فکر و نظر

رویش کا بلاگ : راٹھور صاحب،پریس کی آزادی کو پش اَپ کی ضرورت ہے !

ہم نے امر چتر کہانی میں دنڈ پیلنے کی تمام تصویریں دیکھی ہیں۔ ان میں دنڈ پیلنے  والے دھوتی پہنا کرتے ہیں۔ آپ شاید نئے زمانے کے ہیں اس لئے آفس کی مہنگی قالین پر دنڈ پیل رہے ہیں، ویسے اس کی جگہ مٹی کی زمین ہے۔

فوٹو : این ڈی ٹی وی

فوٹو : این ڈی ٹی وی

محترم راجیہ وردھن راٹھور جی،

آپ کا ایک نیا ویڈیو دیکھ رہا ہوں جس میں آپ حکومت ہند کے دفتر میں پش اپ کر رہے ہیں۔ امید ہے آپ کی وزارت کے سکریٹری، ڈائریکٹر اور تمام ملازمین کام چھوڑ‌کر پش اپ کر رہے ہوں‌گے۔ بنا کام چھوڑے پش اپ تو ہو نہیں سکتا۔ میں جاننا چاہتا ہوں کہ جو چیلنج آپ دوسروں کو دے رہے ہیں، اس کی آپ کی وزارت کے اندر کیا حالت ہے؟ کیا وہ آپ کو دیکھتے ہی پش اپ کرنے لگ جاتے ہیں یا آپ آتے ہیں تو اپنے پش اپ کا ویڈیو بناکر دکھا دیتے ہیں۔ سکریٹری جی کیا کر رہے ہیں، ان کو بھی کہیے  کہ پش اپ کر ٹوئٹ کریں۔ کیا یہ اچھا رہے‌گا کہ کچھ ڈاکٹروں اور جم ٹرینر کی ٹیم آپ کی وزارت کے ملازمین‎ کی صحت کا تجزیہ کرے۔

 یہ جو آپ پش اپ کر رہے ہیں وہ یوگ کے کس آسن کے تحت آتا ہے؟ سوریہ نمسکار میں بھی دنڈ پیلنے کا ایک مختصر آسن ہے اور بھجنگ آسن بھی اس کا مترادف ہے۔ پروتاسن میں بھی آتا ہے اور ممکن ہے کہ اس کا ایک آزاد آسن بھی ہوگا۔ لیکن وزیر جی آپ جس طرح چمڑے کے جوتے اور کسی ہوئی کم مہری والی پتلون میں پش اپ کر رہے ہیں وہ قطعی ہندوستانی نہیں ہے۔

ہم نے امر چتر کہانی میں دنڈ پیلنے کی تمام تصویریں دیکھی ہیں۔ ان میں دنڈ پیلنے  والے دھوتی پہنا کرتے ہیں۔ آپ شاید نئے زمانے کے ہیں اس لئے آفس کی مہنگی قالین پر دنڈ پیل رہے ہیں، ویسے اس کی جگہ مٹی کی زمین ہے۔ جہاں ہمارے پہلوان بھائی روز مٹی آنکھ منھ میں پوت‌کر دنڈ پیلتے ہیں۔ آپ کی طرح ہندوستان کے لئے تمغہ جیت لیتے ہیں۔

گزشتہ 4 سالوں سے حکومت ہند اور ذاتی طور پر وزیر اعظم مودی یوگ کی تشہیر پر کافی توجہ  دے رہے ہیں۔ اتنا کہ 2014 سے پہلے میڈیا میں یوگ رام دیو کی وجہ سے جانا جاتا تھا، اب رام دیو جی بھی یوگ کی وجہ سے کم ان دنوں بزنس ٹائیکون ہونے کی وجہ سے زیادہ جانے جا رہے ہیں۔ شاید وہ بھی نہیں چاہتے ہوں‌گے کہ یوگ کے برانڈ امبیسڈر کو لےکر کسی سے ٹکراؤ ہو اور اس کا اثر ان کے کاروبار پر پڑے۔ اس لئے انہوں نے یوگ کا میدان وزیر اعظم کے حوالے کر دیا ہے۔ یوگ کی تشہیر کوئی بھی کرے اس سے رام دیو کو کبھی اعتراض بھی نہیں رہا ہے۔

آپ نے اچانک یورپی انداز میں پش اپ کو کیوں مشتہر کیا؟ اس میں کوئی برائی نہیں ہے کیونکہ آپ جو بھی کر رہے ہیں، اس میں ہندوستانیت تو ہے۔ لیکن پارلیامنٹ  میں آپ کے ہم منصب   اور میرے دوست منوج تیواری کیا کر رہے ہیں؟ پش اپ آرٹ  کی ترقی کر رہے ہیں یا خرابی پیدا کر رہے ہیں؟ آپ بھی ان کا ویڈیو دیکھیے۔ پش اپ کرنے کے بعد منوج تیواری اچانک اس کے جیسا کودنے پھاندنے لگتے ہیں جس کا نام میں نہیں لینا چاہتا۔ جب ملک میں پیٹرول کی قیمت  85 روپے فی لیٹر ہو گئی ہو ، ہاہاکار مچا ہو، تب منوج تیواری کا پش اپ کے بعد افریقی نژاد کا رقص مجھے اچھا نہیں لگا۔ اس سے میرا ہندوستانی دل مجروح ہوا ہے۔

آپ کو پتہ ہوگا کہ پریس کی آزادی کے معاملے میں ہندوستان کا مقام گزشتہ سال سے 2 پائیدان نیچے چلا گیا ہے۔ ہندوستان 136 سے 138 پر آ گیا ہے۔ 137 پر میانمار ہے۔ 139 پر پاکستان ہے۔ اس میں آپ کی وزارت کی کیا ذمہ داری بنتی ہے، اس پر بحث ہو سکتی ہے لیکن جس ملک میں پریس کی آزادی کی یہ حالت ہو، اس غریب ملک کے اطلاعات و نشریات وزیر اپنے عالی شان دفتر میں پش اپ کرے، ذرا مناسب نہیں لگا۔ آپ نے اس طرح کی رینکنگ آنے کے بعد اصلاح کے لئے کوئی میٹنگ بلائی ہے؟ آپ کی سابقہ منصب دار اسمرتی ایرانی نے فیک نیوز کے نام پر جو بندش لگانے کی کوشش کی تھی، اس سے ان کو پوچھنا پڑا تھا۔ اس لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ پریس کی آزادی کا ماحول بنا رہے، اس کے لئے آپ کیا کر رہے ہیں۔

کرناٹک انتخاب میں وزیر اعظم مودی نے ایک جھوٹ بولا کہ کسی کانگریسی رہنما نے جیل میں شہید بھگت سنگھ سے ملاقات نہیں کی۔ انہوں نے کہا کہ کوئی جانکاری دے‌گا تو وہ اصلاح کرنے کے لئے تیار ہیں۔ کیا اطلاعات و نشریات کے وزیر کے روپ میں آپ کی ذمہ داری نہیں بنتی کہ وزیر اعظم کی طرف سے آپ ملک کو بتائیں کہ صحیح جانکاری یہ ہے کہ نہرو نے ہی جیل میں بھگت سنگھ سے ملاقات کی تھی۔

آپ وزیر اعظم سے اتنی توانائی پا رہے ہیں کہ دفتر میں ہی پش اپ کرنے کا خیال آ جاتا ہے۔ یہ اچھا ہے۔ مگر صحیح اطلاع کے تئیں آپ کی کیا ذمہ داری ہے؟ کیا آپ نے وہ ذمہ داری نبھائی؟ کیا آپ کی وزارت نے دوردرشن پر چلایا کہ وزیر اعظم سے ایک چوک ہوئی ہے۔ نہرو نے بھگت سنگھ سے جیل میں ملاقات کی تھی۔

میں نہیں چاہتا کہ آپ اس بات سے شرمندہ ہوں کہ عوامی صحت کے معاملے میں ہندوستان کی رینکنگ اتنی ہی خراب ہے جتنی  پریس کی آزادی کے معاملے میں۔ دنیا کے 195 ممالک میں ہندوستان کا مقام 145 ویں نمبر ہے۔ 4 سال میں اس کو ٹھیک کرنے کی امید بھی نہیں رکھتا مگر میں چاہتا ہوں کہ آپ ایمس کو لےکر پارلیامانی کمیٹی کی جو رپورٹ آئی ہے، اس کو ہی پڑھ لیں۔

اب جب آپ اپنا کام چھوڑ‌کر وزیر صحت کا کام کر ہی رہے ہیں تو یہ بھی جان لیں۔ ہندوستان کے 6 ایمس میں پڑھانے والے ڈاکٹر پروفیسر کے 60 فیصدی عہدہ خالی ہیں۔ نان فیکلٹی کے 80 فیصدی سے زیادہ عہدے خالی ہیں۔ 18000 سے زیادہ عہدوں پر اگر 4 سال میں تقرری ہو گئی ہوتی تو آج کتنے ہی نوجوانوں کے گھر میں خوشیاں من  رہی ہوتی۔ وہ بھی پش اپ کر رہے ہوتے۔ بےروزگاری میں آپ کی طرح پش اپ کرنے سے آنت باہر آ جائے‌گی۔ آپ کی جو فٹنس ہے وہ صرف پش اپ سے نہیں ہے بلکہ ڈائٹ سے بھی ہے۔

آپ وزیر ہیں۔ رکن پارلیامان ہیں۔ ضرور رکن پارلیامان کو ہنسی مذاق یا ہلکاپھلکا سلوک  کرنے کی چھوٹ ہونی چاہیے مگر عوامی نمائندہ کی ایک حد ہوتی ہے۔ وہ ان حدودسے بندھا ہوتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ آپ کچھ مقبول عام لوگوں کو چیلنج دےکر نوجوانوں کو ترغیب دینا چاہتے ہیں۔ ہندوستان کا نو جوان جانتا ہے کہ اس کو صحت کے لئے کیا کرنا ہے۔ جس کے پاس پیسے ہیں اور جو جم جا سکتا ہے، وہ جا رہا ہے۔ دو چار نو جوان ہوتے ہیں جو اجئے دیوگن اور شاہ رخ خان کی طرح دکھنے لگتے ہیں، بولنے لگتے ہیں اور چلنے لگتے ہیں۔ ممکن ہے کہ دو چار آپ کی طرح دیکھنے ،بولنے اور چلنے لگیں  لیکن یہ سوچنا کہ نوجوانوں کی ذہنیت ہی یہی ہوتی ہے، ان کے ساتھ ناانصافی ہوگی۔

کیا یہ اچھا نہیں ہوتا کہ 100 سے زیادہ جن بچوں نے ایس ایس سی کا امتحان پاس کی ہے اور  آپ کی وزارت سے تقرری خط کا انتظار کر رہے ہیں، ان کی آپ جوائننگ کرا دیں۔ امید ہے کہ آپ سوموار تک ان کو تقرری خط دے دیں‌گے امتحان پاس کر10 مہینے سے یہ لڑکے انتظار کر رہے ہیں اور آپ نوجوانوں کو پش اپ کرنے کا ویڈیو دکھا رہے ہیں، یہ مناسب ہو سکتا ہے مگر بقول رویش سراسر غیر مناسب ہے۔

ویسے آپ یہ پتلون اور شوٹ سلاتے کہاں ہیں، ڈیزائنر ہے کوئی یا شاہدرا کا کوئی ٹیلر ہے۔ باقی سوال کا جواب دے یا نہ دیں، مجھے ٹیلر کا پتا دے دیجئے‌گا وزیر جی۔ مجھے بھی ہینڈسم دکھنے کا من‌کر رہا ہے۔ لگےہاتھ انڈیا بھی فٹ ہو جائے‌گا، ایسی شراکت میری بھی ہو جائے، بھکت بھی خوش ہو جائیں‌گے۔

آپ کا،

رویش کمار،

دنیا کا پہلا زیرو ٹی آر پی اینکر

(یہ مضمون بنیادی طور پر رویش کمار کے بلاگ قصبہ پر شائع ہوا ہے۔)