گراؤنڈ رپورٹ

کیا این ٹی پی سی کہلگاؤں بہار کی ’اسٹرلائٹ ‘بنتی جا رہی ہے؟

گراؤنڈ رپورٹ :نیشنل تھرمل پاور کارپوریشن کے کہلگاؤں واقع تھرمل پاور پلانٹ سے نکلنے والی راکھ سے آس پاس کے گاؤں میں رہنے والے لوگ پچھلے کئی سالوں سے دمہ، تپ دق اور پھیپھڑوں کے انفیکشن جیسی بیماریوں سے جوجھ رہے ہیں۔

کہلگاؤں واقع این ٹی سی پی کا سپر تھرمل پاور پلانٹ۔(فوٹو :امیش کمار رائے/دی وائر)

کہلگاؤں واقع این ٹی سی پی کا سپر تھرمل پاور پلانٹ۔(فوٹو :امیش کمار رائے/دی وائر)

22 مئی کو تمل ناڈو کے توتی کورن میں ویدانتا گروپ کا اسٹرلائٹ کاپر پلانٹ سے پھیل رہی آلودگی اور بیماری کو لےکر مظاہرہ کر رہے مقامی لوگوں پر پولیس نے گولیاں چلائیں تھیں، جس میں 13 لوگوں کی موت ہو گئی تھی۔اس دن بہار کی راجدھانی پٹنہ سے قریب 250 کلومیٹر دور بھاگل پور ضلع‎ کے کہلگاؤں بلاک کے آٹھ گاؤں کی تقریباً آدھ لاکھ آبادی نے توتی کورن کے لوگوں کی تکلیف شدت کے ساتھ محسوس کی۔وجہ یہ ہے کہ یہ آبادی بھی توتی کورن کے لوگوں کی طرح ہی لمبے وقت سے صنعتی یونٹ سے پھیلنے والی آلودگی  سے پریشان ہے۔

یہ لوگ ہندوستان کی مہارتن کمپنی نیشنل تھرمل پاور کارپوریشن (این ٹی پی سی) لمیٹڈ کے کہلگاؤں واقع سپر تھرمل پاور پلانٹ کے آس پاس کے گاؤں میں رہتے ہیں۔ کہلگاؤں میں این ٹی پی ایس کے سپر تھرمل پاور پلانٹ کا کام 1985 میں شروع ہوا تھا۔مارچ 1992 میں 210 میگاواٹ والی پہلی یونٹ  شروع ہوئی۔آہستہ آہستہ اس میں اضافہ ہوتا گیا اور 2009 تک اس پلانٹ کی بجلی پیداوار 2340 میگاواٹ ہو گئی۔ پلانٹ میں بجلی پیداوار کے لئے روزانہ 35 ہزار سے 50 ہزار ٹن کوئلے کا استعمال کیا جاتا ہے، جس کی فراہمی جھارکھنڈ واقع راج محل کول مائن سے کی جاتی ہے۔

 پلانٹ سے ہرسال تقریباً 65 لاکھ ٹن فلائی ایش نکلتا ہے۔فلائی ایش میں سیلیکا، ایلیومینا، پارا اور آئرن  ہوتے ہیں، جو دمہ، پھیپھڑے میں تکلیف، تپ دق اور یہاں تک کہ کینسرکی وجہ بن سکتے ہیں۔پلانٹ سے نکلنے والا یہ فلائی ایش 500 میٹر کے دائرے میں آنے والے آٹھ گاؤں ایکچاری، بھولسر، چائٹولا، مجداہا، چکرالو، مہیشامنڈا، کٹوریا اور جمنیا ٹولہ میں رہنے والے لوگوں کی صحت پر بہت برا اثر ڈال رہا ہے۔جمنیا ٹولہ کے رہنے والے 60 سالہ ڈھوری یادو کی گزشتہ سال نومبر میں موت ہو گئی تھی۔

وہ تپ دق اور دمہ کے شکارتھے۔ان کی نابینا بہو لالو دیوی کہتی ہیں،’ میں 20 سال پہلے شادی کرکے یہاں آئی تھی،تبھی ان کو دمہ کی شکایت تھی، جو آہستہ آہستہ بڑھتی گئی اور آخرکار موت کی وجہ بنی۔  ‘اسی گاؤں کے شمبھوناتھ منڈل اور ان کی بیوی جے ونتی دیوی تقریباً 20 سال سے دمے کی مریض ہیں۔کھیتی باڑی سے ان کا گزربسر چلتا ہے۔دونوں کو ہر مہینے صرف دوا پر 1200 روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں۔

شمبھوناتھ منڈل اور ان کی بیوی جئے منتی دیوی بھی دمے کی مریض ہیں۔ہرسال دواؤں پر ان کو 1200 روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں۔(فوٹو :امیش کمار رائے /دی وائر)

شمبھوناتھ منڈل اور ان کی بیوی جئے منتی دیوی بھی دمے کی مریض ہیں۔ہرسال دواؤں پر ان کو 1200 روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں۔(فوٹو :امیش کمار رائے /دی وائر)

شمبھوناتھ منڈل کہتے ہیں، ‘ڈاکٹروں سے جب دکھایا، تو انہوں نے کہا کہ دھول کی وجہ سے یہ بیماری ہوئی ہے۔  ’45 سالہ رام روپ یادو بھی اسی بیماری کی زد میں ہیں۔وہ بھاگل پور سے لےکر دہلی تک کے ڈاکٹروں کو دکھا چکے ہیں۔وہ کہتے ہیں، ‘ہرجگہ کے ڈاکٹر نے یہی صلاح دی کہ دھول دھواں سے دور رہو۔  ‘انہوں نے کہا، ‘یہاں سے محض 500 میٹر کی دوری پر این ٹی پی سی کا پاور پلانٹ ہے جہاں سے چوبیسوں گھنٹے فلائی ایش اڑکر ہمارے گھر تک پہنچتا ہے۔راکھ کی وجہ سے سانس لینے میں بڑی تکلیف ہوتی ہے۔  ‘

جمنیا ٹولہ گاؤں پلانٹ سے سب سے دور ہے، لیکن فلائی ایش یہاں تک پہنچ رہا ہے۔سنجے کمار یادو اپنے مکان کی چھت پر ہاتھ رگڑ‌کر دکھاتے ہوئے کہتے ہیں، ‘صبح چھت پر جھاڑو لگانے کے باوجود اتنا فلائی ایش جم گیا ہے۔فلائی ایش اڑنے کی وجہ سے ہم لوگ چھتوں پر سو نہیں پاتے ہیں۔اناج باہر رکھتے ہیں، تو اس میں بھی فلائی ایش بھر جاتا ہے۔سفید کپڑا زیادہ دیر تک چھت پر رکھنے سےکالا ہو جاتا ہے۔  ‘رام روپ اور شمبھوناتھ منڈل کی طرح ہی اس گاؤں کے اور بھی کئی لوگ دمہ اور تپ دق کے مریض ہیں۔

جمنیا ٹولہ سے سٹے مہیشامنڈا گاؤں کی حالت اور بھی خراب ہے کیونکہ یہ پلانٹ سے سٹا ہوا ہے۔گاؤں کے لوگوں کا کہنا ہے کہ فلائی ایش یہاں کے کئی لوگوں کی جان لے چکا ہے جبکہ کئی لوگ تپ دق سے شدیدطور سے مبتلا ہیں۔مہیشامنڈاکی آبادی تقریبا ًچھ ہزار ہے۔گاؤں کی مکھیا نصرت پروین کہتی ہیں، ‘یہاں کے کم سے کم دو درجن سے زیادہ لوگ تپ دق کی بیماری کے مریض ہیں۔کئی لوگوں کی تو موت ہو چکی ہے۔

کھیتوں میں فلائی ایش کے جم جانے سے پیداوار بھی کم ہو گئی ہے۔  ‘ پلانٹ کی راکھ سے صحت کو ہونے والے نقصان کو لےکر گاؤوں کے لوگ زبانی اور تحریری طور سے این ٹی پی سی کو واقف کرا چکے ہیں۔حکومت کی طرف سے بھی کمپنی کو احتیاطی قدم اٹھانے کو کہا جا چکا ہے۔

رام روپ یادو پچھلے 10 سال سے دمہ کی بیماری میں مبتلا ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ راکھ کی وجہ سے ان کو یہ بیماری ہوئی  ہے۔(فوٹو : امیش کمار رائے / دی وائر)

رام روپ یادو پچھلے 10 سال سے دمہ کی بیماری میں مبتلا ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ راکھ کی وجہ سے ان کو یہ بیماری ہوئی  ہے۔(فوٹو : امیش کمار رائے / دی وائر)

مقامی لوگوں کا الزام ہے کہ اس سمت میں کوئی پختہ قدم اب تک نہیں اٹھایا گیا ہے۔بہار اسمبلی کی ماحول اور آلودگی کنٹرول کمیٹی کے چیئر مین سی پی سنہا نے اس سال فروری میں متاثرہ گاؤں کا دورہ کیا تھا اور بتایا تھا کہ کمپنی کس طرح ماحولیات کے اصولوں کی اندیکھی کر رہی ہے، جس سے گاؤں میں بھاری آلودگی پھیل رہی ہے۔

سی پی سنہا اپریل اور مئی میں این ٹی پی سی سے پھیلنے والی آلودگی اور اس سے لوگوں کو ہونے والے نقصان کا تفصیلی اندازہ کرنے والے تھے۔فی الحال،ان کو سائنس اور عوامی فلاح و بہبود کمیٹی کا چیئر مین بنا دیا گیا ہے۔سنہا نے بتایا، ‘فروری میں جب میں نے دورہ کیا تھا تو دیکھا کہ آس پاس پلانٹ کا کچرا اور فلائی ایش پھیلا ہوا ہے۔مختلف گاؤں کے لوگوں نے پلانٹ سے نکلنے والی راکھ سے تکلیف کی بھی شکایت کی تھی۔  ‘

اس سے پہلے 15 فروری کو این ٹی پی سی گراؤنڈ میں ایک پبلک جلسہ کو خطاب کرتے ہوئے نتیش کمار نے این ٹی پی سی پر اصولوں کی اندیکھی کرکے آلودگی پھیلانے کا الزام لگایا تھا۔انہوں نے آلودگی سے نپٹنے کے لئے این ٹی پی سی کو جدید تکنیک کے استعمال کی صلاح دی تھی۔غور کرنے والی بات یہ ہے کہ ایسا پہلی یا دوسری بار نہیں ہے، جب کہلگاؤں این ٹی پی سی انتظامیہ کو آلودگی کنٹرول کے لئے احتیاطی قدم اٹھانے کو کہا گیا ہے۔دو سال پہلے بھی ایسا ہی ایک حکم مرکزی وزارت ماحولیات نے جاری کیا تھا۔

6 مئی 2016 کو وزیر ماحولیات پرکاش جاوڈیکر نے لوک سبھا میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہلگاؤں واقع این ٹی پی سی سمیت ملک کے 20 تھرمل پاور پلانٹس کو ماحولیات کی سطح برقرار رکھنے کے لئے ضروری قدم اٹھانے کا حکم دینے کی بات کہی تھی۔انہوں نے کہا تھا، ‘ تھرمل پاور پلانٹ سے پھیلنے والی آلودگی کو لےکر مرکزی آلودگی کنٹرول بورڈ نے کسی طرح کا تجزیہ نہیں کیا ہے، لیکن ماحولیات نگرانی دستے کے جائزہ کی بنیادپر14پلانٹ کوحکم دیا گیا ہے کہ وہ ماحولیات (تحفظ) 1986کےتحت ماحولیات کے معیارات کو اپنائیں۔  ‘

سنجے یادو جمونیا ٹولہ میں رہتے ہیں۔سنجے کا کہنا ہے کہ راکھ اتنی زیادہ اڑتی ہے کہ لوگ چھت پر سو نہیں پاتے ہیں۔(فوٹو : امیش کمار رائے / دی وائر)

سنجے یادو جمنیا ٹولہ میں رہتے ہیں۔سنجے کا کہنا ہے کہ راکھ اتنی زیادہ اڑتی ہے کہ لوگ چھت پر سو نہیں پاتے ہیں۔(فوٹو : امیش کمار رائے / دی وائر)

14 پلانٹس کے علاوہ چھ اور پلانٹ کے لئے متعلقہ ریاستوں کے آلودگی کنٹرول بورڈ سے کہا گیا تھا کہ وہ پاور پلانٹس کو ہوا (آلودگی کی روک تھام اور کنٹرول) ایکٹ 1981 اور آب (آلودگی کی روک تھام اور کنٹرول) قانون 1974 کے تحت ماحولیات کے معیارات کو قائم رکھنے کا حکم دیں۔ان چھ پلانٹ میں این ٹی پی سی کہلگاؤں بھی شامل تھی۔مقامی ایم ایل اے اور سابق وزیر سدانند سنگھ کا کہنا ہے کہ این ٹی پی سی کہلگاؤں سے آلودگی کو لےکر وہ بھی کئی بار مرکزی حکومت کو خط لکھ چکے ہیں۔

انہوں نے کہا، ‘میں نے دوتین مہینے پہلے وزارت ماحولیات کو خط لکھ‌کر این ٹی پی سی سے پھیلنے والی آلودگی کے بارے میں بتایا تھا۔  ‘سدانند سنگھ کہتے ہیں، ‘خط میں میں نے بتایا تھا کہ این ٹی پی سی کسی طرح ماحولیات کے اصولوں کی اندیکھی کر رہی ہے جس سے یہاں سے نکلی راکھ 5-6 کلومیٹر کے رقبے میں پھیل جاتی ہے۔میں نے یہ بھی کہا تھا کہ راکھ کی وجہ سے کافی لوگ دمے اور تپ دق سے متاثر ہیں۔اس سمت میں مرکزی حکومت کی طرف سے کوئی کارروائی اب تک نہیں ہوئی ہے۔  ‘

تمام احکام، اپیلوں کے باوجود زمینی حقیقت یہی ہے کہ فلائی ایش اب بھی لوگوں کی پریشانی کا سبب بنا ہوا ہے۔ کہلگاؤں سب ڈویژن ہسپتال کے ڈاکٹر ملک سنگھ کہتے ہیں، ‘میرے ذاتی کلنک میں آنے والے زیادہ تر مریض سانس کی بیماری، دمہ اور جلد کے مرض کے شکار ہوتے ہیں۔  ‘قابل ذکر ہے کہ 80 کی دہائی میں جب کہلگاؤں میں این ٹی پی سی کے سپر تھرمل پاور پلانٹ بنانے کی بات چلی تھی تو سماجی کارکنان اور کچھ مقامی لوگوں نے ممکنہ نقصان کو بھانپتے ہوئے پلانٹ قائم کرنے کے خلاف تحریک کی تھی۔حالانکہ اس تحریک کو بڑے پیمانے پر حمایت نہیں مل سکی تھی۔

گنگا مکتی کی تحریک شروع کرنے والے سماجی کارکن انل پرکاش نے کہا، ‘اصل میں گاؤں والوں کو ترقی اور خوشحالی کا سبزباغ دکھایا گیا تھا، جس کی وجہ سے وہ تحریک میں حصہ لینے سے بچتے رہے۔  ‘این ٹی پی سی کے خلاف تحریک میں فعال کردار نبھانے والے کہلگاؤں کے کاغذی ٹولہ باشندہ کیلاش ساہنی کہتے ہیں، ‘این ٹی پی سی کے پلانٹ سے ہونے والے نقصان کے بارے میں ہم لوگوں نے گھرگھر جاکرگاؤں والوں کو بتایا۔ان کو بیدار کرنے کی ہر ممکن کوشش کی تھی، لیکن ان کی حمایت ہمیں نہیں ملی۔آج گاؤں والے محسوس‌کر رہے ہیں کہ ترقی کے نام پر ان کو دھوکہ دیا گیا تھا۔  ‘

لالو دیوی کے سسر ڈھوری یادو بھی دمہ کے مریض تھے۔بیماری روزانہ بڑھتی چلی گئی اور آخرکار ان کی موت کی وجہ بنی۔(فوٹو : امیش کمار رائے / دی وائر)

لالو دیوی کے سسر ڈھوری یادو بھی دمہ کے مریض تھے۔بیماری روزانہ بڑھتی چلی گئی اور آخرکار ان کی موت کی وجہ بنی۔(فوٹو : امیش کمار رائے / دی وائر)

مقامی لوگ بتاتے ہیں کہ این ٹی پی سی پہلے فلائی ایش کہلگاؤں ریلوے اسٹیشن کے پاس واقع شاردا اسکول کے گراؤنڈ میں ہی پھینکا کرتی تھی، جس سے کلاس روم فلائی ایش سے بھر جاتا تھا اور بچوں کی پڑھائی پوری طرح مسدود رہتی تھی۔مقامی لوگوں اور طالب علموں نے اس کے خلاف کافی تحریک کی، تب جاکر تین سال پہلے یہاں فلائی ایش پھینکنا بند ہوا۔ مہیشامنڈاکے وارڈ نمبر 7 کے وارڈ ممبر سمن کمار تانتی نے کہا، ‘پلانٹ سے نکلنے والے فلائی ایش کی وجہ سے میری دادی پچھلے ڈیڑھ دو سالوں سے سانس کی تکلیف جھیل رہی ہیں۔ہم لوگوں نے این ٹی پی سی سے تحریری اور زبانی شکایت بھی کی، لیکن کوئی سدھار نہیں دکھ رہا ہے۔  ‘

مقامی صحافی پردیپ ویدروہی کہتے ہیں، ‘مجھے نہیں لگتا کہ انتظامیہ نے کبھی بھی لوگوں کے مسائل کو سنجیدگی سے لیا۔  ‘ریکارڈ بتاتے ہیں کہ این ٹی پی سی کہلگاؤں میں 30 اپریل تک 3700 میٹرک ٹن فلائی ایش اور 737000 میٹرک ٹن باٹم ایش کا اسٹاک تھا، جن میں سے ایش پانڈ میں 65.58 فیصد راکھ تھا۔بتایا جاتا ہے کہ کمپنی 50 فیصد کم راکھ کا استعمال کر پاتی ہے۔باقی راکھ اور پلانٹ سے نکلنے والے کچرے کو ڈمپ کر دیا جاتا ہے۔

مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ راکھ اور کچرا گنگا میں اور یہاںوہاں ڈمپ کئے جاتے ہیں۔اگر مقامی لوگ صحیح کہہ رہے ہیں تو یہ بھی فکر کی بات ہے کیونکہ راکھ میں پارا، سیلیکا، لوہا جیسے زہریلے مادہ ہوتے ہیں، جو زمین کے نیچے جاکر زیر زمین پانی کو آلودہ کرتے ہوں‌گے۔سینٹر فار سائنس اینڈ انوائرمینٹ (سی ایس ای) نے کچھ سال پہلے ‘ سی ایس ای گرین ریٹنگ پروجیکٹ ‘کے تحت ایوارڈ دینے کے لئے کوئلہ اور لگنائٹ پر مبنی ملک کے 41 پاور پلانٹ کے مختلف معیارات کو لےکر تجزیہ کیا تھا۔ان میں این ٹی پی سی کہلگاؤں بھی شامل تھی۔

یہ تجزیہ رپورٹ 28 فروری 2015 کو شائع ہوئی جس میں این ٹی پی سی کہلگاؤں کی ریٹنگ 20 سے 30 فیصدی ہی تھی۔اس کا مطلب ہے کہ این ٹی پی سی کہلگاؤں کی طرف سے آلودگی کنٹرول اور راکھ کے تصفیے کے لئے جو بھی قدم اٹھائے گئے، وہ ناکافی ہیں۔اس تعلق میں این ٹی پی سی انتظامیہ کا رد عمل جاننے کے لئے این ٹی پی سی کہلگاؤں کے رابطہ عامہ کے افسر سوربھ کمار کو فون کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ اس پر سرکاری بیان انتظامیہ سے جڑے افسر ہی دے سکتے ہیں۔

سوربھ کمار نے سوال ای میل کرنے کو کہا۔ان کے کہنے کے مطابق ان کے ای میل آئی ڈی پر 29 مئی کی دوپہر کو سوالوں کی ایک فہرست بھیجی گئی۔حالانکہ رپورٹ شائع ہونے تک ان کا جواب نہیں آیا تھا۔جوابی میل آنے پر اسٹوری اپ ڈیٹ کر دی جائے‌گی۔

(مضمون نگار آزاد صحافی ہیں۔ )