فکر و نظر

کیا وزیر اعظم کے رمضان والے ٹوئٹ میں یہ پیغام ہے کہ اردو دراصل مسلمانوں کی زبان ہے؟

کیا وزیر اعظم اتنے معصوم ہیں، کیا انھیں  نہیں معلوم کہ ان کا یہ ٹوئٹ عوام میں ایک  پیغام دے گا؟ نریندر مودی نے اپنا کام کر دیا ہے، اب  آپ بھلے ہی یہ راگ الاپتے رہیے کہ اردو مسلمانوں کی زبان نہیں ہے۔

فوٹو: نریندر مودی ڈاٹ ان

فوٹو: نریندر مودی ڈاٹ ان

کیا اردو اسلامی زبان ہے ؟کیا اردو مسلمان ہے ؟ کیا اردو مسلمانوں کی زبان ہے؟یعنی اردو اسلام  اور مسلمان ، اس باب میں اپنی بات کہنے سے پہلے میں آپ کو  دہلی  کے ایک کالج کا واقعہ سنانا چاہتی ہوں۔دراصل یہ واقعہ میری ایک دوست کے ساتھ پیش آیا تھا،ہوا یوں کہ جب وہ کالج میں انگریزی پڑھانے گئی تو اس کی Identityکو اس کے ساتھ جوڑ کر دیکھا ہی نہیں گیا بلکہ اسٹریو ٹائپنگ بھی کی گئی ۔چونکہ وہ حجاب پہنتی تھی تو طلبا نے پہلے ہی تصور کر لیا کہ میڈم کو انگریزی کیا آئے گی، اور کیا پڑھائیں گی،ان سے اردو کے شعر سنانے کوکہتے ہیں۔ جب اس نے انگریزی بولناشروع کیا اور صاف طور پر یہ کہا کہ اس کو اردو نہیں آتی تو کئی اسٹوڈنٹ  کو حیرت ہوئی۔

بعد میں کچھ بچوں  نے اس سے یہ کہتے ہوئے معذرت بھی کی کہ میم آپ کےحجاب کی وجہ سے ہم نے آپ کو مس انڈراسٹینڈ کیا۔ہمیں لگا آپ کو اردو آتی ہوگی، انگریزی نہیں۔یہ واقعہ ایک مثال ہے ،  اردو کے مسلمان ہونے کی اور مسلمانوں کے اردو بن جانے  کی۔ ایسی کہانیاں اب عام ہو گئی ہیں۔اردو اور مسلمانوں  میں فرق مٹ گیا ہےاور یہی آج کی سچائی ہے۔جی ، اردو مسلمان ہے اس لیے بھی  یہ بات  اب پختہ رنگ اختیار کر چکی ہے کہ ہر مسلمان کو اردو آنی چاہیے۔ کسی بھی لیول پر اردو پڑھ رہے طلبا مسلمان ہی تصور کیے جاتے ہیں ، بلکہ ہوتے ہیں مسلمان ۔ یوں مسلمانوں پر اردو پڑھنا فرض ہو گیا۔ اس کا اثر کچھ یوں بھی نظر آتا ہے کہ غیر اردو شعبہ میں اگر کوئی مسلمان لڑکی حجاب پہن کر جائے تو یہ مان لیا جاتا ہے کہ اسے اردو ضرور آتی ہوگی، مسلمان جو ٹھہری۔

تواردومسلمانوں کی زبان ہے‘ ، ایک سیاسی حقیقت ۔ اس سیاسی کھیل کی سچائی چاہے جو ہو لیکن اس کی تازہ ترین مثال ہمارے وزیر اعظم کا اردو میں کیا گیا ٹوئٹ ہے۔ جی گزشتہ دنوں ہمارے وزیر اعظم نے رمضان کی مبارک باد دیتے ہوئے اردو میں  ٹوئٹ کیا تھا۔حالانکہ اس سے پہلے وہ فارسی،عربی اور دنیا بھر کی دوسری  زبانوں میں بھی ٹوئٹ کر چکے ہیں۔لیکن  قابل غور بات یہ ہے کہ اردو زبان میں ہی رمضان کی مبارک باد دینے کا خیال وزیر اعظم کو کیوں آیا؟کہیں ایسا تو نہیں کہ نریندر مودی اپنے اس ٹوئٹ کے ذریعے عام لوگوں کو یہ پیغام دینا چاہ رہے ہیں کہ اردو مسلمانوں کی زبان ہے ۔

اس طرح کیا مسلمانوں کو مبارک باد دینے کے لیے اردو کا انتخاب کسی سیاسی پس منظر کی داستان نہیں سناتا؟مبارک باد کسی بھی زبان میں دی جا سکتی تھی۔ لیکن خاص طور پر اردو کا انتخاب یہ پیغام  دیتا ہے کہ ’اردو مسلمانوں کی زبان ‘ہی نہیں اسلامی زبان بھی ہے۔گویا وزیراعظم نے بھی اردو کی اسٹیریوٹائپنگ میں وہی رول ادا کیا ہے جو عام طور پر لوگوں کے ذہن میں ہے۔کیا وزیر اعظم اتنے معصوم ہیں، کیا انھیں  نہیں معلوم کہ ان کا یہ ٹوئٹ عوام میں ایک  پیغام دے گا؟ نریندر مودی نے اپنا کام کر دیا ہے، اب  آپ بھلے ہی یہ راگ الاپتے رہیے کہ اردو مسلمانوں کی زبان نہیں ہے۔ بے سر کی راگنی ویسے بھی کون سنتا ہے؟جاننے والی بات یہ بھی ہے کہ  وزیر اعظم کی پرسنل ویب سائٹ کا اردو ورژن بھی موجود ہے ،جس میں زیادہ تر تصویریں حجاب اور بر قع  پہننے والی خواتین اور ٹوپی پہننے والے مسلمانوں کے ہی نظر آتے ہیں ۔ایسے میں یہ بات صرف الزام نہیں کہ مودی اردو کے ساتھ مسلمان کو اتفاقیہ طور پر جوڑ رہے ہیں۔

ویسے یہ سوال بھی کیا جانا چاہیے کہ اس سے پہلے کبھی اردو میں وزیراعظم نے ہندوستانی عوام کو کوئی پیغام دیا ہے ، کوئی مبارک باد دی ہے؟ اگر نہیں تو اردو میں رمضان کی مبارک باد اس کی وضاحت کے لیے کافی ہے کہ’اردو مسلمانوں کی زبان ہے‘۔ تو کیا اب ٹوئٹ بھی ہندو اور مسلمان ہو گئے ہیں؟ کیا یہ مان لینا چاہیے کہ مسلمانوں کو مبارک باد اردو میں ہی دی جا سکتی ہے؟وزیر اعظم کا ٹوئٹ تو کم از کم یہی کہتا ہے ۔حالانکہ انھوں نے اردو کے بعد انگریزی میں بھی رمضان کی مبارک باد دی لیکن اردو کے بعد۔کیوں ؟ یہ سوال شاید نہیں کیا جانا چاہیے کیوں کہ سیاست نے اردو کا مذہب منتخب کر لیا ہے  اور یہ صرف بی جے پی کی حکومت میں نہیں ہوابلکہ یہ سیاست کانگریس نے بھی خوب کی ہے۔ مسلمانوں کی اکثریت والے علاقوں میں بینر، پوسٹر اور تمام طرح کی اپیل اردو میں آخر کیوں نظر آتی ہے؟ اگر اردو مسلمان نہیں ہے تو عام جگہوں پر بھی یہ اشتہارات کیوں نہیں ؟سیاسی جواب مت دیجیے گا؟

فوٹو: ٹوئٹر اسکرین شاٹ

فوٹو: ٹوئٹر اسکرین شاٹ

خیراب سوال یہ بھی ہے کہ کیا سوشل میڈیا کا پلیٹ فارم ان باتوں کے لیے  اسپیس بن گیا ہے؟گجرات کا سی ایم رہتے ہوئے وجود میں آیا  نریندر مودی کا اردو ٹوئٹر ہینڈل شاید اسی  طرف اشارہ ہے۔ یہ ٹوئٹر ہینڈل مودی کا  آفیشیل ٹوئٹر اکاؤنٹ نہیں ہے لیکن وہ خود اس کو فالو کرتے ہیں۔ اس پر ساورکر کو لے کر اردو میں کیے گئے ٹوئٹ بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ شاید یہ بھی مسلمانوں کو لبھانے کی ایک کوشش تھی اور سی ایم سے پی ایم تک کی کرسی کا ایک سفر بھی؛یہ ہینڈل 2014 کے اس سفر کی کہانی کوبخوبی بیان کرتا ہے اور اس کے بعد خاموشی اختیار کر لیتا ہے۔ 26 مئی کو مودی نے وزیر اعظم کا حلف لیا اور 28 مئی کو ساورکر کے اس آخری ٹوئٹ کے بعد  یہ ٹوئٹر ہینڈل خاموش ہے۔

یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ وہی مودی ہیں جنھوں نے 2011 میں ایک سدبھاؤنا پروگرام کے تحت’ٹوپی‘ پہننے سے انکار کر دیا تھا۔ جس کی وضاحت انھوں نے کچھ یوں کی تھی کہ وہ ان رسم و روایات میں حصہ لینا ضروری نہیں سمجھتے ،جو ان کے عقائد کا حصہ نہیں ہیں۔ خیر یہ تصویر کا دوسرا رخ ہے۔ یہاں اہم سوال یہ ہے کہ وزیراعظم کو اردو میں ٹوئٹ کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ کیا یہ  Tokenismسیاست کی ایک مثال نہیں؟ ان سب باتوں کی روشنی میں  یہ تو یقینی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ اردو واقعی مسلمانوں کی زبان ہے اور ملک کا وزیر اعظم  ضرورت پڑنے پر مسلمانوں سے اسی کی زبان میں بات کرسکتا ہے۔

آپ کو اب بھی یقین نہیں آ رہا تو ماہ رمضان میں اردو میں نکلنے والا کوئی بھی اخبار اٹھا کر دیکھئے۔’جمعہ  مبارک ‘اور رمضان کے فضا ئل سے کئی صفحات بھرے ہوتے ہیں۔ ان کے مدیران رمضان میں اور جمعہ کے دن خبریں شائع کرنے کا کام نہیں بلکہ نیکیاں کمانے کا کام کرتے  ہیں۔ ان مخصوص ایام میں یہ اخبار کم دینی رسالے زیادپ معلوم پڑتے ہیں ۔ہندوستانی مسلمانوں کے مسائل اور اسلامی تہذیب دو الگ الگ چیزیں ہیں۔اخبار کے صفحات ’جمعہ مبارک‘ اور’ رمضان میں یہ کریں ،وہ نہ کریں‘ ٹائپ کی چیزوں سے بھرنے والے مدیران بھی یہ ثابت کرنے میں ہمارے وزیر اعظم سے ذرا بھی پیچھے نہیں ہیں کہ اردو مسلمانوں کی زبان ہے۔ پھرہم اور آپ بھی مان لیتے ہیں ۔میری اس بات پر اعتراض کیا جا سکتا ہے پھر سوال یہ ہے کہ کسی اور زبان کےاخبار میں کتنی باتیں اسلام سے متعلق شائع ہو تی ہیں؟ اگر نہیں ہوتی ہیں تو اردو اخباروں نے یہ ٹھیکہ کیوں لیا ہوا ہے۔ ظاہر ہے جواب وہی ہے کہ ’اردو مسلمان‘ ہے ۔ شاید اس لیے بھی بھگت سنگھ نے اردو اخباروں کو مسلمانوں کا اخبار کہہ کر مخاطب کیا تھا:

زمیندار اور سیاست وغیرہ مسلمان- اخباروں میں تو عربی کا زور رہتا ہے ،جسے ایک عام آدمی سمجھ بھی نہیں سکتا۔ ایسی حالت میں ان کا پرچار کیسے کیا جا سکتا ہے؟

واضح ہو  کہ یہ اس وقت کے دو بڑے اردو اخبارات ہیں ، جن کا ذکر بھگت سنگھ کر رہے ہیں۔ان باتوں سے قطع نظراردو اخباروں میں  گنگا جمنی تہذیب کے کتنے دھارے بہتے نظر آتے ہیں یہ بتانے کی ضرورت شاید نہیں ہے۔  اسی سلسلے کی اگلی کڑی کے طور پر اردو اکیڈمیز میں ہونے والی افطار پارٹی کو دیکھا جا سکتا ہے۔جو ادارے  زبان کی فلاح و بہبود کے لیے قائم کیے گئے ہیں ،وہاں مذہبی رسومات کی ادائیگی کس ضرورت کے تحت پیش آتی ہے؟ یہ سوال بھی کیا جانا چاہیے۔  کانگریس ہی وہ پارٹی ہے جس نے اردو اکیڈمیز میں افطار  پارٹی  کا سلسلہ شروع کیا تھا۔باقاعدہ وزیر اعلیٰ کی طرف سے یہ اہتمام کیا جاتا رہا ہے۔  تو یہ کہنا مشکل ہے کہ اس سیاست میں کس پارٹی کا کتنا رول رہا ہے۔ لیکن کانگریس کا دامن بھی اس معاملے میں بے داغ نہیں ہے۔

تو گویا اردو مسلمان ہے تو ہر مسلمان کو اردو آنی چاہیے لیکن آپ کو یہ بھی بتاتی چلوں کی مسلم اکثریت والی ریاستوں میں اردو نہیں بولی جاتی۔ جموں و کشمیر،کیرالہ، آسام ،مغربی بنگال  والوں کی زبان اردو نہیں ہے۔جبکہ ہندوستان میں مسلمانوں کی اکثریت انھیں ریاستوں میں رہتی ہے ۔ اب جی چاہے تو آپ ان کے مسلمان ہونے نہ ہونے پر بھی سوال اٹھا سکتے ہیں۔ان تمام باتوں کے بعد کیا آپ اب بھی کہیں گے کہ ’اردو مسلمانوں کی زبان‘ نہیں ہے؟ یہ تمام اشارے تو کہتے ہیں کہ ’اردو مسلمانوں کی زبان‘ ہی ہے۔اسی لیے ان کو مبارک باد دینے کے لیے وزیراعظم کا اردو میں ٹوئٹ کیا جانا غلط کہاں ، لائق ستائش ہے۔