فکر و نظر

کیا سول سروس میں لیٹرل انٹری کی پہل پیشہ ور وں  کی کمی کو ختم کرنے کا بہترین طریقہ ہے؟ 

زیادہ تر سینئر نوکرشاہوں کا کہنا ہے کہ نریندر مودی حکومت کو لیٹرل انٹری کے بارے میں اور زیادہ وضاحت دینے کی ضرورت ہے۔

لال بہادر شاستری نیشنل اکیڈمی آف ایڈمنسٹریشن (ایل بی ایس این اے اے) میں زیرتربیت افسروں کو خطاب کرتے وزیر اعظم نریندر مودی۔  (فائل فوٹو : پی ٹی آئی)

لال بہادر شاستری نیشنل اکیڈمی آف ایڈمنسٹریشن (ایل بی ایس این اے اے) میں زیرتربیت افسروں کو خطاب کرتے وزیر اعظم نریندر مودی۔  (فائل فوٹو : پی ٹی آئی)

نئی دہلی:مرکزی نوکرشاہی کے حصے میں لیٹرل انٹری (آئی اے ایس سے الگ افسروں کی انٹری) کی اجازت دینے کی مرکزی حکومت کی پہل نے ایک پیچیدہ بحث کو پھر سے سلگا دیا ہے، جس پر کم سے کم دو دہائیوں سے جب تب بات ہوتی رہی ہے۔

سول سرونٹ کا ایک بڑا طبقہ اس خیال سے مکمل اتفاق نہیں رکھتے،حالانکہ وہ بھی انڈین سول سروس میں ماہرین کی ضرورت کو قبول کرتے ہیں۔اس خیال کے پیروکاروں کا ماننا ہے کہ اس سے سرکاری کام کاج میں نئی توانائی آئے‌گی اور اس سے نوکرشاہوں کی کمی کو پورا کیا جا سکے‌گا، خاص کر بڑی ریاستوں میں۔

حکومت ہند نے ایک پائلٹ منصوبہ کے تحت جوائنٹ سکریٹری کے دس عہدوں کے لئے اسامی نکالی ہیں۔یہ بھرتیاں تین سال کے کنٹریکٹ پر ہوں‌گی،جس میں مظاہرے کو دیکھتے ہوئے بڑھاکر 5 سال بھی کیا جا سکتا ہے۔اس کے لئے امیدواروں کی عمر 40 سال سے زیادہ ہونی چاہیے اور ان کے پاس کم سے کم پی ایچ ڈی کی ڈگری ہونی چاہیے۔یہ بھرتیاں کابینہ سکریٹری کی قیادت والی ایک کمیٹی کے ذریعے اگلے دو مہینوں میں کی جائیں‌گی۔

2014 میں منتخب کئے جانے کے فوراً بعد نریندر مودی حکومت نے جو کچھ شروعاتی اجلاس کئے تھے، ان میں سے ایک سول سروس میں لیٹرل انٹری کے ذریعے ماہرین کی بھرتی کا راستہ نکالنے کو لےکر تھا۔وزیر اعظم نے مختلف وزارتوں کے سیکریٹریوں کو جوائنٹ سکریٹری کی سطح پر اکیڈمک دنیا اور پرائیویٹ شعبے سے نوکرشاہوں کے افقی داخلہ (لیٹرل انٹری) کے لئے تجویز تیار کرنے کے لئے کہا تھا۔لیکن، اس سمت میں اگلے تین سالوں میں کوئی ترقی نہیں ہوئی، جس کی وجہ یہ تھی کہ اس سمت میں کوئی سنجیدہ تجویز نہیں آئی۔

لیکن گزشتہ سال جولائی میں، وزیر اعظم دفتر نےڈپارٹمنٹ آف پرسونیل اینڈ ٹریننگ کو معیشت اور بنیادی ڈھانچہ سے متعلق وزارتوں میں ایسے پیشہ وروں کوسروس پر رکھنے سے متعقل تجویز تیار کرنے کے لئے کہا۔حکومت نے اصل میں 2005 کے دوسرےایڈمنسٹریٹیو اصلاحاتی کمیشن سے یہ خیال چرایا ہے،جس نے شفافیت اور منظم طریقے سے مرکزی اور ریاست، دونوں ہی سطح پر افسروں کی لیٹرل انٹری کی سفارش کی تھی۔

کئی پرائیویٹ تھنک ٹینک، جیسے کارنیجی اینڈاومینٹ فار انٹرنیشنل پیس، سول سروسز میں اصلاح کے لئے لیٹرل انٹری کی اجازت دینے کی مانگ کرتے رہے ہیں۔مدھیہ پردیش، راجستھان، اتر پردیش اور بہار جیسی بڑی ریاستوں میں افسروں کی کمی نے بھی حکومت کو رائج پروسس سے باہر جاکر بھرتی کرنے کے امکانات کو ٹٹولنے کے لئے ترغیب دی ہے۔

ایسا پہلی بار نہیں ہے، جب سول سروس کے باہر سے ماہرین کو بلایا جا رہا ہے۔سکریٹری سطح پر مختلف حکومتوں کے ذریعے کئی ایسے ماہرین کی بحالی کی جا چکی ہے۔لیکن یقینی طور پر یہ پہلی بار ہے کہ حکومت جوائنٹ سکریٹری کی اہم سطح پر، جس کے اوپر زیادہ تر پالیسیوں کا خاکہ تیار کرنے کی ذمہ داری ہوتی ہے، پیشہ وروں کی خدمات لینے کی اسکیم بنا رہی ہے۔

ایسے میں حیرت کی کوئی بات نہیں ہے کہ حکومت کے اس قدم نے تعریف اور شک، دونوں کو جنم دیا ہے۔

سب سے پہلے شکوک کی بات کرتے ہیں۔سینئر عہدوں سے سبکدوش آئی اے ایس افسروں میں سے کئی اس پہل کو تھوڑے شک کے ساتھ دیکھتے ہیں، حالانکہ کسی نے بھی ماہرین کی لیٹرل انٹری کے خیال کی مخالفت نہیں کی۔

انہوں نے اس حقیقت کو لےکر اپنی مخالفت ظاہر کی کہ حکومت نے یونین پبلک سروس کمیشن (یو پی ایس سی) کو درگزر کرکے لیٹرل انٹری کی اجازت دی ہے، جس کے کندھوں پر ہرسال تین سطح پر سول سروس کا امتحان منعقد کرانے کی ذمہ داری ہے۔اس کی جگہ اس نے کابینہ سکریٹری کی قیادت والی کمیٹی کو پیشہ وروں کی بھرتی کرنے کے لئے کہا ہے۔

1974 بیچ کے مہاراشٹر کیڈر کے نوکرشاہ سندر برا، جنہوں نے مہاراشٹر حکومت میں سکریٹری کے طور پر خدمات دیتے ہوئے رضاکارانہ ریٹائرمنٹ لیا تھا، نے دی وائر کو بتایا، ‘ 92 سال پرانا یو پی ایس سی ایک آئینی ادارہ ہے۔اتنے سالوں تک یہ اپنے اعتماد کو بچائے رکھنے میں اس لئے کامیاب رہا ہے، کیونکہ یہ کم و بیش اپنے وقت کی حکومتوں کی مداخلت سے آزاد اور خود مختار رہا ہے۔اس لئے سوال یہ ہے کہ آخر ہم ایک ایسے نظام کو کیوں درگزر کر رہے ہیں، جو اتنا اچھا کام کر رہا ہے اور اس کے حق ایک ایسی کمیٹی کو کیوں دے رہے ہیں، جس کے بارے میں کچھ صاف بھی نہیں ہے؟ ‘

انہوں نے جوڑا کہ ہندوستان میں سول سروس کو آئین کے تحت حفاظت ملی ہوئی ہے، کیونکہ ‘سردار پٹیل جیسے ملک کے معماروں نے دستور ساز اسمبلی میں سروسیزکی آزادی کے لئے لڑائی لڑی۔  ‘

انہوں نے بتایا، ‘ انہوں نے (پٹیل نے) کہا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے سکریٹری ان کے سامنے آزادی کے ساتھ اپنے خیال کا اظہارکر سکیں، جو ان کے خیال سے الگ ہو سکتے ہیں اور اس ملک کو ایک ساتھ جوڑے رکھنے کے لئے یہ خدمات ضروری ہیں۔  ‘

برا نے کہا کہ وہ لیٹرل انٹری کے مخالف نہیں ہیں، لیکن حکومت کو یہ یقینی بنانا چاہیے کہ بھرتی کئے جانے والے لوگ ‘ گٹ بازی’سے آزاد رہیں۔انہوں نے بحالی کی شفافیت کے عمل پر زور دیتے ہوئے یہ کہا کہ سروسیز کو اپنے وقت کی حکومت سے غیر متاثر رکھنے کے لئے سلیکشن پروسس کی پاکیزگی بچی رہنی چاہیے۔

انہوں نے امیدواروں کی صلاحیت کو لےکر غیر واضح ہونے کے سوال کو بھی اٹھایا۔برا کے الفاظ میں، ‘اشتہار میں کہا گیا ہے کہ امیدوار کے پاس پی ایچ ڈی کی ڈگری ہونی چاہیے، جو ایک ڈگری بھر ہے۔حکومت کو اس بارے میں تفصیل سے بتانا چاہیے تھا کہ آخر امیدوار کے پاس کون سی مہارت ہونی چاہیے، کیونکہ یہ اسامی اعلیٰ زمرےکی مہارت والے عہدوں کے لئے نکالی گئی ہیں۔اس لئے یہ بحالیاں بڑے پیمانے پر صلاح ومشورہ کے بعد اور آئینی طریقوں کا استعمال کرکے کی جانی چاہیے۔یہ کام یو پی اے سی کے ذمہ چھوڑ دینا چاہیے۔وہی اس کام کو کرنے کے لئے مناسب ادارہ ہے۔  ‘

ایک پروگرام میں زیرتربیت آئی اے ایس افسروں کے ساتھ وزیر اعظم نریندر مودی (فائل فوٹو : پی ائی بی)

ایک پروگرام میں زیرتربیت آئی اے ایس افسروں کے ساتھ وزیر اعظم نریندر مودی (فائل فوٹو : پی ائی بی)

دوسری بات، کچھ نوکرشاہ پرائیویٹ سیکٹر کے بڑھتے دخل کو لےکر بھی فکرمند تھے، جس کو لیٹرل انٹری سے اور بڑھاوا مل سکتا ہے۔

سابق کابینہ سکریٹری بی کے چترویدی نے دی وائر سے کہا، ‘ماضی میں، بڑی تعداد میں ورلڈ بینک اور دوسرے وسائل سے کئی پرائیویٹ آدمی حکومت کا حصہ بن چکے ہیں۔مونٹیک (سنگھ اہلووالیا)، شنکر آچاریہ اور ارویند ورمانی اس کی کچھ اچھی مثال ہیں۔اس سے پہلے، 1950 کی دہائی کے شروعاتی سالوں میں ایک خاص  نظام کے تحت، لووراج کمار جیسے لوگ آئے تھے۔وجے کیلکر کی بھی مثال ایسے لوگوں کے طور پر دی جا سکتی ہے، جنہوں نے سروس کو  خوبصورت بنایا ہے۔حکومت کے ذریعے مجوزہ اسامی کی ساخت اتنی چھوٹی (10) ہے کہ اس سے کوئی بڑا فرق نہیں پڑنے والا۔لیکن فکر کا نقطہ بھرتی کے وسائل ہیں۔اس بات کے خطرے سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ کاروباری گھرانے اس کو اپنے لوگوں کو اندر دھکیلنے کے موقع کے طور پر استعمال کریں‌گے۔جب تک ہم اچھے افسروں کا انتخاب نہیں کریں‌گے، تب تک ہم پر کاروباری گھرانوں کے ذریعے اہم سرکاری فیصلوں کو منضبط کرنے کا خطرہ بنا رہے‌گا۔یقینی طور پر سروسیز میں پیشہ وروں کی کافی ضرورت ہے، لیکن ہمیں سرکاری فیصلوں کو کاروباری گھرانوں کے ہاتھوں میں جانے سے بھی بچانا ہوگا۔  ‘

برا بھی اس سے اتفاق رکھتے ہیں۔ان کا کہنا ہے،مان لیجئے، مونسینٹوں  کے سابق ملازم کی جوائنٹ سکریٹری کے طور پر وزارت زراعت میں تقرری ہوتی ہے۔اس کا اہم مقصد ہندوستان کے دیسی بیج صنعت کو ختم کرنا ہو سکتا ہے۔اس بات کے امکان سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ وہ پرائیویٹ سیکٹر کے ایجنڈےکو آگے بڑھانے کا کام کر سکتے ہیں۔آپ ڈومین ماہر کو لا سکتے ہیں۔میں اس خیال کے خلاف نہیں ہوں، لیکن آپ یہ کام کرتے کیسے ہیں، یہ سب سے زیادہ اہمیت کے حامل ہے۔  ‘

تیسری بات، نوکرشاہی کے ایک حصے کی رائے ہے کہ افسروں کی کمی کا مسئلہ حکومت کا ہی کھڑا کیا ہوا ہے۔

ایک سابق نوکرشاہ این سی سکسینہ کا کہنا ہے، بلاشبہ آئی اے ایس افسروں کو مہارت کی درکار ہوتی ہے، لیکن اس کا حل یہ ہے کہ حکومت کو ہر افسر کو 10 سال کی سروس کے بعد ایک شعبے میں مہارت حاصل کرنے کے لئے کہنا چاہیے۔آج زیادہ تر میں اس مہارت کی کمی ہے۔لیکن، آزادی کے بعدکے دور میں حکومتوں میں بھرتیوں کی تعداد کو کافی کم کرتے ہوئے عام تعداد کی ایک تہائی تقریباً ایک تہائی محض کر دیا۔اس کے پیچھے سوچ یہ تھی کہ حکومت کو جتنا ممکن ہو سکے، حکومت سے ہاتھ کھینچ لینا چاہیے۔لیکن، سوشل سیکٹر کی طرف دھیان بڑھنے سے، افسروں پر کام کاج کا بوجھ بڑھ گیا۔آج حالات ایسے ہیں کہ اعلیٰ سطح پر افسروں کی کافی کمی ہے۔  ‘

سکسینہ نئی بھرتی کئے گئے سرکاری ملازمین کو لال بہادر شاستری نیشنل اکیڈمی آف ایڈمنسٹریشن، مسوری میں آٹھ سال تک پڑھا چکے ہیں۔

سابق صحت سکریٹری کیشو دیسی راجو نے کہا،یہاں دھیان دینے والی بات یہ ہے کہ 1990-1995 کے درمیان بھرتی کئے جانے والے آئی اے ایس افسروں کی تعداد گر‌کر 55 کے قریب آ گئی۔یہ وہ افسر ہیں، جو آج جوائنٹ سکریٹری کے عہدہ کے لائق ہوئے ہوں‌گے۔لیکن، چونکہ ہم نے ایک مشکل دور میں کافی بھرتیاں نہیں کیں، اس لئے آج جوائنٹ سکریٹری کی سطح پر افسروں کی بھاری کمی ہے۔  ‘

ان میں سے زیادہ تر لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ یوپی ایس سی کو مستقبل میں ایسے حالات بننے سے روکنے کے لئے بحالیوں  کی تعداد بڑھانی چاہیے۔

فکر کی سب سے بڑی بات، جس کی طرف دھیان دلایا گیا وہ ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ سول سروس میں لیٹرل انٹری کا کوئی بہت زیادہ فائدہ ہو۔

چترویدی کے مطابق، ‘موجودہ سول سروس کا ایک فائدہ یہ ہے کہ حکومت کے ساتھ پالیسی سازوں کے طویل مدتی مفاد جڑے ہوئے ہیں۔تین سال یا پانچ سال کے لئے ٹھیکے پر  رکھے گئے پرائیویٹ پیشہ ور، کسی دیگر کے مفاد کو دھیان میں رکھ‌کر کام کر سکتے ہیں، کیونکہ حکومت کے ساتھ ان کا مستقبل جڑا ہوا نہیں ہوگا۔مجھے نہیں لگتا کہ یہ لوگ (لیٹرل انٹری سے آنے والے)سول سروس کی قدروں کوئی خاص اضافہ کر پائیں‌گے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ سول ملازمین کی مہارت کی سطح کو بہتر بنایا جائے۔ہمیں جوائنٹ سیکرٹری کی سطح کی نوکری کے بعدکے آخری 15 سال میں بہتر مہارت کی شمولیت کی ضرورت ہے۔ضرورت سپیشل سروسیز میں زیادہ مہارت کی ہے۔یقینی طور پر یہ سروسیز کی کمزور نبض ہے۔اس طرح سے ہمیں ضرور وقفوں کو بھرنے کی کوشش کرنی چاہیے، نہ کہ پوری عمارت کی ہی از سر نو تعمیر کرنی چاہیے۔  ‘

اگر اعلیٰ مہارت والے سیکٹر میں ضرورت ہے تو ہمیں یقینی طور پر ایسے لوگوں کو شامل کرنا چاہیے۔مجھے نہیں لگتا کہ حکومت نے ایسے اعلیٰ مہارت والے سیکٹر کو نشان زد کیا ہے۔کم سے کم  یہ جانکاری عوامی دائرے میں نہیں ہے۔

اسی طرح سے دیسی راجو نے کہا،مجھے لگتا ہے کہ یہ سوال پوچھا جانا چاہیے کہ آخر وہ کس مسئلہ کا حل کرنا چاہ رہے ہیں؟اس کا ایک جواب یہ ہو سکتا ہے کہ ہمیں مختلف موضوعات کے ماہرین اور جوائنٹ سکریٹری کی سطح پر بہتر پیشہ ور اہلیت کی ضرورت ہے، لیکن اس کے ساتھ یہ بھی پوچھا جانا چاہیے کہ کیا باہر کے لوگوں کی خدمت لینا دستیاب اور ضرورت کے درمیان کے وقفے کو پاٹنے کا سب سے اچھا طریقہ ہے؟ایسا نہیں ہے کہ سروسیزکے اندر سے آنے والے افسر اپنے ساتھ کوئی مہارت لئے بغیر آ رہا ہے۔حکومت ہند میں تقرری پانے والا سول سروس کا کوئی بھی افسر اپنے ساتھ ریاستی حکومت کے کام کرنے کا تجربہ لےکر آتا ہے۔اس کے پاس زمینی سطح پر ریاستی موضوعات ؛صحت، بنیادی تعلیم، ریونیو اور قانون سے متعلق موضوعات کی کارروائی سے متعلق تجربہ ہوتا ہے۔افسر اپنے ریاستی کیڈر میں کام کرنا سیکھتے ہیں۔وہ پالیسی بنانے کی سطح پر اپنے ساتھ اس تجربے کو لےکر آتے ہیں۔  ‘

انہوں نے کہا، ‘ کئی افسر بہت اچھے ہیں۔یہ صحیح ہے کہ تمام افسر اچھے نہیں ہیں، لیکن پرائیویٹ سیکٹر میں بھی ہرکوئی اچھا نہیں ہوتا۔’ساتھ میں انہوں نے یہ بھی جوڑا، ‘کسی کو تین سال یا پانچ سال کے لئے جوڑنے سے ہمارے سسٹم کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔اس آدمی کو سخت محنت کرنی ہوگی، لیکن آخر میں اس کو جانا ہوگا۔میں اس کو ایڈیشنل سکریٹری بنانے اور اس کو اور زیادہ ذمہ داری دینے کی حالت میں نہیں ہوں۔  ‘

دیسی راجو نے ریاست میں حاصل کئے گئے تجربے کی اہمیت کو دوہراتے ہوئے کہا،حکومت ہند کو ایک وفاقی ڈھانچہ کے تحت ریاستوں کے ساتھ کام کرنا ہوتا ہے۔اس لئے،نظریاتی طور پر میں اس بات کی حمایت کرتا ہوں کہ پیشہ ور معیارات اور موضوعات کے علم کو سروسیز میں بہتر بنائے جانے کی ضرورت ہے،لیکن مہربانی کرکے موجودہ نظام کی اچھائیوں کو ردی کی ٹوکری میں مت ڈال دیجئے۔ہم امریکی نظام کے تحت کام نہیں کرتے جہاں،صدر کے ہر نئے چناؤ کے ساتھ 5000 نوکریاں کھل جاتی ہیں۔ہمارے پاس ایک منظم سول کا ڈھانچہ ہے، جس کے تحت افسر آئینی حلف کے تحت اپنے کیڈر میں خدمت دیتے ہیں۔  ‘

انہوں نے کہا کہ حکومت کو لیٹرل انٹری کے بارے میں اور زیادہ وضاحت دینے کی ضرورت ہے۔

پانچویں بات،شہری سماج میں کئی لوگوں نے اس مدعے کو اٹھایا ہے کہ لیٹرل انٹری کا نظام ایس سی ،ایس ٹی کے لئے ریزرویشن کی پالیسی کے تحت کام نہیں کرے‌گا اور یہ آئین کے خلاف ہوگا۔

اس تناظر میں چترویدی نے کہا،جب تک وہ اعلیٰ مہارت والے شعبوں میں ٹھیکے کے تحت ماہرین کی تقرری کر رہے ہیں، تب تک ریزرویشن کا سوال اس طرح سے نہیں اٹھے‌گا۔لیکن، اگر بڑے پیمانے پر لیٹرل انٹری کی شروعات ہوتی ہے، تو یہ صحیح نہیں ہوگا اور یہ حال سول سروس کے نظام کو تباہ کرکے چھوڑے‌گا۔اگر وہ بڑے پیمانے پر اس طرح کی بھرتیاں کریں‌گے، تو ریزرویشن کو دھیان میں رکھنا ہی ہوگا۔  ‘

آئی اے ایس افسروں کے ساتھ ایک ٹریننگ کے دوران وزیر اعظم مودی (فائل فوٹو : پی آئی بی)

آئی اے ایس افسروں کے ساتھ ایک ٹریننگ کے دوران وزیر اعظم مودی (فائل فوٹو : پی آئی بی)

لیکن، زیادہ تر نوکری پیشہ  نوکرشاہوں نے ان خدشات کو خارج کر دیا کہ نریندر مودی حکومت اس قدم سے دائیں بازوکے نظریہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو پچھلے دروازے سے گھسانا چاہتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کو اپنے اندر ایک پرعزم نوکرشاہی بنانے کے لئے باہر کی طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے اور تمام حکومتوں نے ہمیشہ سے اہم عہدوں کے لئے ملتے جلتے خیالات والے لوگوں کو چنا ہے۔

اس لئے لیٹرل انٹری کے نظام کی ایسی تنقید کی کوئی پختہ بنیاد نہیں ہے۔لیکن ان میں سے زیادہ تر نے یہ کہا کہ ایسی بھرتیوں کے لئے یو پی ایس سی کو نظرانداز کرنا غیرضروری ہے۔

حالانکہ، کئی نوکرشاہ اس کو لےکرشک و شبہ میں ہیں ، لیکن پرائیویٹ سیکٹرکے لوگوں نے اس کا استقبال کیا۔حکومت کے ساتھ اسکل انڈیا جیسے اہم پروگرام میں کام کر رہے ای وائی (سابق میں ارنسٹ اینڈ ینگ)کنسلٹینسی گروپ کے ایک پارٹنر گورو تنیجہ کو لگتا ہے کہ نوکرشاہوں کے خدشات غیرضروری ہیں، کیونکہ سرکاری نظام میں چیک اینڈ بیلینس کا کافی انتظام ہوتا ہے۔

حکومت کو لیٹرل انٹری کے لئے تیار کرنے میں تنیجہ کا مبینہ طور پر کافی اہم کردار رہا ہے۔انہوں نے دی وائر کو بتایا،مجھے لگتا ہے کہ ہم ایک ایسی دنیا میں رہ رہے ہیں، جو لگاتار اور زیادہ پیچیدہ ہوتی جا رہی ہے۔ایسی دنیا میں ہم جو پالیسیاں بناتے ہیں، وہ پالیسی، اسٹریٹجک اور عمل آوری کی سطح پر کافی پیچیدہ ہوتے ہیں۔اس لئے حکومت کی پیچیدگی کو دھیان میں رکھ‌کر کہا جائے، تو لیٹرل انٹری سے آنے والے ماہرین سے سسٹم کو صرف فائدہ ہی پہنچے‌گا۔

نوکرشاہوں کے ذریعے اٹھائے گئے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ لیٹرل انٹری کا نظام ابھی تجرباتی مرحلے میں ہے اور یہ کامیاب نہیں ہوتا ہے، تو اس کو ڈبے میں بند کیا جا سکتا ہے۔’یہ اچھی بات ہے کہ یہ صرف 10 عہدوں کے لئے ایک تجرباتی شروعات ہے۔اس کی ایک طے  شدہ مدت بھی ہے، نہ کہ یہ مستقل تقرریاں ہیں۔ساتھ ہی چونکہ یہ تقرریاں کافی اونچی سطح پر ہو رہی ہیں، اس لئے ان پیشہ وروں کو ان مسائل کا مقابلہ نہیں کرنا پڑے‌گا، جن سے ریاستی سطح پر سول ملازمین کو جوجھنا پڑتا ہے۔’

ماضی میں لیٹرل انٹری کے تحت آنے والے لوگوں کو آئی اے ایس افسروں کے عدم تعاون کے مسئلہ پر انہوں نے کہا، لیٹرل انٹری کے تحت تقرری ہونے والوں کو ایک خوشگوار اور مددگار ماحول میں کام کرنے دیا جانا چاہیے۔یہ ایک چیلنج ہوگا۔ایسے آدمی کو اسی آزادی کے ساتھ کام کرنے کی اجازت ملنی چاہیے، جس آزادی سے کوئی آئی اے ایس افسر کام کرتا ہے۔  ‘

پرائیویٹ شعبوں کے اثر کے بڑھنے کو لےکر کئی نوکرشاہوں کے ذریعے اٹھائے گئے شکوک پر انہوں نے کہا،سرکاری فیصلے کبھی بھی اکیلے میں نہیں لئے جاتے ہیں۔یہ ایک اجتماعی کوشش ہوگی۔اس کو ایک ڈھانچے کے تحت کام کرنا ہوگا۔سسٹم کے اچھی طرح سے کام کرنے کے لئے ایک مددگار ماحول ضروری ہے۔نیتی آیوگ کے ساتھ وقت وقت پر صلاح مشورہ کیا جاتا ہے۔سسٹم میں ایک ماہر کے ہونے سے کیا نقصان ہے؟ ‘

تنیجہ نے کہا، پالیسی سازی میں اس ملک کے شہریوں اور کاروبار کی دنیا کا رول ہونا چاہیے۔’پالیسی اکیلے میں تیار نہیں کی جاتی۔مجھے لگتا ہے کہ حکومت کو پتا ہے کہ مہارت کا اچھی طرح سے کیسے استعمال کیا جائے؟اس سے آگے، ایڈمنسٹریشن میں کافی چیک اینڈ بیلینس کا انتظام ہے، جو یہ متعین کریں‌گے کہ کسی کا مفاد کسی اور کے مفاد پر حاوی نہ ہو جائے۔  ‘

ایسا لگتا ہے کہ سول سروسیز میں مہارت کی کمی اور 1990 کے شروعاتی سالوں میں ناکافی بھرتیوں کی وجہ سے پیدا ہوئے حالات نے حکومت کو لیٹرل انٹری کی طرف دیکھنے کے لئے مجبور کیا ہے۔لیکن یہ دیکھا جانا باقی ہے کہ کیا 10 نئے چہرے حکومت کے کام کاج کے نظام میں اپنی افادیت ثابت کر پائیں‌گے یا نہیں! ان سب کے درمیان اچھا ہوگا کہ حکومت سینئر نوکرشاہوں کے ذریعے اٹھائے گئے سوالوں کی طرف بھی سنجیدگی سے غور کرے۔