فکر و نظر

گجرات: ڈسٹربڈ ایریا ایکٹ مسلمانوں کے خلاف تفریق کا نیا ہتھیار بن گیا ہے

ڈسٹربڈ ایریا ایکٹ  لانے کا مقصد مجبوراً فروخت اور فرقہ وارانہ کشیدگی کے وقت ہونے والی بین مذہبی خرید و فروخت کو روکنا تھا لیکن گجرات میں گزشتہ  3 دہائیوں سے اس کا استعمال مسلمانوں کو ملی جلی آبادی سے باہر نکالنے  کے لئے کیا جا رہا ہے۔

علامتی فوٹو : وکی میڈیا  کامنس

ٖ علامتی فوٹو : وکی میڈیا  کامنس

احمد آباد : وشوا ہندو پریشد  کے رہنما پروین توگڑیا نے گجرات کے بھاونگر میں 2014 میں کی گئی ایک تقریر کے دوران مسلمانوں کے اوپر تھوکنے اور ان پر ٹماٹر پھینکنے کی بات کہی تھی۔ ایسا انہوں نے ایک ‘ ہندو علاقے ‘ میں ایک مسلمان کے  جائیداد خریدنے کی مبینہ شکایت کی شنوائی  کے دوران کہی تھی۔ اپنے خطاب میں وہ ڈسٹربڈ ایریا ایکٹ   کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں، ‘ ہندوستان کے گاؤں اور شہروں میں مسلمان لمبے وقت سے یہ سازش کر رہے ہیں۔ کیسے ہم ان کو روک سکتے ہیں؟ اس کے دو طریقے ہیں؛ ایک تویہ  کہ ہرجگہ ڈسٹربڈ ایریا ایکٹ    نافذ کر دیا جائے اور دوسرا کسی وکیل سے رابطہ کریں، گھر میں زبردستی گھسیں، اس پر قبضہ کریں اور باہر بجرنگ دل کا بورڈ ٹانگ دیں۔ بعد میں ہم مقدمہ سے نمٹ سکتے ہیں۔ ‘

ان کی اس بات پر وہاں موجود بھیڑ تالیاں بجاتی ہے۔

ڈسٹربڈ ایریا ایکٹ  1986 میں نافذ کیا گیا تھا اور 1991 میں اس کو ترمیم  کر ایک نیا قانون لایا گیا تھا جو حکومت کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ فساد ممکنہ علاقہ  کو ‘ ڈسٹرب  ‘ علاقہ اعلان کر دیں۔ اس علاقے میں کسی بھی طرح کی جائیداد کی خرید و فروخت کے لئے کلکٹر کے دفتر سے الگ سے اجازت لینے کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس قانون کا مقصد تھا کہ ایسے علاقوں میں مجبوراً فروخت کو روکا جائے۔ کسی طرح کی سماجی کشیدگی کی حالت میں کسی ایک کمیونٹی کے لوگوں کو دوسری  کمیونٹی کو جائیداد بیچنے سے روکنا بھی اس قانون کا مقصد تھا۔

حالانکہ تین دہائیوں میں جس طرح سے اس قانون کو نافذ کیا گیا ہے اس کی زمینی حقیقت کچھ اور ہی بیاں کرتی ہے۔ گجرات کی ملی جلی آبادی سے مسلمانوں کے گھر کو الگ کرنے کے مقصد سے اس قانون کا استعمال کرنا اب عام بات ہو گئی  ہے۔

منیر شیخ نے جب احمد آباد کےپالڈی میں 1995 میں فلیٹ خریدا تھا تب وہ لائف انشیورنس کارپوریشن (ایل آئی سی) کے ملازم تھے۔ اس فلیٹ میں منیر شیخ اور ان کی فیملی کبھی نہیں رہ سکی اور آخرکار ان کو وہ فلیٹ بیچنا پڑا تھا۔ اب رٹائر ہو چکے منیر شیخ دی وائر کو بتاتے ہیں، ‘ میں نے 1995 میںپالڈی میں فلیٹ خریدنے کے لئے ایل آئی سی سے لون لیا تھا۔ اس علاقے میں زیادہ تر جین کمیونٹی کے لوگ رہتے ہیں۔ جس عمارت میں، میں نے فلیٹ لیا تھا اس میں 6  فیملی تھی جس میں سے 2  فیملی مسلمانوں کی تھی۔ ان دو مسلم فیملی  میں سے ایک ہماری تھی۔

 چار  ہندوؤں کی فیملی تھی اور وہ مسلمان پڑوسی ہونے کی وجہ سے خوش نہیں تھے۔ اس علاقے کے ہرین پنڈیا، جو بی جے پی کے متاثر کن رہنما تھے، اس وقت میونسپل کارپوریشن میں تھے۔ وہ اسمبلی کا انتخاب لڑنا چاہتے تھے اور ان کو ایک مدعا مل گیا تھا۔ پنڈیا کے اشارے پر میرے خلاف ڈسٹربڈ ایریا ایکٹ  کا حوالہ دیتے ہوئے ایک مقدمہ درج کیا گیا۔ نچلی عدالت میں ان لوگوں نے بیان دیا کہ اگر میں فلیٹ خریدتا ہوں تو اور مسلمان وہاں آئیں‌گے اور آہستہ آہستہ پورے علاقے کو اپنے قبضے میں لے لیں‌گے۔ ان لوگوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ میں خطرناک ہوں۔ رجسٹرار جو کہ خود ایک جین تھے انہوں نے میرے خلاف  فیصلہ دیا اور مجھے وہ جگہ خالی کر کے  کہیں اور جانے کو کہا گیا۔ لیکن میں نے ہائی کورٹ میں اپیل کی۔ ‘

4سالوں تک مقدمہ چلا۔ اس دوران منیر شیخ اپنے گھر میں نہیں رہ سکے اور لگاتار دباؤ اور دھمکی جھیلتے رہے۔ منیر شیخ بتاتے ہیں، ‘ انہوں نے میرے گھر پر حملہ کیا اور ایک بار تو گھر میں آگ لگانے کی کوشش بھی کی۔ علاقے کے تمام ہندوؤں اور جین لوگوں نے ہمارا بائیکاٹ کر دیا۔ ہم وہاں نہ کبھی جا سکے اور نہ کبھی رہ سکے۔ میری فیملی ڈرتی تھی۔ اس کے باوجود پولیس نے کبھی میری شکایت نہیں سنی۔ 4 سالوں تک مقدمہ چلا۔ اس دوران بی جے پی، آر ایس ایس اور یہاں تک کہ پولیس کی طرف سے بھی لگاتار ہمارے اوپر دباؤ بنایا گیا۔ ‘

منیر شیخ کو اس وقت راحت ملی جب گجرات ہائی کورٹ نے فیصلہ سنایا کہ ان کا فلیٹ ڈسٹربڈ ایریا ایکٹ   کے اندر نہیں آتا اور آرڈر  دیا کہ  پولیس ان کی فیملی کو تحفظ مہیا کروائے۔ منیر شیخ بتاتے ہیں، ‘ میری فیملی اس فلیٹ میں جانے کو لےکر بہت ڈری ہوئی تھی۔ ہم نے مقدمہ جیتتے ہی اس کو بیچ دیا۔ ‘

اس سال اپریل میںپالڈی کی ایک مقامی تنظیم ناگرک سیوا سمیتی  کی طرف سے مبینہ طور پر شکایتں آئی تھیں کہ علاقے کی  ایک ہاؤسنگ سوسائٹی ورشا اپارٹمنٹ  کو مسلمانوں کے ‘ قبضے ‘ سے واپس لیا جائے۔ اس کے بعد وزیراعلیٰ  وجے روپانی نے ڈسٹربڈ ایریا ایکٹ   کا تجزیہ کرنے اور اس کی کمیوں کو دور کرنے کے آرڈر  دئے۔ ان کی  اس میٹنگ  میں منسٹر آف اسٹیٹ فار ہوم  پردیپ سنگھ جڈیجہ اور اسٹیٹ ریونیو  اور رہائشی محکمہ  کے دوسرے اہلکاروں نے حصہ لیا تھا۔

3 سال پہلے بنی ناگرک سیوا سمیتی  ہندو جاگرن منچ کا حصہ ہے اور ہندو جاگرن منچ وشوا ہندو پریشد  سے جڑی ہوئی ایک تنظیم ہے۔ ناگرک سیوا سمیتی  کے بانیوں میں سے ایک اور ہندو جاگرن منچ سے جڑے جگر اپادھیائے نے دی وائر کو بتایا، ‘ جن کلیان کوآپریٹیو ہاؤسنگ سوسائٹی کے تحت یہ سوسائٹی 1969 میں بنی تھی اور اس میں ہندو فیملی رہا کرتی تھی۔ 1991 میں ایک مسلم فیملی نے سوسائٹی میں فلیٹ خریدا۔ 1995 تک 24 فلیٹس میں سے 20 فلیٹس مسلمانوں کو بیچے جا چکے تھے۔

 2013 میں اور فلیٹس بنانے کا کام شروع کیا گیا۔ یہ صرف دو منزلہ عمارت ہوا کرتی تھی اب یہ 7 منزلہ عمارت بن چکی ہے۔ ابھی 6 مہینے پہلے پھر سے اس میں اور فلیٹ بنانے کا کام شروع کیا گیا ہے۔ یعنی 125 فلیٹ ہوں‌گے جو مسلمانوں کے ہو جائیں‌گے۔ ہم نے آر ٹی آئی دائر کیا ہے اور ایک جانکاری سے ہمیں پتہ چلا ہے کہ بلڈر نے ڈسٹربڈ ایریا ایکٹ    کے تحت اجازت مانگی ہے۔ ایک دوسری جانکاری کے مطابق؛  یہ عمارت اس علاقے میں نہیں پڑتی ہے جہاں یہ قانون نافذ ہے۔ ہم متعلقہ افسروں سے اس معاملے میں ملے ہیں اور ان کو اس معاملے میں مداخلت کرنے کے لئے کہا ہے۔ ‘

جگر اپادھیائے آگے کہتے ہیں، ‘ لو جہاد کی ہی طرح کچھ مسلمان لینڈ جہاد بھی کرتے ہیں۔ یہ غیرمسلم علاقوں کو اپنے قبضے میں لینے کے لئے منصوبہ بند سازش ہے۔ پہلے وہ بازارکی  قیمت سے اونچی قیمت پر ایک فلیٹ خریدتے ہیں، اور پھر اس کے بعد اس علاقے میں وہ جائیداد خریدتے رہتے ہیں۔ جب تک کسی کو یہ سمجھ میں آتا تب تک اس علاقے میں رہنے والا آخری غیرمسلم اپنی جائیداد کوڑیوں کی قیمت پر بیچنے پر مجبور ہو جاتا کیونکہ وہ علاقہ اس فیملی کے لئے پھر غیر محفوظ ہو جاتاہے ۔ ‘وہ آگے کہتے ہیں، ‘ مسلمانوں کو شہر کے کچھ متعینہ ممنوعہ علاقوں میں رہنا چاہیے  اور غیرمسلموں کو کہیں بھی دوسری جگہ امن اور محفوظ طریقے سے رہنے دینا چاہیے ۔

ڈسٹربڈ ایریا ایکٹ    کا مقصد ہی اسی حفاظت کو متعین کرنا ہے۔ ورشا اپارٹمنٹ جو ایک کو آپریٹیو سوسائٹی ہے، جس کا 1969 میں رجسٹریشن ہوا تھا۔ تب اس میں 24 فلیٹ تھے۔ ان فلیٹس میں رہنے والے سبھی کو آپریٹیو کے ممبر تھے۔ 35 سال بعد پرانے فلیٹس کی مرمت کا ٹھیکہ دو مسلم بلڈروں کو دیا گیا۔ اس کے بعد 24 پرانے فلیٹ  کے علاوہ 38 نئے فلیٹ  اور بنائے گئے۔

ورشا اپارٹمنٹ کے ایک بلڈر رکن الدین شیخ بتاتے ہیں، ‘ ورشا اپارٹمنٹ کے ڈسٹربڈ ایریا ایکٹ کے تحت آنے کو لےکر وضاحت نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں شروع میں اجازت دے دی گئی تھی اور اس قانون کے اندر لی جانے والی اجازت کے بغیر ضلع نائب  رجسٹرار کے دفتر میں رجسٹری کروائی گئی تھی۔ اس کے بعد افسروں کو احساس ہوا کہ فلیٹ ڈسٹربڈ ایریا ایکٹ    کے اندر آتا ہے۔ اس لئے اس کے بعد اس قانون کے تحت اجازت مانگی گئی اور پھر اجازت ملی۔

اس کے بعد اپورو شاستری اور جگر اپادھیائے نام کے دو لوگوں، جو خود کو سماجی کارکن  بتاتے ہیں، انہوں نے اس پر اعتراض درج کرایا۔ ہندو جاگرن منچ سے جڑے ان لوگوں کا اپارٹمنٹ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ یہاں تک کہ یہ دونوں ورشا اپارٹمنٹ کے آس پاس بھی نہیں رہتے ہیں۔ باوجود اس کے انہوں نے فلیٹ کو لےکر ہرجگہ اپنا اعتراض درج کروایا۔ یہاں تک کہ وہ وزیراعلیٰ کے دفتر بھی جا چکے ہیں۔ ہرجگہ ان کی بات سنی گئی اور ان کو توجہ دی گئی۔ وہ ہرجگہ بار بار یہ کہتے رہے کہ ہم لینڈ جہاد کر رہے ہیں اورپالڈی کو جوہاپورا (احمد آباد کا شہری مسلم علاقہ) نہیں بننے دینا چاہیے ۔ ان لوگوں نے پرچے بانٹے۔ ورشا اپارٹمنٹ کے قریب رہنے والے لوگوں کو اکسایا اور احمد آباد میونسپل کارپوریشن کے افسروں اور کلکٹر کے دفتر پر دباؤ بنایا۔ ‘

رکن الدین شیخ آگے کہتے ہیں، ‘ احمد آباد میں مسلمانوں کے رہنے کے لئے بنائی گئی  ہرایک سوسائٹی پر کم سے کم 200 فلیٹ ہندوؤں کے لئے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ مسلمانپالڈی میں اپنی جائیداد بیچ‌کر مسلم اکثریتی علاقوں جیسے جوہاپورا اور جمال پور میں شفٹ ہو رہے ہیں۔پالڈی میں کبھی لبرٹی، سیون ہیوین اور پیراڈائز جیسے اپارٹمنٹ  میں مسلم فیملی رہتی تھی لیکن 1985، 1992 اور 2002 کے فسادات کے بعد ان فیملیوں نے اپنے گھر بیچ دئے۔ اب ان اپارٹمنٹس  میں ہندو فیملی رہتی ہیں۔ ‘

ورشا اپارٹمنٹ کا معاملہ ڈیڑھ سالوں سے عدالت میں چل رہا ہے۔ خریدنے والے اور بیچنے والے کی طرف سے کسی بھی طرح کا کوئی اعتراض نہیں درج کرانے کے باوجود تیسری پارٹی ناگرک سیوا سمیتی کی طرف سے لگاتار  مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔ دیواروں اور دوسری سوسائٹی کے گیٹ  پر لگائے گئے ان کے پوسٹروں پر لکھا ہوا ہے،پالڈی کو جوہا پورا نہیں بننے دو، لینڈ جہاد بند کرو، ہندو ایکتا  زندہ آباد، ڈسٹربڈ ایریا ایکٹ    کو نافذ کرو، وغیرہ وغیرہ۔

ورشا اپارٹمنٹس میں ہندو وادی تنظیم کے ذریعے بانٹے گئے پرچے

ورشا اپارٹمنٹس میں ہندو وادی تنظیم کے ذریعے بانٹے گئے پرچے

ان کے پرچوں میں لکھا ہوا ہے؛

لینڈ جہاد سےپالڈی علاقہ  کو بچاؤ

جاگو ہندو جاگو

جے  بھارت

ہندو کمیونٹی سے عاجزانہ گزارش ہے کہ وہ ایک ہو اور یقینی بنائیں کہ ہمارا پر امنپالڈی علاقہ مسلم اکثریت علاقے میں تبدیل نہ ہو جائے۔ کچھ وقت سے تعمیرنو کے نام پر ہمارے علاقے میں مسلمان فیملیوں کی تعداد بڑھانے کی سازش رچی جا رہی ہے۔ اس تعمیرنو کی آڑ میں چپکے سے 150 مسلم فیملی کو ہمارے پڑوس کے   ورشا فلیٹس  میں لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اگر ہم ایک نہیں ہوتے ہیں اور ابھی اس کی مخالفت نہیں کرتے ہیں تو ہماری  آنے والی پشت کے سامنے اس علاقہ  کو چھوڑ‌کر جانے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ  نہیں رہ جائے‌گا۔

دوسرا جوہاپورا بننے سےپالڈی کو روکیے ۔ اگر ہم ابھی نہیں اٹھے تو ہندوؤں کو کلپالڈی چھوڑنا پڑ جائے‌گا۔ ہم کب تک بھاگ سکتے ہیں؟ آگے آئیے اورپالڈی کو مسلم اکثریت علاقہ بننے سے روکیے ۔ آئیے ہم اس سازش کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے۔

وندے ماترم

احمد آباد میں رہنے والے بلڈر شریف شیخ کہتے ہیں، ‘ سالوں سے مسلمان یا تو مجبور ہو کر یا پھر تحفظ کے لحاظ سے مسلم اکثریتی علاقہ  جوہاپورا اور جمال پور میں رہنے جا رہے ہیں۔ اگر مسلمان ملی جلی آبادی والے علاقوں میں جائیداد خریدنے کی کوشش کرتے ہیں تو زیادہ تر معاملوں میں ان کو پریشانی اٹھانی پڑتی ہے۔ سماج میں ایسے عناصر ہیں جو ہنگامہ کھڑا کرتے ہیں اور ڈسٹربڈ ایریا ایکٹ    نافذ کروانے کے لئے ہر سرکاری دفتر تک پہنچ جاتے ہیں۔ افسر تب اس قانون کے تحت کوئی نہ کوئی کمی ڈھونڈتے ہیں اور خریدار کو پریشان کرتے ہیں۔ ایسے میں خریداروں کو پھر رشوت دےکر معاملہ نمٹانا پڑتا ہے اور مالکانہ حق کی بجائے پاور آف اٹارنی پر سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے۔ ‘

اپنی پہچان نہیں بتانے کی شرط پر احمد آباد میں رہنے والے ایک مسلمان  بتاتے ہیں، ‘ میں نے جمال پور میں 20 سال پہلے ایک پراپرٹی خریدی تھی۔ اتنے سالوں میں آج تک میں اپنے نام پر گھر نہیں کروا سکا۔ فروخت کی رقم دینے کے باوجود مجھے قانون کی وجہ سے پاور آف اٹارنی پر سمجھوتہ کرنا پڑا۔ ‘ کئی معاملوں میں رائٹ ونگ  عناصر نے خریدار کو دھمکاکر بےحد کم قیمت پر جائیداد خریدی، جس سے وہ اس کو انہی کو بیچ سکیں۔

2002 کے فساد متاثرین کے لئے کام کرنے والے سماجی کارکن شریف ملک بتاتے ہیں، ‘ اگر کوئی ہندو کسی مسلمان کو  اپنی جائیداد بیچنا چاہتا ہے تو اس کو رائٹ ونگ  عناصر پہلے ایسا کرنے سے روکتے ہیں۔ جب بیچنے والا نہیں مانتا ہے تو یہ غیرسماجی عناصر اس کے مخالف کلکٹر کے دفتر میں ایک درخواست دیتے ہیں۔ کلکٹریٹ تب ڈسٹربڈ ایریا ایکٹ    نافذ کرنے سے منع کر دیتا ہے اور تب اس کے بعد مسئلہ اور بڑھنا شروع ہوتا ہے۔ کچھ وقت کے بعد وہی لوگ جائیداد بیچنے والے پر کم قمیت پر جائیداد بیچنے کا دباؤ ڈالتے ہیں اور پھر بعد میں جائیداد کو دوبارہ سے بیچتے ہیں۔ رائٹ ونگ  عناصر اور سرکاری افسروں کے درمیان یہ ایک مجرمانہ گٹھ جوڑ بن چکا ہے۔ ‘

ابتک احمد آباد میں 21 پولیس تھانوں کے اندر آنے والے علاقوں کو ‘ ڈسٹرب  ‘ علاقہ اعلان کیا جا چکا ہے۔ گزشتہ سال سورت اور وڈودرا میں بھی یہ قانون نافذ کیا گیا تھا۔ سورت میں یہ بی جے پی کی  ایم ایل اے سنگیتا پاٹل کے اشارے پر لنبایت علاقے میں نافذ کیا گیا تھا۔ مئی 2018 میں ڈسٹربڈ ایریا ایکٹ     کو اقلیتوں کے حقوق کے لئے لڑنے والے دانش قریشی نے ہائی کورٹ میں چیلنج کیا ۔

عرضی دائر کرنے والے وکیل نشانت ورما کہتے ہیں، ‘ یہ ریاستی حکومت کی ناکامی ہے کہ ریاست میں فرقہ وارانہ  ہم آہنگی نہیں ہے اور اس طرح کا قانون نافذ ہے۔ لیکن این سی آر بی کے اعداد و شمار کہتے ہیں کہ گجرات میں دوسری ریاستوں کے مقابلے میں فرقہ وارانہ تشدد کے زیادہ معاملے نہیں ہیں۔ گجرات میں حالات اتنے بدتر نہیں ہیں ۔ اس کے باوجود یہ قانون آئین کے ذریعے دئے گئے حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے اور ہندو اور مسلمان دونوں کو اپنی جائیداد خریدنے اور  بیچنے میں پریشانی پیدا کرتا ہے۔ ‘

دانش قریشی کہتے ہیں، ‘ ریاستی حکومت اس قانون کے اندر زیادہ سے زیادہ علاقوں کو لا رہی ہے۔ وہ ایسا اس لئے نہیں کر رہی کیونکہ یہ کرنا ضروری ہے بلکہ ایسا سیاسی ایجنڈا پورا کرنے کے لئے کیا جا رہا ہے۔ ‘ 2021 تک سورت کے کچھ علاقوں میں ڈسٹربڈ ایریا ایکٹ    نافذ کرنے کے فیصلے کو چیلنج کرنے  والی وکیل کرتی شاہ کہتی ہیں، ‘ ہم نے اپنی عرضی میں کہا ہے کہ کچھ مخصوص علاقوں میں ڈسٹربڈ ایریا ایکٹ  نافذ کرنے والی اس نوٹیفکیشن کے ذریعے ایک خاص کمیونٹی کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ان معاملوں میں اس قانون کو نافذ کرنے جیسے حالات بالکل نہیں ہیں۔ ‘