فکر و نظر

مودی کے خلاف بن رہے مہاگٹھ بندھن کی راہ اتنی بھی آسان نہیں

کرناٹک کے وزیراعلیٰ کی حلف برداری تقریب میں یکجہتی دکھانے والے اپوزیشن  کے رہنماؤں کے سامنے سب سے بڑا سوال یہی ہے کہ کیا وہ 2019 کے عام انتخابات تک متحد رہیں‌گے؟

بینگلورو میں ایچ ڈی کمارسوامی کی حلف برداری کے دوران اسٹیج پر متحدہ ہوئے اپوزیشن کے رہنما (فائل فوٹو : پی ٹی آئی)

بینگلورو میں ایچ ڈی کمارسوامی کی حلف برداری کے دوران اسٹیج پر متحدہ ہوئے اپوزیشن کے رہنما (فائل فوٹو : پی ٹی آئی)

کرناٹک میں کانگریس جے ڈی ایس کی حکومت بن چکی ہے۔  وزیراعلیٰ ایچ ڈی کمارسوامی نے اپنا ٹرسٹ ووٹ بھی حاصل کر لیا ہے۔  مگر اس بار کرناٹک کا یہ انتخاب صرف ایک ریاست بھر کا مسئلہ نہیں رہا۔  اس انتخاب اور اس کے بعد ہوئے واقعے نے ملک کو اگلے عام انتخابات کی ایک تصویر دکھانے کی کوشش کی۔دراصل، بینگلورو میں اس حکومت کی حلف برداری تقریب کے دوران کمارسوامی اور ان کے والد 85 سالہ سابق وزیر اعظم ایچ ڈی دیو گوڑا کے استقبال میں یو پی اے صدر سونیا گاندھی، کانگریس صدر راہل گاندھی، لوک سبھا میں کانگریس کے رہنما ملکارجن کھڑگے، سماجوادی پارٹی صدر اکھلیش یادو، بسپا سپریمو مایاوتی، مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ اور ترنمول کانگریس صدر ممتا بنرجی اور این سی پی کے رہنما شرد پوار موجود تھے۔

ان کے علاوہ راجد رہنما تیجسوی یادو، لوکتانترک جنتا دل کے شرد یادو، جھارکھنڈ کے سابق وزیراعلیٰ اور جھاممو رہنما ہیمنت سورین، جھارکھنڈ کے ایک اور سابق وزیراعلی ٰبابولال مرانڈی، راشٹریہ لوک دل کے چودھری اجیت سنگھ، سی پی آئی (ایم) کے جنرل سکریٹری سیتارام یچوری، سی پی آئی کے سکریٹری ڈی راجا، کیرل کے وزیراعلی ٰپنرائی وجین، آندھر پردیش کے وزیراعلیٰ این۔ چندربابو نائیڈو، دہلی  کے وزیراعلیٰ اروند کیجریوال بھی پہنچے۔

تلنگانہ راشٹر کمیٹی کے صدر اور تلنگانہ کے وزیراعلیٰ کےچندرشیکھر راؤ ایک دن پہلے ہی دیوگوڑا اور کمارسوامی سے مل‌کر ‘انتہائی ضروری وجہوں سے ‘ تقریب میں شامل نہیں ہو پانے کا افسوس جتا گئے تھے۔  وہیں، ڈی ایم کے رہنما ایم کے اسٹالن بھی تمل ناڈو کے توتی کورن میں ہوئے گولی کانڈ کی وجہ سے نہیں پہنچ سکے کیونکہ وہ وہاں گئے ہوئے تھے۔

یعنی اگر بڑی ریاستوں کی بات کی جائے تو اڑیسہ  کے نوین پٹنایک کو چھوڑ‌کر غیر این ڈی اے جماعتوں کا ایک ہجوم بینگلورو میں لگا۔سیاست کے جانکاروں کا کہنا ہے کہ کمارسوامی کی حلف برداری کے دوران اگلے عام انتخابات میں اپوزیشن  کے ممکنہ اتحاد کی ایک تصویر بنتی نظر آئی ہے۔دراصل اپوزیشن  جماعتوں کو یہ پتا ہے کہ 2014 کے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کی کامیابی کے بعد لگاتار ہوئے اسمبلی انتخابات میں اکادکا مثالوں کو چھوڑ دیں تو یہ صاف ہے کہ موجودہ حالت میں بی جے پی ایک بڑی سیاسی طاقت ہے اور روایتی سیاسی فارمولےسے اس کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔

ایسے میں حزب مخالف لمبے وقت سے نئے سیاسی فارمولے کی تلاش‌کر رہا تھا۔  حال ہی میں ہوئے گورکھ پور اور پھول پور لوک سبھا ضمنی انتخاب میں ملی کامیابی نے اس کو ایک فارمولہ دیا تھا۔  جہاں پر روایتی مخالف دو علاقائی جماعتوں ایس پی اور بی ایس پی نے آپسی اختلاف بھلاکر بی جے پی کا مقابلہ کیا اور کامیابی پائی۔کرناٹک میں حالانکہ کانگریس نے جے ڈی ایس کے ساتھ انتخاب سے پہلے اتحاد نہیں کیا لیکن انتخابی نتیجہ آنے کے ساتھ ہی کانگریس نے اس سمت میں قدم بڑھا دیا۔  بعد میں سارے حزب مخالف جماعتوں نے اس میں شامل ہوکر اس فارمولے کو آگے بڑھانے میں مدد کی۔

ایسے وقت جب حزب مخالف کو مودی کا مقابلہ کرنے کا ایک فارمولہ مل گیا ہے اور چھوٹےبڑے تقریبا ً15 جماعتوں نے ایک اسٹیج پر آنے کی کوشش بھی کی ہے تو کئی سوال بھی کھڑے ہو رہے ہیں۔اس میں سے سب سے پہلا سوال ہے کہ کیا حزب مخالف رہنماؤں کی یہ یکجہتی 2019 میں ہونے والے عام انتخابات تک بنی رہے‌گی۔ دوسرا سوال اس کی قیادت کون کرے‌گا؟ساتھ ہی اس سے پہلے ہوئے اتحاد میں وہ کون سے عوامل تھے جو ان کو کامیاب ملی ۔  کیا وہ اس مہاگٹھ بندھن میں موجود ہیں؟

بینگلورو میں ایچ ڈی کمارسوامی کی حلف برداری کے دوران اسٹیج پر یو پی اے صدر سونیا گاندھی اور بی ایس پی رہنما مایاوتی (فائل فوٹو : پی ٹی آئی)

بینگلورو میں ایچ ڈی کمارسوامی کی حلف برداری کے دوران اسٹیج پر یو پی اے صدر سونیا گاندھی اور بی ایس پی رہنما مایاوتی (فائل فوٹو : پی ٹی آئی)

سینئر صحافی ارملیش کہتے ہیں، ‘یہ ایک بہت اچھی پہل ہے۔  اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے۔  لیکن اس میں ایک پختہ ایجنڈہ سامنے آنا چاہئے کہ جو یکجہتی بن رہی ہے اس کے بنیادی پروگرام کس طرح ہوں‌گے۔  جیسا کہ یو پی اے-1 کے وقت تھا۔  یو پی اے-1، یو پی اے-2 کے مقابلے میں زیادہ بہتر، منظم اور اچھی طرح منظم تھا کیونکہ اس کے پاس ایک ایجنڈہ  تھا۔  لیکن اس بار جو حزب مخالف یکجہتی ابھر رہی ہے اس کا مقصد صرف مودی کو روکنا ہے۔  اس میں کوئی غلط بات بھی نہیں ہے۔  کیونکہ ابھی امت شاہ اور مودی کی جوڑی جس طرح کی حکومت چلا رہی ہے، جس طرح جمہوری اداروں کو چوٹ پہنچائی جا رہی ہے اور جس طرح سے دوسری اکائی سے چھیڑچھاڑ کی جا رہی ہے۔  اس کے لئے یہ ضروری ہے۔  ‘

وہ آگے کہتے ہیں، ‘ حالانکہ میں حزب مخالف کی یکجہتی میں بہت سارے اگر مگر دیکھ رہا ہوں۔  اس کے بہت سارے مسائل ہیں۔  ابھی سونیا گاندھی کی پہل پر بہت سارے بزرگ رہنما متحد ہو رہے ہیں۔  راہل گاندھی نے بےشک اپنی امیج میں تبدیلی کی ہے لیکن اب بھی حزب مخالف کے رہنماؤں کو ایک حصہ جو بزرگ ہے۔  وہ ان کو سنجیدگی سے نہیں لیتا ہے۔  یعنی یہ کھینچ تان چلتی رہے‌گی۔  ‘

غور طلب ہے کہ یو پی اے صدر سونیا گاندھی نے کانگریس کی کمان راہل گاندھی کو سونپنے کے بعد مارچ 2018 میں کئی حزب مخالف پارٹیوں کے رہنماؤں کو ڈنر پر مدعو کیا تھا۔اس میں حزب مخالف کے تقریبا ً20 جماعتوں کے رہنما موجود  تھے، لیکن بی ایس پی سپریمو مایاوتی، ایس پی صدر اکھلیش یادو اور ترنمول کانگریس کی صدر ممتا بنرجی نے اس میں خود شامل نہ ہوکر اپنی پارٹی کے رہنماؤں کو بھیجا تھا۔  لیکن کرناٹک میں منظر کچھ الگ تھا۔  ایسے میں مہاگٹھ بندھن کو لےکر امید زیادہ ہے۔

ارملیش کہتے ہیں،ایسی حالت میں اگر کچھ علاقائی جماعت اس میں بڑا کردار نبھائیں تو وہ زیادہ بہتر ہوگا۔  بی ایس پی اور سی پی ایم دو بڑی پارٹیاں اس ممکنہ مہاگٹھ بندھن کے لئے سیمنٹ کا کام کر سکتی ہے۔  اگر یہ دو پارٹیاں کانگریس کے ساتھ متحد ہوکر دم خم کے ساتھ ایجنڈے کے تحت لڑیں‌گی تو یہ مہاگٹھ بندھن زیادہ لمبے وقت تک چل سکے‌گا اور موثر رہے‌گا۔  ‘

وہیں، سینئر صحافی ارون کمار ترپاٹھی کہتے ہیں، ‘ جہاں تک بات ابھی بن رہے مہاگٹھ بندھن کی ہے تو طےشدہ طور سے اس کے پاس مودی جیسا کرشمائی قیادت نہیں ہے۔  اس اتحاد کے پاس بی جے پی جیسی کوئی منظم پارٹی نہیں ہے جو الیکٹرورل مشینری میں بدل چکی ہے۔  اور نہ ہی اس اتحاد کے پیچھے آر ایس ایس جیسی کوئی تنظیم ہے جس کے کیڈر کا فائدہ حکمراں جماعت کو ملتا ہے۔  ساتھ ہی اس مہاگٹھ بندھن کے پاس کیرل، آندھر، بنگال اور کرناٹک جیسی ریاست چھوڑ دئے جائیں تو بڑی ریاستوں میں حکومت نہیں ہے۔  لیکن ان سب کے باوجود اگر ہم حساب دیکھیں تو یہ مہاگٹھ بندھن کے حق میں ہے۔  اتر پردیش، بہار، مغربی بنگال، مہاراشٹر، آندھر پردیش، تلنگانہ اور دوسری ریاستوں میں یہ ممکنہ مہاگٹھ بندھن نریندر مودی کو چیلنج دے سکتا ہے۔  ‘

غور طلب ہے کہ سال 2014 میں نریندر مودی زبردست اکثریت کے ساتھ ملک کے اقتدار پر قابض ہوئے تھے۔  مودی لہر نے حزب مخالف کے تمام جماعتوں کا صفایا کر دیا تھا۔  پچھلے لوک سبھا انتخاب میں کوئی بھی جماعت ان کے آگے ٹک نہیں پائی تھی۔  اہم حزب مخالف پارٹی کانگریس بھی دو عدد میں سمٹ گئی تھی۔ ایسے میں حزب مخالف کے ذریعے کی جا رہی اس کوشش پر ارون کمار ترپاٹھی کہتے ہیں، ‘ جمہوریت میں حزب مخالف کو مضبوط ہونا چاہئے۔  یہ بہت ہی بنیادی بات ہے۔  اس کے بغیر حزب اقتدار  من مانی کرنے لگتا ہے۔  مہاگٹھ بندھن بننے سے حزب مخالف مضبوط ہوگا۔  ان معانی میں یہ ممکنہ اتحاد امید جگاتا ہے بےشک جو پارٹیاں اس اتحاد میں اکٹھا ہوئی ہیں ان کی اور ان کے رہنماؤں کی ہزاروں کمیاں ہیں۔  یہ پارٹیاں جمہوری نہیں ہے۔  اگر یہ پارٹیاں اپنے اندر تھوڑی جمہوری ہوتی ہے اور اتحاد کے اپنے بنیادی پروگرام طے کرتی ہیں تو بےشک یہ بہتر ہوتا۔  ‘

جانکاروں کا یہ بھی ماننا ہے کہ بینگلورو میں کمارسوامی کی حلف برداری تقریب میں جتنے بھی جماعت اکٹھاےہوئے تھے، اس میں سے کئی جماعت ابھی اپنا جن آدھار مودی لہر میں گنوا بیٹھے ہیں۔  بی ایس پی، ایس پی، راشٹریہ لوک دل اور کہیں نہ کہیں  کانگریس پارٹی ابھی اپنے سب سے برے دور سے گزر رہی ہیں۔  ایسے میں ان جماعتوں کو لگتا ہے کہ اگر مودی اور بی جے پی کا مقابلہ کرنا ہے تو متحد ہونا پڑے‌گا۔

بینگلورو میں ایچ ڈی کمارسوامی کی حلف برداری کے دوران اسٹیج پر متحد ہوئے حزب مخالف رہنما (فائل فوٹو : پی ٹی آئی)

بینگلورو میں ایچ ڈی کمارسوامی کی حلف برداری کے دوران اسٹیج پر متحد ہوئے حزب مخالف رہنما (فائل فوٹو : پی ٹی آئی)

دوسری طرف بہت سارے سیاسی تجزیہ کار اس یکجہتی کی کامیابی پر شک بھی جتا رہے ہیں۔سینئر صحافی پردیپ سنگھ کہتے ہیں، ‘ آزادی کے بعد سے اب تک مرکزی سطح پر جتنے بھی کامیاب اتحاد ہوئے ہیں ان میں اس وہ پارٹی محور رہی ہے جس کا کئی ریاستوں میں جن آدھار ہو۔  یہ اس لئے ہوتا ہے کہ وہ ملٹی اسٹیٹ پارٹی 100 سے زیادہ رکن پارلیامان کو جتانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔  ساتھ ہی وہ دوسرے جماعتوں کو اپنا ووٹ ٹرانسفر کروا سکے۔  ابھی جو اتحاد بن رہا ہے۔  اس میں یہ امکان بالکل نہیں دکھتا ہے۔  ‘

وہ آگے کہتے ہیں، ‘ ابھی کانگریس کا جن ریاستوں میں جن آدھار ہے مثلاً مدھیہ پردیش، گجرات، چھتیس گڑھ، راجستھان، ہماچل اور پنجاب جیسی ریاستوں میں کوئی دوسری معاون جماعت ان کے ساتھ نہیں ہے اور جہاں علاقائی پارٹیاں موجود ہیں جیسے مغربی بنگال، اتر پردیش، بہار، تمل ناڈو، آندھر پردیش، تلنگانہ وہاں کانگریس کا کوئی خاص جن آدھار نہیں ہے۔  ایسے میں یہ ممکنہ اتحاد ہو بھی جائے تو ایک دوسرے کا ووٹ بڑھانے کی بہت طاقت ان کی جماعتوں کے پاس نہیں ہے۔  ہاں، یہ ایک ماحول بنانے کا کام ضرور کر سکتے ہیں کہ تمام حزب مخالف پارٹیاں بی جے پی کے خلاف متحد ہو رہی ہیں۔  ‘

اس ممکنہ مہاگٹھ بندھن کے ناقدین قیادت پر سوال بار بار پوچھ رہے ہیں۔  ان کا کہنا ہے کہ ابھی حزب مخالف جماعت ایک ساتھ نظر آ رہے ہیں، لیکن مودی کے مقابل چہرہ کون ہوگا؟  جہاں کانگریس کسی علاقائی جماعت کے رہنما کو وزیر اعظم کے چہرے کے طور پر منظور کرنے کے موڈ میں نہیں دکھ رہی ہے۔  وہیں، حزب مخالف کے بزرگ رہنما فی الحال راہل گاندھی کو پی ایم امیدوار کے طور پر منظور کرنے کو راضی نہیں دکھ رہے ہیں۔

پردیپ سنگھ کہتے ہیں، ‘ اس اتحاد کے اندر بہت سارے سوالات ہیں۔  سب سے پہلے قیادت کو لےکر جنگ ہے۔  ممتا بنرجی کانگریس سے الگ ایک فرنٹ بنانا چاہتی ہے۔  وہ ابھی دہلی آئی تھیں۔  کئی سارے جماعتوں سے ملاقات کی۔ ارون شوری، شتروگھن سنہا اور یشونت سنہا جیسے بی جے پی کے ناراض رہنماؤں سے ملاقات کی۔ سونیا سے ملاقات کی لیکن راہل سے نہیں ملیں۔  وہ راہل کی قیادت نہیں منظور کرنا چاہتی ہیں۔  بہت سارے جماعتوں کے رہنما راہل کی قیادت نہیں منظور کرنا چاہتے ہیں لیکن کانگریس راہل کی قیادت چھوڑنے کو تیار نہیں ہے۔  ایسے میں یہ اتحاد ان رہنماؤں کی خواہش زیادہ ہے لیکن زمین پر اس کی بنیاد بالکل بھی نہیں ہے۔  ‘

حالانکہ جانکاروں کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں اتحادی سیاست کی شروعات 1967 میں ہی ہو گئی تھی۔  اس دوران کئی ریاستوں میں معاہدہ کی حکومتیں بنی تھیں۔  اس دوران الگ الگ نظریات کے لوگ ایک ساتھ آئے تھے۔  بہت سارے داخلی انتشار اور چیلینجز سے نپٹ‌کر ہی غیرکانگریسی حکومتیں بنی تھی۔  ایسے میں اس مہاگٹھ بندھن کو ان چیلینجز اور داخلی انتشار سے نپٹنا پڑے‌گا۔  پارٹی اور ان کے رہنماؤں کو اپنے ذاتی مفاد، مقصد اور لالچ کو چھوڑنا پڑے‌گا۔

سینئر صحافی ارون ترپاٹھی کہتے ہیں کہ آج ملک کو ضرورت ایک ایسے ہی مہاگٹھ بندھن کی ہے۔  وہ بڑی اکثریت والی مضبوط حکومتوں کی تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں، ‘ بہوجن سماج پارٹی کے بانی کانشی رام کہتے تھے کہ ہمیں مضبوط نہیں، مجبور حکومت چاہئے۔  پچھلی کچھ دہائیوں میں ہم نے اندرا، راجیو کی مضبوط حکومتیں دیکھی ہیں اور اب نریندر مودی کی مضبوط حکومت دیکھ رہے ہیں۔  زیادہ اکثریت والی مضبوط حکومتوں کو دقت یہ ہے کہ وہ عوام کی باتوں کو ہی سننا بند کر دیتی ہیں۔  ہونا یہ چاہئے کہ سیاستداں، عوام سے ڈرے اور پارٹی، کارکن سے ڈرے۔  لیکن آج اس کا الٹا ہو رہا ہے۔  عوام، حکمرانوں سے ڈری ہوئی ہے جبکہ کارکن، پارٹی سے ڈر رہے ہیں۔  اس کی وجہ سے حکمراں عوام کےلیے مناسب فیصلہ نہیں لے رہے ہیں۔  وہ بس اپنے بیان سے اس کو عوام کی پسند دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔  ‘