خبریں

عوامی تعلیمی تحریک کی جانب ایک قدم – تامل ناڈو سائنس فورم اور سائنسی تعلیم

1980 میں اساتذہ کیلئےتربیتی  پروگرامس سے شروع ہونے والاتامل ناڈو سائنس فورم آج تمل سماج میں ابتدائی تعلیم کولیکرسنجیدگی پیدا کرنےمیں کامیاب ہورہا ہے۔

علامتی تصویر/ فوٹو : دی ہندو

علامتی تصویر/ فوٹو : دی ہندو

انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی (آئی آئی ٹی) مدراس کےسائنسدانوں ، یونیورسٹیوں کےمحققین ، اور اساتذہ کے گروپ نےاس فورم کی بنیاد ڈالی تھی۔ابتداء میں ” ماحولیاتی تبدیلی”،”سائنسی تعلیم میں گراوٹ”، اور”سائنس وٹکنالوجی کا غلط استعمال”جیسےعنوانات پر پروگرام منعقد ہوتے تھے۔بتدریج اساتذہ، طلباء، اورمحققین کی بڑی تعدادفورم میں دلچسپی لینے لگی اور “سائنسی لکچرس”سے آگے بڑھ کر سال 1986 میں مدراس کےگاؤں گاؤں میں ٹیلی سکوپ اور سلائیڈ شو کی مدد سے ستاروں کی سیر ہونے لگی۔ بھوکے اور گھر بدر لوگ بھی ستاروں کے بارے میں جاننے لگے۔ سائنس کو قومی سطح پر شہرت دینے کیلئے فورم نے سال 1987 میں “بھارت جن وگیان جتا “کے بینر تلے ملک کے کونے کونے میں پروگرامس منعقد کئے اور “لوگوں کیلئےسائنس، قوم کیلئے سائنس اور دریافت کیلئے سائنس” کا نعرہ دیا۔سائنس کو طوطے مینا کی طرح رَٹنے کے بجائے آزاد علمی کھوج کا طریقہ مانا گیا۔

بعد ازاں تامل ناڈو کے مڈل اسکول کےاساتذہ فورم سے جڑنے لگے ۔جنہوں نےوقت کےمروجہ طریقہ تعلیم (یادداشت اور ذہن نشینی)پرسوالات اٹھانا شروع کیا۔”کیا سائنس ، یادداشتاوربلاسمجھ ذہن نشینی جیسےغیر سائنسی طریقوں سے سیکھی جاسکتی ہے؟”اور “سائنسی تعلیم میں تجربات اور تفتیش کی اہمیت “جیسے سوالات پربحث  کو عام کیا۔ سرکاری اسکولوں میں تجربات و مشقوں کے ذریعہ سائنسی تعلیم کیسے ہوتی جہاں بنیادی ضروریات بھی میسر نہ تھیں۔ دریں اثناء “ہوشنگاباد سائنس ٹیچنگ پروگرام” کی مدد سے کم اور واجبی قیمتوں پر مبنی تکنیک کا استعمال کرتے ہوئے سائنسی تجربات و مشقیں کروائی جانے لگیں ۔فورم سے جُڑے اساتذہ  “کیرلا شاستراساہتیہ پریشد” کی مدد سےسائنس سیکھنے کو”خوشگوار” بنانے کی کوشش کرنے لگے۔

فورم نے1988 سےسارے تامل ناڈو میں سلسلہ وار تربیتی کیمپ برائے اساتذہ کا انعقاد کرنا شروع کیاجس کے ذریعے مڈل اسکول کے اساتذہ کو واجبی و بغیر کسی قیمت پر مبنی سیکھنے سکھانے کے ماڈل بنانے کی تربیت دی جاتی تھی ۔ان کوششوں کا ثمرہ راست سرکاری اسکولوں تک ابھی نہیں پہونچا تھا، بہرحال فورم نے اپنے ماہانہ سائنسی جریدے “تھُلِر” کے طلباء قارئین پر مبنی سائنسی کلب “تھُلِر اِللامس” کا قیام عمل میں لایا۔
اسکول کے آگے سیکھنے کا عمل : فورم جہاں باضابطہ اسکولی تعلیم کی اہمیت دیتاہے وہیں اسکول کے باہر سیکھنے کو اتنا ہی اہم سمجھتا ہے۔”تھُلِر اِللامس “میں ماہانہ سائنسی جرائدکو پڑھنا، پودے لگانا ، بحث کرنا اور سائنسی دورےکرنا معمول تھا۔بتدریج ان میں سے کچھ بچے خود سے تجربےبھی کرنے لگے۔

حکومت تامل ناڈو نے فورم کو “نیشنل چلڈرنس سائنس کانگریس” تامل ناڈو چیپٹر کی ذمہ داری دی جس کا مقصدبچوں میں سائنسی مزاج کو پروان چڑھانا،مشاہدے کا سائنسی طریقہ،مواد جمع کرنے کا طریقہ، تجربات  کا تجزیہ کرنےکا طریقہ، نتائج تک پہنچنا اور معلومات کوپیش کرنا سکھانا تھا۔3 تا 5 بچوں پر مبنی گروپ مختلف تجربات کرتے جیسے :

1۔سڑک پر خستہ حال ٹپکنے والے پانی کے نل سے ضائع ہونے والے پانی کی مقدار معلوم کرنا۔

2۔ گھروں میں موجود “کمپوسٹ گھڑوںCompost ” کی تعداد معلوم کرنا۔

 3۔گاؤں میں موجود پرندوں کی اقسام کو معلوم کرنا۔

4۔  مقامی علاقے میں علم نجوم پر ایمان رکھنےوالے لوگوں کا فیصد معلوم کرنا وغیرہ۔

بچےنہ صرف مذکورہ بالاقسم کے تجربات کرتےبلکہ تفصیلی مشاہدات کے ذریعے ٹھوس نتائج تک پہنچ کر اُن کا تجزیہ اور بالآخر “چلڈرنس سائنسی کانگریس” میں اپنی معلومات و کارگزاریوں کو پیش بھی کرتے تھے۔

چلڈرن سائنس فیسٹول: یہ فیسٹول ، اسکول کے  علاوہ اوقات میں بچوں اور اساتذہ کیلئے سائنس اور بسا اوقات سماجی سائنس سیکھنے کا بہترین ذریعہ تھا۔اس فیسٹیول کا بنیادی مقصد بچوں میں اسکول کی اہمیت و افادیت کو دوبارہ پیدا کرنا ، سیکھنےاورسکھانےکودلچسپ ،  خوشگوار اور مؤثر بنانا تھا۔

مفت سائنسی تجربات اور کھیل کود کے ذریعے سائنسی تصورات کو سیکھا جاتا ۔ہائیڈروجن گیس کو پیدا کرنے کیلئے سائنسی لیاب میں استعمال شدہ مہنگےآلات کے بجائے “انڈے کاچِھلکا اور لیمو کا رَس ” استعمال کئے جاتے۔ اسی طرز پر طبیعات کے کئی تصورات جیسےجمود(Inertia)، برنولی کا قانون، طیف کی وجود پذیری و دیگر چیزوں کو سمجھنے کیلئے صرف ایک  “گنجلک آلہ  یعنی  کنٹراپشنcontraption ”  کافی تھا ۔روایتی کھیل جیسے پَنڈی (جسے شمالی ہند میں سٹاپو کہا جاتا ہے)کی مدد سے تمل قواعد سیکھے جاتے وغیرہ وغیرہ۔انفرادی کردار وں پرمبنی کھیل اورکٹھ پُتلی وغیرہ بھی استعمال ہوتے۔مذکورہ تمام سرگرمیاں سادہ اور تجربہ کے قابل ہوتیں۔

 فورم نے مختلف علوم کو آپس میں جوڑ کر اپنے اطراف کی دنیا کو سائنسی نقطہ نظر سے دیکھنے کی کوشش کی۔مثال کے طور پر باورچی خانے میں پکانے کو مختلف مروج علوم سے مربوط کرتے ہوئے دیکھاگیا۔ جیسےحساب(چیزوں کو تولنے اور تناسب نکالنے کیلئے)، حفظان صحت(پاکی و صفائی)، غذائیت، کیمیاء(پکانےسے متعلق)، توانائی(ہمہ اقسام کے سٹو اور پکانے کے طریقے)،  طبیعات اور ٹکنالوجی(پکانے کے دوران استعمال ہونے والے آلے جیسے چاقو وغیرہ) ۔ یہ سوال بھی اٹھایا گیا کہ”پکاتا کون ہے؟”۔ ایسا کیوں ہے کہ صرف خواتین ہی باورچی خانے کی صعوبتیں برداشت کرتی ہیں ؟ فورم ،سائنس وٹکنالوجی کے استعمال پر تنقید کو سماجی تبدیلی کیلئےضروری سمجھتا ہے۔ فیسٹول میں مختلف سماجی ومعاشی و ثقافتی پس منظر سے تعلق رکھنے والے بچوں کو مہمان-میزبان نظام کے ذریعے ایک دوسرے سے آشنا کروایا گیا۔فیسٹیول میں آئے مہمان بچوں کی میزبانی کی ذمہ داری مقامی بچوں کو دی جاتی جو انہیں اپنے گھروں میں رکھتےتھے ۔اس سے ہوتا یہ کہ دونوں ایک دوسرے کے بارے میں سیکھتے،رواداری میں اضافہ ہوتا اورہر ایک کواپنےسےالگ “دوسروں” کے بارے میں جاننے کا موقع ملتا تھا۔

فورم ابھی کچھ سالوں سےمخصوص سماجی سائنسی فیسٹیول کا بھی انعقاد کررہا ہے جس میں ذات پات،مذہب، پیسہ، جمہوریت، تغذیہ، رہن سہن، عادات و اطوار جیسے عنوانات پر بات ہوتی ہے ۔ فورم جہاں “تجربہ کرتے ہوئے سیکھنے “والے تدریسی عمل میں یقین رکھتا ہےوہیں سماجی مسائل پر تنقید کو بھی اہم سمجھتا ہے۔ فورم نے اساتذہ کیلئے بیاضوں (ہینڈ بکس)اور رسالوں کو شائع کیا جن میں تجربات کے ماڈلس، کھیل اور ورک شیٹس  پائی جاتیں۔ فورم کی جانب سے شائع شدہ مواد سرکاری کتابوں اور تعلیمی نظام میں اپنی جگہ بنانے لگا۔ اس وقت کامشہور زمانہ قول زریں “میں سنتا ہوں، بھول جاتا ہوں۔ میں دیکھتا ہوں،  یاد رکھتا ہوں۔ میں کرتا ہوں ، سمجھتا ہوں”فورم کےنظریاتی غلبے کا ثبوت دیتا تھا۔

دوپہر کے کھانے کی اسکیم کی وجہ سے تامل ناڈو میں اسکولوں میں داخلے میں کافی اضافہ توہوا لیکن ڈراپ آؤٹ کی شرح میں بھی اضافہ ہورہا تھا۔ڈراپ آؤٹ کی وجہ یہ سمجھی جاتی ہےکہ غریب طلباء گھر چلانے کی خاطر “بچہ مزدوری “کرتے ہیں!یقیناََ بچہ مزدوری ایک بہت بڑا مسئلہ ہے ۔ لیکن1991 میں ہوئی ایک تحقیق کے مطابق”ایسے گاؤں جہاں ڈراپ آؤٹ شرح زیادہ ہے وہاں بچہ مزدوری کا باضابطہ نظم نہیں ہے “بلکہ ڈراپ آؤٹ کی اہم ترین وجوہات ، بچوں کی اسکول میں عدم دلچسپی،  ان کی تعلیمی ناکامی اوروالدین کی جانب سے نظم و ضبط کی کمی پائی گئیں۔”سیکھنے میں لطف” دراصل کلاس روم کو فعال ،متحرک اور سائنسی تعلیم کو دلچسپ بنانا،بچوں میں بھروسہ کی بازیابی اورانہیں اسکول کی جانب پھر راغب کرنے کا ہتھیار تھا۔ سیکھنے کے دوران لطف کو ہائیڈروجن کی تیاری کا خوشگوار احساس و رول پلے کے دوران آنے والی مسرت انگیز کیفیات ،کسی چیز کودریافت اور اپنے اطراف کے ماحول کےادراک سے مربوط کیا گیا۔بچوں کولکھنے، پڑھنے اور حساب کتاب آجانے کی مہارت آجانے پر ان میں دلچسپی کی برقراری کے مماثل مانا گیا۔ بہرکیف بچوں پر محیط سرگرمیاں، فورم کا اٹوٹ حصہ رہی ہیں۔

فورم کے ابتدائی دور میں اساتذہ کومفت تعلیمی نمونوں کو بنانے پر ابھاراگیا۔ 1990 سےبچوں اورسرگرمیوں پر محیط تدریسی عمل کے پرچاراور کمیونٹی کو متحرک کرنےمیں،ان  تک رسائی اور ان کے معیار میں اضافہ کرنے میں اہم کردار ادا کررہا ہے۔اساتذہ، طلباء اور اسکول سنبھالنے والوں کے ساتھ ساتھ، والدین،  سوِِل سوسائٹی، ریاستی تعلیمی افسران، اساتذہ یونینیں، عالمی ایجنسیاں جیسے یونیسیف اور دیگر غیر سرکاری تنظیمیں بھی شامل ہیں۔

فورم ،متذکرہ بالا افرادکی تعلیمی مجالس بھی منعقدکررہا ہے تاکہ اصلاح کی کوشش اوپرسے نیچے مسلط نہ ہوجائے ۔

فورم ابھی بھی کئی ایک معاملات میں پیچھے ہے۔ ابتدائی سالوں سے ہی فورم نے مروجہ امتحان کے نظم اور جانچنے کے طریقے کو (جویادداشت اور سُرعت ِتفہیم و تدریس پر مبنی ہے )کڑی تنقید کا نشانہ بنایا کہ یہ نظم بچوں کےسیکھنے کےعمل کوصحیح جانچ نہیں سکتا ۔فورم نےاس تنقید پر مبنی جانچنے کا کوئی متبادل نظام نہیں پیش کیا(اور نہ کرسکا)۔

فورم کی اکثر سرگرمیاں بچوں اورسرگرمیوں پرمحیط تدریسی نمونوں کی تیاری رہی ہیں۔ نصاب کی تیاری و ترقی میں اس کا نسبتاََ کم حصہ رہا۔ہمارے ملک کے تعلیمی نصاب میں ایک ہی قسم کا نصاب اغلب رہا ہے اورہمہ ریاستی، مختلف فیہ سماجی-معاشی پس منظر اور ثقافتی تغیرات کویکسر نظر انداز کردیا گیا۔ سماجی و معاشی لحاظ سے پسماندہ طالب علم  کے نقطہ نظر سے نصاب کیسا ہو؟ فورم اس معاملہ میں کوئی پیش رفت نہیں کرسکا  !

ہر ترقی پسند ماہر تعلیم کی طرح فورم بھی ،کم از کم پرائمری سطح تک مادری زبان میں تعلیم کی وکالت کرتا ہے۔ انگریزی تدریس و تعلیم کی جانب کم ہی توجہ دی گئی۔ بہر حال ا ب کئی دَلِت جہد کار حضرات پسماندہ طلباء کیلئے معیاری انگریزی تعلیم کا مطالبہ کررہے ہیں کیونکہ یہی وہ چیز ہے جو انہیں سماجی طور پر فعال و متحرک رکھ سکتی ہے۔ زبان کے اس مسئلہ پر پھر سے سوچنے کی آج بھی اشدضرورت ہے۔

(مضمون نگار ٹی وی وینکٹیشورن،سائنسداں ہیں اور وگیان پرسار نئی دہلی سے وابستہ ہیں ۔یہ مضمون  لرننگ کرو میں شائع ہوا تھا۔جس کا اختصار اور ترجمہ عبدالمومن نے کیا ہے۔)