حقوق انسانی

کشمیر : حقوق انسانی کی پامالی سے متعلق اقوام متحدہ کی رپورٹ اسپانسر ہے : آرمی چیف بپن راوت

آرمی چیف بپن راوت نے کہا ہے کہ ؛ کشمیر پر آئی یو این کی رپورٹ سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس طرح کے رپورٹ اسپانسر ہوتے ہیں۔

جنرل بپن راوت (فوٹو : پی ٹی آئی)

جنرل بپن راوت (فوٹو : پی ٹی آئی)

نئی دہلی:جموں و کشمیر میں حقوق انسانی کی صورت حال پر اقوام متحدہ کی طرف سے رپورٹ کو خارج کرتے ہوئے آرمی چیف بپن راوت  نے کہا ہے کہ یہ رپورٹ اسپانسر  ہے اور اس پر زیادہ بولنے کی ضرورت نہیں ہے۔غور طلب ہے کہ اس سے پہلے حکومت بھی اس رپورٹ کو خارج کرچکی ہے۔حکومت نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ یو این کی یہ رپورٹ  غلط ہے اور خاص نظریے سے متاثر ہے۔اس وقت  وزارت خارجہ نے اس پر سخت رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کی یہ رپورٹ متعصب ہے اور جھوٹے بیانیہ (Narrative)کی تشکیل کی کوشش ہے۔ ہندوستان نے صاف کیا ہے کہ پورا کا پورا کشمیر ہندوستان کا حصہ ہے۔

وزارت خارجہ نے ایسی رپورٹ سامنے لانے کی منشا پر سوال کھڑے کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ رپورٹ کافی حد تک غیر مصدقہ جانکاری کی بنیاد پربنائی گئی ہے۔ جموں و کشمیر ہندوستان کا اٹوٹ حصہ ہے اور پاکستان نے ہندوستان کے ایک حصے پر جبراً اور غیر قانونی طریقے سے اپنا قبضہ کر رکھا ہے۔

دریں اثناآرمی چیف نے کشمیر میں ہندوستانی فوج کے ہیومن رائٹس ریکارڈ کی تعریف کرتے ہوئے  کہا ہے کہ ؛ہمیں کشمیر پر آئی رپورٹ سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس طرح کے رپورٹ اسپانسر ہوتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہندوستانی فوج کاحقوق انسانی کے معاملے میں کا ریکارڈ بہتر رہا ہے اور ہندوستان کی عوام، فوجی اہلکار اور پوری دنیا اس سچائی سے واقف ہے۔

  کانگریس پارٹی نے بھی حکومت کے اس نظریے کی حمایت کی تھی۔ اس نے بھی اس رپورٹ کو ہندوستان کی خود مختاریت اور علاقائی سالمیت کے خلاف بتایا تھا۔ کانگریس کے ترجمان رندیپ سرجےوالا نے اپنے ایک ٹوئٹ میں لکھا؛جموں و کشمیر ہندوستان کا اٹوٹ حصہ ہے۔ ہم یو این ہیومن رائٹس رپورٹ کو خارج کرتے ہیں۔ یہ  طے شدہ مفاد کی خاطر ہندوستان کی سالمیت اور قومی مفاد کو نقصان پہنچانے کی متعصبانہ کوشش ہے۔

قابل ذکر ہے کہ گزشتہ 14 جون کو جاری کی گئی اقوام متحدہ کی اس رپورٹ میں جموں و کشمیر اور پاکستان کے قبضے والے کشمیر ، دونوں میں ہی مبینہ طور پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی بات کہی گئی ہے۔ یو این نے اس کی عالمی جانچ کی مانگ کی ہے۔ 49 صفحات کی یہ رپورٹ جون 2016 سے اپریل 2018 تک ہوئے واقعات کی روشنی میں تیار کی گئی ہے۔