خبریں

ویدانتا کمپنی کی تاریخ عوام مخالف سرگرمیوں کی تاریخ ہے

ویدانتا کی امیج ہمیشہ سے ہی ماحولیات اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والی کمپنی کی رہی ہے۔  دلچسپ یہ ہے کہ کمپنی نریندر مودی حکومت کے ‘وکاس یجنڈہ ‘کے علم برداروں میں سے ایک ہے۔

مودی کے لندن دورے کے وقت ویدانتا  گروپ نے وہاں کے اخبار میں ان کے استقبال کے  اشتہار چھپوائے تھے (فوٹو بشکریہ : ٹوئٹر)

مودی کے لندن دورے کے وقت ویدانتا  گروپ نے وہاں کے اخبار میں ان کے استقبال کے  اشتہار چھپوائے تھے (فوٹو بشکریہ : ٹوئٹر)

نئی دہلی: اپریل میں جب وزیر اعظم نریندر مودی لندن کے دور پر تھے تب ویدانتا کے مالک انل اگروال اس وقت کافی پریشان چل رہے تھے۔  مظاہرین تمل ناڈو میں ان کی  تانبہ کمپنی کے باہر مظاہرہ کر رہے تھے اور مودی کے برٹن آنے سے دو ہفتے پہلے ان کی کمپنی کو فوری طور پر ریاستی حکومت کی طرف سے اجازت نہیں لینے کی وجہ سے بند کر دیا گیا تھا۔

انل اگروال اس بیچ مودی کے سفر سے امید لگائے بیٹھے تھے۔  پچھلی بار جب 2015 میں مودی برٹن کے سفر پر گئے تھے تب ویدانتا نے فرنٹ پیج پر مودی کے استقبال میں پورے صفحے کا  اشتہار دیا تھا اور اس بار بھی کچھ ایسا ہی  اشتہار مبینہ طور پر ویدانتا نے مودی کے استقبال میں دیا تھا۔سینسر بورڈ کے چیئر مین   پرسون جوشی کا مودی کے انٹرویو لینے کے ایک دن بعد ہوئے ہندوستان برٹن سی ای او اجلاس میں انل اگروال بھی شامل تھے۔  اس اجلاس میں وزیر اعظم مودی کے ساتھ برٹن کی وزیر اعظم ٹیریزا میں بھی شامل تھیں۔

اس دوران ماحولیات  اور آلودگی کو لےکر توتی کورن کے اسٹارلائٹ  تانبہ  فیکٹری کے باہر ہو رہی  تحریک پر کبھی دھیان نہیں دیا گیا۔  اس ہفتے اس تحریک میں شامل 11 لوگوں کو پولیس نے گولی مار دی۔ مودی کا لندن سفر سے کچھ ہی ہفتے پہلے برٹن میں رہ رہے تملوں نے لندن میں ویدانتا کے مالک کے گھر کے باہر  مظاہرہ کیا تھا۔

اس پر کوئی بھی رد عمل دینے کے بجائے انل اگروال نے ٹوئٹ کیا، ‘ # PMInLondon کو سننا خوش کن ہے۔  انہوں نے کہا ہے کہ ایک لاکھ گاؤں کو پچھلے چار سالوں میں آپٹکل فائبر  سے جوڑا گیا ہے۔  ہمیں فخر ہے کہ SterliteTech ڈجیٹل انڈیا کے ویژن کو پورا کرنے میں اپنا اہم کردار نبھا رہی ہے۔  # BharatKiBaat ‘

مختصر ا ًبات یہ ہے کہ کیسے ماحولیاتی اور انسانی حقوق کےاصولوں کی خلاف ورزی کرنے کو لےکر ویدانتا کی تنقید ہو رہی ہے اور اسی کے ساتھ وہ مودی حکومت کے اندر ایک اہم کارپوریٹ ساجھےدار بھی بنی ہوئی ہے۔حال کے سالوں میں ویدانتا نے ثقافتی سرگرمیوں میں خوب اقتصادی مدد دی ہے۔  پھر بات چاہے لندن میں ہوئے جئے پور لٹریچر فسٹیول کی ہو یا پھر ڈاکیومینٹری فلم سازی کی۔ سماجی بیداری والے پروگراموں میں بھی اس نے شراکت داری نبھائی ہے۔

اسٹرلائٹ کاپر کا توتی کورن یونٹ (فوٹو : پی ٹی آئی)

اسٹرلائٹ کاپر کا توتی کورن یونٹ (فوٹو : پی ٹی آئی)

سال 2000 سے لےکر 2010 تک اڑیسہ کے لانجی گڑھ ضلع‎ اور نیم گری پہاڑیوں میں چلائے گئے ویدانتا کے ایلیومنا اور باکسائٹ کھدائی آپریشن کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے تھے۔  اس سے کمپنی کی امیج آلودگی کنٹرول کے اصولوں اور قبائلی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والی ایک کمپنی کی بنی۔ان دس سالوں میں کمپنی نے کانگریس اور بی جے پی کو چندہ بھی دیا، جو غیر ممالک سے چندہ لینے کا قانون (ایف سی آر اے) کی خلاف ورزی ہے۔  دی وائر نے اس کا تفصیل سے تجزیہ بھی کیا ہے۔

کمپنی کی طرف سے ماحولیاتی تحفظ کے معیارات کی خلاف ورزی کرنا جلد ہی لوگوں کی نظر میں آ گیا۔  نہ صرف مقامی کارکن بلکہ عالمی سرمایہ کاروں اور اداروں کا بھی دھیان اس جانب گیا۔  ‘ ماحولیاتی تحفظ کے معیارات اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی ‘ کے مسئلے پر سال 2007 میں ناروے کے سرکاری پینشن فنڈ نے کمپنی سے اپنے ہاتھ واپس کھینچ لئے۔

تین سال بعد جوزف راؤنٹری چیریٹبل ٹرسٹ جیسے اس کے اہم سرمایہ کار نے بھی اسی وجہ کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے شیئر بیچ ڈالے۔  ‘ اڑیسہ  میں جنگل قوانین کی خلاف ورزی ‘ کرنے کی وجہ سے اسی سال ہندوستان کی ماحولیاتی وزارت نے اس سے ماحول سے متعلق منظوری واپس لے لی تھی۔اپریل 2010 میں فوربس انڈیا نے ایک گہری جانچ کرتے ہوئے اسٹوری کی تھی جس کا عنوان تھا، ‘ کین ویدانتا فائنڈ اٹس سول؟ ‘ (کیا ویدانتا اپنی ضمیر کی سن سکے‌گا؟  ) اور انل اگروال کو اس میں اخلاقیات کے دوراہے پر کھڑا ہوا دکھایا گیا تھا۔

ویدانتا کے خلاف مظاہرہ کرتے کارکن (فوٹو : پی ٹی آئی)

ویدانتا کے خلاف مظاہرہ کرتے کارکن (فوٹو : پی ٹی آئی)

اپنی امیج سدھارنے کو لےکر ویدانتا نے کارپوریٹ سوشل ریسپانسبلٹی (سی ایس آر) کی طرف رخ کیا اور عوام کے درمیان پہنچی۔  2005 میں کمپنی کے اندر سی ایس آر کی ٹیم بنائی گئی۔انل اگروال کی امیج سدھارنے کی قواعد کو لےکر فوربس کے مضمون میں کمپنی کے ایک گمنام سابق افسر کے حوالے سے کہا گیا ہے، ‘ اپنی بات چیت میں چیئر مین خود کو ایسے پیش کرتے ہیں جیسے وہ سماجی ذمہ داری کے کاموں میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔  لیکن ان کے ماتحت کام کرنے والے لوگ جب ایسا کرتے ہیں تو ان کو تعجب ہوتا ہے۔  نہیں تو اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے کہ سب سے خراب نتیجہ دینے والے افسروں کو سی ایس آر میں جگہ ملی تھی؟ ‘

کمپنی نے کچھ لمبے وقت سے وعدے کئے ہوئے پروجیکٹ جو کبھی پورے نہیں ہوئے جیسے چھتیس گڑھ میں ایک کینسر ریسرچ سینٹر کا قیام اور اڑیسہ میں اربوں ڈالر کی لاگت سے عالمی سطح  کی بنائی جانے والی یونیورسٹی کو ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا۔  اس کے بدلے اس نے کچھ اور نئے وعدے کئے۔میڈیا کمپنیوں کے ساتھ کچھ ساجھے داری کی گئی اور اس کو لےکر مہم چلائی گئی۔  2013 میں این ڈی ٹی وی نے اعلان کیا کہ اس نے ویدانتا کے ساتھ ساجھے داری کی ہے اور پرینکا چوپڑا نے ‘Our Girls: Our Pride ‘ نام سے ایک مہم کی شروعات کی۔ یہ مہم غریب لڑکیوں میں تعلیم، صحت اور ان کی پرورش کو لےکر بیداری پھیلانے سے جڑی ہوئی تھی۔

اسی سال ویدانتا نے فخر کے ساتھ اعلان کیا کہ اس کی الگ الگ کمپنیوں نے سماجی شعبوں کے کاموں پر 300 کروڑ سے زیادہ خرچ کئے ہیں۔  یہ اس سال اس کے منافع کا تین فیصدی حصہ تھا جو کہ 2 فیصدی کی ہندوستانی کمپنیوں کی ضروری حد سے زیادہ تھا۔2014 میں کمپنی کو نیمگری کی پہاڑیوں میں باکسائٹ کی کھدائی سے روک دیا گیا تھا۔  اس وقت انل اگروال نے اپنی جائیداد کا 75 فیصدی حصہ عطیے میں دینے کا وعدہ کیا تھا جو کہ تقریباً 23 ہزار کروڑ روپے ہوتے ہیں۔  تب سے کئی مواقع پر وہ یہ بتانا نہیں بھولتے کہ اس پیسے کا بڑا حصہ وہ ‘ ہندوستان کے انسانی وسائل میں سرمایہ کاری ‘ کر رہے ہیں اور سات سال سے کم عمر کے بچوں کی بہتری کے لئے لگا رہے ہیں۔

اسی دوران ویدانتا کے کئی کوششوں کو اپنے دامن میں لگے داغوں کو دھونے اور اپنی امیج سدھارنے کی کوشش کے بطور دیکھا گیا۔2012 میں کمپنی نے شارٹ فلموں کا مقابلہ کا انعقاد کیا۔  اس میں کمپنی کے سماجی کاموں سے پڑنے والے اثرات کے اوپر فلم دکھانے کو کہا گیا۔  ویدانتا کو اس وقت بہت ہی شرمندگی جھیلنی پڑی جب مقابلہ کے جیوری منڈل میں شامل دو ممبر گل پناگ اور شیام بینیگل نے ماحولیات کو لےکر کمپنی کے خراب ریکارڈ کی وجہ سے خود کو پروگرام  سے الگ کر لیا۔

شیام بینیگل نے تب رد عمل دیا تھا، ‘ میرا اصل عقیدہ مجھے اس کے لئے حامی بھرنے سے منع کرتا ہے۔  ‘ گل پناگ نے ایک قدم اور آگے بڑھتے ہوئے ٹوئٹ کیا، ‘ میری بدقسمتی کہ مجھے ابھی اس کے بارے میں پتا چل رہا ہے۔  مجھے نہیں پتا تھا کہ یہ مقابلہ ویدانتا کی ستائش کے لئے تھا۔  میں نے اس سے خود کو الگ کر لیا ہے۔  ‘چار سال بعد 2016 میں جب کمپنی لندن میں جئے پور لٹریچر فسٹیول کا انعقاد کر رہی تھی اس کو مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔  سینکڑوں ماہرین تعلیم اور قلمکاروں نے اس کے خلاف مہم چھیڑ رکھی تھی اور ‘ ویدانتا جےایل ایف ‘ لندن ‘ کا بائیکاٹ کرتے ہیں ‘ کا نعرہ دیا۔  اس وقت قلم کاروں نے کہا کہ اس ‘ بےشرم پی آر ابھیان ‘ کے خلاف ہماری آواز آلودگی، بیماری، ظلم وستم، نقل مکانی اور غریبی جھیل رہے لوگوں کے ساتھ متحد کی نمائش  کرنے کے لئے ہے۔  ‘

2010 میں لندن میں ویدانتا کے خلاف ایک مظاہرہ (فوٹو : رائٹرس)

2010 میں لندن میں ویدانتا کے خلاف ایک مظاہرہ (فوٹو : رائٹرس)

اڑیسہ اور چھتیس گڑھ میں مقامی سطح پر آدیواسی کمیونٹی کے درمیان اپنی امیج سدھارنے کے لئے میڈیا رپورٹوں کو متاثر کرنے کے لئے ویدانتا کی جم کر تنقید ہوئی۔جون 2008 میں ہندوستانی ایکٹیویسٹس اور فلم سازوں کی ایک جماعت نے، جس میں ارون دھتی رائے اور سنجے کوا بھی شامل تھے، نے تہلکہ  کی ایک رپورٹ کی تنقید کی تھی۔  یہ رپورٹ کمپنی کے لانجی گڑھ میں واقع ایلیومنا پروجیکٹ پر تھی۔  اس کی ایک اسٹوری میں یہ کہا گیا تھا کہ ویدانتا کے باکسائٹ کھدائی پروجیکٹ کو لےکر جو تنقید ہوئی تھیں کمپنی نے اس کے عوض میں بازآبادکاری پیکیج دےکر اس کی بھرپائی کر لی ہے۔  اس لئے مقامی لوگوں کی مخالفت کا کوئی مطلب نہیں تھا۔

ایکٹیوسٹس نے اپنے کھلے خط میں لکھا ہے، ‘ اڑیسہ  میں ویدانتا کے ایلیومنا پروجیکٹ کے بارے میں ‘ ببھوتی پتی ‘ کی اسٹوری ‘ لانجی گڑھ میں نیا یگ ‘ (جون 21) میگزین  کے مقصد پر گہرا شک ظاہر کرتا ہے۔  ” یہ اسٹوری ان باتوں کوبیہودہ  بتاتی ہے جس کے بارے میں سب  کو پتا ہے ۔یہ مدعا جس میں اربوں ڈالر کی بات ہو یہ فکر کا موضوع ہے کہ تہلکہ اپنی ہی اچھی رپورٹنگ کے ریکارڈ کو اچانک سے تباہ کرنے میں لگی ہوئی ہے۔  لانجی گڑھ یا پھر دوسرے جگہوں پر ایسے لوگوں کی کوئی کمی نہیں جو اس کو ویدانتا کے پروپگینڈہ کے ایک پرچے کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔  ‘

اس کے بعد اگست 2014 کارواں رسالہ میں بتایا گیا ہے کہ کیسے لانجی گڑھ میں جو بڑے پیمانے پر سماعت کی گئی تھی، اس کو مین اسٹریم کے میڈیا نے غلط طرح سے پیش کیا تھا کیونکہ حکومت اور کمپنی کو ‘ اس بات کی جلدی تھی کیسے وہ اس بڑے پیمانے پر سماعت کو کامیاب اعلان ‘ کر دے۔ یہ بڑے پیمانے پر سماعت ویدانتا کے ایلیومنا پروجیکٹ کے ممکنہ توسیع کو لےکر تھی۔

مقامی میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق، ڈونگاریا کونڈ کے گاؤں والوں نے اس اجلاس کی واقعی میں مخالفت کی تھی۔  ان لوگوں نے مائکروفونس چھین لئے تھے اور ‘ ویدانتا کے خلاف نعرے ‘ لگائے تھے۔  ان لوگوں نے ‘ مقامی لوگوں کی غیر موجودگی میں اس بڑے پیمانے پر سماعت کو کرنے اور حکمراں بیجو جنتادل اور کمپنی کے افسروں کی ملی بھگت ‘ پر سوال کھڑے کئے تھے۔حالانکہ جیسا کہ کارواں نے اس جانب دھیان بھی دلایا ہے کہ یہ بات مین اسٹریم کے میڈیا رپورٹ سے ندارد تھی۔  اس کے بدلے ان رپورٹس میں ویدانتا اور ریاستی حکومت کے افسروں کی طرفداری ہی اہم طور پر پیش کی گئی تھی۔

پچھلے چار سالوں میں انل اگروال اور ان کی کھدائی سمراجی خود کو مودی حکومت کی ترقی کے ایجنڈے کے ساتھ پوری طرح سے  یک رنگی بنے ہوئے ہیں۔  2014 کے عام انتخابات کے ایک مہینے کے بعد ہی اگروال نے صحافیوں سے کہا تھا، ‘ پوری دنیا مودی سرکاری کے انتظار میں تھی۔  ‘تب سے ویدانتا مرکزی حکومت کی ترقی سے متعلق اسکیموں کی مضبوط حامی بنی ہوئی ہے۔  اکتوبر 2014 میں انل اگروال نے اعلان کیا کہ وزیر اعظم مودی کے ‘ سوچھ بھارت ‘ ابھیان کو کمپنی کی طرف سے چلائے جا رہے ‘ مریادہ ‘ مہم کا ساتھ ملے‌گا۔

کمپنی کے تمام ملازم سوچھ بھارت ‘ ابھیان میں حصہ لیں‌گے۔   گروپ کی ایک کمپنی ہندوستان جینک پہلے سے ہی راجستھان کے دوردراز علاقوں میں تیس ہزار ٹوائلٹ بنانے میں لگی ہوئی ہے۔حالانکہ تمام ہندوستانی کمپنیاں اکثر سرکاری اسکیموں کو لےکر سی ایس آر فنڈ دینے کا وعدہ کرتی ہے، پھر بھی ویدانتا کی موجودگی ہرجگہ ہے۔  خواتین اور بچوں کی ترقی کی وزارت کے ساتھ ساجھے داری میں کمپنی کی 4000 آنگن واڑیوں کو ‘ نند گھر ‘ کے طور میں فروغ دینےکی اسکیم ہے۔  اس کا مقصد بچوں کی صحت، تعلیم اور عورتوں میں مہارت پیدا کرنا ہوگا۔

انل اگروال ،فوٹو:yosuccess.com

انل اگروال ،فوٹو:yosuccess.com

انل اگروال نے ان منصوبوں میں ذاتی دلچسپی دکھائی ہے جو وزیر اعظم مودی کے دل کے قریب ہیں۔  2017 کے آخر میں لندن میں نتن گڈکری نے اس بات کا اعلان کیا تھا، ‘ انل اگروال نے پٹنہ میں گنگا کے ساحل کو خوبصورت بنانے کی ذمہ داری لی ہے۔  ‘گڈکری اس وقت کسی ایسے امیر ہندوستانی کی تلاش میں تھے جس کو گنگا اور ہندوستان سے جذباتی سطح پر جوڑا جا سکے۔  انل اگروال نے بعد میں دی ٹیلیگراف سے کہا تھا، ‘ نتن گڈکری جی نے مجھے پٹنہ کی گنگا کے ساحل کو خوبصورت بنانے کی تجویز دی جو کہ میری جائے پیدائش ہے۔  گڈکری جی ایک جدید ہندوستان جو اپنی تہذیب اور اقدار سے جڑا ہو، کی تعمیر کے لئے ایک دوراندیش آدمی ہے۔  گنگا کی کایاکلپ کرنے کی اسکیم اس کی ایک مثال ہے۔  میں نے خوشی خوشی اس کو قبول‌کر لیا ہے۔  مجھے بہت خوشی ہوئی اس بیش قیمت منصوبہ سے جڑ‌کر۔  ‘

انہوں نے آگے یہ بھی بتایا تھا کہ انہوں نے گڈکری کو لندن میں اپنے گھر پر آنے کا دعوت نامہ بھی دیا ہے۔  صنعتی دنیا کے ذرائع کا ماننا ہے کہ کھدائی کاروبار کی دنیا کا یہ بے تاج بادشاہ لندن میں مودی حکومت کا سب سے اہم آدمی ہے۔مئی 2017 میں برٹن میں مودی حکومت کی اجالا یوجنا کو سب سے پہلے ویدانتا نے ہی اپنائی تھی۔  اس اسکیم کے تحت تمام پرانے بلب ہٹاکر ان کی جگہ توانائی کی بچت کرنے والے ایل ای ڈی بلب کو رواج میں لانا تھا۔  وزیر کوئلہ پیوش گوئل جو اس وقت برٹن میں تھے، نے ویدانتا اور ہندوستانی ہائی کمیشن کو ایل ای ڈی بلب دےکر ان اسکیم کی شروعات کی۔

گوئل نے اس وقت کہا تھا، ‘ برٹن میں اجالا کو لےکر بڑے تجارتی امکانات ہیں۔  یہ یوروپ کے دوسرے ممالک میں اس اسکیم کے شروع ہونے کی بنیاد بھی بن سکتی ہے۔  ہم نے لندن کے ویدانتا  گروپ کے ساتھ اس کی شروعات کی ہے اور مجھے ا س کے لندن جیسے عالمی شہر میں کامیاب نہیں ہو سکنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔  ‘

ادھر توتی کورن میں مظاہرہ جاری ہے اور بدھ کو ایک اور کی موت ہونے کے ساتھ ہی مرنے والوں کی تعداد 12 پہنچ چکی ہے۔  لوگوں کا غصہ دیکھ‌کر نہیں لگتا کہ وہ ابھی خاموش ہونے والے ہیں۔  بدھ کی شام ریاست کے چیف سکریٹری نے اس علاقے اور پاس کے ضلعوں میں اگلے چار دنوں کے لئے انٹرنیٹ بند کرنے کا حکم دئے ہیں۔  اس سے یہ پتا چلتا ہے کہ مقامی انتظامیہ کو لگتا ہے کہ حالات سنبھلنے والے نہیں ہیں۔ویدانتا  گروپ، ریاستی حکومت اور مرکز کی ماحولیاتی وزارت اس وقت اس پر کیسا رد عمل دیتی ہے وہ کافی اہم ہوگا۔  لیکن ایسا لگتا ہے کہ اور زیادہ سی ایس آر اور دوسرے پروگراموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے سے یہ مسئلہ سلجھنے نہیں جا رہاہے۔