ادبستان

بک ریویو: سعودی عرب ایک نئے دور کے دہانے پر

معلوم پڑتا ہے مداوی الرشید شاہی خاندان کے اندر پنپ رہی کسی بغاوت کی طرف اشارہ کر نا چاہتی ہیں۔ انہوں نے کسی گمنام خط کا تفصیل سے ذکر کیا ہے، جو ستمبر 2015 میں آن لائن شائع ہو اتھا۔

سلمان بن عبدالعزیز / فوٹو : رائٹرز

سلمان بن عبدالعزیز / فوٹو : رائٹرز

جنوری 2015میں جب بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز نے سعودی عرب کا تخت سنبھا لاتھا، اس وقت بہت کم لوگ یہ اندازہ لگا پائے تھے کہ یہ سینئر شہزادہ(جو کئی دہائیوں سے سلطنت کے اہم چہرہ رہے ہیں)آ ناً فا ناً میں ان تمام اصول و ضوابط کو کنارہ لگا د ے گا جن کے تحت نہ صرف حکومت کا پہیہ گھومتا ہے بلکہ انہی اصول و ضوابط کی وجہ سے ملک میں پائیداری آتی ہے۔

موجودہ شاہی گھرانہ کے بانی بادشاہ عبدالعزیز نے جس شاہی نظام کی بنیاد رکھی تھی وہ مندرجہ ذیل اصولوں پرٹکا تھا: شاہی خاندان کے بزرگوں کی مشاورت میں شمولیت ،خاندان کے مختلف شاخوں کے بیچ دولت اور اقتدار کی تقسیم، وہابی اسٹیبلشمنٹ سے گہری وابستگی اورایک ایسا نظام جو جو علماء، قبائلی لیڈران، تاجر اور نوجوانوں سے ہم آہنگی بنا ئے رکھے۔اس نظام کی ہیئت اب بہت حد تک بدل گئی ہے۔سلطنت کا پو را باگ ڈور اب 32سالہ شہزادہ محمدبن سلمان (جو بادشاہ سلمان کے صاحبزادہ ہیں:ان کی تیسری بیوی سے) کے ہاتھوں میں ہے۔ وہ سیاست سے لیکر فوج، سیکوریٹی، معیشت اور کلچر تمام محکموں کے حاکم اعلیٰ ہیں۔

گزشتہ دو سالوں میں شہزادہ محمد بن سلمان نے شاہی خاندان کے دو بزرگوں کو کنار ہ  کیا ہے،جو ان سے پہلےکرائون پرنس رہ چکے ہیں۔شہزادہ نے شاہی خاندان کے کئی بزرگوں سے ان کی شان و شوکت چھین کر انہیں نظر بند بھی کیا ہے۔ انہوں نے کئی دانشور اور باغیوں کو بھی گرفتار کر وا یا ہے۔ انہوں نے کئی معروف تاجروں کو بھی بدعنوانی کے الزام میں جیل بھیج کر ان کے وسائل پر اپنا قبضہ جما لیا ہے، تاکہ ان کا استعمال شاہانہ شان و شوکت  کے لئے کیا جا سکے۔شہزادہ نے وسیع پیمانے پر اقتصادی اور ثقافتی اصلاحات کے وعدے کئے ہیں، جس سے سلطنت post-oilکے دور میں داخل ہو گا ، اور جس کی قیادت ملک کے آزاد اورتخلیقی نوجوان کریں گے۔ نتیجتاً ملک ٹیکنالوجی اور پرائیوٹ سیکٹر انٹرپرائزز کی ہوڑ میں دنیا کے ساتھ کند ھے سے کندھا ملا کر چلے گا۔محمد بن سلمان نے صدر ٹرمپ سے بھی مضبوط رشتہ قائم کر لیا ہے، جس سے سعودی عرب کو یمن اور ایران پر اپنی بالا دستی بنا ئے رکھنے میں مدد ملے گی۔

اس کتا ب میں انہی ہنگامہ خیز تبدیلیوں پر تبصرے ہیں۔ یہ کتاب در اصل مختلف مضامین کا مجموعہ ہے، جسے مشہور سعودی اینتھرو پالو جسٹ اور سیاسی تجزیہ نگار مداوی الرشید نے ترتیب دیا ہے۔اپنے دیباچہ میں، الرشید نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ سعودی عرب میں ’’ایک نئی سلطنت نمودار ‘‘ہونے والی ہے، جو بادشاہ سلمان کی وراثت ہوگی۔ جن چیزوں کی وجہ سے اس نئی سلطنت کو پہچانا جائے گا وہ یہ ہیں: بادشاہ اور شاہزادہ موجودہ چیلینجز کا سامنا کیسے کرتے ہیں۔ مثلا ًوہ شاہی خاندان میں اتحاد کو کیسے بر قرار رکھتے ہیں، مذہبی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کیسے حاصل کرتے ہیں، انتہا پسندی کی نکیل کیسے کستے ہیں، فرقہ بندی سے کیسے نمٹتے ہیں، اور ان سب سے بڑھ کی کہ وہ نوجوانوں اور خواتین کی بڑھتی آر زؤں کی تکمیل کے لئے کیا کر پاتے ہیں، خاص طور پرتب جب تیل کی قیمت اورخطے کی سیکوریٹی غیر یقینی صورت حال کا شکار ہے۔

سلطنت ان تمام چیلینجز کا سامنا جیسے کرے گی وہی اس بات کا اشارہ کرے گا کہ آیا سلطنت پائیداری رہے گی یا پھر شاہی خاندان علاقائی اور مذہبی گروہ بندی کی وجہ سے  چھوٹے چھوٹے ٹکروں میں بٹ جائے گا۔شاہی خاندان کے توسط سے F Gregory Gause III لکھتے ہیں کہ ماضی میں سعودی عرب نے اپنے گونا گوں علا قائی اور گھر یلو چیلینجیز کا مقابلہ بڑی خوبی سے کیا ہے۔ اس کامیابی کے پیچھے جو چیزیں کار فرما تھیں، وہ یہ کہ سلطنت نے خاندانی اتحاد کو ٹس سے مس نہیں ہونے دیا، وہابی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ حکومت میں شراکت کے سلسلے کو جار ی رکھا ، او ردولت کی تقسیم کے مؤثر نظام کے ذریعہ قو می سطح پر مل رہی حمایت کو بھی بر قرار رکھا۔

سلطنت کا پورا باگ ڈوراب شہزادہ کے ہاتھ میں ہے۔ علماؤں کے رسوخ کو شہزادہ کے اصلاحی پروگرامز کے ذریعہ ختم کیا جا رہا ہے۔تقسیم کا نظام اقتصادی حقیقت کے سامنے چر مرا رہا ہے۔تیل کی گھٹتی قیمت نے لوگوں کو ملنے والی سبسڈی کو بر قرار رکھنا بھی مشکل کر دیا ہے۔تاہمGauseنے کوئی حتمی نتیجہ اخذ کرنے سے گریز کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ قومی اور عالمی سطح پر مل رہی حمایت برقرار رہے اس کے لئے ’ السعود کو نئی اسٹریٹیجی اور میکانزم بنانی ہوگا‘۔مگر انہوں نے واضح نہیں کیا ہے کہ وہ اسٹریٹیجی اور میکانزم کیا ہونگی۔

معلوم پڑتا ہے مداوی الرشید شاہی خاندان کے اندر پنپ رہی کسی بغاوت کی طرف اشارہ کر نا چاہتی ہیں۔ انہوں نے کسی گمنام خط کا تفصیل سے ذکر کیا ہے، جو ستمبر 2015 میں آن لائن شائع ہو اتھا۔ مذکورہ خط نے اس پالیسی کی طرف لوگوں کا دھیان کھینچنے کی کوشش کی ہے جس کے تحت شاہی خاندان میں ہونے والی کسی بھی تقرری کے وقت سینئر یٹی اور قابلیت کا لحا ظ کیا جا تا ہے۔ اس خط میں یہ بھی درج ہے کہ بادشاہ سلمان ’’ذہنی طور پر نااہل ’’ تھے، جبکہ انکے بیٹے پر ملک کے وسائل کا بے جا استعمال کرنے کا الزام تھا۔الرشید نے یہ لکھا ہے کہ جب سے یہ خط شا ئع ہوا ہے، شاہی خاندان کے تین شخص جو شاید اس خط کے دستخط کنندہ ہیں، غائب ہیں۔

اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ شاہی خاندان کے بارے میں کسی طرح کی قیاس آرائی ایک جرم ہے،الرشید نے ایک گمنام ٹوئٹر ایکٹیوسٹ ’مجتہد‘ (ایک گمنام وہسل بلوئر اور باغی جسے فا لو کرنے والوں کی تعداد قریب ڈیڑھ ملین ہے) کے بارے میں خاصی گفتگو کی ہے۔شاہی خاندان سے متعلق اپنی رائے اور قیاس آ رائیوں کی وجہ سے، ’مجتہد‘ اپنے فالوئرز ( سعودی اور غیر ملکی دونوں)کو متاثر کرتے رہے ہیں۔’مجتہد‘ کا کہنا ہے کہ وہ شاہی خاندان کے جواز پر سوالیہ نشان لگا نا چاہتاہے ۔وہ ملک کی سیاسی تبدیلی میں اہم کردار نبھا نا چاہتے ہیں۔

سلطنت میں ممکنہ تبدیلی کے توسط سے گفتگو کرتے ہوے، مجتہد نے الرشید سے کہا کہ سعودی عرب میں سماج کے اہم طبقے مثلاًقبائلی، مذہبی او ر کاروباری گروہوں کے لیڈران ابھی بھی شاہی خاندان کے لئے وفادار ہیں۔انہوں نے ایک دلچپ بات بتا ئی کہ سعودی کے لوگ پر امن احتجاج کرنا جانتے ہی نہیں ہیں۔وہ ہتھیار بند احتجاج کے عادی ہیں، جیسا کہ جہادی گروپ کرتے ہیں۔ لیکن جب حکومت کو عوام کو ڈرانا ہوتا ہے، وہ انہی آلات کا استعمال کرتی ہے۔

سعودی عرب کے مذہبی نظام کے حو الے سے کتاب میں چار مضامین ہیں، جنکے مصنفین کے نام اس اہم موضوع کے حوالے سے قریب پچا س سال کا تجربہ اورمطالعہ ہے۔لہذا یہ مضامین وہابی طرز فکر اور عمل کے ارتقا او ر اسکے اثرات پر خاصی روشنی ڈالتے ہیں۔مثلاً اس میں حکومت اور علماء کا کیا رول رہا ہے اور جہاد کے نظریہ کو اس نے کس حد تک اثر انداز کیا ہے ۔Andrew Hammond نے سلفیزم پر دلچسپ بحث کرتے ہوے ’خدا پرست اجداد ‘ (اسلام کی پہلی نسل) کے عقائد اور عمل کی پیروی کرنے کے طریقے کو بخوبی بیان کیا ہے۔ انہوں نے یہ درج کیا ہے کہ سعودی حکمران اور کئی اسکالروں نے وہا بی موومنٹ کو سلفیزم کا ہی حصہ قرار دیا ہے۔انکا یہ ماننا ہے کہ وہابی موومنٹ کے بانی شیخ محمد ابن عبد الوہاب کسی نئے فرقہ کےپیشوا نہیں تھے، بلکہ انہوں نے صرف سلفی روایت کو دوبارہ زندہ کرنے کی سعی کی تھی۔

Salman’s Legacy: The Dilemmas of a New Era in Saudi Arabia Madawi Al-Rasheed (Ed.) Hurst & Co, London, 2018

Salman’s Legacy: The Dilemmas of a New Era in Saudi Arabia
Madawi Al-Rasheed ,Ed.
Hurst & Co, London, 2018

Cole Bunzelنے ’وہابی نظریہ‘ کے مختلف پہلوؤں کا تفصیلی مطالعہ پیش کیا ہے۔ وہ نظریے جن میں سعودی شا ہی خاندان بھی یقین رکھتا ہے اور’ اسلامک اسٹیٹ ‘کے نوجوان آئیڈیو لوگ ترکی الابن علی بھی۔ایسا اس لئے ہے کیونکہ وہا ب ازم کے نظریہ کے حوالے سے علماء کا وہ طبقہ جو حکومت کی حمایت کر تا ہے اور وہ جو باغی اسکالرز ہیں ؛ ان دونوں کے پیچ نظریاتی اختلاف ہے۔ان میں چند اصلاح پسند ہیں جبکہ کچھ وہ ہیں جو سخت گیر ہیں۔ شیخ عبدا للہ ابن جبرین کا شمار سخت گیر وں میں ہو تا ہے۔2009 میں جب ان کا انتقال ہو ا تھا، تب شہزادہ سلمان (اس وقت ریا ض کے گورنر) اور ترکی الابن علی دونوں نے افسوس کا اظہار کیا تھا۔ابن جبرین کا اس بات پر بہت زور تھا کہ قوانین اور پالیسیاں شریعت کی روشنی میں بنے۔ انہوں نے شیعوں کو ملحد کے خانے میں رکھا جنہوں نے جہاد کی پر زور حمایت کی تھی۔اسی سوچ نے ( Cole Bunzelلکھتے ہیں) سید قطب اور عبد السلام فرج کے انتہا پسند مسلم اخوان المسلمین کے جہا دی نظریہ ( جس نے القاعدہ کو متاثر کیا) کو جلا بخشا اور پھر یہ ’اسلامی ریاست‘ کا نظریاتی بنیاد بن گیا تاکہ اسے ’وہابی ریاست‘ کہا جا سکے۔

Andrew Hammond اورMichael Farquhar نے سعودی خارجہ پالیسی کے مفادات کو فروغ دینے میں اسلام کے رول کا تجزیا تی مطالعہ پیش کیاہے۔ Hammond لکھتے ہیں کہ سلطنت نے نیشنلزم اور سوشلزم کے سیکولر اصولوں (جسے جمال عبد الناصر کی کامیابی کے بعد 1950s ۱ور 1960sمیں بہت فروغ دیا گیا) کا مقابلہ کرتے ہوے اسلام کا استعمال کیا ۔چونکہ کئی اسلامک ادارے اس نے قا ئم کئے ہیں، لہذا سعودی عرب نے خود کو مسلم کمیونیٹیز کے سامنے اسلام کے مقدس مقامات کا گارجین اور مسلمانوں کا لیڈر بنا کر پیش کیا ۔ بعد میں اس نے سلفیزم کا بھی استعمال ایران ( 1979کے انقلاب کے بعد) اور اخوان المسلمین(Arab Spring کے بعد) کے خلاف کیا۔اس کتاب میں سعودی عرب کی خارجہ پالیسی پر تین مضامین ہیں، جن میں پہلا مضمون Toby Mathieson کا ہے، جس میں انہوں نے سرد جنگ کے زمانے میں سعودی عرب اور امریکہ کے رشتے پر دلچسپ بحث پیش کی ہے۔ دوسرا مضمون مداوی الرشید کا ہے ، جس میں انہوں نے سعودی عرب اور امریکہ کے موجودہ رشتے کا تفصیلی جائزہ لیا ہے۔ تیسرا مضمون ناصر التمیمی کا ہے، جس میں انہوں نے چین کے خلیج میں بڑھتے رول پر تبصرہ کیا ہے۔

Mathieson نے لکھا ہے کہ یہ بات غور کرنے کی ہے کہ کس طرح سعودی سلطنت اس بنیاد پر کہ اسلام “Godless Communism” کا منکر ہے، سرد جنگ کے دوران امریکہ کا اہم دوست بنا۔ موصوف نے یہ بھی نشان زد کیا ہے کہ سعودی عرب اور امریکہ کی دوستی معمولی نہیں رہی ہے۔ 1970کی دہائی کے دوران سعودی عرب نے مغرب کے کمیونزم مخالف مفادکے لئے کس طرح افریقہ میں چلائے جا رہے مہم ’’سفاری کلب ‘‘ میں پر زور حصہ لیا۔ غور طلب ہے کہ اسی کلب کی آئیڈیا لوجی، نیٹ ورک اور تجربہ کا استعمال 1980s میں افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف کیا گیا، گرچہ ایران تب اس کا حصہ نہیں تھا۔ناصر التمیمی لکھتے ہیں کہ جب تک امریکہ فوجی اور سیاسی طاقت کی صورت میں خلیج میں سکہ جمائے بیٹھا رہے گا، سعودی عرب بھی چین کے ساتھ اپنی اسٹریٹیجک دوستی کو (بطور دفاعی اور سیکوریٹی پارٹنر) بنائے رکھے گا۔چین بھی اپنی دلچسپی بر قرار رکھے گا کیونکہ اقتصادی اور توانائی معاہدوں کے مد نظر دونوں ایک دوسرے پر منحصر ہیں۔

الرشید نے شہزادہ محمد بن سلمان کے ذریعہ دفاعی معا ہدے اور مشترکہ ایران دشمنی کی بنیاد پر ٹرمپ ایڈ منسٹریشن سے قائم کئے گئے مضبوط رشتے پر خاص روشنی ڈالی ہے۔انہوں نے گرچہ یہ بھی لکھا ہے کہ یہ رشتہ در اصل momentary symbiosis ہے، کیونکہ ٹرمپ اور محمد بن سلمان دونوں جلد بازی میں فیصلے لینے کے لئے مشہور ہیں۔ لہذا اس بات کا بھی امکان ہے کہ ان کےفیصلے بعد میں اوندھے منھ گر پڑیں۔انہوں نے اختصار سے سعو دی عرب اور اسرائیل کے رشتے پر بحث کرتے ہوئے اس بات کا بھی ذکر کیا ہے کہ کس طرح سعودی حکومت اسرائیل کے ایجنڈے کی حمایت کر رہا ہے۔

الرشید یہ مانتی ہیں کہ محمد بن سلمان ایسے شخص ہیں جو نہ تو اس لائق ہیں کہ چیلینجز کا مقابلہ کر سکیں اور نہ ہی ان میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ ایک دور اندیش سیاستداں بن سکیں۔رشید کا یہ ماننا ہے کہ سلمان بس اتنا مانتے ہیں کہ اپنے مالی وسا ئل اور امریکہ کی حمایت سے وہ تمام رکا وٹوں کا مقابلہ کر لیں گے جو انکے( والد کے بعد) تخت نشینی کی راہ میں آڑے آئے گا۔لیکن الرشید کو اندیشہ ہے: شہزادہ نے Gulf Cooperation Councilکے اتحاد کو ختم کر دیا ہے۔قطر کے ساتھ جو کشیدگی چل رہی تھی اس میں بھی انہیں کوئی کامیابی نہیں ملی ہے۔قطر کے ساتھ اب ایران اور ترکی دونوں کھڑے ہیں۔یمن میں تین سال سے جنگ جاری ہے ۔ مگر ابھی بھی فوجی جیت کا کوئی اشارہ نہیں ہے۔لہذا لرشید کو یہ اندیشہ ہے کہ نو جوان شاہزادہ کا جارحانہ  رویہ الٹا پڑ سکتا ہے اور ممکن ہے اسی وجہ سے درون خانہ بغاوت کا بگل بھی بج جائے۔

گرجہ یہ کتاب ان تمام چیلینجز جن کا سامنا سعودی سلطنت (بادشاہ سلمان اور شہزادہ )کو ہے ،کا بہترین مجموعہ ہے ، لیکن اس میں بھی وہی کمی رہ گئی ہے، جو وسط ایشیا پر چھپنے والی زیادہ تر کتابوں میں ہوتی ہے۔گرچہ الرشید نے شاہی خاندان میں وقوع پذیر  اس purge کا مختصر ذکر کیا ہے، جسے شہزادہ محمد بن سلمان نے گزشتہ نومبر میں سر انجام دیا تھا (جسے پبلشر کے پاس اصل نسخہ چلے جانے کے بعد شامل کیا گیا )،مگر وہ اس واقعہ کے اثرات کا تفصیلی جائزہ لینے سے چوک گئی ہیں، خاص طور سے درون خانہ جو اختلاف ہے اس حوالے سے۔

چونکہ یہ کتاب مختلف مضا مین کا مجموعہ ہے، لہذا اس میں موضوعی ہم آہنگی نہیں ہے۔ سلطان علامیر نے علاقائی شناخت (قطیف اوربریادہ ) کے حوالے سے چند اہم نکات پر روشی ڈالی ہے۔ مگر انہوں نے ان عناصر کا ذکر نہیں کیا جو سعودی عرب کی موجودہ گھریلو سیاست کو باالواسطہ اثر انداز کرتے ہیں۔ خارجہ پالیسی والا سیکشن زیادہ ما یوس کن ہے۔ کتاب میں صرف امریکہ اور چین کے حوالے سے سعودی عرب کی خارجہ پالیسی پر تبصرہ کیا گیا ہے، جو ناکا فی ہے۔کتاب میں شاید ایک ایسے باب کی ضرورت تھی جو سلمان کی خارجہ پالیسی کا مجموعی طور پر جائزہ لیتا۔

ایک اختتامیہ باب کا ہونااشد ضروری تھا، جو تمام نظریات اور پہلووں کا ایک ساتھ تجزیہ کرکے قارئین کے لئے ایک حتمی دلیل پیش کرتا۔ کتاب چین سے متعلق باب کے بعد اچانک ختم ہو جاتی ہے، جس سے کم از کم ’’dilemmas of the new ear‘‘ (جو کتاب کے عنوان کا حصہ ہے) کے حوالے سے مایوسی ہاتھ لگتی ہے۔رشید اپنے تمہید میں لکھتی ہیں کہ سعودی عرب کے حوالے سے ایک مکمل تصویر کی ضرورت ہے، جو نہ صرف ملک کے حال کو بیان کرے بلکہ اسکے مستقبل کی بھی عکاسی کر سکے۔ لیکن ایسا لگتا ہے انہوں نے یہ کام نئی نسل کے اسکالرز کے لئے چھوڑ دیا ہے۔ رشید اپنے معاون مصنفین کے ساتھ یہ کام اسی جلد میں کر سکتی تھیں۔

 (تبصرہ نگار سعودی عرب میں ہندوستان کے سفیر رہے ہیں۔ انگریزی سے ترجمعہ: سید کاشف)