فکر و نظر

شدت پسندی کے رجحانات اور ہندوستانی مسلمان

مسلکی اختلافات جیسے سنگین مسئلے سے نمٹنے کے لیے اقدامات کیے گئے ہیں، تاکہ دنیا کے سامنے امت مسلمہ کا اتحاد پیش کیا جا سکے۔

فوٹو: او آر ایف/فیس بک

فوٹو: او آر ایف/فیس بک

دنیا میں بڑھتے شدت پسندی کے رجحانات پر غوروخوض کرنے کے لیے حال ہی دہلی میں ایک اہم کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ آبزرور رِسرچ فاونڈیشن (او آر ایف) کے کاؤنٹرنگ وایولینٹ ایکسٹریمِزم (سی وی ای) یعنی پُر تشدد شدت پسندی کا سامنا، پروگرام کے تحت اس کانفرنس میں عالمی سطح کے ماہرین تحفظ اور پالیسی میکرز یعنی حکمت عملی کے ماہرین نے شرکت کی۔

‘ٹیکلنگ اِنسرجینٹ آئیڈیولاجیز’ کے عنوان سے منعقدہ کانفرنس کا کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے انگلینڈ کی وزیر بیرونیس ولیم نے کہا کہ، شدت پسندی سے اکیلے لڑنا کسی بھی ملک کے بس کی بات نہیں ہے۔ پورے عالم کے سامنے موجود اس ہولناک خطرے کا سامنا کرنے کے لیے تمام ممالک کو ایک جُٹ ہونا پڑےگا۔ کوئی بھی حکومت تنہا شدت پسندی کی مختلف شکلوں کو شکست نہیں دے سکتی، نہ ہی دینا چاہیے۔ اس کاز کے لیے ہمیں سب کی مدد چاہیے اور یہی وجہ ہے کہ اس میں ہم سب کا ساتھ چاہتے ہیں۔

حکومت ہند میں خارجہ معاملات کے وزیر ایم جے اکبر نے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اسے واضح کیا کہ انتہا پسندی اور دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے جمہوریت کا بچا رہنا کتنا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ جمہوریت کی بدولت ہی ہندوستان دہشت گردی کو روکنے میں کامیاب رہا۔ ہندوستان  میں سیکولر ڈیموکریسی کا ہی فیضان ہے کہ یہاں کی اقلیتوں کو پین اسلامک رجحانات، خاص کر القاعدہ اور اسلامک اسٹیٹ جیسی دہشت گرد تنظیمیں راغب نہیں کر پائیں۔ اکبر کے مطابق “دنیا میں صرف بھارت کے مسلمان ہی مسلمانوں کا وہ بڑا طبقہ ہے، جس کے حصے میں مسلسل سات دہائیوں کا جمہوری نظام آیا ہے۔”

ایک مباحثے میں راقم السطور، ڈاکٹر اخترالواسع، پون ورما اور او آر ایف کی مایا میر چندانی نے ہندوستان کے تناظر میں ٹیکلنگ اِنسرجینٹ آئیڈیولاجیز کے مسئلے پر اظہارِ خیال کیا۔ اس میں خاص طور سے یہ بات سامنے آئی کہ سیاست داں اس مسئلے کو بہت سرسری نظر سے دیکھتے ہیں۔دورانِ گفتگو یہ بات بھی آئی کہ کئی سال پہلے جب ڈاکٹر منموہن سنگھ بحیثیت وزیر اعظم امریکہ گئے تو امریکہ کے صدر جارج بُش نے اپنی اہلیہ لارا بُش سے ان کا تعارف یہ کہہ کر کرایا تھا کہ “یہ ہندوستان کے وزیراعظم ہیں، اُس جمہوری ملک کے، جہاں کے 150 ملین مسلمانوں میں القاعدہ کا ایک بھی ممبر نہیں ہے۔”یہ صورتِحال تو ابھی بھی ہے لیکن ملک کی سیاست اور سیاسی حالات اور ہی رنگ پکڑ رہے ہیں۔ اس میں سب سے بڑا مسئلہ جمہوریت میں شراکت داری کا ہے۔ اکبر اور پون ورما صاحب بھلے سات دہائیوں کے جمہوری سفر کی بات کر رہے ہوں لیکن آج حالات دوسرا رخ اختیار کر رہے ہیں۔

سن 2014 کے لوک سبھا الیکشن میں ہندو ووٹ پہلی بار متحد ہو کر یک طرفہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے حصے میں چلا گیا۔ نتیجتاً ہندوستان کے 150 ملین مسلمانوں کو لوک سبھا میں صرف 23 سیٹیں ہی مل پائیں۔ یہ لوک سبھا میں ان کی سب سے کمزور نمائندگی تھی۔ حالانکہ ایسا پہلی بار نہیں ہوا تھا۔ آبادی کے تناسب سے پارلیامنٹ میں ان کی نمائندگی ہمیشہ کم ہی رہی۔ صرف سن 1980 میں ان کے پاس 49 سیٹیں تھیں، جو لوک سبھا میں ان کی سب سے زیادہ سیٹیں رہیں۔ 1952 میں ان کے پاس صرف 21 سیٹیں تھیں، 1957 میں 24، 1962 میں 23، 1967 میں 29، 1971 میں 30، 1977 میں 34، 1980 میں 49، 1984 میں 46، 1989 میں 33، 1991 میں 28، 1996 میں 29، 1999 میں 32، 2004 میں 36، 2009 میں 30 اور 2014 کے الیکشن میں ان کے ہاتھ صرف 23 نشستیں آئیں۔

پارلیامنٹ میں مسلمانوں کی نمائندگی کم ہونے کی ایک اہم وجہ فرقہ پرستانہ ذہنیت ہے، جس کے چلتے تمام مبینہ قومی سیاسی پارٹیاں انہیں چناؤ میں ٹکٹ نہیں دیتی ہیں۔ پورے ملک کے سیاسی منظر نامے میں اکثریت کا دبدبہ نظر آتا ہے، جو اقلیتی سیاستدانوں، خاص طور سے مسلمانوں کے ساتھ کسی بھی طرح کی رو رعایت کو گوارا نہیں کرتی۔ مسلمانوں کو ٹکٹ دینے کی صورت میں اکثریتی ووٹوں کا جھکاؤ دائیں بازو کی حامی جماعتوں کی طرف ہو جانے کا خدشہ لگا رہتا ہے، ساتھ ہی مسلمانوں کی منہ بھرائی کے الزامات بھی جھیلنا پڑتے ہیں۔ اس سے تمام سیاسی پارٹیوں نے مسلم امیدواروں سے گُریز کرنے کی پالیسی اپنا لی۔

اس کے ساتھ ہی مسلم مخالف پولرائزیشن ایک خطرناک صورت اختیار کرتا جا رہا ہے، جس پر لگام  ضروری ہے۔ اگر ہندوستانی مسلمان، خصوصاً نوجوان طبقے کا اعتبار سیاسی عمل اور سیاسی نظام سے اٹھ گیا تو یہ نہ صرف دورِحاضر بلکہ آئندہ زمانے کے لیے بھی ٹھیک نہ ہوگا۔ اگر ہم حالیہ ہونے والے ہجومی تشدد کے واقعات کی ہی بات کریں تو انہیں لے کر جھوٹی خبریں اور افواہیں پھیلانا، بے گناہ لوگوں کو بلوہ یا بغاوت جیسے الزامات میں گرفتار کرنا، قانون کا من مانا استعمال اور ان سب کو دیکھ مسلمانوں کے بیچ پھیل رہی مایوسی۔ یہ باتیں خطرناک ہیں اور تمام لوگوں کو ہوشیار ہو جانے کی دعوت دے رہی ہیں۔ ان واقعات کے ملزمین کے ساتھ رعایت (ساتھ ہی موقعہ بے موقعہ ہندو راشٹروادیوں کے ذریعے کیے جانے والے تشدد کے واقعات) نے مسلمانوں کی ترقی روک دی ہے، وہ سماجی و معاشی معاملات میں ایک دائرے کے اندر سمٹ کر رہ گئے ہیں۔ ابھی ہندوستانی مسلمانوں نے تلوار رکھ دی ہے اور ملک کی (آدھی ادھوری) جمہوریت میں انہیں جو بچے کھچے مواقع میسر آ رہے ہیں، ان سے وقت گزاری میں لگے ہیں۔

پر تشدد انتہا پسندی کی روک تھام کے لیے بھارتیہ مسلم سماج میں دن رات کام ہو رہا ہے۔ سماجی قائد، والدین، مذہبی رہنما اور دیگر با اثر لوگوں میں کون ہے جو اس کام میں اپنا رول ادا نہ کر رہا ہو۔ مبینہ نیشنل میڈیا کی چمک دمک و نام و نمود کی خواہش سے دور سماج کا ایک بڑا طبقہ اس بابت اپنی ذمہ داری بخوبی نبھا رہا ہے۔ حقیقت میں تو ملک کی کوئی ایسی اسلامی تعلیم گاہ نہیں بچی جس نے خودکش حملوں اور معصوم لوگوں کو مذہب کے نام پر مار دیے جانے کے خلاف فتویٰ نہ جاری کیا ہو۔

11-25 سال کے مسلم بچوں کے والدین، سوشل میڈیا پر اپنے بچوں کی سرگرمی کا معائنہ کرتے رہتے ہیں۔ غیر ملکی سفر کے دوران اپنے نوجوان بیٹوں کے لا پتہ ہو جانے یا ان میں انتہا پسندی کے رجحانات محسوس ہونے پر کیرل اور مہاراشٹر کے کچھ والدین نے خود پولیس سے رابطہ کر اسے صورتِ حال سے آگاہ کیا۔

ہندوستانی مدرسے پاکستانی اور افغانستانی مدارس سے کافی الگ ہیں۔ اختلافِ رائے کا احترام کرتے ہوئے اپنی بات رکھنے کے لیے ہمارے یہاں کے مدرسوں میں انہیں “سلیقہ اخلاق” سکھایا جاتا ہے۔ اس کے اسباق میں صحابہ کے واقعات شامل ہیں کہ کیسے وہ آپس کے اختلافات سلجھا لیا کرتے تھے اور چاروں امام کی مثالیں ہیں کہ کیسے وہ جارحانہ یا پُر تشدد رخ اپنائے بِنا اختلافی خیالات ظاہر کر دیا کرتے تھے۔

مسلکی اختلافات مسلمانوں کے لیے ایک بڑا مسئلہ ہے۔ کچھ فرقوں کی بنیاد ہی دیگر فرقوں سے نفرت پر رکھی گئی ہے، جو کئی بار آگے چل کر مُتشدد ہو جاتی ہے۔ اس سنگین مسئلے سے نمٹنے کے لیے کئی اقدامات کیے گئے ہیں، تاکہ دنیا کے سامنے مسلم امت کا اتحاد پیش کیا جا سکے۔

قوم کو انتہا پسندی کے خطرے کی جانب بڑھنے سے روکنے کے لیے ماہر صلاح کاروں، سماجی خدمت گزاروں، مذہبی شخصیات اور سماج کے دیگر با اثر لوگوں کی اجتماعی خدمات کی اشد ضرورت ہے۔

آخر میں ؛انتہا پسندی کو روکنے کے نام پر آتنک وِرودھی کئی پیمانے بنا لیے گئے ہیں، حفاظتی دستوں کو مزید اختیارات دے دئے گئے ہیں، سوشل میڈیا اور ٹیلیفون کالز کو کنٹرول کیا جانے لگا ہے اور دہشت گردی کی تعریف کا دائرہ بڑھا دیا گیا ہے۔ لیکن لگتا ہے کہ اس سب کا اصل مقصد سرکار مخالف جمہوری مظاہروں پر روک لگانا ہے۔ اس وقت تو دنیا بھر کی حکومتیں قومی تحفظ کےنام پر سیاسی مخالفتوں کا گلا گھونٹنے میں لگی ہوئی ہیں۔

(رشید قدوائی آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن [ORF]کے وزٹنگ فیلو ہیں اور ان کی تازہ ترین کتاب کا نام Ballot: Ten Episodes that Shaped India’s Democracyہے۔)