حقوق انسانی

گڑھ چرولی : گاؤں والوں کا الزام، لاپتہ بچوں کو ماؤوادی بتانے کے لئے پولیس کرا رہی جبراً دستخط

گراؤنڈ رپورٹ : گٹےپلی کے پاس اپریل کے آخری ہفتے میں ہوئے مبینہ نکسلی انکاؤنٹر کے بعد گاؤں کے لاپتہ بچوں میں سے ایک کے والد نے کہا، پولیس ہمارے بچوں کے قتل کو جائز ٹھہرانے کے لئے ہمارا ہی استعمال کر رہی ہے۔

گٹے پلی گاؤں کے لوگوں کا کہنا ہے کہ 22 اپریل کو لاپتہ ہوئے ان کے 8 میں سے 7بچوں کے بارے میں اب تک پولیس کے ذریعے سرکاری طور پر کوئی جانکاری نہیں دی گئی ہے۔ (فوٹو : سکنیا شانتا / دی وائر)

گٹے پلی گاؤں کے لوگوں کا کہنا ہے کہ 22 اپریل کو لاپتہ ہوئے ان کے 8 میں سے 7بچوں کے بارے میں اب تک پولیس کے ذریعے سرکاری طور پر کوئی جانکاری نہیں دی گئی ہے۔ (فوٹو : سکنیا شانتا / دی وائر)

ممبئی:’ہر بار جب پولیس ہمارے گاؤں آتی ہے اور ہمیں پولیس اسٹیشن آنے کے لئے کہتی ہے، ہماری امید جگ جاتی ہے۔ ہمارے بچوں کو لاپتہ ہوئے دو مہینے بیت گئے ہیں۔ کم سے کم اب ان کو ہمیں یہ بتا دینا چاہیے کہ ہمارے بچوں کے ساتھ ہوا کیا ہے؟ ‘گٹےپلی کے ایک باپ، جن کا بچہ اپریل کے آخری ہفتے سے لاپتہ ہے، نے دی وائر کو یہ 18 جون کو فون پر ہوئی بات چیت میں کہا۔ ان کے بچوں کے لاپتہ ہونے کا وہی وقت تھا، جب پولیس نے 40 ‘نکسلیوں’ کو ان کے گاؤں کے پاس مار گرایا تھا۔

قریب دو مہینے پہلے 21 اپریل کو مہاراشٹر کی گڑھ چرولی ضلع کے ایٹاپلی تحصیل میں پڑنے والے گٹےپلی کے8 بچے پڑوسی گاؤں کسن سور میں ایک شادی میں شامل ہونے کے لئے روانہ ہوئے تھے۔ اگلے دن صبح 22 اپریل کو اندراوتی ندی کے کنارے، ٹھیک کسن سور گاؤں کے باہر، پولیس کے سی-60 کمانڈو دستے نے ’50 سے زیادہ گوریلوں’پر گولیاں برسائیں، جنہوں نے مبینہ طور پر وہاں پڑاؤ ڈالا ہوا تھا۔ان میں سے 34 لوگ موقع واردات پر ہی ڈھیر ہو گئے۔ باقی 6 لوگ ایک دن بعد پاس کے راجارام کھانڈلا جنگل میں مار گرائے گئے۔

کریڈٹ: ایٹا ملہوترہ

کریڈٹ: ایٹا ملہوترہ

میڈیا رپورٹس اورموقع واردات سے پولیس کے ذریعے جاری کی گئی تصویروں سے اس بات کی تصدیق ہوئی کہ ندی کنارے مارے جانے والوں میں گٹےپلی کی اس ٹولی کے بھی دو بچے تھے، جو اب تک لاپتہ ہیں۔عجیب بات یہ ہے کہ پولیس نے صرف ایک کی لاش انہیں سونپی۔ گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ باقی بچوں کے بارے میں پولیس کی طرف سے کچھ بھی سننے کو نہیں ملا ہے۔

ایک طرف بچوں کے غائب ہونے کے راز پر ابھی تک پردہ پڑا ہوا ہے، دوسری طرف گاؤں والوں کا دعویٰ ہے کہ پولیس نے ان کے بچوں کو ماؤوادی سرگرمیوں میں شامل دکھانے کے لئے زور زبردستی کرکے ان سے پہلے سے تحریرشدہ کئی کاغذات پر دستخط کروا لئے ہیں۔ایک متاثر والد نے دی وائر سے کہا، ‘پولیس ہمارے بچوں کے قتل کو جائز ٹھہرانے کے لئے ہمارا ہی استعمال کر رہی ہے۔ ‘

یہ بھی پڑھیں:کیا گڑھ چرلی’انکاؤنٹر ‘میں نکسلی کے ساتھ عام لوگ بھی مارے گئے ہیں؟

18 جون کو، 5 لوگوں کو گاؤں سے 12 کلومیٹر دور پیرمیلی پولیس چوکی میں بلایا گیا۔گاؤں سے 10 دوسرے لوگوں کو ساتھ لےکر یہ 5لوگ پولیس اسٹیشن پہنچے۔ان کو امید تھی کہ پولیس ان کو ان کے بچوں کے بارے میں کوئی نئی اطلاع دینے والی ہے۔لیکن جیسے ہی وہ تھانہ احاطے میں پہنچے، پولیس نے 5 لوگوں کو اندر دھکیل‌کر باقی سے چلے جانے کو کہا۔

ان میں سے ایک نے کہا، ‘ہماری سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا۔  ہمیں ایک کمرے میں ٹھونس دیا گیا اور کوئی آواز نہیں کرنے کے لئے کہا گیا۔  ‘ان 5 لوگوں سے اس کے بعد ہاتھ سے لکھے ہوئے کاغذات پر دستخط کروایا گیا۔ایک والد نے بتایا،’وہ کاغذات ہاتھ سے مراٹھی میں لکھے ہوئے تھے۔  جس میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ ہمارے بچے کسن سور گاؤں میں کمانڈر سائی ناتھ سے ملنے گئے تھے ۔جب میں نے ان پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا، تو انھوں نے مجھے بھی جان سے مار دینے کی دھمکی دی’ان کا کالج جانے والا بیٹا بھی ان آٹھ غائب بچوں میں شامل ہے، جن کے بارے میں شک ہے کہ انھیں انکاؤنٹر میں مار دیا گیا۔

پولیس کے مطابق، اندراوتی ندی کے کنارے جمع ہوئے 34 مسلح باغیوں کو مبینہ انکاؤنٹر میں مار گرایا گیا۔  (فوٹو : سکنیا شانتا / دی وائر)

پولیس کے مطابق، اندراوتی ندی کے کنارے جمع ہوئے 34 مسلح باغیوں کو مبینہ انکاؤنٹر میں مار گرایا گیا۔  (فوٹو : سکنیا شانتا / دی وائر)

گاؤں والوں کے مطابق ان خطوں میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا تھا کہ یہ 8 بچے پرمیلی دلام کے مبینہ کمانڈر 32 سالہ سائی ناتھ، عرف ڈولیش مادھی اتارام (پولیس کے مطابق جس کو حال ہی میں پرموشن دےکر ڈویزنل کمیٹی ممبر بنایا گیا تھا) کے قریبی معاون تھے۔سائی ناتھ گٹے پلی گاؤں کا تھا اور وہ اس انکاؤنٹر میں مارے گئے تین ماؤوادی کمانڈروں میں سے ایک تھا۔  دیگر دو ڈویزنل کمیٹی (جس کو ‘ ڈی وی سی ‘کے طور پر جانا جاتا ہے)رینک کے ممبر تھے-نکسل شرینو عرف شری ناتھ اور نندو۔ شرینو عرف سائی ناتھ اندراوتی ندی کے کنارے پر مارا گیا اور نندو اور دیگر پانچ کو پاس کے راجارام کھانڈلا جنگل کپےوانچا علاقے میں 23 اپریل کو مار گرایا گیا۔

گاؤں والوں کا دعویٰ ہے کہ جس وقت ان کو وہاں لے جایا گیا، اس وقت پولیس اسٹیشن کے اندر6 لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ ان میں سے ایک نے وردی پہن رکھی تھی، جبکہ باقی پانچ سادہ کپڑوں میں تھے۔انہوں نے وہاں بیٹھے دو افسروں کی پہچان مہیش مدکر اور منتی ور کے طور پر کی ہے۔ایک دیگر گاؤں والے نے کہا، ‘ان میں سے دو ہماری طرف کاغذ بڑھاتے رہے اور ہمیں اس پر دستخط کرنے کے لئے کہا۔  ہم قریب چار گھنٹے تک مخالفت کرتے رہے۔لیکن آخر میں ہمیں اس پر دستخط کرنا پڑا۔ہم ڈرے ہوئے تھے۔  ‘

گاؤں والوں کا دعویٰ ہے کہ یہ یقینی بنانے کے لئے کہ وہ پلٹ نہ جائیں، پولیس جلد ہی ان دستخط کیے ہوئے خطوط کو ایک مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرے‌گی اورسی آر پی سی کے آرٹیکل 167 کے تحت ان کے بیان درج کرے‌گی۔گاؤں والوں نے بتایا کہ پولیس نے ان کو ان کاغذات کی ایک کاپی دینے سے انکار کر دیا، جن پر ان کو دستخط کرنے کے لئے مجبور کیا گیا تھا۔  اس کی جگہ ان کو کورٹ سے یہ کاغذات لینے کے لئے کہا گیا۔دی وائر نے پیرملی پولیس اسٹیشن کے کام کاج کے لئے ذمہ دار اے ایس پی اے راجا سے رابطہ کرنے کی کوشش کی، لیکن ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا۔

گڑھ چرولی کے ایس پی ابھینو دیش مکھ کو بھی دی وائر کی طرف سے ایک تفصیلی سوال نامہ بھیجا گیا ہے، جس میں ان سے گاؤں والوں کے ذریعے لگائے گئے الزامات کا جواب دینے کے لئے کہا گیا تھا۔  انہوں نے اس کے جواب میں لکھا-رانگ انفو (انفارمیشن) یعنی غلط اطلاع۔گٹےپلی، ایٹاپلی تحصیل سے بہت دور ایک  چھوٹا سا گاؤں ہے، جو ناگپور سے قریب 310 کلومیٹر دور ہے۔  گڑھ چرولی علاقے کے زیادہ تر آدیواسی گاؤں کی طرح گٹےپلی کے 35 فیملی آج بھی اپنے ذریعہ معاش کے لئے تیندوپتّا (جن کا استعمال بیڑی بنانے میں کیا جاتا ہے)اور دیگر جنگل مصنوعات کو یکجا کرنے پر منحصر ہیں۔

زیادہ تر گاؤں کی پہنچ رسمی تعلیم تک نہیں ہے۔  بہت کم لوگ ہی مراٹھی میں پڑھ یا لکھ سکتے ہیں۔  جن پانچ لوگوں کو پولیس نے بلایا تھا، ان میں سے تین سیدھے طور پر غائب ہوئے بچوں کے رشتہ دارہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ پانچ لوگ گاؤں کے چند تعلیم یافتہ لوگوں میں سے ہیں۔ گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ یہی وجہ ہے کہ پولیس نے ان کو بلایا۔  ان میں سے ایک نے دعویٰ کیا،’وہ کورٹ کو یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ ہم نے اپنی مرضی سے پولیس کے سامنے گواہی دی۔ وہ یہ نہیں چاہتے کہ بعد میں ہم اپنے بیانات سے پلٹ جائیں۔  ‘

حالانکہ یہ انکاؤنٹر صرف 15 کلومیٹر دور کسن سور گاؤں میں ہوا، لیکن گٹےپلی گاؤں کے باشندوں کو 22 اپریل کی شام تک اس کے بارے میں کوئی جانکاری نہیں ملی۔جب کچھ دوسرے گاؤں والے، جو شادی میں شامل ہونے کے لئے کسن سور گئے تھے، لوٹ‌کر آئے اور انہوں نے اس واقعہ کے بارے میں بتایا، تب گاؤں والے پولیس کے پاس گئے تھے۔انہوں نے گڑھ چرولی پولیس کے پاس ایک شکایت بچوں کے لاپتہ ہونے کے بارے میں درج کرائی تھی۔  اگلے پانچ دنوں تک گاؤں والوں کو نہ تو پولیس کی طرف سے کچھ سننے کو ملا، نہ میڈیا کی طرف سے۔

یہ بھی پڑھیں:مہاراشٹر: گڑھ چیرولی میں چل رہا ہے  خود سپردگی کا کھیل

27 اپریل کو دی وائر نے اس گاؤں کا دورہ کیا۔ اس سے پہلے میڈیا سے کوئی بھی اس گاؤں میں نہیں گیا تھا۔بات چیت کے دوران ایک گاؤں والے نے اتفاقاً وکیل اور ضلع پریشدممبر سوما ناگوٹی کے موبائل فون میں غائب ہوئے بچوں میں سے ایک کی تصویر دیکھ لی۔اس نے اس کی پہچان 16 سالہ لاپتہ راسو چاکو مڈاوی کے طور پر کی۔ اس نے فوراً یہ خبر دیگر لوگوں کو بتائی۔یہ تصویر ان 16 لوگوں کی فہرست کا حصہ تھی، جو نکسلی ہونے کے شک میں پولیس انکاؤنٹر میں مارے گئے تھے۔18 جون کو، مڈاوی کی فیملی نے یہ دعویٰ کیا کہ پولیس نے اس کی لاش ان کو سونپنے سے انکار کر دیا، اس حقیقت کے باوجود کہ انہوں نے اپنے بچے کی پہچان‌کر لی تھی۔

گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ جھوٹے بیان دلوانے کے علاوہ پولیس نئے برتن، کپڑے وغیرہ سامان بانٹ‌کر گاؤں والوں کو لالچ دینے کی کوشش کر رہی ہے۔  (فوٹو: Special Arrangement)

گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ جھوٹے بیان دلوانے کے علاوہ پولیس نئے برتن، کپڑے وغیرہ سامان بانٹ‌کر گاؤں والوں کو لالچ دینے کی کوشش کر رہی ہے۔  (فوٹو: Special Arrangement)

ایک طرف جہاں پولیس پر گاؤں والوں سے جھوٹے بیان دلوانے کا الزام لگ رہا ہے، وہیں دوسری طرف، دیگر طریقوں سے گاؤں والوں کو لالچ دینے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے۔  پچھلے ہفتے ہی،’ رشتے مضبوط کرنے کی ایک قواعد ‘کے تحت پولیس والوں کی طرف سے گاؤں میں آٹھ ساڑیاں، 20 جوڑی چپلیں، 15 چھاتے اور دو بڑے الیومنیم کے برتن گاؤں والوں کو دئے گئے۔

گاؤں کے ایک بزرگ آدمی نے بتایا،’وہ اچانک پہنچ گئے اور انہوں نے پیکٹوں کی تقسیم شروع کر دی۔ہم میں سے کچھ لوگوں نے مخالفت کی مگر انہوں نے پرو ا نہیں کی۔ گاؤں والے ان تحفوں کو رکھ تو لیا ،لیکن ان کا استعمال نہیں کیا۔ایک گاؤں والے نے غصے میں بھر‌کر کہا،’وہ پہلے مارتے ہیں، اس کے بعد تحفے دیتے ہیں۔  ہم اس سامان کا استعمال کیسے کر سکتے ہیں؟’

گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے پولیس کا دیا گیا سامان رکھ تو لیا ہے لیکن اس کا استعمال نہیں کیا ہے۔(فوٹو: Special Arrangement)

گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے پولیس کا دیا گیا سامان رکھ تو لیا ہے لیکن اس کا استعمال نہیں کیا ہے۔(فوٹو: Special Arrangement)

شروعاتی میڈیا رپورٹوں میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ مارے گئے سبھی لوگ ممنوعہ بھارتی کمیونسٹ پارٹی (ماؤوادی) کے ممبر تھے، لیکن جب گاؤں والوں نے اپنی بات رکھنی شروع کی، تب پولیس کی کہانی پر سوال اٹھنے لگے۔

اس کے فوراً بعد سماجی کارکنان، وکیلوں اور صحافیوں کی ایک 40 رکنی ٹیم نے گاؤں کا دورہ کیا تھا اور انہوں نے پولیس کے ایڈیشن کو چیلنج دیا۔متاثرین کو قانونی مدد مہیا کرانے میں  دو لوگوں میں وکیل سریندر گاڈلنگ اور کارکن مہیش راوت ہیں۔ان دونوں کو حال ہی میں پونے پولیس نے مبینہ طور پر نکسلی سرگرمیوں میں شامل ہونے کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔ناگوٹی نے بتایا،’ہم پولیس کے دعووں کے خلاف ہائی کورٹ جانے کا منصوبہ بنا رہے تھے۔ جس وقت گاڈلنگ کو گرفتار کیا گیا، اس وقت وہ قانونی حکمت عملی کو آخری شکل دینے میں لگے ہوئے تھے۔  ‘