خبریں

شجاعت بخاری قتل معاملہ : احتجاج میں اخباروں نے شائع کیا بلینک اداریہ

کشمیر ایڈیٹرس گلڈ کے ایک ممبر نے کہا، اداریہ لکھنے والے ہاتھ ہم سے چھین لیے گئے ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے مانو ہماری سیاہی سوکھ گئی ہے ،اس لیے یہ ضروری ہے کہ ہم اپنا احتجاج درج کرائیں۔

نئی دہلی :سینئر صحافی اور رائزنگ کشمیر کے ایڈیٹر شجاعت بخاری کے قتل کے احتجاج میں جموں وکشمیر سے نکلنے والے مختلف انگریزی اور اردو اخباروں نے اپنا ادارتی کالم بلینک شائع کیاہے ،ساتھ ہی کچھ اخبارات نے اپنے ادارتی کالم کو سیاہ کر دیا ہے۔احتجاج درج کرانے والے اخباروں میں شجاعت بخاری کے اخبار رائزنگ کشمیرکے علاوہ انگریزی روزنامہ گریٹر کشمیر ،کشمیر ٹائمس،کشمیر ریڈراورکشمیرآبزرورشامل ہیں۔اردو اخباروں میں روزنامہ چٹان ،روزنامہ روشنی  ،تعمیل ارشاداور روزنامہ آفتاب کے نام قابل ذکر ہیں۔

ان میں سے زیادہ تر اخباروں نے شجاعت بخاری کے صحافتی خدمات کے حوالے مضامین شائع کیے ہیں۔غور طلب ہے کہ  اس احتجاج سے ایک دن پہلے کشمیر میں صحافیوں نے اس قتل کے خلاف مارچ کیا تھا ۔میڈیا رپورٹس کے مطابق پریس انکلیو سے لال چوک تک کے اس مارچ میں صحافیوں نے پروٹسٹ کیا ۔

 کشمیر ایڈیٹرس گلڈ(کے ای جی) کے ایک ممبر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر نیٹ ورک 18 سے فون پر ہوئی بات چیت میں بتایا کہ یہ فیصلہ ایک رائے سے لیا گیا ہے،انہوں نے کہا کہ کے ای جی کے ممبروں کے ذریعے یہ  فیصلہ اتفاق رائے سے لیا گیا اور پھریہی فیصلہ گھاٹی کے اخباروں  تک پہنچایا گیا۔ ادارتی کالم خالی چھوڑنے کے پیچھے حکومت کو یہ پیغام دینا ہے کہ پریس پر اس طرح کے حملے جاری نہیں رہ سکتے۔کے ای جی کے اس ممبر نے بتایا کہ گھاٹی میں اردو اور انگریزی کے تقریباً 11 اخباروں نے اپنے ادارتی کالم خالی چھوڑے ہیں۔

انہوں نے مزید کہاکہ  ؛ اداریہ لکھنے والے ہاتھ ہم سے چھین لیے گئے ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے مانو ہماری سیاہی سوکھ گئی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم اپنا پیغام واضح کریں اور اپنا احتجاج درج کرائیں ۔شجاعت کا قتل کشمیر میں میڈیا کو سینسر کرنے ،کمزور کرنے اور آخر کار انہیں چپ کرا دینے کی ایک کوشش ہے۔

واضح ہو کہ 14جون کو شجاعت بخاری پر جان لیوا حملہ کیا گیا تھا،جس کے بعد ان کی موت ہوگئی۔ ان  پر یہ حملہ سری نگر کے پریس کالونی میں، ان کے آفس کے باہر ہوا تھا۔ حملے میں ان کو کئی گولیاں لگی تھیں۔ بخاری پر جس وقت حملہ کیا گیا تھااس وقت وہ اپنے دفتر سے افطار پارٹی کے لیے نکلے تھے۔ان پر جس وقت حملہ کیا گیا اس وقت وہ اپنی کار میں تھے ۔اس حملے میں ان کے دو سیکورٹی اہلکار کی بھی موت ہوگئی ۔

دریں اثنا سوموار کو شجاعت بخاری کی یاد میں پریس کلب آف انڈیا میں ایک تعزیتی جلسے کا اہتمام کیا گیاتھا۔اسی طرح کولکاتہ پریس کلب کی جانب سے بھی ایک تعزیتی تقریب منعقد  کی تھی  جس میں شہر کے سرکردہ صحافیوں نے شرکت کی تھی۔