خبریں

عورتوں کے ساتھ بربریت کو کسی بھی صورت میں صحیح نہیں ٹھہرایا جا سکتا : مدراس ہائی کورٹ

15سال پرانے ایک معاملے میں ہائی کورٹ نے سیشن کورٹ کے ایک فیصلے کو پلٹتے ہوئے کہا کہ کسی بھی فرد پر کسی بھی رواج یا تقریب میں شامل ہونے کا دباؤ بنانے کا اختیار کسی کو بھی نہیں ہے۔

فوٹو: مدراس ہائی کورٹ

فوٹو: مدراس ہائی کورٹ

نئی دہلی : دستور اور رواج کے نام پر عورتوں کے ساتھ بربریت اور زیادتی کرنے کے چلن کی مذمت کرتے ہوئے مدراس ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ ایسے گھنونے کام کو کسی بھی صورت میں صحیح نہیں ٹھہرایا جاسکتا،بھلے ہی اس پر لمبے وقت سے عمل کیا جاتا رہا ہو۔جسٹس این آنند وینکٹیش نے منگل کو کہا کہ؛ کسی فرد پر کسی دستور یا تقریب میں شامل ہونے کا دباؤ بنانے کا اختیار کسی کو بھی نہیں ہے، ایسا کام جس میں درد اور پریشانی ہو اور جو انسان پر ظلم کرتی ہو، ایسے گھنونے کام کو بھی صحیح نہیں ٹھہرایا جا سکتا، چاہے اس کام کو لمبے وقتوں سے ہی کیوں نہ کیا جاتا رہا ہو۔

جسٹس وینکٹیش نے مزیدکہا کہ ایسا رواج جس سے کہ کسی کو ٹھیس پہنچتی ہو اور غیر انسانی ہو، وہ آئین کے دفعہ 21 کی خلاف ورزی ہے۔انہوں نے کہا کہ سماج میں یہ پیغام جانا چاہیے کہ دستور اور رواج کے نام پر ظلم کو برداشت نہیں کیا جائے گااور عدالتیں ان سے سختی سے نپٹے گی۔

معاملہ 12 فروری 2001کا ہے جب 4 عورتیں ایک عورت کو دیر رات جبراً ایک باندھ پر لے گئیں ،وہاں انہوں نے اس کے کپڑے اتارے،اس کا منڈن کیا اور گرم سوئی سے اس کی زبان جلا دی۔ انہیں شک تھا کہ عورت پر پریت کا سایہ ہے۔جسٹس نے یہ تبصرہ دھرم پوری کے چیف سیشن جسٹس نے جولائی 2010 کے فیصلے میں تبدیلی کرتے ہوئے کیا ۔سیشن جج نے چاروں عورتوں کو ایک سال کی جیل کی سزا سنائی تھی۔

انہوں نے ملزم عورتوں کے ذریعے پہلے ہائی کورٹ کی سزا کی مدت کو دیکھتے ہوئے اور ان کی عمر کو دیکھتے ہوئے ان کی سزا بدل دی ۔انہوں نے ہر عورت کو 8 ہفتے میں 15-15ہزار روپے کا معاوضہ جمع کرنے کو کہا ہے۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)