ادبستان

بک ریویو: تیلگو مسلمانوں کی زندگی میں جھانکتی کہانیاں…

تم کیسے مسلمان ہو کہ تمھاری بیوی برقعہ نہیں پہنتی اور تم اردو نہیں بولتے…۔یہ کہانیاں اتنی حقیقی اور جانی پہچانی سی ہیں کہ اسے پڑھتے ہوئے احساس ہی نہیں ہوتا کہ ہم فکشن پڑھ رہے ہیں۔

VegeteriansOnly_BookLaunch

فوٹو : فیس بک

عام طور پر جب بھی ہم ریاست آندھرا پردیش یا تلنگانہ کے مسلمانوں کی بات کرتے ہیں تو ہماری گفتگو کا مرکزحیدرآباد کے مسلمان ہوتے ہیں یا پھر ان ریاستوں کے وہ مسلمان جن کی زبان دکنی یا اردو ہے۔حالاں کہ جنوبی ہندوستان کی ان  ریاستوں میں ہندوستانی مسلمانوں کی ایک بڑی آبادی رہتی ہے اور ان میں سے اکثر کی مادری زبان تیلگو ہے۔چنانچہ تیلگو مسلمانوں کے مسائل کیا ہیں، وہ کیا سوچتے ہیں، کیسے رہتے ہیں اور ان کی زندگی ملک کے دوسرے مسلمانوں سے کتنی مختلف یا یکساں ہے ہمارے ڈسکورس میں بالعموم شامل نہیں ہو پاتی۔

پیش نظر کتاب ایک افسانوی مجموعہ ہے جو تیلگو بولنے والے مسلمانوں کی کہانیوں پر مشتمل ہے۔یہ کہانیاں بنیادی طور پر تیلگو میں لکھی گئی تھیں، یہ اسی کا انگریزی ترجمہ ہے-ان کہانیوں کے مصنف کا قلمی نام اسکائی  بابا ہے۔

بارہ کہانیوں پر مشتمل اس مجموعے کی پہلی کہانی جانی بیگم ہے،اصل تیلگو میں اس کا عنوان ‘چھوٹی بہن’ ہے ۔اس کہانی میں افسانہ نگار اپنی چھوٹی بہن جس کا نام جانی بیگم ہے کی شادی سے قبل اور بعد کی زندگی کی عکاسی کرتا ہے۔شادی سے قبل جانی بیگم گھر کے کسی کام میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی ، بلکہ جب بھی اس سے گھر کا کام کرنے کو کہا جاتا ہے ہے تو وہ یا تو صاف منع کر کر دیتی ہے یا یہ کہتی ہیں کہ ابھی اس کی  پڑھائی کا وقت ہے۔اس کو لے کر تقریباً ہر روز ماں بیٹی میں جھگڑا ہوتا ہے۔نوبت یہاں تک آ جاتی ہے کہ بھائی کو دخل دینا پڑتاہے۔جانی بیگم نے یہ بھی کہہ رکھا ہے کہ وہ برقعہ نہیں پہنے گی۔

راوی گھر والوں کی ناراضگی کے باوجود اپنے چھوٹی بہن کی حمایت کرتا ہے۔بہن اچھے نمبرات سے انٹر کا امتحان پاس کر لیتی ہے اور اس کی دلی خواہش ہے کہ وہ بی اے میں داخلہ لے لیکن گھر کےمالی حالات ایسے ہیں کہ لاکھ چاہنے اور بھائی کی حمایت کےباوجود وہ بی اےمیں داخلہ نہیں لے پاتی ہے۔پھر جلد ہی اس کی شادی ہو جاتی ہے۔شادی کے بعد جب اس کا بھائی اپنی چھوٹی بہن کے سسرال جاتا ہے تو دیکھتا ہے کہ اس کی بہن کو وہ سب کرنا پڑ رہا ہے جس کے لئے وہ ہمیشہ لڑتی جھگڑتی رہی۔یہ سب دیکھ کر اس کا دل ٹوٹ جاتا ہے اور وہ زاروقطار رونے لگتا ہے۔

دوسری کہانی جس کا انگریزی عنوان پٹیشن ہے،ایک بے یارو مددگار بزرگ عورت کی درد بھری داستان ہے۔جس کا بیٹا گرفتار کر لیا گیا ہے۔بوڑھی عورت کویہ نہیں پتہ کہ اس کے بیٹے کا جرم کیا ہے، اسے کیوں گرفتار کیا گیا ہے۔وہ اپنے بیٹے سے ملنے کے لئے ہر روز پولیس اسٹیشن کا چکر کاٹتی ہے۔ اس کی صرف ایک ہی خواہش ہے وہ اپنے بیٹے کو ایک بار دیکھ لے۔وہ اس کے لئے گھر سے کھانا بھی بنا کر لاتی ہے کیونکہ اس کو لگتا ہے کہ اس کے بیٹے کو ڈھنگ کا کھانانہیں مل رہا ہوگا۔

لیکن اس کی ملاقات بیٹے سے نہیں ہو پاتی ہے۔ہر بار اسے یہ کہہ کر لوٹا دیا جاتا ہے کہ آج بڑے صاحب نہیں ہیں،اور جو بڑے صاحب ہیں وہ مسلمانوں کے خلاف تعصب رکھنے کے لئے مشہور ہیں اور اس سلسلے میں وہ کسی کی نہیں سنتے ہیں۔بوڑھی عورت جس پولیس اسٹیشن کا چکر لگا رہی ہوتی ہے وہاں ایک رحم دل کانسٹبل بھی ہوتا ہے جو کہ اپنے آفیسر سے بڑھیا کے حق میں شفارس بھی کرتا ہے۔لیکن اس کی ایک نہیں چلتی ہے۔ آخر کار جب ایک دن اس کانسٹبل کی بات اپنے آفیسر  ہو پاتی ہے تو اسے پتہ چلتا ہے کہ بڑھیا کا بیٹا اس حالت میں نہیں ہے کہ اس کی ملاقات اس کے ماں سے کروائی جا سکے۔

اس دن جب بڑھیا اپنے بیٹے سے ملنے آتی ہے تو اس کانسٹبل کو نہیں پتہ کہ وہ اس سے کیا کہے، اس کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا ہے۔ایسی صورت حال میں بڑھیا کے آنے پر وہ کوئی سیدھا سا جواب دینے کے بجائے اس کے ساتھ بے رخی سے پیش آتا ہے، جس سے وہ بہت ناراض ہو کر چلانے لگتی ہے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہاں ہنگامہ کھڑا ہو جاتا ہے۔یہ سب دیکھ کر آفیسر بڑھیا کو اسٹیشن سے باہر نکالنے کا حکم دیتا ہے۔کانسٹبل اپنے ایک ساتھی سپاہی کی مدد سے بڑھیا کو گھسیٹتے ہوئے باہر نکال دیتا ہے اور بڑھیا کے پاس بھی لعنت ملامت بھیجنے اور چلانے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہوتا ہے۔

مجموعہ کی ٹائٹل کہانی  (Vegetarians Only ) ایک مسلمان کپل کے کرائے پر مکان تلاشنے کی کی روداد ہے۔یہ تعلیم یافتہ اور نوکری پیشہ ہیں، تیلگو بولتا ہے۔ دیکھنے میں کہیں سے مسلمان نہیں لگتا۔لیکن یہ لوگ گھر کی تلاش میں نکلتے ہیں تو مکان مالکوں کا پہلا سوال یہ ہوتا کہ تم لوگ نان ویج کھاتے ہو یا نہیں۔دوسرے لفظوں میں کہے تو وہ یہ پوچھنا چاہتے تھے کہ وہ مسلمان تو نہیں؟اور جیسے ہی مکان دینے والے کو یہ پتہ چلتا کہ سامنے والا مسلمان ہے مکان دینے سے صاف منع کر دیتےہیں۔

دوسری طرف جب یہ لوگ مسلم مکان مالکوں کے پاس پہنچتے تو وہ یہ کہتے ہوئے مکان دینے سےمنع کر دیتے کہ تم کیسے مسلمان ہو کہ تمھاری بیوی برقعہ نہیں پہنتی اور تم اردو نہیں بولتے۔مجموعہ کی ایک دوسری کہانی جس کا عنوان کبوتر ہے،ایک بیوہ کی اپنی بیٹیوں کے شادی کے لئے جدوجہد کی داستان ہے. یہ کہانی جتنا اس بیوہ کے بارے میں ہے اتنا ہی ہمارے سماج کے بارے میں ہے۔یہ کہانی ہمیں بتاتی کہ ہم اپنے سماج میں بیوہ اور اس کی کسمپرسی کے ساتھ کیسے پیش آتے ہیں۔

جیسا کہ آپ خود محسوس کر سکتے ہیں یہ کہانیاں عام زندگی کی کہانیاں ہیں،اس میں غم اور بیچارگی کے ساتھ ساتھ خوشی اور مسرت کے لمحات بھی موجود ہیں جس سے ایک عام یا متوسط مسلمان ہر روز دوچار ہوتا ہے۔یہ کہانیاں اتنی حقیقی اور جانی پہچانی سی ہیں کہ اسے پڑھتے ہوئے احساس ہی نہیں ہوتا کہ ہم فکشن پڑھ رہے ہیں۔شاید  ایسا مصنف کے صحافی ہونے اور خود ذاتی طور پرایسی بہت ساری مشکلات کا سامنا کرنے کی وجہ سے ہے۔یا یہ بھی ممکن ہے کہ جو باتیں وہ ایک صحافی کے طور پر اپنی رپورٹس میں نہیں کہہ سکتے تھے اسکے لئے انہوں نے فکشن کا سہارا لیا ہے۔

عین ممکن ہے کہ یہ کہانیاں تیلگو بولنے والے مسلمانوں کا مکمل پتہ نہ دیتی ہوں،نا ہی ان افسانوں کا مصنف ایسا کوئی دعویٰ کرتا ہے۔لیکن یہ بات تو یقینی طور پر کہہ جا سکتی ہے کہ یہ کہانیاں تیلگو نہ جاننے والے قارئین کے لئے ایک کھڑکی کھولتی ہے۔امید کی جا سکتی ہے کہ آنے والے دنوں میں تیلگو بولنے والے مسلمانوں کی یہ کہانیاں اردو میں بھی شائع ہوں گی تاکہ اردو دنیا اس سے روسناش ہو سکے۔