خبریں

ہریانہ: مسجد میں نماز پڑھ رہے لوگوں سے مارپیٹ، مسجد میں بھی توڑ پھوڑ

ہریانہ سے اس طرح کے ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر سامنے آئے،جس میں کچھ اینٹی سوشل لوگ  کھلے میں نماز پڑھ رہے مسلمانوں کو ڈرا دھمکا کر بھگاتے دیکھے گئے۔

نئی دہلی: ہریانہ میں نماز پڑھنے کو لے کر تنازعہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ اب تک کھلے میں نماز پڑھنے کو لے کر ہی تنازعہ ہوتا رہا ہے لیکن کرنال میں بھیڑ نے مسجد کے اندر نماز پڑھ رہے مسلمانوں  کے ساتھ مار پیٹ کی۔ آج تک کے مطابق، پولیس نے بتایا کہ کچھ نہ معلوم لوگوں کے خلاف کیس درج کر لیا گیا ہے اور پورے معاملے میں جانچ کی جا رہی ہے۔ واقعہ کرنال کے نیول گاؤں کا ہے۔ متاثر مسلمانوں کا کہنا ہے کہ 20-15 لوگوں نے گزشتہ شام مسجد کے اندر گھس کر ان کو نماز پڑھنے سے روکا۔

متاثر ین کے مطابق ، ان کے ساتھ مار پیٹ کی گئی اور ڈرایا ڈھمکایا گیا۔ اس کے علاوہ اینٹی سوشل عناصر نے مسجد میں توڑ پھوڑ بھی کی اور مسلمانوں کو دھمکایا کہ اگر انھوں نے وہاں نماز پڑھی تو ان کو سنگین نتائج بھگتنے ہوں گے۔ واضح ہو کہ گزشتہ دنوں کچھ مہینوں سے دہلی سے سٹے گروگرام سمیت ہریانہ کے مختلف علاقوں سے مسلمانوں کو کھلے میں نماز ادا کرنے سے روکے جانے کے کئی واقعات ہوئے ہیں۔ یہاں تک کہ اس پر وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹر کو بھی چپی توڑنی پڑی۔

حالانکہ وزیر اعلیٰ بھی کافی حد تک مسلمانوں کو نماز  پڑھنے سے روکنے کے لیے ہندوتوا تنظیموں کے کارکنان کی ہی طرف داری کرتے نظر آئے۔ انھوں نے کہا تھا کہ نماز پبلک جگہوں پر نہیں بلکہ مسجد یا عید گاہ میں پڑھی جانی چاہیے۔ مسلمانوں کو نماز پڑھنے سے روکے جانے پر صحافیوں کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے وزیر اعلیٰ نے کہا تھا کہ کھلے میں نماز کے واقعات آج کل بڑھے ہیں۔ نماز مسجد یا عید گاہ میں پڑھی جانی چاہیے نہ کہ عوامی جگہوں پر۔

انھوں نے مزید کہا تھا کہ جب تک کسی آدمی کو کوئی اعتراض نہ ہو ،عوامی جگہوں پر نماز پڑھنا کوئی مسئلہ نہیں لیکن جب کسی کی شکایت آئے تو ایسا نہیں کرنے دیا جائے گا۔ہریانہ سے اس طرح کے ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر سامنے آئے،جس میں کچھ اینٹی سوشل لوگ  کھلے میں نماز پڑھ رہے مسلمانوں کو ڈرا دھمکا کر بھگاتے دیکھے گئے۔گروگرام انتظامیہ نے بھی لگاتار بڑھ رہے اس طرح کے معاملوں کو دیکھتے ہوئے ہندوتوا  تنظیموں اور مسلم تنظیموں کے بیچ بات چیت کے بعد 9 جگہوں کا انتخاب کیا تھا جہاں مسلمان نماز پڑھ سکیں ،حالانکہ مسلم سماج اس سے خوش نہیں تھا۔