فکر و نظر

رویش کا بلاگ: حضور ! 2014 سے 2018 آ گیا، اب تو بتائیے  کام کب ہوگا؟

مودی حکومت نے 2014 میں4 نئےایمس، 2015 میں 7 نئے ایمس اور 2017 میں 2 ایمس کا اعلان کرتے ہوئے 148 ارب روپے  کا اہتمام کیا تھا مگر ابتک 4 ارب روپے  ہی دئے گئے ہیں۔ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کس رفتار سے کام ہو رہا ہوگا۔

(فوٹو : پی ٹی آئی)

(فوٹو : پی ٹی آئی)

دیکھتے دیکھتے 4 سال گزر  گئے مگر مودی حکومت نے جس کارپوریٹ کے لئے جان لگا دی اس نے ابھی تک کوئی اچھی خبر حکومت کو نہیں دی ہے۔ اس مالی سال کے چو تھی سہ ماہی کے کارپوریٹ کے نتیجے 4سال میں سب سے خراب ہیں۔ کمپنیاں منافع کے لئے کام کرتی ہیں۔ ان سبھی کا منافع گزشتہ سال کی اسی سہ ماہی کے مقابلے میں 14.4 فیصد کم ہو گیا ہے۔ منافع کے معاملے میں 4 سال میں یہ سب سے خراب کارکردگی  ہے۔

پھر بھی بزنس اسٹینڈرڈ نے اس کو کم اہمیت دی ہے۔ اس بات کو زیادہ اہمیت دی ہے کہ چوتھی سہ ماہی میں کارپوریٹ کے ریونیو میں اضافہ ہوا ہے۔ لگاتار دوسری سہ ماہی میں ان کا ریونیو  بڑھا ہے۔ گزشتہ  16 سہ ماہی میں یہ تیسری بار ہے جب ریونیو  میں ایسا اضافہ ہوا ہے۔ مطلب کچھ خاص نہیں ہے۔ رپورٹر  کرشن کانت لکھتے ہیں کہ کمپنیاں بہت کم مارجن  پر کام کر رہی ہیں۔ یہ بتاتا ہے کہ بازار میں مانگ اور خریدنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ جان کار کہتے ہیں کہ اس رپورٹ سے تو ایسا لگتا ہے کہ19-2018 میں کارپوریٹ انڈیا تیزی سے ترقی نہیں کر پائے‌گا۔

ایئر انڈیا کو خریدار نہیں ملا ہے۔ یہی نہیں مودی حکومت پبلک سیکٹر کی 30 کمپنیوں کو بیچنے کی تیاری کر چکی ہے مگر بک نہیں رہی ہیں۔ دوسرے لفظوں  میں اس کو کہا جاتا ہے کہ حکومت اپنی حصےداری کم کر رہی ہے۔ صرف ہندوستان پیٹرولیم کارپوریشن کی حصےداری بک پائی ہے۔ وہ بھی پبلک سیکٹر  کی ہی ایک دوسری کمپنی او این جی سی نے خریدی ہے۔ حکومت کا ہدف ہے کہ Disinvestment کے ذریعے 800 ارب روپے  جمع کرے‌گی مگر اس مالی سال میں ٹھن ٹھن گوپال والی حالت ہے۔

Central Statistics Office (سی ایس او)کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ چوتھی سہ ماہی میں زراعتی پیداوار کی قیمت میں کمی آئی  ہے۔ کسان کی لاگت بڑھ گئی ہے۔ پیٹرول ا ورڈیزل کی قیمت  نے اور ہاہاکار مچایا ہوا ہے۔ نہ دودھ والے کو دام مل رہا ہے، نہ سبزی والے کو، نہ دال والے کو، نہ لہسن والے کو، نہ پیاز والے کو۔ 2014 سے 2018 آ گیا مگر کوئی حل نہیں نکلا۔ وزیر زراعت کہتے ہیں کہ کسان میڈیا میں آنے کے لئے اسٹنٹ چل رہے ہیں۔ ابھی مودی حکومت کا ٹائم ٹھیک چل رہا ہے۔ مودی کی مقبولیت کا اثر ہے ورنہ ایسے وزیر کو دو منٹ میں حکومت سے باہر کر دینا چاہئے تھا جو کسانوں کی اس طرح سے بے عزتی کرتے ہیں۔

ہمارے یہاں وزارتوں کی بڑے پیمانے پر عوامی شنوائی  ہوتی نہیں ہے، عوامی تجزیہ نہیں ہوتا ورنہ پتا چلتا کہ ایسے لوگ کون سا اسٹنٹ کرکے وزیر بن جاتے ہیں اور بنا کارکردگی  کے وزیر بنے رہتے ہیں۔ آخر مودی جی ہی بتا سکتے ہیں کہ زیرو رزلٹ والے اس وزیر کو کس لئے زراعت کی وزارت میں رکھا ہے۔ کسانوں کی بے عزتی کرنے کے لئے یا کام کرنے کے لئے۔ کیا آپ نے کبھی کسی زراعت کے بحران یا تحریک کے وقت اس وزیر کا کوئی رول دیکھا ہے؟ ویسے کس میڈیا میں کسانوں کی تحریک آ رہی ہے وزیر جی؟

انڈیا اسپینڈ نےایمس ہاسپٹل  پر ہو رہی بیان بازی کا تجزیہ کیا ہے۔ مودی حکومت نے اس سال جھارکھنڈ اور گجرات میں 2ایمس کا اعلان کیا ہے حکومت نے 20 ایمس جیسے ہاسپٹل کا بھی اعلان کیا ہے۔ یہ ایمس جیسا کیا ہوتا ہے، اس لئے ہوتا ہے کہ آپ ہر کام میں ایمس کا نام لگاکر اس کے برانڈ ویلیو کا استحصال کرنا چاہتے ہیں۔ عوام ویسے ہی ایمس کے نام پر خوش ہو جاتی ہے اور خواب دیکھنے لگتی ہے ۔ پر ان اعلانات کی حقیقت کیا ہے؟ مودی حکومت نے 2014 میں 4 نئے ایمس، 2015 میں 7 نئے ایمس اور 2017 میں 2 ایمس کا اعلان کیا ہے۔ اس کے لئے 148 ارب روپے  کا اہتمام کیا گیا تھا مگر حکومت نے ابھی تک 4 ارب روپے  ہی دئے ہیں۔ اب آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ایمس کس رفتار سے بن رہا ہوگا۔

148 ارب کا بجٹ اور دیا گیا ہے 4 ارب۔ اعلان کر دو، بعد میں کون پوچھتا ہے کہ بن بھی رہا ہے یا نہیں۔ 20 سال میں سب کچھ خود سے بن جاتا ہے۔ چونکہ ایمس کے نام سے علاقہ میں امیدوں کا پروپیگنڈ ہ اچھا ہوتا ہے، لوگ فخر محسوس کرنے لگتے ہیں اور ہوتا کچھ نہیں ہے۔ کام رہنماؤں کا ہو جاتا ہے۔ 1956 میں پہلا ایمس بنا تھا۔ اس کے بعد واجپئی  حکومت نے 6 ایمس بنانے کا اعلان کیا 2003میں۔ 2012 میں یہ ہاسپٹل  بنے۔ 9 سال لگے۔

سارے 6 ایمس میں 60 فیصد فیکلٹی نہیں ہے۔ 80 فیصد نان فیکلٹی عہدہ خالی ہیں۔ بنا ٹیچر پروفیسر کے طالب علم ڈاکٹری پڑھ رہے ہیں اور ایمس بن جا رہا ہے۔ اس سے تو اچھا ہے کہ کسی بھی کھنڈر یا خالی ہسپتال کا نام ایمس رکھ دو۔ ابھی جب ایمس بھوپال کے طلبا  نے مظاہرہ کیا، بھوپال سے دہلی  تک کی پدیاترا کی تب جاکر ایک فل ٹائم  ڈائریکٹر تعینات ہوا ہے۔ اسی لئے کہتا ہوں کہ زور کام پر نہیں، اعلان پر ہے۔ جب ٹیچر  نہیں مل رہے ہیں تب حکومت کوئی راستہ کیوں نہیں نکالتی ہیں۔ اتنی تنخواہ اور سہولت کیوں نہیں دیتی کہ ڈاکٹر نجی  ہسپتال میں نہ جائیں۔ انڈیا اسپینڈ نے ریسرچ کر کے بتایا ہے کہ گزشتہ سال کئی ایمس کے لئے 1300 عہدوں کا اشتہار نکلا۔

محض 300 لوگ منتخب کیے گئے  اور اس میں سے بھی 200 نے ہی جوائن کیا۔ یہ تو حالت ہے۔ ڈاکٹر ہی ایمس کو ایمس نہیں سمجھتے اور عوام میں ایمس کی برانڈنگ کا سیاسی فائدہ لیا جا رہا ہے۔ پر عوام کو تو کچھ فائدہ نہیں ہوا نہ۔ میڈیکل کے ایک طالب علم نے بتایا کہ ایمس رشی کیش کافی اچھا بنا ہے۔ مگر وہاں مریض نہیں ہیں۔ صرف ڈاکٹروں کی گاڑیاں کھڑی ملتی ہیں۔ اگر ایسا ہے تو یہ کتنا تکلیف دہ ہے۔ حکومت ،جو بن گیا ہے اسی کی  ڈھنگ  سے تشہیر کیوں نہیں کرتی ہے۔اسی کا انتظام دہلی  کے ایمس جیسا بنانے میں کیوں نہیں خود کو لگاتی ہے۔ اب آپ کو ایک اور جھانسا دیا جائے‌گا۔ بیمہ کا جھانسا۔ ہسپتال نہیں، ڈاکٹر نہیں مگر بیمہ لے لیجئے۔ بیمہ ایجنٹ ہی اب لوگوں کا علاج کرے‌گا۔