمار رائے / دی وائر)  

کوسی کی ایک دھارا کو موڑ‌کر دوسری دھارا سے ملانے کے لئے پانی میں کنکریٹ کے پلر ڈالے گئے ہیں۔  (فوٹو : امیش کمار رائے / دی وائر)

باندھ سے کچھ دور بہہ رہی Sorrow of Biharکوسی ندی کی پہلی دھارا میں روانی تو ہے، لیکن اتھل پتھل نہیں ہے۔  کچھ لوگ کوسی کے کنارے کھڑے ہیں۔  ان کو کوسی کی دھارا کو پار‌ کرکے اپنے گھر جانا ہے۔  گھاٹ کے پاس بنی چھوٹی سی جھوپڑی میں آرام کر  رہے بےحد دبلے پتلے جسم والے کوسی کے   گھٹ وار    63 سالہ شری منڈل باہر نکلتے ہیں۔  ان کے چہرے پر فکر کی موٹی لکیریں صاف نظر آتی ہیں۔  جدو جہد نے ان کو عمر سے پہلے ہی بوڑھا بنا دیا ہے۔

وہ لوگوں کو  ناؤ  میں سوار کراتے ہیں۔   ناؤ  کی رسی کھول دیتے ہیں اور لپک‌کر خود بھی  ناؤ  پر پہنچ جاتے ہیں۔  کوسی میں کچھ ہلچل ہوتی ہے اور کچھ ہی پلوں میں  ناؤ  دوسرے کنارے پر لگ جاتی ہے۔  ندی پھر خاموش ہو جاتی ہے۔  کوسی کا یہ سناٹا    باندھوں   کے اندر رہنے والے لوگوں کو ڈراتا ہے۔  ان کو ہمیشہ ہی لگتا ہے کہ یہ سناٹا کم وبیش ہرسال آنے والی بلا  کا اشارہ ہے جس کو ’ سیلاب ‘کہا جاتا ہے۔سپول    کی ڈبیاہی پنچایت کے بیلاگوٹھ گاؤں کے رہنے والے شری منڈل کی  ناؤ  آٹھوں پہر کوسی میں چلتی ہے۔  وہ مسافروں کو اس پار سے اس پار پہنچاکر روزانہ 200 سے 250 روپے کما لیتے ہیں۔

گھاٹ کے کنارے بنی جس جھوپڑی میں وہ آرام کیا کرتے ہیں، اسی جھوپڑی میں چائے کی دکان بھی چلاتے ہیں۔  وہ جب  ناؤ  پر ہوتے ہیں، تو ان کی 14 سالہ  بیٹی چائے بناتی ہے۔  ان کے پاس 10 ایکڑ کھیت ہے، لیکن فصل نہ کے برابر ہوتی ہے، ورنہ جس کے پاس 10 ایکڑ کھیت ہوگا، وہ بھلا دن بھر پتوار چلاکر اور چائے بیچ‌کر اپنا پیٹ پالے‌گا!  شری منڈل کا گاؤں   باندھ   کے اندر ہے اور وہ سیلاب کی وجہ سے  اب تک 8بار منتقل ہو چکے ہیں۔

یہ شری منڈل   گھٹ وار    ہیں۔   ناؤ  چلاکر ان کی روزی روٹی چلتی ہے۔  کوسی کے  سیلاب میں وہ آٹھ بار منتقل  ہو چکے ہیں۔  (فوٹو : امیش کمار رائے / دی وائر)  

یہ شری منڈل   گھٹ وار    ہیں۔   ناؤ  چلاکر ان کی روزی روٹی چلتی ہے۔  کوسی کے  سیلاب میں وہ آٹھ بار منتقل  ہو چکے ہیں۔  (فوٹو : امیش کمار رائے / دی وائر)

سال 1954 میں کوسی کو ایک ہی سمت میں باندھ دینے کے لئے دونوں طرف    باندھ   بنانے کے بعد    باندھ   کے اندر رہنے والے لوگوں کی غریبی ،بدحالی اور بربادی کا جو شدید اور لامتناہی قصہ لکھا جانے لگا، شری منڈل اسی قصہ کا ایک کردار ہے۔ایسے لاکھوں کردار کوسی  باندھ  کے درمیان سسک رہے ہیں۔  ان کی ساری امیدیں حکومت سے ہیں اور حکومت ناامیدی کا مترادف بن چکی ہے۔

چھے دہائی پہلے کوسی   باندھ   جب بنا تھا، تب سینکڑوں گاؤں، ہزاروں ایکڑ کھیت اور گھر    باندھ   کے اندر تھے۔  اس وقت حکومت نے    باندھ   کے اندر رہنے والے لوگوں کو زراعت کے لئے زمین تو نہیں، لیکن جتنی جگہ میں ان کے گھر تھے، اتنے ہی رقبے کا پلاٹ    باندھ   کے باہر دینے کا وعدہ کیا تھا۔  لیکن، اس وعدے کا حشر بھی وہی ہوا، جو زیادہ تر سرکاری وعدوں کا ہوا کرتا ہے۔ مٹھی بھر لوگوں کو ہی   باندھ   کے باہر زمین مل پائی۔  ایک بڑی آبادی کے حصے میں صرف یقین دہانی ہی آئی، لہذا ان کو    باندھ   کے اندر ہی رہنے کو مجبور ہونا پڑا۔

فی الوقت مدھوبنی، سہرسہ، دربھنگہ، سپول سمیت کئی ضلعوں کے قریب 380 گاؤں   باندھ   کے اندر بسے ہوئے ہیں جہاں کی آبادی 10 لاکھ سے اوپر ہی ہوگی۔یہ گاؤں حالانکہ    باندھ   بن جانے سے پہلے بھی کوسی کا غصہ جھیلتے تھے، لیکن تب اس کا روپ اتنا ظالمانہ نہیں تھا۔    باندھ   بن جانے کے بعد کوسی میں جب بھی سیلاب آتا ہے، اپنے ساتھ خوفناک تباہی لاتا ہے۔

رام ولاس مکھیا سپول کے بیلاگوٹھ گاؤں میں رہتے ہیں۔  ان کو ہرسال پنجاب جانا پڑتا ہے تاکہ فیملی کے لئے کچھ کما سکیں۔  رام ولاس سیلاب کی وجہ سے 20بار نقل مکانی کی مصیبت جھیل چکے ہیں۔  (فوٹو : امیش کمار رائے / دی وائر)

رام ولاس مکھیا سپول کے بیلاگوٹھ گاؤں میں رہتے ہیں۔  ان کو ہرسال پنجاب جانا پڑتا ہے تاکہ فیملی کے لئے کچھ کما سکیں۔  رام ولاس سیلاب کی وجہ سے 20بار نقل مکانی کی مصیبت جھیل چکے ہیں۔  (فوٹو : امیش کمار رائے / دی وائر)

بیلاگوٹھ کے 56 سالہ کسان رام ولاس مکھیا انگلی پر سال گنتے ہوئے کہتے ہیں، ’ میں ا ب تک 20بار منتقل ہو چکا ہوں۔‘رام ولاس بتاتے ہیں، ’ جب باندھ بنا تھا، تو   باندھ   کے اندر رہنے والوں کو گھر بنانے کے لئے زمین دینے کی بات تھی۔  لیکن، بہت کم لوگوں کو زمین ملی۔  میرے گاؤں میں محض 10 فیصدی لوگوں کو ہی بازآبادکاری کی زمین مل پائی۔‘

باندھ‌کے اندر بسے کھوکھناہا گاؤں کے 65 سالہ محمد عباس کے والد کو 8 ڈسمل زمین ملی تھی، تاکہ وہ   باندھ   کے باہر گھر بنا سکیں، لیکن اس زمین پر کسی رسوخ دار نے قبضہ کر لیا اور پانچ منزلہ عمارت بنا دی۔محمد عباس کہتے ہیں، ’مجبوراً ہمیں    باندھ   کے اندر ہی رہنا پڑا۔  سال 2016 کے سیلاب میں میرے گاؤں کے 412 گھر کوسی میں سما گئے، جن میں میرا گھر بھی تھا۔  ابھی میں اور میری فیملی کسی اور کی زمین پر چھپڑ کھڑا کر رہ رہے ہیں۔‘انہوں نے کہا، ’ہم بازآبادکاری کو لےکرجب بھی افسروں سے ملتے ہیں، تو وہ ہم سے سوال پوچھتے ہیں کہ اتنے دنوں تک ہم کہاں تھے؟‘

محمد عباس کے چھے بچے ہیں، لیکن    باندھ   کے اندر کوئی بھی رہنا نہیں چاہتا ہے، کیونکہ ہرسال سیلاب کا خطرہ رہتا ہے اور بنیادی سہولیات نہیں کے برابر ہیں۔  وہ روہانسے ہوکر کہتے ہیں، ’ ان کو ہم کہاں لےکر جائیں، کچھ سمجھ میں نہیں آتا ہے۔  ‘ان کے پاس قریب 13 بیگھہ زمین ہے، لیکن بچوں کی اچھی پرورش کے لئے ان کو اتر پردیش کے گودام میں کام کرنا پڑا۔کوسی   باندھ   کے اندر رہنے والی آبادی کے لئے موسمی منتقلی ہی زندہ رہنے کی اکلوتی ترکیب ہے، کیونکہ یہاں روزگار کا دوسرا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔    باندھ   کے اندر ایسا شاید ہی کوئی گھر ہوگا، جس کا مرد ممبر دوسرے ریاستوں میں جاکر کھیتی مزدوری نہ کرتا ہو۔

محمد عباس کو بازآبادکاری کے لئے   باندھ   سے باہر جو زمین دی گئی تھی، اس پر کسی اور نے قبضہ کر کے مکان بنا لیا ہے۔  لہذا وہ   باندھ   کے اندر رہنے کو مجبور ہیں۔  (فوٹو : امیش کمار رائے / دی وائر)

محمد عباس کو بازآبادکاری کے لئے   باندھ   سے باہر جو زمین دی گئی تھی، اس پر کسی اور نے قبضہ کر کے مکان بنا لیا ہے۔  لہذا وہ   باندھ   کے اندر رہنے کو مجبور ہیں۔  (فوٹو : امیش کمار رائے / دی وائر)

باندھ   کے اندر نہ تو قاعدے کا ہاسپٹل ہے اور نہ ہی اسکول۔  نہ تو سڑک ہے اور نہ ہی بجلی۔  کچھ ایک اسکول تھے بھی، تو سیلاب کی نذر ہو گئے۔کھوکھناہا گاؤں کا اسکول بھی سیلاب میں برباد ہو گیا تھا۔  ابھی وہاں ایک جھوپڑی نما اسکول بنایا گیا ہے۔  لیکن، جہاں اسکول بنا، اس اسکول میں پڑھنے والے بچوں کا گھر ندی مین دھارا کے پار ہے کیونکہ سیلاب کی وجہ سے ان کا پہلے کا گاؤں ندی میں سما گیا تھا۔  ایسے میں بچوں کے لئے روز  ناؤ  پر سوار ہوکر پڑھنے آنا خطرے سے خالی نہیں ہے۔سپول کے پرانے لوگوں کو 60 کی دہائی میں ہوا وہ تاریخی پروگرام اب بھی یاد ہے، جس میں کوسی کے مشرقی کنارے پر باندھ بنانے کے لئے بنیاد رکھی گئی تھی۔

سنگ بنیاد کا پروگرام 14 جنوری 1955 کو سپول کے بیریا گاؤں میں کیا گیا تھا۔  اس کے لئے اس گاؤں میں پکامنچ بھی بنایا گیا تھا۔  پکامنچ بننے کی وجہ سے جائے پروگرام کے نام پر بریا منچ ہو گیا۔  فی الحال یہ مقام قصبائی چوک کی شکل لے چکا ہے۔  خیر!

اس عظیم پروگرام میں بطور  مہمان خصوصی صدر جمہوریہ  ڈاکٹر راجیندر پرساد پہنچے تھے۔اس وقت لوگ باندھ بنائے جانے کی مخالفت کر رہے تھے۔  اس مخالفت کو دبانے کے لئے ان کو باندھ سے ہونے والے ’ فائدے ‘ کا سبزباغ دکھایا گیا تھا۔سنگ بنیاد پروگرام سے پہلے 1954 میں 17 سے 24 اکتوبر تک صدر جمہوریہ  ڈاکٹر راجیندر پرساد نے اتر بہار کا دورہ کر کے لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کی تھی۔  انہوں نے کوسی    باندھ   تعمیر کو ملک کی تعمیر کی قربانی قرار دیتے ہوئے لوگوں سے اس میں حصہ لینے کی اپیل کی تھی۔مقامی بزرگ بیریا میں ہوئے پروگرام میں صدر جمہوریہ  کے اس جملے کو یاد کرتے ہیں، جب انہوں نے کہا تھا کہ ان کی ایک آنکھ کوسی   باندھ   کے اندر رہنے والے لوگوں پر رہے‌گی اور دوسری آنکھ باقی ہندوستان پر۔

ڈاکٹر راجیندر پرساد کے اس ایک جملے کو سن‌کر لوگوں نے خود ٹوکری کدال اٹھا لی تھی اور باندھ پر مٹی ڈالی تھی۔ان کو نہیں پتا تھا کہ جس باندھ کے لئے وہ مٹی ڈال رہے ہیں، وہ ان کے لئے صلیب ثابت ہوگی۔باندھ   بننے سے سیلاب سے ہونے والا جان و مال کا نقصان تو بڑھا ہی ہے، زراعت پر بھی بےحد برا اثر پڑاہے۔  کوسی اپنے ساتھ جو گاد لاتی ہے، اس میں ریت زیادہ ہوتی ہے۔  پہلے   باندھ   نہیں تھا، تو ریت بڑے علاقے میں پھیل جاتی تھی۔  اس سے زراعت پر اتنا اثر نہیں پڑتا تھا، لیکن اب تو ہر بار کوسی باندھ   کے اندر کے کھیت میں ہی ریت کی موٹی تہہ چھوڑ جاتی ہے۔

بیریا گاؤں میں بنا منچ۔  اسی منچ پر سال 1955 میں باندھ کا سنگ بنیاد سے متعلق پروگرام ہوا تھا، جس میں اس وقت کے صدر جمہوریہ  ڈاکٹر راجیندر پرساد مہمان خصوصی تھے۔  (فوٹو : امیش کمار رائے / دی وائر)

بیریا گاؤں میں بنا منچ۔  اسی منچ پر سال 1955 میں باندھ کا سنگ بنیاد سے متعلق پروگرام ہوا تھا، جس میں اس وقت کے صدر جمہوریہ  ڈاکٹر راجیندر پرساد مہمان خصوصی تھے۔  (فوٹو : امیش کمار رائے / دی وائر)

رام ولاس مکھیا کہتے ہیں، ’ میرے پاس 5 ایکڑ کھیت ہے، لیکن اس میں پیداوار نہیں کے برابر ہوتی ہے۔  پہلے ایک ایکڑ میں 20 من تک اناج ہو جاتا تھا، لیکن اب 5 من بھی نہیں ہوتا ہے۔‘رام ولاس ہرسال کچھ مہینے کے لئے پنجاب چلے جاتے ہیں۔  وہاں کھیتوں میں مزدوری کر کے کچھ کما لیتے ہیں اور پھر لوٹ آتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ بیلاگوٹھ گاؤں کے لوگوں کی 750 ایکڑ زمین ہے، جو ریت کی وجہ سے پوری طرح برباد ہو چکی ہے۔

سوچنے والی بات یہ ہے کہ کھیتی برباد ہو جانے کے باوجود ریاستی حکومت کھیتوں سے لگان لینا نہیں بھولتی ہے، بلکہ لگان دینے میں دیر ہو جائے، تو بقایا لگان کا سود بھی وصول کیاجاتا ہے۔  حکومت کا یہ رویہ ان کو برٹش حکومت کی یاد دلاتا ہے، جس کا عام لوگوں کے مسائل سے کوئی تعلق نہیں تھا۔رام ولاس نے اس سال 20 ہزار روپے کا لگان چکایا ہے۔  انہوں نے کہا، ’سرکاری افسروں سے درخواست کرتا ہوں، لیکن وہ ہماری ایک نہیں سنتے ہیں۔‘

کوسی کی دو دھاراؤں کے درمیان ریت سے بھرے   پلاٹ    پر پھوس کی جھوپڑی میں رہ رہے 60 سالہ بندیشور رام کہتے ہیں، ’ہمارے آباواجداد سینکڑوں سال سے ندی کے ساتھ Coexistence بناکر رہتے آ رہے تھے، وہ کوسی کے غصہ سے بھی واقف تھے اور اس کی محبت سے بھی، اس لئے اس وقت نقصان کم ہوتا تھا۔‘انہوں نے آگے کہا، ’ باندھ   بننے کے بعد سے کوسی کو دیکھ‌کر لگتا ہے کہ وہ ہمیشہ غصے میں ہی رہتی ہے اور اس کا لقمہ ہمیں بننا پڑ رہا ہے۔‘

سیلاب کی وجہ سے بندیشوری رام کا گھر 19بار ٹوٹ چکا ہے۔  چونکہ کوسی کی دھارا چنچل ہے اور کچھ سالوں میں اپنی سمت بدل دیتی ہے اس لئے    باندھ   کے اندر بسا گاؤں ہر سیلاب کے بعد نئے سرے سے نئی جگہ بستا ہے۔

ندی کی دھارا کو باندھنا یا موڑنا کتنا خطرناک ہو سکتا ہے، اس کا کڑوا تجربہ پچھلے 6 دہائیوں سے بہار کر رہا ہے، لیکن اس سے حکومت نے کوئی نصیحت نہیں لی ہے۔

کھوکھناہا گاؤں میں رہنے والے بندیشور رام ان لاکھوں لوگوں میں ایک ہیں، جن کو اب تک حکومت کی طرف سے کوئی معاوضہ نہیں ملا ہے۔ ان کا گھر سیلاب کی وجہ سے 19بار ٹوٹ چکا ہے۔ (فوٹو : امیش کمار رائے / دی وائر)

کھوکھناہا گاؤں میں رہنے والے بندیشور رام ان لاکھوں لوگوں میں ایک ہیں، جن کو اب تک حکومت کی طرف سے کوئی معاوضہ نہیں ملا ہے۔ ان کا گھر سیلاب کی وجہ سے 19بار ٹوٹ چکا ہے۔ (فوٹو : امیش کمار رائے / دی وائر)

حال ہی میں سپول میں کوسی کی ایک دھارا کو دوسری دھارا کے ساتھ ملا دینے کے لئے ریاست کے  محکمہ آبی وسائل نے 1 کروڑ روپے کی ایک اسکیم کو منظوری دی تھی۔تین مہینے کی اس اسکیم کے تحت پارکو پائن (کنکریٹ کے چھوٹے چھوٹے پلر ہوتے ہیں جن کو دھارا کے درمیان کھڑا کر کے جنگل اور گھاس فوس سے دیوارنما بنا دیا جاتا ہے، تاکہ ندی کی دھارا آہستہ آہستہ راستہ بدل لے) لگائے گئے ہیں۔مقامی جونیئر انجینیر نے بتایا کہ    باندھ   کے کنارے کے گاؤں کو بچانے کے لئے دھارا کا راستہ بدلا جا رہا ہے۔

قابل ذکر ہے کہ کوسی ندی نیپال سے نکلنے والی تین ندیاں سن کوسی، ارون اور تمور کے ملنے سے بنی ہے۔  قریب 720 کلومیٹر لمبی کوسی بہار کے کٹیہار ضلع‎ کے کرسیلا میں گنگا ندی میں مل جاتی ہے۔کہتے ہیں کہ بھاری مقدار میں اپنے ساتھ گاد لانے کی وجہ سے پچھلے 200 سالوں میں کوسی آہستہ آہستہ اپنا راستہ بدلتے بدلتے ابھی اپنے اصل راستے سے 133 کلومیٹر دور مغرب کی طرف بہہ رہی ہے۔ایسا اس لئے ہوتا ہے کیونکہ کوسی اپنے ساتھ جو گاد لاتی ہے وہ راستے میں ہی چھوڑتی جاتی ہے۔  اس سے راستہ بند ہو جاتا ہے اور ندی الگ راہ پکڑ لیتی ہے۔

باندھ   کے اندر کے گاؤں کے لوگوں کا کہنا ہے کہ پچھلے 50-60 سالوں میں کوسی نے اتنی گاد کھیتوں میں ڈالی ہے کہ کھیتوں کی اصلی مٹی 20-25 فٹ نیچے چلی گئی ہے۔  وہ مٹی بہت زرخیز تھی، لیکن ابھی جو گاد آ رہی ہے، اس میں ریت ہی ریت ہے۔دیہی لوگوں کی یہ شکایت صحیح ہے۔  کوسی   باندھ   کے اندرونی علاقوں سے گزرتے ہوئے زمین پر دور تک دودھیا رنگ‌کی ریت کی موٹی تہہ نظر آتی ہے۔  زیادہ ریت ہونے کی وجہ سے زیادہ تر کھیت پرتی زمین ہی دکھے۔

کھوکھناہا گاؤں میں باندھ کے اندر کوسی کی دو دھاراؤں کے درمیان بنا ایک اسکول۔ اس اسکول میں پڑھنے والے بچے کوسی کی مین دھارا کے پار رہتے ہیں۔ ناؤ سے اسکول آنا ان کے لئے جوکھم بھرا ہے۔ (فوٹو : امیش کمار رائے / دی وائر)

کھوکھناہا گاؤں میں باندھ کے اندر کوسی کی دو دھاراؤں کے درمیان بنا ایک اسکول۔ اس اسکول میں پڑھنے والے بچے کوسی کی مین دھارا کے پار رہتے ہیں۔ ناؤ سے اسکول آنا ان کے لئے جوکھم بھرا ہے۔ (فوٹو : امیش کمار رائے / دی وائر)

کوسی کے سیلاب سے ہونے والی تباہی کو کم کرنے کے لحاظ سے  باندھ   بنائے گئے تھے، لیکن سچ یہ ہے کہ سیلاب کی تباہی بدستور جاری ہے۔تعمیر کے بعد سے اب تک آٹھ بار باندھ ٹوٹ چکا ہے۔باندھ   پہلی بار اگست 1963 میں ڈلوا میں ٹوٹا تھا۔  اس کے بعد اکتوبر 1968 میں   دربھنگہ    کے جمال پور، اگست 1971 میں   سپول    کے بھٹنیا اور اگست 1980، ستمبر 1984 اور اگست 1987 میں   سہرسہ    میں باندھ ٹوٹا تھا۔  جولائی 1991 میں نیپال کے جوگینیاں میں کوسی کا باندھ ٹوٹ گیا تھا۔

آخری بار سال 2008 میں ہندوستان ونیپال سرحد کے قریب کسہا باندھ ٹوٹا تھا، جس نے بھاری تباہی مچائی تھی۔   باندھ   ٹوٹنے سے ان علاقوں میں بھی سیلاب آ گیا تھا، جہاں پہلے کبھی سیلاب نہیں آیا تھا۔  اس خوفناک سیلاب سے قریب 25 لاکھ لوگ متاثر ہوئے تھے اور کوئی 250 لوگوں کی جانے گئی تھیں۔سیلاب کی وجہوں کی جانچ کے لئے ایک رکنی ٹیم تشکیل کی گئی تھی۔  اس کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں سیلاب کے لئے انتظامی لاپروائی کو ذمہ دار مانا تھا۔  انتظامی لاپروائی تو فوری وجہ تھی، لیکن سیلاب کی اہم وجہ تو باندھ ہی تھے۔

ندی کے ماہرین کے مطابق، کوسی ہرسال قریب 92.5 ملین کیوبک میٹر گاد اپنے ساتھ لاتی ہے، جو بڑے جغرافیائی خطہ میں پھیل جایا کرتی تھی۔   باندھ   بننے سے ندی کی راہ تنگ ہو گئی۔  اس سے گاد ندی کی سطح میں جمتی گئی اور ندی کی سطح 4 میٹر اوپر اٹھ گیا۔پھر ایک دن تیز رفتار کے ساتھ پانی آیا اور باندھ کا پنجرا توڑ دیا۔

ابھی ہرسال کوسی کی سطح 2 میٹر اونچی اٹھ رہی ہے۔  اس کا مطلب ہے کہ آنے والے وقت میں سیلاب کی آفت بڑھے‌گی اور اس سے   باندھ   کے اندر رہنے والی آبادی کی زندگی بد سے بدتر ہوتی جائے‌گی۔باندھ   کے اندر رہنے والی اس بڑی آبادی کے لئے حکومت کے پاس پہلے بھی کوئی اسکیم نہیں تھی اور اب بھی نہیں ہے۔

البتہ، کوسی سے سیلاب آتا ہے، تو حکومت ایک رٹا رٹایا جملہ اچھال دیتی ہے کہ اس کے لئے نیپال ذمہ دار ہے۔اس کے بعد نیپال دورے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔  یہاں کے افسر وہاں جاتے ہیں اور وہاں کے افسر یہاں آتے ہیں۔  کچھ دن تک اخباروں میں خبریں چھپتی ہیں، انتظامی سطح پر تھوڑی ہلچل ہوتی ہے اور پھر سب کچھ عام ہو جاتا ہے۔

  سپول    سے ہوکر بہتی کوسی ندی۔  (فوٹو : امیش کمار رائے / دی وائر)

سپول    سے ہوکر بہتی کوسی ندی۔  (فوٹو : امیش کمار رائے / دی وائر)

ندیوں اور سیلاب پر لمبے وقت سے کام کر رہے ڈاکٹر دنیش مشر اکہتے ہیں، ’حکومت کو سمجھنا ہوگا کہ مسائل ہمارے یہاں ہیں، تو حل بھی ہمیں ہی ڈھونڈنا ہوگا۔  ہم نیپال کے بھروسے نہیں رہ سکتے ہیں۔  ہمیں اپنے وسائل سے حل تلاش نے کی ضرورت ہے۔  ‘باندھ   کے اندر رہنے والے لوگ سیلاب کو تو قسمت میں لکھی ہوئی عبارت مان چکے ہیں، لیکن ان کو یہ بھی احساس ہونے لگا کہ حکومت راحت اور فائدے کے نام پر ان کے ساتھ کھیل‌کر رہی ہے۔اپنی مانگوں کو لےکر مقامی لوگ اب تحریک کی راہ اپنانے کی تیاری کر رہے ہیں۔  پہلے مرحلے میں وہ باندھ   کے اندر کے کسانوں کا لگان معاف کرنے کی مانگ کریں‌گے۔

باندھ   کے اندر واقع ڈبھاری گاؤں کے رامانند سنگھ نے کہا، ’ میرے پاس 13 ایکڑ زمین ہے۔  ان میں سے پانچ ایکڑ زمین پر کوسی کی دھارا بہہ رہی ہے۔  تین ایکڑ پر گاد جمی ہوئی ہے۔  باقی پانچ ایکڑ میں چار مہینے تک پانی جمع رہنے کی وجہ سے ایک ہی فصل ہو پاتی ہے۔  لیکن، ہمیں 13 ایکڑ زمین کا لگان بھرنا پڑتا ہے۔  یہ کیسی راحت ہے؟‘مرونا بلاک کے گھوگھرریا گاؤں کے رام چندر یادو کی 25 ایکڑ زمین   باندھ   کے اندر ہے۔  کھیت میں ریت ہی ریت ہے۔

رام چندر یادو نے بتایا، ’ ریت کی وجہ سے کھیتی نہیں ہو پاتی ہے، لیکن لگان ہرسال دینا پڑتا ہے۔  ایسا آج سے نہیں ہے۔    باندھ   بننے کے بعد سے لگاتار لگان لیا جا رہا ہے۔  یہ ہمارے ساتھ ناانصافی ہے۔‘کوسی نو نرمان منچ کے بانی اور نیشنل الائنس آف پیپلس موومینٹس کے قومی کنوینر مہیندر یادو کہتے ہیں، ’ کوسی پر باندھ بنانے کے بعد سے لےکر اب تک حکومت کسانوں کے ساتھ لگاتار دھوکہ کرتی آ رہی ہے۔‘

انہوں نے کہا، ’ کسانوں کو معاوضہ ملنا چاہئے کیونکہ ان کے کھیت میں پیداوار نہیں ہوتی، لیکن حکومت الٹے ان سے لگان وصول کر رہی ہے۔  لگان معافی کی مانگ پر ہم لوگ 26 مئی کو کنولی گاؤں سے بیریا منچ تک لگان مکتی جن سنواد یاترا نکالیں‌گے۔  دیگر مانگوں کو لےکر بھی ہم لوگ ترتیب وار جدو جہد کریں‌گے۔‘تحریک کا کیا اثر ہوتا ہے، یہ تو خیر وقت ہی بتائے‌گا۔  لیکن، یہ   باندھ   کے اندر رہنے والے لوگوں کی جینے کی چاہ ہی ہے، جو ہر بار اجڑنے کے باوجود ان کو سب کچھ ٹھیک ہو جانے کی امید دیتی ہے۔