ادبستان

فلم ریویو: سینما کی تاریخ میں کالا پہلی فلم ہے، جس میں کردار جئے بھیم کے نعرے لگاتے ہیں

میرے لئے کالا حیران ہوکر دیکھنے والی فلم رہی،ہندوستانی سینما کی تاریخ میں کالا پہلی فلم ہے، جس میں کردار جئے بھیم کے نعرے لگاتے ہیں۔

Kaala

دو سال پہلے آئی رجنی کانت کی فلم کبالی(Kabali) میں ایک سین ہے۔جیل میں قیدی  رجنی کانت کے ہاتھ میں ایک کتاب ہے۔ہارپر کالنس سے چھپی وائی بی ستیہ نارائن کی My Father Baliah۔تلنگانہ میں دلت آندولن سے جڑی ایک مشہور آپ بیتی۔کچھ دوسرے سین میں امبیڈکر کی تصویریں ہیں۔اب وہ سارے سین اس سیاسی مداخلت کے مشق و ریاض لگتے ہیں، جو کالا میں پوری طاقت سے کیا گیا ہے۔میرے لئے کالا حیران ہوکر دیکھنے والی فلم رہی،تجربہ رہا۔

فلم میں ان تمام روایتی قدروں کی دھجیاں اڑائی گئی ہیں ،جس کی وجہ سے برہمن واد نے جیسے آب حیات پا لیا ہے۔مثلاً رام کتھاکا ایک متوازی دلت سبق اور اَسُرکمیونٹی کو لےکر انسانی نقطہ نظر۔حیرت و استعجاب سے خالی ایک کہانی، جو ہزار بار کہی جا چکی ہے، کالا میں پھر سے ایک بار دیکھتے ہیں، لیکن جو چیز آپ کو سچ مچ حیرت زدہ کرتی ہے، وہ ہے ایک پرانی کہانی کا نئی قرأت۔فرض کیجئے، رام کی کہانی میں آپ راون کو ولن کی طرح نہ دیکھ‌کر رام کو ولن بنا دیں۔فرض کیجئے، مہیشاسر مردنی درگا کو ایک سازش کرنے والی خاتون کے طور پر دیکھیں اور مہیشاسر کو ایک عوامی ہیرو کی طرح دیکھیں۔

یہی سبق تو پچھلے کچھ سال سے دلت ڈسکورس کی طرف سے تقسیم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، جس کے عوض میں فاروارڈ پریس جیسے رسالہ پر پابندی لگائی جاتی ہے اور پارلیامنٹ میں جے این یو میں دسہرہ مخالف نعروں پر اعتراض کیا جاتا ہے۔مجھے سچ مچ خوشی ہوئی، جب میں نے یہ سارا ڈسکورس ایک کہانی کی شکل میں کالا میں پایا۔ہندوستانی سینما کی تاریخ میں کالا پہلی فلم ہے، جس میں کردار جئے بھیم کے نعرے لگاتے ہیں۔گجرات میں ایک اکیلا جگنیش میوانی بی جے پی کی پوری سیاست پر بھاری پڑ رہا ہے۔

جس وقت میں دلتوں پر ظلم کے  واقعات بڑھ رہے ہیں اور اونا سے لےکر کورےگاؤں تک کی آواز پورے ہندوستان کی آواز ہو جا رہی ہے، جب سیاسی تاریخ میں دلت یکجہتی کا سب سے بڑا مظاہرہ سب سے کامیاب ہندوستان بند کے طور پر سامنے آ جاتا ہے، تب ادب اور سینما کی ذمہ داری ہے کہ وہ وقت کی آواز کو درج کرے۔کالا میں جس رعب کے ساتھ دلتوں کا سیاسی ردعمل سمیٹا گیا ہے، مجھے تعجب ہے کہ ایسے موقع پرست  سینسر بورڈ نے اس کو روکنے کی کوشش کیوں نہیں کی۔

گزشتہ دنوں سینسر بورڈ نے ایسی ڈھیر ساری فلموں کو کچلنے کی کوشش کی ہے، جو سماج میں نئے ڈسکورس کی خوشبو پھیلانے کے لئے بنائی گئی تھی۔اس لئے میرا ماننا ہے کہ بڑے اسٹار کو سینما کے ذریعے سیاسی مداخلت سے گھبرانا نہیں چاہیے۔کھل‌کر سامنے آنا چاہیے۔ان کے سامنے آنے سے کسی بھی ڈسکورس کو طاقت ملتی ہے۔کالا میں دھاراوی راون کی لنکا کی علامت ہے اور نریندر مودی کے سوکش بھارت ابھیان  کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ساتھ ہی ڈیجیٹل ممبئی کے مصنوعی نعرے کا سب سے بڑا کانٹا۔اس روڑے اور کانٹیں کی ڈور رجنی کانت کے ہاتھوں میں ہے، جو مزدوروں اور غریب آبادی کے حقوق کے لئے جدو جہد کا ہیرو ہے۔

یہ نظام رجنی کانت کو مارنا چاہتا ہے۔ہنومان کے لنکا دہن کی طرح کالا کی دھاراوی بھی جلایا جاتا ہے۔رام کتھا کے شور کے درمیان اس کے قتل کی پوری کہانی ہم پردے پر دیکھتے ہیں اور آخر میں دیکھتے ہیں کہ ہر محروم شہری راون ہو گیا ہے۔یعنی سب کے سب کالا ہو گئے ہیں اور رام کا بانا اوڑھے سیاست کےعصر ی علامت کا اجتماعی قتل کرتے ہیں۔یہ پورا کلائمکس جن تین رنگوں کے سایوں میں شوٹ کیا گیا ہے، وہ رنگ ہیں کالا، نیلا اور لال۔یہ تینوں رنگ آج کی اشرافیہ  سیاست کے لئے سب سے زیادہ چبھنے والے رنگ ہیں۔

کالا کے ہدایت کار پا،رنجیت وہی ہیں جنہوں نے،کبالی بنائی تھی۔2012 میں ایک رومانٹک کامیڈی سے اپنا کیریئر شروع کرنے والے  رنجیت کو 2014 میں مدراس نام کی فلم سے بڑی پہچان ملی، جو پوری طرح سے ایک سیاسی کہانی تھی۔کبالی میں رنجیت کے سیاسی نقطہ نظر کی ایک صورت ملتی ہے اور کالا میں وہی برگد کا  درخت بن‌کر ہزاروں سالوں کے سیاسی عقائد کے سینہ پر اگ آیا ہے۔میں نہیں جانتا کہ رجنی کانت سیاسی طور پر کتنے باخبر ہیں، لیکن کبالی کے بعد کالا میں بھی ان کا ہونا ظاہر کرتا ہے کہ وہ اس وقت کی ضرورت کو سمجھ رہے ہیں۔

میرا خیال ہے کہ سیاست کی نئی، ضروری اور متبادل ہوا میں یقین رکھنے والوں کو کالا ضرور دیکھنی چاہیے۔یہ ایک طرح سے آنند پٹ وردھن کی مشہورڈاکیومنٹری فلم جئے بھیم کامریڈ کا فکشنل ورژن ہے۔