خبریں

مدھیہ پردیش : ’ ہندوستان کا ایتھوپیا ‘ کہے جانے والے شیوپور میں غذائی قلت سے 5 بچوں کی موت

ضلع ‎ کے وجئے پور وکاس کھنڈ کی اکلود پنچایت کے جھاڑبڑودا گاؤں میں دو ہفتوں کے اندر 5 بچوں کی موت ہو چکی ہے۔ انتظامیہ غذائی قلت کی بات سے انکار کر رہی ہے اور اموات کی وجہ بخار بتا رہی  ہے۔

(علامتی فوٹو : رائٹرس)

(علامتی فوٹو : رائٹرس)

نئی دہلی :مدھیہ پردیش کا شیوپور ضلع ‘ ہندوستان کے ایتھوپیا ‘ کے نام سے مشہور ہے۔ اس شہرت کی وجہ ہے غذائی قلت۔ ہرسال غذائی قلت کی وجہ سے  ضلع میں کئی معصوم زندگی ختم ہو جاتی ہے۔ اسی کڑی میں ضلع کے وجئے پور وکاس کھنڈ کی اکلود پنچایت کے جھاڑبڑودا گاؤں میں بخار سے گزشتہ  دنوں 4 بچیوں کی موت ہو گئی۔  وہیں، بدھ کو غذائی قلت سے  ایک بچی نے  ہسپتال میں دم توڑ دیا۔ 8 مہینے کی روشنی کو منگل کو ہی شیوپور ضلع کی  وجئے پور تحصیل سے پڑوسی ضلع گوالیار  کے سب سے بڑے ہسپتال جیاروگیہ  میں داخل  کرایا گیا تھا۔

ڈاکٹروں کے مطابق، وہ غذائی قلت کے ساتھ ساتھ بخار اور دوسری  بیماریوں میں  مبتلا تھی۔ اس پر دواؤں نے بھی اپنا اثر دکھانا بند کر دیا تھا، اس لئے اس کو گوالیار ریفر کیا گیا تھا۔ اس سے پہلے 1 جولائی کو دو بچوں نے تیز بخار آنے کے بعد دم توڑ دیا تھا۔ دونوں کو اچانک تیز بخار آیا تھا، ان کو ہسپتال لے جا نے  سے پہلے ہی ان کی موت ہو گئی۔ مردہ بچیوں کے نام مسکان اور مدھو تھے۔ مسکان کے رشتے میں بھائی بنٹی آدیواسی نے بات چیت میں میڈیا کو بتایا تھا کہ اس واقعہ کے کچھ دن پہلے گاؤں میں ہی 3 سالہ نیلم کی بھی اسی طرح بخار کی وجہ سے  موت ہو گئی تھی اور نیلم سے دو دن پہلے اسی طرح شوانی نے بھی دم توڑ دیا تھا۔

اس طرح 2 ہفتے کے اندر 5 اموات  ہو چکی ہیں۔ اس بیچ، جب 1 جولائی تک 4 اموات کی خبریں اخبار کی سرخیاں بنیں تو صحت محکمے کی ٹیم منگل کو جھاڑبڑودا گاؤں بھی پہنچی تھی جہاں رہنے والی قریب 100 فیملیوں میں صحت کا جائزہ لیا، جن میں 12 بچے مریض پائے گئے تو 3 بچے    غذائی قلت سے بہت زیادہ متاثر تھے، جن میں روشنی کی حالت سنگین تھی۔

غور طلب ہے کہ اکلود وہی جگہ ہے، 2016 میں جہاں کے گولی پورا علاقے میں ڈیڑھ درجن بچے  غذائی قلت کی وجہ سے  اپنی جان گنوا بیٹھے تھے، قریب ہی لگے جھاڑبڑودا میں تب چار بچوں کی موت ہوئی تھی۔ واضح  ہو کہ 2016 میں شیوپور ضلع میں غذائی قلت قہر بن‌کر ٹوٹا تھا۔ سال کے  ستمبر اکتوبر مہینے کے درمیان 116 بچوں کی موت غذائی قلت سے ہوئی تھی۔ معاملے نے طول پکڑا تو ریاستی حکومت نے غذائی قلت پر وائٹ پیپر لانے تک کا اعلان کر دیا تھا۔ حالانکہ، وہ بات الگ ہے کہ حکومت ابتک وائٹ پیپر  نہیں لائی ہے۔

اس بیچ، منگل کو پہنچی ٹیم نے مدھو، مسکان اور نیلم کی موت کی بات تو قبول کی  لیکن شوانی کی موت کو اپریل میں ہونا بتایا۔ لیکن، ساتھ ہی کہا کہ اموات  ہوئیں کیونکہ بچیوں کے رشتہ دار بیمار  ہونے پر ان کو ہسپتال لے جانے کے بجائے جھاڑ پھونک‌کے بھروسے رہے۔ وہیں صحت محکمے کے ذریعے ہسپتال میں داخل  کرائی گئی جس  بچی روشنی نے بدھ کو دم توڑا ہے، انتظامیہ اس کو بھی غذائی قلت سے ہوئی موت ماننے سے انکار کر رہی ہے۔

شیوپور سی ایم ایچ او کا کہنا ہے کہ موت بیماری سے ہوئی ہے، اس لئے بچی کو گوالیار ریفر کیا گیا تھا۔ مقامی کلکٹر سوربھ کمار سمن کا کہنا ہے کہ ان کو بچی کو بخار آنے پر ریفر کئے جانے کی جانکاری ہے۔ اس کی موت بھی بخار آنے اور وقت پر علاج کے لئے نہ لے جانے کی وجہ سے  ہوئی ہے۔ لیکن ان  سب کے درمیان وجئے پورکے  بی ایم او ڈاکٹر ایس این میوافروس نے لڑکی کی غذائی قلت کی بات قبول کی  ہے۔ غذائی قلت کی حالت پر ایسے اختلاف مدھیہ پردیش میں نئے نہیں ہیں۔ غذائی قلت کی پردےداری کی حکومت و انتظامیہ کی ہمیشہ سے ہی کوشش رہی  ہے ۔

ریاستی حکومت کے ہی دو محکمے اور اس کے وزیر غذائی قلت کے اعداد و شمار پر آپسی اختلاف رکھتے ہیں۔ غور طلب ہے کہ 2016 میں شیوپور میں غذائی قلت سے ہوئی اموات کو جہاں صحت محکمہ اور  وزیر صحت نے غذائی قلت کی وجہ سے ہونا بتایا تھا، وہیں وومین اینڈ چائلڈ ڈیولپمنٹ منسٹر یہ قبول کرنے کو  ہی تیار نہیں تھیں کہ کوئی بچہ  غذائی قلت سے مرا بھی ہے۔وومین اینڈ چائلڈ ڈیولپمنٹ منسٹر  ارچنا چٹنس نے تب ایوان میں ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ گزشتہ  3 سالوں میں غذائی قلت سے کوئی موت ہی نہیں ہوئی۔ جبکہ ریاستی حکومت کی وزیر  صحت رستم سنگھ کا کہنا تھا کہ شیوپور میں 116 بچے  غذائی قلت سے مرے۔ وہیں، حکومت کے ایک دوسرے وزیر کیلاش وجئے ورگیہ نے ستنا اور کھنڈوا میں غذائی قلت سے ہوئی 93 بچوں کی موت کو دوسری  بیماریوں سے ہونا بتایا تھا۔

اسی طرح شیوپور میں غذائی قلت سے ہوئی اموات کو جب حزب مخالف نے مدعا بنایا تو ریاستی حکومت نے ایک مہینے کے اندر غذائی قلت پر وائٹ پیپر  لانے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن تقریباً دو سال ہونے کے بعد بھی  اعلان پر عمل نہیں ہوا ہے تو اس کے پیچھے بھی حکومت کی پالیسی غذائی قلت کو چھپانے کی ہی ہے۔ ویسے چھپنے چھپانے کا یہ کھیل پرانا ہے۔ مدھیہ پردیش حکومت غذائی قلت پر اعداد و شمار اور بیانات کی بازیگری کرتی رہی ہے۔ریاستی حکومت نے جنوری 2016 کی  ماہانہ رپورٹ میں ریاست میں 17 فیصد بچے  کم وزن کے  بتائے گئے ۔ لیکن اگلے ہی مہینے آئے چوتھے نیشنل  فیملی ہیلتھ  سروے کے مطابق ریاست میں 42.8 فیصد بچے  کم وزن کے تھے۔ جبکہ سالانہ صحت سروے 2014 کے اعداد و شمار میں مدھیہ پردیش میں 40.6 فیصد بچے  کم وزن کے تھے۔ یہاں 23 سے 26 فیصد بچوں کی تعداد چھپانے کی کوشش کی گئی تھی۔

حالانکہ ریاستی حکومت کے ہی اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ مدھیہ پردیش میں ہر دن غذائی قلت سے 92 بچوں کی موت ہوتی ہے۔ جہاں تک حالیہ اموات کا سوال ہے تو صحت محکمے کی یہ دلیل کہ بچوں کو علاج کے لئے ہسپتال نہ پہنچاکر رشتہ دار جھاڑ-پھونک کرتے رہے، تو کچھ حد تک اس بات میں سچائی بھی ہے۔ ‘ دی وائر ‘ کی ہی ایک جانچ میں یہ بات سامنے بھی آئی تھی۔لیکن  یہ بھی اتنا ہی سچ ہے کہ غذائی قلت متاثر شیوپور کے کئی علاقوں میں میلوں دور تک کوئی ڈاکٹر نہیں ملتا۔ لاکھوں کی آبادی پر ایک ڈاکٹر ہے۔ نتیجتاً جھولاچھاپ ڈاکٹر وہاں ڈیرا  جمائے بیٹھے ہیں یا پھر علاج کے لئے میلوں دور جانے کی بجائے  دیہی جھاڑ-پھونک اور ٹونوں-ٹوٹکوں  پر یقین رکھتے ہیں۔حکومت بیداری کے لئے اسکیمیں تو چلاتی ہے لیکن وہ متاثر علاقوں میں پہنچ نہیں پاتی ہیں۔

عام طورپر  مانا جاتا ہے کہ شیوپور میں غذائی قلت کے معاملے سال کے  جون سے نومبر مہینے کے درمیان زیادہ  سامنے آتے ہیں۔ وجہ ہے کہ سہریا آدیواسی اکثریتی اس علاقے کی آبادی گزر بسر کے لئے مزدوری پر منحصر ہے جو فروری مہینہ، جو کہ فصل کٹائی کا وقت ہوتا ہے، میں کھیتوں پر مزدوری کے لئے آس پاس کے ضلع اور ریاستوں میں نقل مکانی  کر جاتی ہے۔جون-جولائی مہینے سے وہ واپس اپنے گھر لوٹنا شروع کرتے ہیں اور جب واپس آتے ہیں تو ساتھ لاتے ہیں اپنے وہ مریض بچے ، جن کی صحت پر نقل مکانی  کے دوران وہ کافی دھیان دے نہیں پاتے ہیں، جس کی وجہ سے  اس چار پانچ مہینے کی مدت میں بچوں کو غذائی قلت اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ کہہ سکتے ہیں کہ جولائی مہینہ شروع ہو گیا ہے اور شیوپور کی غذائی قلت کی یہ کہانی پھر سے دوہرائی جانے لگی ہے۔