ادبستان

بک ریویو : را،آئی ایس آئی اور امن کے بھرم کو کھولتی کتاب

اس کتاب سے وقتی سیاسی فائدہ اٹھانے کے بجائے ہندوستانی حکومت کو با ور کرایا جائے، کہ ہندوستانی انٹلی جنس کے اس ماہرکی باتو ں کو سنجیدگی سے لیکر امن مساعی کا آغاز کرکے عوامی امنگوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کے حتمی حل کی طرف پیش رفت کریں۔

بک لاؤنچ کی تصویر/ فوٹو: ڈی این اے

بک لاؤنچ کی تصویر/ فوٹو: ڈی این اے

پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹنٹ جنرل (ر)اسد درانی ،ہندوستانی خفیہ ایجنسی ریسرچ اینڈ اینالیسز ونگ (را)کے سابق سربراہ امر جیت سنگھ دُلت اور صحافی آدتیہ سنہاکی مشترکہ کتاب Spy Chronicles: RAW, ISI and the Illusions of Peace کے منظر عام پر آنے کے بعد اٹھا ہنگامہ، محاورہ؛چائے کی پیالی میں طوفان،کی عملی تصویرہے۔ چونکہ یہ کتاب سابق پاکستانی وزیر اعظم نوا ز شریف کے 2008 میں ممبئی پر ہوئے دہشت گردانہ حملوں کے بارے میں تہلکہ خیز انکشافات اور ایک طبقہ کی طرف سے ان پر غداری کے الزامات کی بوچھار کے فوراً بعد منظر عام پر آئی ہے۔

اس لئے اسکے مندر جات کو لےکر نواز شریف حامی خیمہ حساب برابر کرنے پر تلا ہواہے۔ 320صفحات پر محیط یہ کتاب کسی بھی طور سے توقعات کے برعکس کوئی جاسوسی تھرلر نہیں ہے۔ نہ ہی اسمیں دونوں خفیہ تنظیموں کے طریقہ کار یا کسی بھی آپریشن کا تذکرہ ہے۔ ہاں کتاب میں دونوں ملکوں کے درمیان ٹریک ٹو مکالمہ کے حوالے سے کھلے انداز میں بحث کی گئی ہے اور اس سے دونوں ملکوں کی سوچ اور طرز عمل کا اظہار بھی ہوتا ہے۔

چاہے اسامہ بن لادن کے حوالے سے یا کسی اور واقعہ کا تذکرہ ہو، یہ سبھی انکشافات پہلے ہی سے پبلک ڈومین میں ہیں۔ 2016میں امریکی صحافی سیمور ہرش نے بھی دعویٰ کیا تھا کہ ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کو ہلاک کرنے کے امریکی فوجی آپریشن میں پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کی رضامندی شامل تھی۔ ہرش کی تحقیق کو تسلیم کرتے ہوئے درانی بار بار اس کتاب میں اعادہ کرتے ہیں کہ یہ انکا تجزیہ ہے نہ کی اندرون خانہ کی کوئی خبر۔ دُلت تصدیق کرتے ہیں کہ ہندوستانی خفیہ ایجنسیاں بھی اسی تھیوری کو تسلیم کرتی ہیں۔

کتاب دراصل درانی اور دُلت کے درمیان طویل مکالموں کی ریکارڈنگ ہے، جس کو کئی نشستوں میں دنیا کے مختلف شہروں میں ٹریک ٹو کانفرنسوں کے مواقع پر صحافی آدتیہ سنہا نے ٹیپ کیا ہے۔جنرل درانی سے پہلی بار میری ملاقات تقریباً ایک دہائی قبل کولمبو میں ہندوستان  اور پاکستان کے تعلقات کے حوالے سے منعقدہ ایک ٹریک ٹو کانفرنس کے موقع پر ہوئی تھی۔ ان کی گفتگو سے اندازہ ہوا کہ وہ روایتی فوجی افسرں کے بجائے خاصے ذی فہم، روشن خیال اور عقلی استدلال کے کام لینے والے جنرل ہیں۔

بات بات پر کتابوں اور شخصیات کے اقوال کا حوالہ دینے سے بھی لگا کہ ان کا مطالعہ خاصا وسیع ہے۔ ایک عرصہ کے بعد پچھلے سال دبئی میں اسی طرح کی ایک ٹریک ٹو کانفرنس کے دورا ن ان سے دوبارہ ملاقات ہوئی۔ ان کی گفتگو اور شخصیت کو پرکھنے کے بعد میرا تجزیہ ہے کہ عقلی استدلال اور وسیع تر مطالعہ کے باوجود جنر ل درانی میں تزویراتی سوچ کی ازحد کمی ہے۔ وہ شاید واحد پاکستانی جنرل ہیں جن کی گفتگو کا حوالہ ہندوستان  کے تھنک ٹینکو ں کے سیمیناروں میں اکثر دیا جاتا ہے۔

 ابھی حال ہی میں فوج کی ایک تھنک ٹینک کے بند کمرہ میں ایک سیمینارمیں جب ایک ہندوستانی  جنرل بات بات پر جنرل درانی کا حوالہ دے رہے تھے، تو پاکستان میں ہندوستان  کے ایک سابق سفیر کو مداخلت کرکے درخواست کرنی پڑی کہ درانی کے تجزیوں کو سنجیدگی سے لینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ بقول ان کے ،پچھلی دو دہائیوں سے ان کی پاکستانی اسٹیبلش منٹ میں کوئی رسائی ہی نہیں ہے۔ سفارت کارکا مزید کہنا تھا ؛کہ درانی کا بس ایک ہی مصرف ہے کہ ہندوستانی تجزیہ کاروں کیلئے دیگر سابق پاکستانی اہلکاروں کے برعکس وہ ہمہ وقت دستیاب رہتے ہیں۔

اس کے علاوہ ہندوستانی اور مغربی دانشورں کی طرح درانی بھی کشمیر اور وہاں پائی جانے والی بے چینی کی تہہ میں جانے سے گریز کرتے ہیں۔ جس کا احساس اس کتاب کو پڑھ کر بھی ہوتا ہے۔امر جیت سنگھ دُلت نئی دہلی میں کشمیر پر حرف آخر سمجھے جاتے ہیں۔ مگر موجودہ نظا م میں وہ بھی اپنے آ پ کو الگ تھلگ محسوس کرتے ہیں۔ 1989میں ان کی پوسٹنگ کشمیر میں ہندوستان  کی بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی انٹلی جنس بیورو (آئی بی) کے یونٹ سربراہ کے طور پر ہوئی تھی ۔

 اسی وقت کشمیر میں عسکری تحریک کے دو ر کا بھی آغاز ہوا۔ایک سال بعد گورنر جگ موہن سے اختلاف کی بنا پر انہیں واپس دہلی بلا لیا گیا۔ جہاں وہ اگلے دس سال تک آئی بی کے کشمیر سیل کے سربراہ رہے۔ 1999 میں وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے انہیں را کا سربراہ مقرر کیا۔ہندوستان میں آئی بی، ملکی انٹلی جنس (خفیہ معلومات و اطلاعات) کے حصول کی انچارج ہے اور اس کا سیٹ اپ بھی خاصا وسیع ہے۔ جبکہ را کا دائرہ بیرونی ملکوں سے خفیہ اطلاعات فراہم کرنا ہوتا ہے۔

خصوصاً اس کا سیدھا ہدف پاکستان اور دیگر ہمسایہ ممالک ہیں۔ ہندوستان کے وزیر اعظم ہر روز صبح سویرے ان دو انٹلی جنس سربراہوں سے الگ الگ بریفنگ لے کر اپنے دن کا کام کاج شروع کرتے ہیں۔یعنی اپنی میز پر بیٹھنے یا کوئی میٹنگ اٹینڈ کرنے سے قبل ہندوستانی  وزیراعظم کو اس دن کے ملکی اور غیر ملکی حالات و واقعات اور ان کی نہج کا بھرپور ادراک ہوتا ہے۔ اگر وزیراعظم دورہ پر ہے، تو دونوں خفیہ ایجنسیوں کے نمائندے بھی ان کے ہم رکاب ہوتے ہیں اور وہ انہیں پل پل کی خفیہ اطلاعات پہنچاتے رہتے ہیں۔

 دُلت کی خوبی یہ رہی ہے کہ ہندوستان کے دیگر سخت گیر انٹلی جنس سربراہوں کے برعکس وہ کشمیر لیڈروں کو دھونس اور لاٹھی کے بجائے لالچ ، عہدوں اور روپیوں سے خریدنے کے خواہاں رہے ہیں۔ ان کی پچھلی کتاب Kashmir: The Vajpayee Years میں تو انہوں نے ایک طرح سے کشمیری قیادت کو کٹہرے میں لاکھڑا کیا ہے۔ دْلت کے بقول، حریت کانفرنس کے سخت گیر دھڑے کے سربراہ سید علی گیلانی کو چھوڑ کر، دیگر کشمیری رہنماؤں شبیر احمد شاہ، پروفیسر عبدالغنی بھٹ، مرحوم عبدالغنی لون، میرواعظ عمر فاروق، عسکری کمانڈر فردوس سید المعروف بابر بدر وغیرہ کے ساتھ انکے براہ راست روابط رہے ہیں۔

 گو کہ دوران جنگ  بھی دشمن کے ساتھ روابط رکھنا کوئی جرم نہیں ہے، مگر کشمیر ی لیڈران شاید دنیا کی ایک منفرد موومنٹ کے قائد ہوں گے، جو اْسی سے پیسہ اور مراعات کے خواہاں ہیں، جس کے خلاف دن رات ایک کئے تحریک بھی چلاتے ہوں۔کتاب کے مطابق کشمیر کے نیلسن منڈیلا شبیر شاہ کے سر پر 1995ء میں وزارت اعلیٰ کا سہرہ سجنے والا تھا اور 2002ء میں یہی سہر ہ عبدالغنی لون کے سپرد کیا جانے والا تھا۔مگر 1995ء میں شبیر شاہ عین موقع پر پیچھے ہٹ گئے، اور 2002ء میں لون صاحب قتل ہو گئے۔

ویڈیو: اے ایس دُلت سے دی وائر کی بات چیت

 دُلت نے اشاروں کنایوں میں یہ بھی انکشاف کیا ہے، کہ لون صاحب کی ہلاکت اور اس کے فوراً بعد حزب المجاہدین کے کمانڈر عبد المجید ڈار کی ہلاکت سے ہندوستانی خفیہ ایجنسیاں اتنی بوکھلا گئی تھیں کہ جیسے کو تیساکے اصول کے تحت یہ فیصلہ ہوا ، کہ ان ہلاکتوں کا بدلہ سید علی گیلانی کو قتل کرکے لیا جائے۔ ایک اعلیٰ سطحی میٹنگ میں جس اہلکار نے اسکا مشورہ دیا ، وہ اب وزیر اعظم نریندر مودی کا دست راست ہے۔ ، مگر مضمرات کاجائزہ لینے کے بعد اسوقت کی سیاسی قیادت نے اس کی اجازت نہیں دی۔

 موجودہ کتاب میں بھی دُ لت یہ انکشاف کرتے ہیں، کہ سابق پاکستانی صدر پرویز مشرف اپنی ز ندگی کے لیے را کے مرہون منت ہیں۔ پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کو را کی طرف سے 2004میں بر وقت خفیہ اطلاع کی فراہمی نے ہی جیش محمد کی طرف سے مشرف کو ہلاک کرنے کی سازش کو ناکام بنایا او ر اس سازش میں ملوث جیش کے اراکین کو شناخت کرنے اور ان کی گرفتاری میں را نے مدد دی۔ان میں سے دو افراد کو پشاور میں آرمی پبلک سکول پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد پھانسی پر چڑھایا گیا۔

 2003ء اور 2004ء میں کشمیر میں نسبتاً بہتر حالات کا کریڈٹ بھی دُلت اپنے جانشین سی ڈی سہائے اور آئی ایس آئی کے اس وقت کے سربراہ جنرل احسان الحق کے درمیان خفیہ ملاقات کو دیتے ہیں۔جس سے اس وقت کے نائب وزیراعظم ایل کے اڈوانی اور میرواعظ عمر فاروق کی سربراہی والے حریت کے اعتدال پسند گروپ کے درمیان مذاکرات کی راہ ہموار ہوگئی۔ کتاب کو ترتیب دینے والی صحافی آدتیہ سنہا میرے سابق ایڈیٹر رہے ہیں اور ان کے ماتحت کام کرنے کا تجربہ نہایت خوشگوار اور متاثر کن رہا ہے۔

90کی دہائی میں انہوں نے کشمیر پر خاصی رپورٹنگ کی ہے اور عسکریت پسندوں، حریت اور ہندوستان  نواز لیڈران اور خفیہ ایجنسیوں میں رسائی کیلئے معروف تھے۔ 1995میں منظر عام پر آئی ان کی کتابFarooq Abdullah: The Prodigal Son فاروق عبداللہ پر لکھی واحد سوانح حیات ہے۔

اس مشترکہ کتاب میں اگر کچھ نیا انکشاف ہے تو دُلت کی یہ دلیل ہے کہ ممبئی حملوں کی تیاریوں میں صدر پرویز مشرف بھی شامل تھے۔ ان کا کہنا ہے گو کہ حملوں کے وقت و ہ اقتدار چھوڑ چکے تھے، مگر اسکی پلاننگ اور تیاریاں انکے دور میں ہی مکمل ہوگئی تھیں۔ دلت کا استدلال ہے کہ مشرف ہندوستان  سے نالا ں تھے کہ کشمیر پر پاکستان کے روایتی موقف کو قربان کرنے کے باوجود انکے تجویز کردہ روڑ میپ پر کوئی پیش رفت نہیں ہو رہی تھی۔

اسی طرح شاید پہلی بار یہ انکشاف ریکارڈ پر آگیا ہے کہ بے نظیر بھٹو نے اپنے پہلے دور حکومت میں پنجاب میں سکھ عسکریت کو ختم کروانے میں ہندوستان  کی مدد کی تھی۔ سکھ عسکریت پسندوں کی فہرست درانی نے یا ان کے پیشرو شمس الرحمان کلو نے ہندوستان کے حوالے کی؟ اس بار ے میں درانی خاموش ہیں۔ کیونکہ اگست 1990کو ا نہوں نے ہی آئی ایس آئی کے سربراہ کا عہدہ سنبھالا تھا۔ کتاب میں درانی حیرانی ظاہر کرتے ہیں، کہ ہندوستان نے اس مدد کا فائدہ اٹھانے میں خاصی دیر کیوں لگائی؟

 دُلت کا ایک اور انکشاف ہے کہ 1975میں اندرا گاندھی اور شیخ عبداللہ کے درمیان ہوئے ایکارڈ کو اسوقت کے پاکستانی وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی تائید حاصل تھی۔ ان کے مطابق شیخ جو اسوقت محاذ رائے شماری کے قائد تھے ، نے شملہ سمجھوتہ کے بعد اپنے صاحبزادے فاروق عبداللہ کو پاکستان بھیجا۔ فاروق کی ملاقات بھٹوسے ہوئی، جس نے انکو بتایا کہ فی الوقت پاکستان، کشمیر کیلئے کچھ بھی کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ لہذا جو کچھ نئی دہلی سے مل رہا ہے ، لے لو۔ بھٹو نے کہا،’’اگر ہندوستان آپ کو امن اور پاور آفر کر رہا ہے تو لے لو۔‘‘

خیر کتاب میں دلت ہندوستانی حکومت کو مشورہ دیتے ہیں کہ اگر اس نے سوچنے کا طریقہ تبدیل نہ کیا تو مزید برہان وانی پیدا ہوں گے ۔وہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ نئی دہلی کشمیر کے ساتھ ایماندار نہیں رہا ہے۔ ان کے بقول وانی کے واقعہ سے سے انکی سوچ ہل کر رہ گئی ہے۔ہندوستان کے لئے مشکلات اتنی بڑھ گئیں کہ اجلاسوں میں مذاکرات کاروں کے چہروں پہ گھبراہٹ واضح طور پر دیکھی جا سکتی تھی۔دُلت کا کہنا ہے کہ کہ کشمیر کو ہندوستان  اور پاکستان کے درمیان ایک پل کی طرح ہونا چاہئے۔ ان کا استدلال ہے کہ دونوں ملکوں کو کشمیر پر ہی بات چیت شروع کرنی چایئے ، جو سبھی تنازعات کی جڑ ہے۔ ’’اگر آپ کشمیر پر مزید آگے آئیں گے تو لازمی طور پر آپ آگے دہشت گردی کو ختم کرنے کی طرف بڑھیں گے۔اہم بات یہ ہے کہ کشمیریوں کی ناک کو مزید زمین پر نہ رگڑا جائے،انہیں شکست کا احساس نہ دلایا جائے ۔سیاچن پر بھی اس وقت تک کوئی پیش رفت نہیں ہو سکتی جب تک کشمیر پر کوئی پیش رفت نہ ہو۔‘‘

 یہ اعتراف اگر ہندوستانی اسٹیبلش منٹ اور موجودہ حکمرانوں کے گلے اترے گا تو یقیناًجنوبی ایشیا امن کا گہوارہ ہوسکتا ہے۔ امید ہے کہ اس کتاب سے وقتی سیاسی فائدہ اٹھانے کے بجائے ہندوستانی حکومت کو با ور کرایا جائے، کہ ہندوستانی انٹلی جنس کے اس ماہرکی باتو ں کو سنجیدگی سے لیکر امن مساعی کا آغاز کرکے عوامی امنگوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کے حتمی حل کی طرف پیش رفت کریں۔