فکر و نظر

گمنام مجاہد آزادی مولوی احمد اللہ شاہ عرف ڈنکا شاہ

احمد اللہ شاہ نے عیاری سے کسی کو قتل نہیں کیا، اس نے میدان جنگ میں ان لوگوں سےمقابلہ کیا جنہوں نے اس کا مادر وطن چھین لیا تھا،شہادت اورصداقت کی قدر کرنے والے اس کی یاد کو ہمیشہ عزیزرکھیں گے۔

AhmadullahShah

1857کی جنگ آزادی کا جب بھی ذکر ہوگاوہ احمداللہ شاہ کے تذکرہ کے بغیر نامکمل رہے گا۔ شاہ انگریزوں کےدشمن تھے۔ان کا ایسا خوف طاری ہو گیا تھاکہ گورنر جنرل نے انہیں پکڑوا نے کے لیے 50 ہزار روپے کے انعام کا اعلان کر دیا تھا۔مولوی احمد اللہ شاہ مدراسی عرف ڈنکا شاہ کے والدمحمدعلی مصاحب ٹیپو سلطان اور چنیاپٹن(مدراس)کے نواب تھے۔ان کی پیدائش تقربیاً 1204ھ میں ہوئی ۔16سال کی عمر میں دنیاداری سے دل متنفر ہوگیاتو درویشی اختیارکرلی ۔جے پور کے میرقر بان الہٰی سے بیعت کی جنہوں نے ان کا نام احمد اللہ رکھا اور خلافت عطا کی۔پھر صوفی بزرگ حضر ت محراب  شاہ(گوالیار)سے تلمذ حا صل کی لیکن انہو ں نے ان سے بیعت اس شر ط کے ساتھ لی کہ وہ اپنی جان کی بازی انگریز وں کے اقتدار کے ختم کرنے میں لگا دیں گے۔

انگریزوں کے عیسا ئی بنانے کی مہم کی پر زور مخالفت کے ساتھ ساتھ پوری شدت سے غیر ملکی تسلط کے خلاف بھی آواز بلند کرنے لگے۔ دہلی آکرمفتی آزردہ  سے نیاز حاصل کیاجن کی ایماء پر آگرہ چلے گئے اور وہاں کھلے عام انگریزوں کے خلاف جہادکااعلان کیا۔ ان کی سرگرمیوں سے برطانوی انتظامیہ چوکنی ہو گئی تھی کیونکہ احمد شاہ کے اجلاس میں بلاتفریق مذہب وملت ہزاروں لوگ جمع ہوتے تھے۔1856کے آخری ایام میں میرٹھ میں کچھ عرصہ ٹھہرکر دیسی فوجیوں کو سیاسی آزادی کے بارے میں بتایا ۔مجمدارکے نزدیک جنوری 1857 کی شروعات میں چنئی (مدراس) میں انگریز وں کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کے باغیانہ اشتہار وں میں مولانا ڈنکا کا ہی ہاتھ تھا ۔

جو کام فوجیوں میں کارتوس نے انجا م دیا وہی عوام الناس میں چپاتیوں نے ، ما لیسن کے مطابق چپاتی بھی مو لانا کی ذہنی پیداوار ہے۔ ایک عرصہ تک شہر در شہر انگریزوں کے خلاف جہاد کی تبلیغ کرکے فیض آباد میں نمودار ہوئے وہ شارع عام پر جہاد کا درس دینے کے علاوہ پیسے بھی تقسیم کرتے۔ڈنکا شاہ انگریزوں کے خلاف زہر افشانی کرنے میں کو ئی کسر نہیں چھوڑتے تھے ۔اعلانیہ کہتے تھے کہ انگریزوں کو غارت کرنے آیاہوں۔

16فروری 1857 کوشام کے وقت لیفٹینٹ ٹربن کو مولوی صاحب کے سرائے میں قیام اور حامیوں کی آمدورفت کے بارے میں کوتوال نے مطلع کیا۔کوتوال نے کہاا ن کی سرگرمیوں سے فیض آباد کی فضا خراب ہونے کے امکانات ہیں۔اس کے اگلے روز ہی17فروری کو 22ویں نیٹیو انفینٹری کے لیفٹینٹ تھامس نے ان کا محاصرہ کر لیا۔معمولی جھڑپ کے بعد مولانا زخمی حالات میں گرفتار کر لئے گئے۔ کرنل لیناکس نے احمد شاہ کو سزائے موت کی سزا سنائی اس سے قبل کہ اس پر عمل ہوتابغاوت پھوٹ پڑی ۔

8جون کو فیض آبادمیں صوبے دار دلیپ سنگھ کی رہنما ئی میں دیسی فوج کے ہمراہ عوام نے کمپنی کے خلاف ہتھیار اٹھالئے۔ سکندر شاہ کو قید فر نگ سے چھڑا کراپنا رہنما تسلیم کیا۔انگریزافسران کوفیض آبادسے مع ذاتی اسلحہ اورسامان کے ساتھ نکلنے کاحکم صادرکردیا گیا۔مو لانا نے اس بات کا پورا لحاظ رکھاکہ کسی عورت یا بچے کو کسی طرح کی تکلیف نہ پہنچے۔ڈنکا شاہ سے فیض آبادکی باگ ڈوراپنے ہاتھ میں لینے کی ا لتجا کی گئی مگر مولانا راجہ مان سنگھ کو یہ ذمہ داری سونپ کر فرنگیوں کو بے دخل کر نے کے لئے لکھنؤ کوچ کر گئے، ان کی آمد نے انگریزوں کے دلوں پہ ہبیت طاری کر دی۔30جون چنہٹ میں انہوں نے کمپنی فوج کو پسپا کرکے ان کے سامان حرب پر قبضہ کرلیا انگریزوں نے لکھنؤ کے قریب بیلی گارد اور مچھلی بازار کو اپنے قبضہ میں رکھتے ہوئے ڈنکا شاہ کامقابلہ کرنا فیصلہ کیا لیکن دونوں ہی مقامات پرانہیں منھ کی کھانی پڑی۔

5جولائی کو اودھ کی مسند پربرجیس قد ر کی تخت نشینی کی گئی اور امور معاملات کی ذمہ داری بیگم حضرت محل کے سپرد کی گئی۔ ڈنکا شاہ نے بیگم حضرت محل کے ساتھ مل کرانگریزوں کو چھٹی کا دودھ یا د دلا دیا۔ستمبر1857 لکھنؤ کی گھیرابندی کرنے کی غرض سے سر جیمس آوٹرم ایک بڑی فوج کے ہمراہ15ستمبر کو کان پو رپہنچا۔ کوآوٹرم،ہولاک،نیل اور تین ہزارسپاہ کولیتے ہوئے کانپور سے 23ستمبر کو لکھنؤ پہنچ گیا،لیکن تین آزمودہ کار افسر احمد شاہ کی جنگی تجاویز کاجائزہ لینے کے بعد بھی دودن تک شش وپنج میں پڑے رہے پھر25 ستمبر کوکافی غوروخوض کے بعد جب انگریزی لشکر نے پیش قدمی کی تو مجاہدین نے اس کا منھ توڑ جواب دیا۔

ستمبر تا دسمبر ڈنکا شاہ کی انقلابی فوج نے جنرل آؤٹرم ،جنرل ہیولاک کو لکھنؤ اور بیلی گارد میں الجھائے رکھا ۔مجاہدین نے 37مرتبہ ریزیڈنسی (بیلی گارد )کو بارود سے اڑانے کوشش کی مگر انگریز ی زر خرید غلاموں نے ان کی ہرسعی کو ناکام بنادیا ۔نومبر کے آخری ہفتہ میں تاتیا ٹوپے کی کانپور آنے کی اطلاع پاکر کیمپ بیل نے کانپور کی راہ پکڑی ۔تو ڈنکا شاہ نے صورتحال کا جائزہ لے کر ایک ایسی چال چلی اگر وہ کامیاب ہوجاتی تو فرنگیوں کو بہت بڑا نقصان اٹھانا پڑتا ۔ مولانا انگریزی ملیشیا پر دو الگ الگ سمتوں سے یلغار کرکے اس کا کانپور سے رابطہ ختم کرنا چاہتے تھے۔ ڈنکا شاہ اپنے سپاہیوں کو دو حصوں میں تقسیم کرکے آؤٹرم کی ٹکڑی پر پیچھے سے حملہ کرنے کی غرض سے کانپور کی جانب بڑھے لیکن کسی غدار نے آؤٹرم کو بروقت خبر کردیا۔مولانا محاذ لکھنؤ پر ہی انگریزوں کو الجھائے تھے ۔ان کا منصوبہ تھا کہ کسی بھی قیمت پر کانپور اورلکھنؤمیں رابطہ قائم نہ رہ سکے ۔کیمپ بیل اور آؤٹرم میں رابطہ منقطع کرنے کے لئے15فروری کو آؤٹرم پر حملہ کیا لیکن غداروں نے اس کو کامیاب نہ ہونے دیا۔

انگریزوں کی شطرنجی چالوں کے آگے چانکیہ بھی شرمسارہوجاتا کیونکہ انگریزوں نے ہند وستانیوں کو اپنے تابع بنائے رکھنے کے لئے تمام حربے آزمائے۔ انہیں جب کہیں لشکر کشی کی ضرورت در پیش آتی تو ان کے نمک خوارضمیر فروش ہم وطنوں کے خلاف صف آرا ہونے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے، جنرل آوٹرم اور جنرل ہیولاک نے اپنے بہی خواہوں نیپال کے راجہ رانا جنگ بہادر، گورکھوں، بھو ٹانیوں اورسکھوں کے ساتھ مل کر لکھنؤ کو تخت وتاراج کرنے کا منصوبہ بنایا۔ایک طرف حریت پسندتاحد امید احمد شاہ کے دوش بدوش پوری شدت سے مردانہ وار تیغ زنی کا مظاہرہ کر رہے تھے،تووہیں دوسری جانب چوتھا پنچاب پیدل دستہ ،چوتھی پنچاب رائفل ایک ہزار گورکھے اورنیپال مہاراجہ جنگ بہاد ر اپنے 9 ہزار فوجی اور24توپوں کے ساتھ انگریزوں کے پیش پیش تھے جس کے بموجب ہندوستانیوں کو برطانوی فوج کے ہاتھو ں شکست کھانی پڑی۔ علاوہ ازیں محاذ لکھنؤ پر ایک نہیں بلکہ دو انگریز ی جاسوس انگد تیواری اور قنو جی لال جیسے موجو د تھے جو مادر ہند کو انگریزو ں کے حوالے کرنے کا فیصلہ کرچکے تھے۔

فروری 1858 سے لے کر اپریل1858 تک مولانا جنرل آؤٹرم ،جنرل ہیولاک اور کیمپ بیل اور ہوپ گرانٹ کی فوجوں سے مسلسل مقابلہ کرتے رہے اور کئی مرتبہ ایسے موقعہ بھی آئے کہ کامیابی ان کے قدم چومتی لیکن بدقسمتی انہیں شکست سے دوچار ہونا پڑا۔لیکن وہ پھر بھی ہار تھک کر نہیں بیٹھے ۔ 21مارچ کو مولانانے سعادت گنج میں لیوگارڑسے نبردآزما ہو کر منھ توڑ جواب دیا۔ یوں تو جنگ کافیصلہ انگریزتاجروں کے حق میں ہوچکاتھامگر مولاناامید کادامن تھامے خیرآباد پہنچے جہاں کچھ دن ٹھہر کرباڑی چلے گئے اورراجہ نواب علی محمودآبادکے تعاون سے ایک بڑی فوج جمع کی اورپھر اپریل میں بیگم حضرت محل کے سا تھ مل کر لکھنؤ پردوبارہ قبضہ کرنے کی آخری کوشش کی ہوپ گرانٹ، مولوی ڈنکاشاہ کی رہنمائی میں جمع اودھ کی فوج کونکالنے کے ارادہ سے لکھنؤسے باڑی کی طر ف روانہ ہو تو احمد شاہ کے چندجانباز انگریزی فوج کی نقل وحرکت کاجائزہ لینے ان کے خیمہ میں جا پہنچے جب انگریزسپاہی نے ٹوکا اورپوچھا کہ کون ہو تو انہوں نے انتہائی بے تکلفی سے جواب دیا کہ ہم 12بے قاعدہ فوج کے سپاہی ہیں مگر یہ فوج متمرد ہوچکی تھی ۔ان سواروں نے تمام کیفیت کا جائزہ لے کر احمد اللہ کو باخبر کردیاجس کے بعد شاہ صاحب نے جامع منصوبہ بندی کی ۔لیکن کسی بے احتیاطی کی وجہ سے ہوپ گرانٹ ڈنکا شاہ کے منصوبے سے بے خبر ہوگیاجس نے لڑائی کا پانسہ پلٹ دیا۔

ایسے حالات میں جب کہ پورے ملک پرانگریزاپنے کاسہ لیسوں کی وساطت سے یکے بعد دیگرے علاقوں کو روندتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے مگر ڈنکاشاہ بھی کہاں چپ بیٹھنے والے تھے ۔وہ انقلابیوں کی کمان سنبھالنے شاہجہاں پورپہنچ گئے۔28اپریل کو بمقام اللہ گنج ( بپچوریہ) انگریزوں سے مقابلہ ہوا۔دریں اثنا کانپور اور گوالیارپر انگریز وں کا قبضہ ہونے کے بعد ناناصاحب شاہجہاں پورآ گئے ان دونوں کے اختلاط سے انگریزی تحکم کے لئے خطر ہ لاحق ہوگیا۔ خبر لگتے ہی چیف آف اسٹاف سرکولن کیمپ بیل وال پول کے ساتھ انہیں پکڑنے خود آگے بڑھا مگر جب تک یہ دونوں برطانوی افسر شہر کی حصار بند ی کر تے تب تک یہ عظیم جنگجو ان کی آنکھو ں میں دھول جھونک کرشاہجہاں پور کو خیر بادکہہ چکے تھے مگر شہر چھوڑنے سے قبل مولوی صاحب نے ایک خاص عمارت کو نذر آتش کردیا جو آج بھی جلی کوٹھی کے نام سے جانی جاتی ہے۔ لو اور چلچلاتی دھوپ کے عالم میں انگریزی فوج کو کھلے آسمان کے نیچے خیمہ نصب کرنے پڑے ،جس کے سبب انگریزوں کو متعدد سپاہیوں کی جان گنوانی پڑی۔

18مئی 1858 کو لن سر کیمپ بیل سقوط بریلی کے بعد شاہجہاں پورپہنچ گئے جہاں دونوں ایک بار پھر مد مقا بل ہوئے ان کی دلیری کو دیکھ کرانگریزوں کے اوسان خطاہوگئے لیکن بر یلی سے فوجی ٹکڑی کے آجا نے سے برطانوی قوت میں اضافہ ہو گیا ۔انگریزوں کے خلاف نیامحاذکھولنے کی تلاش میں ان کی نگا ہ شا ہجہاں پور سے تقربیاً18میل کی مسا فت پر راجہ جگن ناتھ کی چھو ٹی سی مملکت پر پڑی، ادھر انگریزوں کو احمد شاہ کے ہاتھوں اپنا ہرپیادہ پٹنے کے بعد ایک غدارِ وطن کی ضرورت تھی جو راجہ جگن ناتھ کی شکل میں پوری ہوئی۔

راجہ نے فوراً50 ہزارروپے کے لالچ میں انگریزوں سے سودے بازی کر لی تھی۔احمد شاہ نے راجہ سے تعاون اور قلعہ میں انگریزتحصیل دار اورتھانہ دار کو ان کے سپرد کرنے کے لئے اپنا قاصد بھیجا۔5جون 1858کوراجہ کے مثبت جواب کے بعد عظیم المرتبت جنگجو ہاتھی پر اس کے قلعہ پر پہنچے ۔لیکن تعظیم وتکریم کے بجائے قلعے کا دروازہ بند او ر سخت پہرا دیکھ کرتعجب میں پڑ گئے ،راجہ اور اس کا بھائی بلدیو سنگھ مسلح سپا ہیوں کے ہمراہ قلعے کی فصیل پر موجودتھا جو صدر دروازے کے طرف حر ص و طمع کی نظروں سے دیکھ رہے تھے ۔ احمد شاہ نے راجہ سے تحصیل دار اورتھانہ دار کو ان کے حوالے کرنے کوکہا مگر راجہ کے دل میں کچھ اورہی تھا۔راجہ کا منفی ردعمل دیکھ کرسر یع الفہم ڈنکا شاہ نے مہاوت کو قلعہ کادر وازہ توڑنے کا حکم دیالیکن اس سے پیشتر راجہ کے اشارے پر اس کے بھائی بلدیوسنگھ نے مو لانا کو گولی مار کر شہید کر دیا ان کے ساتھ شفیع اللہ خاں نجیب آبادی بھی وطن کی آبرو پہ نثار ہوگئے ۔راجہ اور اس کے بھائی نے احمد شاہ کا سر تن سے جدا کرکے لال رومال میں لپیٹا اور13میل کا فاصلہ طے کرکے انگریزی مجسٹریٹ کی خدمت میں پیش کردیا۔

آزادی کے سر خیل جس نے انگریزوں کے اعلیٰ افسران سر کولن کیمپ بیل، جنر ل آوٹرم ، جنر ل ہیولا ک، جنرل نیل ، کیپٹن لارنس، کیپٹن ہینڈ رسن،ہوپ گرانٹ اور کیپٹن گورڈن  وغیرہ کو ناکو ں چنے چبو ادئے ان کے سر کو ہیبت طاری کرنے کے لئے کوتوالی کے دروازے پر آویزاں اور جسم کو شاہ راہ پرنذر آتش کیا گیا ،راکھ کو ندی میں پھینک کر سفاک انگریزوں نے دو غداروں کے توسط سے اپنی ا نتقامی پیاس بجھائی۔

مالیسن ان کو یوں خراج تحسین پیش کرتے ہیں کہ :

اگر محب وطن کی تعریف یہی ہے کہ وہ آزادی کی خاطر جنگ کرتا ہے اورحکمت عملی تیار کرتا ہے، اس کو آبائی وطن سے بلاجواز محروم کیاگیا تو مولوی یقیناًایک سچا محب وطن تھا،اس نے اپنی شمشیر کسی کوعیاری سے قتل کرکے رنگین نہیں کی اورنہ ہی کسی کو ہلاک کرنے میں کسی شعبدہ بازی سے کام لیا ۔ اس نے میدان جنگ میں جواں مردی،قابل احترام اور صد ق وصفائی سے اجنبی لوگوں کا مقابلہ کیا جنہوں نے اس کا مادر وطن چھین لیا تھا،شہادت اورصداقت کی قدر کرنے والے خواہ کسی قوم سے تعلق رکھتے ہوں اس کی یاد کو ہمیشہ عزیزرکھیں گے۔