فکر و نظر

ایک ہی دن عید منانےکی ضرورت کیوں؟

ایک ہی دن عید منانے سے اتحاد کا سیدھا اور صاف پیغام ضرور جائے گا کہ اسی دن پورا ملک ایک ساتھ چھٹی بھی منا لے گا۔ مختلف مِلی و مذہبی گروپوں، تنظیموں اور اداروں کو اس سمت میں پہل کرنی چاہئے۔

eid_ul_fitr

فوٹو : پی ٹی آئی

ایک یا دو سال پہلے کی بات ہے، مدھیہ پردیش کی تجارتی راجدھانی کہے جانے والے شہر اندور میں رمضان کا چاند دِکھنے نہ دِکھنے پر دو گروپوں میں تناؤ ہو گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے معاملہ نازک سوال میں بدل گیا۔ایک گروپ کا کہنا تھا کہ چاند نہیں ہوا اور کل روزہ نہیں رکھا جائےگا۔دوسرے گروپ کی دلیل تھی کہ جب پورے ملک میں چاند مان لیا گیا ہے تو یہاں بھی چاند مان لیا جانا چاہیے۔ اس تنا تنی میں ہوا یہ کہ ایک گروپ کے ماننے والوں نے فیصلہ کر لیا کہ کل روزہ رکھا جائےگا۔ اس پر دوسرے گروپ والوں نے محلے محلے لوگوں کو پابند کر دیا کہ دیکھنا کوئی روزہ نہ رکھنے پائے۔ روزہ نہ رکھے جانے کے مساجد سے باقاعدہ اعلان کرائے گئے۔سوتے ہوئے لوگوں کو اٹھا اٹھا کر یا موبائل وغیرہ سے تاکید کی گئی کہ کل کا روزہ نہیں ہے۔کل روزہ مت رکھنا۔ اس سے پہلے تقریباً ہر سال ہی ایک آدھ سال چھوٹتا ہو کبھی، اندور میں عید کے چاند کو لے کر تناؤ، افواہیں اور سر پُھٹول کی نوبت آتی رہتی ہے۔

جون 2018 کے پہلے ہفتے میں اس سے ملتی جلتی خبر ممبئی کے اردو اخباروں میں پڑھنے کو ملی۔رمضان کا تیسرا ہفتہ ختم ہونے سے قبل شائع اس خبر میں کہا گیا تھا کہ اعتکاف ایک دن بعد شروع ہو گا۔ ہم سمجھ سکتے ہیں کہ یہ مسئلہ بھی چاند کی تاریخ آگے پیچھے ہونے سے جُڑا ہوا ہے اور ممبئی جیسے بڑے شہر میں ایک طبقے نے باہر سے آنے والی چاند دِکھنے کی خبروں پر ایک دن پہلے روزے شروع کر دیے تھے۔ ہجری سن چاند پر مبنی ہے اور 2018 کے رمضان بھی دیگر کئی بار کی طرح بھارت بھر میں آگے پیچھے چل رہے تھے، کیونکہ ملک کے کچھ حصوں میں چاند دکھائی نہیں دیا تھا۔لہذا جہاں چاند دیکھا گیا وہاں رمضان شروع ہو گئے،باقی لوگ چاند کے انتظار میں رہے۔ اُن کی سیدھی دلیل تھی چاند نہیں دِکھا سو رمضان بھی شروع نہیں ہوئے۔ایسے علاقوں کے باشندوں نے دورِ جدید کے وسائل کی شہادت ماننے سے انکار کر دیا۔اب، چند دنوں کے بعد عیدالفطر آ رہی ہے اور پورا اندیشہ ہے کہ چاند کا مسئلہ ایسے ہی الجھے گا۔ کئی بار یہ ہوا ہے کہ ملک کے کچھ حصوں میں عید آج منائی گئی اور کچھ حصوں میں اگلے دن۔

21 ویں صدی میں،اس پر غوروخوض نہیں کیا جانا چاہئے کہ ہندوستان جیسے بڑے ملک کے مسلمان ایک ہی دن اجتماعی طور پر عید منا لیں؟ مسلم اتحاد دکھانے کی کواشش کے بجائے ایک ہی دن عید منانے سے اتحاد کا سیدھا اور صاف پیغام ضرور جائے گا کہ اسی دن پورا ملک ایک ساتھ چھٹی بھی منا لے گا۔ مختلف مِلی و مذہبی گروپوں، تنظیموں اور اداروں جیسے مسلم پرسنل لا بورڈ کو اس سمت میں پہل کرنی چاہئے۔ مذہبی احکامات کو زیرِ نظر رکھتے ہوئے علم الفلکیات کی مدد سے، چاند کے دِکھائی دینے والے سن کا تعین کیا جا سکتا ہے۔

Eid_JamaMasjid

فوٹو : پی ٹی آئی

ابھی عید منانے، رمضان شروع ہونے یا دیگر ہجری ماہ شروع ہونے، ان کے اختتام  کا تعین کرنے کے لیے چاند کا دیکھا جانا ضروری ہے۔ ہندوستان میں عیدین کے علاوہ رجب میں خواجہ جی کا چاند دیکھنے کی بھی رِوایت ہے۔چاند کی بابت بہت سے علماء کا کہنا ہے کہ قرآن میں اس طرح چاند دیکھ کر مہینے کا تعین کرنے کے بارے میں کوئی واضح ہدایات نہیں ہیں، بلکہ اس میں مہینے کی آمد کا ذکر ہے۔اس کے مطابق، جو کوئی اپنے مقام پر ہے اور اسے کسی بھی وسیلے سے پتہ چلتا ہے کہ رمضان المبارک کی آمد ہو چکی ہے، تو روزہ رکھ لینا چاہیے۔ لہذا، رمضان اور عید کے لئے بہت ضروری نہیں ہے کہ اس طرح چاند دیکھا ہی جائے، جیسا کہ ہمارے یہاں ایک روایت سی بنا لی گئی ہے۔ اسی طرح چاند دیکھنے کے بارے میں حدیث بھی حقیقت میں تو ‘علم’ کی ہی بات کرتی ہے۔ ان کی روشنی میں ہمیں کیوں نہیں کسی سائنٹفک کلینڈر کی تیاری پر غوروخوض کرنا چاہیے۔

اس وقت سنی مسلمانوں کے چار بڑے مسلک حنفی، مالکی، حنبلی اور شافعی ہیں۔ ان کے ماننے والے امریکہ، کناڈا، آسٹریلیا، برطانیہ، یورپ، مشرق وسطیٰ یا دوسری جگہوں پر دور دراز علاقوں میں رہ رہے ہوں، وہ چاند کے لئے سعودی عرب پر انحصار کرتے ہیں۔ لہذا سعودی عرب سے رمضان المبارک کے آغاز کا اعلان ہونے پر ان کے بھی رمضان شروع ہو جاتے ہیں اور وہاں سے عید کا اعلان ہونے پر ان کی بھی عید ہو جاتی ہے۔ اس کے برعکس، جنوب ایشیائی ممالک کے مذہبی علماء نے تبدیلی افق کا حوالہ دے کر چاند دیکھنے کو لازم و ملزوم کر دیا ہے۔ دقیانوسی سوچ کو روا رکھتے ہوئے وہ فرمان جاری کرتے رہتے ہیں کہ عید منا لو، اگر نیا چاند دِکھ گیا ہو تو! اگرچہ اس سال صورتحال  بدلی ہے اور ملک کے کئی حصوں کے بہت سے مسلمانوں نے چاند خود نہ دیکھنے کے باوجود دیگر ذرائع سے ملنے والی اطلاعات کی بنیاد پر ہی رمضان مان لئے تھے۔

اہم بات یہ ہے کہ نئے مہینے کے چاند کو اپنی آنکھوں سے دیکھے جانے کی روایت کو یکسر مسترد نہ کرتے ہوئے، اس کے ساتھ یہ اہتمام بھی کیا جائے کہ كن ہی وجوہات سے، جیسے بادل ہونے پر نیا چاند نہ دیکھ پائیں تو علم الفلکیات اور ریاضیاتی مطالعات کی بنیاد پر چاند کے بارے میں فیصلہ لیا جا سکے۔

اسی سے جُڑا مسئلہ روزہ افطار، مغرب کی نمازو ختمِ سحری کا وقت متعین کرنے کا بھی ہے۔ یہ تینوں کام پوری طرح طلوع و غروبِ آفتاب سے جُڑے ہوئے ہیں۔ ان کا تعین بھی سائنٹفک بنیاد پر کیا جا سکتا ہے۔یاد رکھنا چاہئے کہ پیغمبر محمد کی آمد سے پہلے ‘دورِ جاہلیت’میں یہودیوں کا کیلنڈر رائج تھا۔ یہ بھی چاند سے منسلک کیلنڈر ہی تھا، لیکن حج یا دوسرے تہوار یا ان کے جشن انتہائی سردی یا گرمی کے موسم میں نہ آتے ہوئے، مخصوص ایام میں ہی آئیں، اس کے لئے وہ اِس کیلنڈر میں ایک اضافی ماہ شامل کر لیتے تھے۔ بعد میں، دورِ نبوی میں چاند کی بنیاد پر کیلنڈر ترتیب دیا گیا، جس سے سارے تہوار ہر موسم میں آنے کا قدرتی نظام قایم ہو گیا۔

(رشید قدوائی آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن [ORF]کے وزٹنگ فیلو ہیں اور ان کی تازہ ترین کتاب کا نام Ballot: Ten Episodes that Shaped India’s Democracyہے۔)