خبریں

پاسپورٹ تنازعہ: وزارت خارجہ کی جانچ میں تنوی سیٹھ کو کلین چٹ

 مشرا کو لکھنؤ سے گورکھپور ٹرانسفر کر دیا گیا کیونکہ انہوں نے اپنے اختیارات کی حد پار کی تھی۔ بین مذہبی شادی کرنے والے جوڑے سے پوچھے گئے  سوال  اور ان کا رویہ  دونوں غیرمناسب تھا ۔

فوٹو : اے این آئی

فوٹو : اے این آئی

نئی دہلی : وزارت خارجہ کی اندرونی جانچ  میں تنوی سیٹھ اور اس کے شوہر انس صدیقی کی طرف سے لکھنؤ پاسپورٹ دفتر میں دی گئی درخواستوں میں کوئی گڑبڑی نہیں پائی گئی۔ ذرائع کے مطابق تنوی عرف سعدیہ اور اس کے شوہر انس کو قانون کے مطابق ہی پاسپورٹ جاری کئے گئے۔ تفتیش میں اس بات کی بھی تصدیق ہوئی ہے کہ پاسپورٹ آفیسر وکاس مشرا پر کی گئی کارروائی بالکل منصفانہ ہے۔

 جانچ‌کے مطابق، مشرا کو لکھنؤ سے گورکھپور ٹرانسفر کر دیا گیا کیونکہ انہوں نے اپنے اختیارات کی حدیں  پار کی تھیں۔ بین مذہبی شادی کرنے والے جوڑے سے پوچھے گئے ان کے سوال  اور رویے دونوں غیرمناسب پائے گئے ۔ مشرا پر الزام لگا کہ انہوں نے انس صدیقی کو ہندو مذہب اپنانے اور ہندو رسم و رواج سے شادی کرنے کو کہا۔ ٹائمس آف انڈیا میں شائع ایک خبر کے مطابق؛ لکھنؤ میں ریجنل پاسپورٹ آفیسر  پیوش  ورما نے کہا، ‘ نئے اصول کے تحت دونوں درخواست گزار  کی پولیس جانچ  میں کوئی گڑبڑی نہیں ملی۔ اس بنیاد پر ان کے پاسپورٹس رد  نہیں کئے جا سکتے۔

 بعد میں تنوی سیٹھ نے پاسپورٹ حاصل کرنے کے لئے دو اور دستاویز سونپے تھے۔ اپنا آدھار کارڈ اور بینک پاس بک۔ دونوں میں ایک نام تنوی سیٹھ ہی لکھا ہے۔ پاسپورٹ کے لئے نکاح نامے پر لکھا ان کا نام کوئی معنی نہیں رکھتا کیونکہ پاسپورٹ کے لئے ثبوت کے طور پر نہ نکاح نامہ اور نہ ہی میرج سرٹیفکیٹ  کی ضرورت پڑتی ہے۔ ‘ تفتیش میں اس کی تصدیق ہوئی ہے کہ تنوی نے جو نکاح نامہ پیش کیا تھا، پہچان یا شادی کے ثبوت کے طور پر اس کی ضرورت تھی ہی نہیں۔

کچھ وقت پہلے ہی اس سلسلے میں اصول کو آسان بنا ئے گئے تھے۔ ان کے دوسرے دستاویزوں کی جانچ‌کے بعد حکومت کو نہیں لگتا ہے کہ کسی قسم کا مسئلہ تھا۔ یہاں تک کہ تنازعے کے بعد ہوئی  پولیس تصدیق  میں بھی کوئی گڑبڑی نہیں ملی۔ لکھنؤ میں پولیس افسر نے میڈیا کو بتایا تھا کہ تنوی سیٹھ درخواست میں درج رہائش گاہ میں گزشتہ  کچھ سالوں سے نہیں رہ رہی تھی۔غور طلب ہے کہ 21 مئی 2018 سے حکومت نے پاسپورٹ کی درخواست دینے والوں  کی جانچ‌کے معاملے میں پولیس کا رول  امید وار کے مجرمانہ پس منظر اور اس کی شہریت کی تفتیش تک محدود کر دیاہے۔ اس کے لئے پولیس والے کو درخواست گزار  سے ملنے کی بھی ضرورت نہیں رہ گئی ہے۔ یہاں تک کہ اب متعلقہ سوالوں کی تعداد بھی گھٹ‌کر محض 6  رہ گئی ہے۔ اس لئے تنوی سیٹھ درخواست میں درج گھر میں ایک سال سے رہ رہی تھی یا نہیں، اس کا کوئی مطلب نہیں رہ گیا۔

واضح ہو کہ گزشتہ مہینے ایک ہندومسلم شادی شدہ جوڑے کے ساتھ لکھنؤواقع ریجنل پاسپورٹ آفس میں ان کے مذہب اور نام کو لے کر پاسپورٹ آفیسر کے ذریعے بدسلوکی  کا معاملہ سامنے آیا تھا۔ لکھنؤ رتن اسکوائر واقع پاسپورٹ سروس سینٹر میں تنوی سیٹھ کے ذریعے پاسپورٹ افسر پر مذہب کے نام پر ناروا سلوک کرنے کا الزام لگانے کے بعد  وزارت نے اس معاملے میں سختی دکھائی تھی۔ذرائع کے مطابق اس معاملے کے سامنے آنے کے بعد وزارت نے ملزم افسر کا تبادلہ کر دیا تھا۔اس کے ساتھ ہی پاسپورٹ آفس سے بھی رپورٹ طلب کی تھی۔