ادبستان

لائف آف این آؤٹ کاسٹ ؛دلتوں کے ’نہیں‘ کہنے کی جدوجہد بھری کہانی …

لائف آف این آؤٹ کاسٹ ؛دلتوں کے اپنے اپنے حصے کی لڑائی اور جد وجہد کی کہانی ہے، ایک ایسی کہانی جس میں ضد بھی شامل ہے اور اس ضد میں’ برداشت ‘کو پردے پردیکھنا ناظرین کے لیے ایک الگ ہی طرح کا تجربہ ہوسکتاہے۔

فوٹو بہ شکریہ : پون شری واستو

فوٹو بہ شکریہ : پون شری واستو

پہلے وہ باتیں جو مجھے آخر میں کہنی تھیں کہ ؛ لائف آف این آؤٹ کاسٹ ؛دلتوں کی زندگی کے اندھیرے اور ایک دلت ٹیچر کے بلیک بورڈ پر’اُوم‘نہیں لکھنے کی جرٲت سے کہیں زیادہ دلتوں کے ’نہیں‘ کہنے کی جد وجہد بھری داستان ہے۔ہاں ایک ایسی  فلم جواپنے اکثر حصوں میں  رلاتی ہے نہ ہنساتی ہے،صاف صاف کہیں تویہ  فلم ہمارے احساس کے خالی پن کو بھر جاتی  ہے۔کسی فلم کو دیکھتے ہوئے ایسامیرے ساتھ بڑے  دنوں بعد ہوا ہے۔

ہاں میں جب بھی فلم دیکھ کر نکلتا ہوں مجھے منٹو یاد آتے ہیں ،یوں منٹو میرے لیے مصیبت بن گئے ہیں‘مصیبت بھی ایسی کہ ان کو ٹھیٹ ہندوستانی فلموں کی تلاش رہتی تھی اور یہ بھی کہ فلم کا دورانیہ زیادہ نہ ہو۔اتفاق اور حسن اتفاق سے یہ دونوں باتیں  لائف آف این آؤٹ کاسٹ کے لیے کہی جاسکتی ہیں ۔منٹو آسانی سے  چھوٹتے بھی نہیں تو فلم دیکھنے کے بعد میں سوچ رہا تھا…چلیے منٹو کے لفظوں میں ہی کہتے ہیں کہ ؛میں نے یہ فلم دیکھا اور جب ہال سے باہر آیا تو سوچ رہا تھا کہ میں نے کیا دیکھا ہے ؟

پھر میری گرفت میں یہ بات آئی کہ بعض فلمیں ایسی ہوتی ہیں جن میں کہانی کی حیثیت ’ہیرو‘کی ہوتی ہے،توگزشتہ روز’لائف آف این آؤٹ کاسٹ‘کی اسکریننگ کے دوران مجھےاس کا شدید احساس ہوا،اس کے بعد یہ بھی لگا کہ ابھی کہانی پر یقین کرنے والے فلمساز  ہمارے درمیان موجود ہیں۔

فلمساز یعنی اس فلم کے ڈائریکٹر،اسکرپٹ رائٹر اور نغمہ نگار جواں سال پون شری واستو ہیں،انہوں نے اس سے پہلے ایک فلم’ نیا پتہ ‘کے نام سے بنائی تھی ،جونقل مکانی اور اکیلے پن کے موضوع پرتھی ۔لائف آف این آؤٹ کاسٹ کی طرح ہی یہ فلم بھی کراؤڈ فنڈنگ سے بنی تھی ،لیکن 16ملٹی پلیکس اور پی وی آر میں ایک ساتھ ریلیز ہوئی تھی ۔میں نے فلم ریلیز کا ذکر خاص طور سے اس لیے کیا کہ آؤٹ کاسٹ  کی ریلیز کو لے کر پون کا الگ پلان ہے ۔اس بار کئی وجہوں سے وہ اپنی فلم کو دس زبانوں میں سب ٹائٹل کے ساتھ تقریباً 500گاؤں میں دکھانے والے ہیں ۔

فوٹو بہ شکریہ : پون شری واستو

فوٹو بہ شکریہ : پون شری واستو

پون کے بارے میں ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ وہ بہار کے سیلاب زدہ علاقوں میں لوگوں کے درمیان اپنے ڈراموں کے ذریعے  کام کرتے ہیں اور سماجی موضوعات پر مسلسل ڈراما لکھتے ہیں ۔ایک طرح سے جہاں ہندوستان کے دیہی سماج کی سمجھ ان کو ہے وہیں سیاسی گلیاروں کی آہٹ بھی غور سے سنتے رہتے ہیں ۔

خیر یہ ایک ضمنی بات تھی اورلائف آف این آؤٹ کاسٹ  کے موضوعات اور اس کی کہانی پر بات کرنے سے پہلے چند ایک باتیں اورعرض کردوں کہ پان سنگھ تومر، فلمستان اور دبنگ 2جیسی فلموں میں اپنی اداکاری سے متوجہ کرنے والے روی ساہ نے اس فلم میں دلت ٹیچر کے والد کا رول کیا ہے۔

روی  کے کردار کی خوبی یہ ہے کہ ان کے حصے میں  زیادہ مکالمے نہیں تھے ،اس کے باوجود انہوں نے اپنی اداکاری سے اس فلم کے موضوع کو خلق کرنے میں بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔روی حبیب تنویر کے ساتھ ان کے کئی ڈراموں میں کام کر چکے ہیں،یوں تھیٹر کو زندگی کی سمجھ بتانے والے اس اداکار نے اس فلم میں بھی ثابت کیا ہے کہ صرف مکالمے ہی کسی کردار کو یادگار نہیں بناتے ۔

 دوسرے کرداروں میں پولیس انسپکٹر اور دلت ٹیچر کی ایکٹنگ کے علاوہ چائے والے کردار کی بے پناہ اداکاری اور پاگل کے کردار میں دیپک یاتری نے محدود وسائل کی اس فلم کو بڑی فلموں کے سامنے کھڑا کر دیا ہے۔پوری فلم میں ایک ہی نغمہ ہے جس کو کلپنا پٹواری نے اپنی خوبصورت آواز دی ہے۔

ویڈیو:لائف آف این آؤٹ کاسٹ کے ڈائریکٹر پون شری واستو سے دی وائر اردو کی خاص بات چیت

جیسا کہ میں نے شروع میں عرض کیا تھا کہ ؛ بعض فلمیں ایسی ہوتی ہیں جن میں کہانی کی حیثیت ’ہیرو‘کی ہوتی ہے،تو یہ ایسی فلم ہے جس میں مختصر افسانے کے فن کو پوری کامیابی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔یوں دیکھیں توفلم میں کہانی کی حیثیت ہی ہیرو کی نہیں  بلکہ اس کے فنی رکھ رکھاؤ میں بیانیہ شعریات کےکئی پہلو توجہ طلب ہیں ۔خواہ کہانی کی’ سادگی‘ ہو ،اس کا علامتی برتاؤ ہو ،خاموشی کی گونج ہو،ایکٹ کی تجریدیت ہویا پھر غیاب یعنی بیک گراؤنڈ کا بیانیہ ؛ان سب کی موجودگی کی وجہ سےلائف آف این آؤٹ کاسٹ،ہماری فلموں کی تقریباً طے شدہ شعریات سے کئی معنوں میں الگ ہے۔

لائف آف این آؤٹ کاسٹ حاشیے کی کہانی ہے اور اس کا موضوع ہندوستانی سماج میں دلتوں کی زندگی ہے۔چوں کہ یہ کوئی ڈاکیومنٹری فلم نہیں ہے اس لیے یہ سوال بھی شاید بنتا ہے کہ مین اسٹریم سنیما میں دلتوں کی زندگی پر کتنی ہندی فلمیں بنی ہیں؟شاید اس موضوع کے اچھوت ہونے کی وجہ یہ بھی ہو کہ لائف آف این آؤٹ کاسٹ بھی کراؤڈ فنڈنگ سےبنی محدود وسائل کی ایک بڑی فلم ہے۔

فلم کا بیانیہ عرصہ(Narrative Space)یوں تو عصری سچائیوں کا مربوط بیانیہ ہے، لیکن کہانی اس بیانیہ عرصے میں بھی داخل ہوتی ہے،جس میں کسی دلت عورت کی سہاگ رات اپنے شوہر کے ساتھ ارمانوں والی رات نہیں ہوتی تھی ۔اس لیےدیہی ہندوستان کے گلی محلے کو اپنے معنوی فرہنگ میں خلق کرتی یہ فلم دلتوں کے خوف کی سائکی کو بھی نمایاں کرتی ہے ،اچھی بات یہ ہے کہ  اپنی بے بسی کا ماتم نہیں کرتی ۔

فلم یہیں سے شروع ہوتی ہے،اور جس سماج میں دلت عورتوں کی Virginityپرصرف ٹھاکروں کا حق ہوتا ہےاوراسی اشرافیہ سماج کی نظر میںVirginity کا’ سکھ‘اور اس کی ’پوترتا‘دلتوں کے لیے نہیں ہوتی ؛اس مکروہ سچائی کو یہ فلم پردے پر کھینچ کر لاتی ہے اور اس طرح لاتی  ہے کہ دلت نوبیاہتا ’لڑکی ‘اپنی سسرال میں ٹھاکر کے آدمی کے سامنے ببانگ دہل کہتی ہے کہ وہ ٹھاکر کی حویلی پر نہیں جائے گی ۔

اس لیےایک ’دلت لڑکی ‘کی’ نہیں‘سے شروع ہونے والی یہ فلم احتجاج اور بغاوت کا مجسم بیانیہ بن گئی ہے۔اسی جرم کی پاداش میں اس نوبیاہتا جوڑے کو گاؤں سے باہر جانا پڑتا ہے اور یہیں سے لائف آف این آؤٹ کاسٹ کا منفرد بیانیہ خلق ہوتا ہے۔دلت عورت کی اس ’نہیں ‘میں دلت مرد کی بہادری بھی اس فلم کی جمالیات ہے ۔

فوٹو بہ شکریہ : پون شری واستو

فوٹو بہ شکریہ : پون شری واستو

اس’ نہیں ‘ کی یاترا دلتوں کی زندگی کے ایک نئے جد و جہد کی داستان  ہے تو فلم کا بیانیہ عرصہ بعد میں نو بیاہتا جوڑے کے بیٹے کی کہانی سے جڑکر عصری سچائیوں کی تصویر بن جاتا ہے ۔بیانیہ عرصہ (Narrative Space) کی ایسی ترتیب اور Shiftingقصہ گوکے مہارت کی دلیل تو ہے ہی اس کے سیاسی ڈسکورس کے فہم و فراست کا ثبوت بھی ہے۔

’نہیں ‘ کہنے کا حوصلہ اور کئی معنوں میں اشرافیہ سماج کی بے ادبی کے بعد یہ فلم جب اپنے نئے بیانیہ عرصہ میں داخل ہوتی ہےاور  بیٹے کی کہانی سناتی ہے تو دلتوں کی جد وجہد اور ان کی لڑائی کا ایک بڑا کلامیہ  ہمارے سامنے آتا ہے ۔دلت ہونے کے علاوہ گاؤں کے باہرایک آؤٹ کاسٹ کی زندگی بسر کرنے والے اس جوڑے کو تعلیم کی اہمیت معلوم ہے اس لیے وہ اپنے بیٹے کو بڑا آدمی بنانے کے لیے نہ صرف محنت مزدوری کرتے ہیں بلکہ  بیٹے کوتعلیم کی ضرورت کے بارے میں تاکید بھی کرتے ہیں ۔

اس فلم میں دلت کے تعلیم حاصل کرنے کی کہانی بھی ایک منفرد رنگ میں ہے کہ اس کو اسکول کی صاف  صفائی میں لگایا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ؛تم کو بعد میں پڑھا دیں گے اور پڑھ کر کیا ہوجائے گا۔اس طرح ماں باپ کی جد وجہد اور ان کی زندگی کا عذاب ایک طرف تو دوسری طرف اس دلت بچے کا دکھ بھی ہے کہ وہ اپنے والدین کو اسکول میں ہونے والے امتیازی سلوک کے بارے میں نہیں بتاتا۔

 ہاں وہ دلت بچہ تعلیم کو حق کی صورت میں  نہیں چھینے ہوئے حق کی صورت میں ایک لمبی جد وجہد کے بعد حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے ۔اس طرح دیکھیں تو یہ دلتوں کے اپنے اپنے حصے کی لڑائی اور جد وجہد کی کہانی ہے، ایک ایسی کہانی جس میں ضد بھی شامل ہے اور اس ضد میں’ برداشت ‘کو پردے پردیکھنا ناظرین کے لیے ایک الگ ہی طرح کا تجربہ ہوسکتاہے۔

بہر کیف یہ دلت بچہ اپنے حصے کی دھوپ اور دھتکار کو اوڑھتا بچھاتا ہے اور ایک دن  میتھ (علم ریاضی )کا ٹیچر بن جاتا ہے۔لیکن اس کی زندگی کی سیاہی یہیں ختم نہیں ہوتی  کہ جس اسکول میں وہ بچوں کو پڑھاتا ہے وہ اسی اشرافیہ سماج کا ہے ،اس لیے جب وہ بلیک بورڈ پر’ اُوم ‘لکھنے سے منع کرتا ہے تو اس کو سازش کے تحت گرفتار کیا جاتاہے ۔

یہاں ایک بارپھر دلت کو اس کے’ نہیں ‘کہنے کی سزا دی جاتی ہے، اس کو تھانے میں زدوکوب کیا جاتا ہے اوربھدی بھدی  گالیاں دی جاتی ہیں ۔اس فلم میں گالیوں کا کھلا پن اس سماج کی بیہودگی کو ہمارے کانوں میں شیشے کی طرح پگھلاتا ہے۔ان باتوں کے باوجود وہ دلت ٹیچرآئین کی بات کرتا ہے ،ملک کی عدلیہ اور قانون پر اپنے بھروسے کو ظاہر کرتا ہے۔

اس بات کے لیے اس کا مذاق اڑایا جاتا ہے اور واضح طور پر یہ بتانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ہمارا سماج ملک کے آئین سے نہیں کسی اور آئین سے چلتا ہے۔اس سماج کی معاشرت کو اس کے سیاسی ڈسکورس کے ساتھ پیش کرنے والی یہ فلم دلتوں کے کالی رات کا نوحہ تو سناتی ہے لیکن آئین کے دیپک راگ میں  ایک واضح پیغام بھی دیتی ہے۔

دراصل دلت ٹیچر کی اس کہانی میں جہاں جد و جہد کی شعریات کا ایک تعلیمی نظریہ شامل ہے ،وہیں اپنے اس بچے کی گرفتاری کے خلاف والدین کی لڑائی میں ننگی زمینوں پر سائیکل کھینچنے کی مشقت اور اپنے پیٹ کے لیے یومیہ مزدوری کی اذیت بھی اس سماج کے احتجاج کی متاثر کن داستان ہے۔

فوٹو: پون شری واستو

فوٹو: پون شری واستو

پوری فلم میں ننگی زمینوں اور پگڈنڈیوں پر سائیکل کھینچ کر شہر کی کالی سڑکوں تک دلت ٹیچر کے باپ کا پھیر لگانا جہاں لائف آف این آؤٹ کاسٹ،کے علامتی رنگ کو معنی کی تہہ داری سے ہمکنار کرتا ہے وہیں ان زمینوں کے مین اسٹریم سنیما سے غائب ہوجانے کی شدت کو بھی پیش کرتا ہے۔

اب ہماری فلمیں ننگے پاؤں کی چبھن اورسائیکل کی جد و جہد والی زندگی یو ں کہہ لیجیے کہ  ٹھیٹ ہندوستان کی کہانی نہیں سناتیں۔اس نظریے سے دیکھیں تو یہ فلم دلتوں کی زندگی کا بیانیہ محض نہیں ،اپنی کہانی اور گاؤں کی واپسی میں مذہبی برتری کے احساس اور وکاس کے نعروں کےخلاف ایک پروٹسٹ  ہے۔اس طرح سماج کی کریہہ صورت کو پیش کرتی  یہ فلم سیاسی بصیرت کے ساتھ ہماری معاشرت کے کھیل کو بخوبی سمجھاتی ہے۔

دراصل دلت ٹیچر کی لڑائی اور والدین کی جد وجہد،آئینی اداروں کےتعصب اور ہماری معاشرت کے مذہبی کھیل میں جہاں ہمیں یہ بتاتی ہیں کہ دلتوں کی زندگی آسان نہیں وہیں یہ بھی باور کراتی ہے کہ آئینی اداروں کا مذہبی تعصب سے یکسر پاک ہونا کتنا ضروری ہے۔ اس فلم کا سیاسی ڈسکورس اس وقت اورنمایا ں ہوجاتا ہے جب دلت ٹیچر کے والد اپنی سائیکل کھینچ کر شہر سے لوٹتے ہیں اور گاؤں میں داخل ہونے سے ذرا پہلے معمول کے مطابق چائے کی دکان پر  رکتے ہیں ۔

اس چائے خانے پر کوئی گراہک نہیں ہوتا ۔ہاں بظاہرایک پاگل کردار وہاں  شطرنج نما کھیل میں مصروف نظر آتا ہے اور خلا میں اپنی انگلیوں اور چہرے سے عجیب عجیب طرح کے عکس بناتا ہے ۔یہ پاگل نظر آنے والا کردار جہاں اپنے آپ میں مصروف رہتا ہے وہیں  چائے والا دنیا بھر کی سیاست پر مسلسل بولتا رہتا ہے۔ ہندوستان کی سیاست سے لے کر ٹرمپ کے مسکرانے تک پر وہ کھلے انداز میں تبصرہ کرتا ہے ،لیکن اس کا سامع صحیح معنوں میں کوئی نہیں ہے ۔فلم میں یہ پورا ایکٹ کمال کا ہے ۔ چائے والے کے ڈائیلاگ میں سیاسی ڈسکورس کے علاوہ لڑکیوں کے چال چلن اور ان کے لباس پر پھبتی،اور ماڈرن زندگی پر اس کے خیالات کی دنیا پہلے پہل تجریدی معلوم ہوتی ہے، لیکن فلم کے اصل سیاق کےحاصل جمع میں  یہ ہمیں ایک بڑے کلامیہ سے روبرو کراتی ہے ۔

چائے والے کے اس کردار کی خاص بات یہ ہے کہ وہ اپنی چائے بھی اکثرخود ہی پیتا ہے ،لیکن ایک دن جب شہر سے لوٹتے ہوئے معمول کے مطابق دلت ٹیچر کے والد وہاں  ٹھہرتے ہیں اوراس کی جیب میں کچھ پیسے بھی ہوتے ہیں تو وہ نہ صرف چائےپیتا ہے بلکہ گھر کے لیے تھوڑی سی مٹھائی بھی لیتا ہے، اس سین میں جب وہ اپنی جیب سے پیسے نکالتا ہے تو چائے والا بڑی حسرت سے کہتا ہے کہ کل بھی آؤگے نا۔فلم میں چائے والے کی یہ حسرت اور امید اس سماج کو ایک چائے والے کے نظریے سے بھی سوچنے پر مجبور کرتی  ہے۔اس ایکٹ کے بعدسمجھ میں آتا ہے کہ یہ چائے والا اسی طرح اس کہانی کے مرکز میں ہے جس طرح ہماری سیاست کے مرکز میں وزیر اعظم ہیں ۔ یہاں ان کرداروں میں مماثلت سے زیادہ بُعد نمایاں ہے، لیکن اس سماج اور سیاست کو اسی بُعد میں یہ فلم بڑی خوبی سے نمایاں کرتی ہے۔

رہی بات چائے خانے پر اس پاگل سےنظر آنے والے کردار کی تو اس نے فلم کے معنوی جمالیات میں جہاں اپنی خاموش ایکٹنگ سے اضافہ کیا ہے وہیں اس کی صرف ایک بات کہ ؛آج بھی ہار گیا ،خیر کل دیکھتے ہیں ،کودیکھتے ہوئے سن کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ کسی فن کارنے اپنے سماج کے حوصلے کی   سچائی کو یہاں نچوڑ دیا ہے۔

یہاں فلم کی  کہانی  اپنے طور پر اس لیے سنائی گئی کہ میں آپ سے یہ نہیں کہہ پارہا ہوں کہ اس میں شاہ رخ خان ہیں ،دیپیکا ہیں ،اس لیے یہ فلم دیکھیے ۔بات ہر پھر کر وہیں پہنچتی ہے اس فلم میں کہانی ہی ہیرو ہے ۔اس لیے اگر آپ فلم میں کہانی پسند نہیں کرتے ،سماج کی سچائیوں سے آپ کو مطلب نہیں ہے ،زندگی کی علامتوں سے گھبراتے ہیں ،سناٹوں سے مکالمہ کیے بغیر فلم دیکھنا چاہتے ہیں تو یہ فلم آپ کے لیے نہیں ہےاور اگر آپ مذہب کے امتیازی سلوک کو بھی صحیح سمجھتے ہیں تو یہ فلم آپ کو بالکل نہیں دیکھنی چاہیے کہ اس میں مذہبی علامتوں کی خاص انداز میں نفی کی گئی ہے۔