خبریں

چیف جسٹس ہی ماسٹر آف روسٹر، اس میں کوئی شک نہیں : سپریم کورٹ

چیف جسٹس کے ذریعے معاملوں کے بٹوارے پر سابق وزیر قانون شانتی بھوشن کی عرضی پر جواب دیتے ہوئے سپریم کورٹ  نے کہا کہ سی جے آئی کا رول  ہم منصبوں کے درمیان سربراہ کا ہوتا ہے، ان کو مختلف بنچوں  کو معاملے  باٹنے   کاخصوصی اختیار ہوتا ہے۔

سپریم کورٹ (فوٹو : پی ٹی آئی)

سپریم کورٹ (فوٹو : پی ٹی آئی)

نئی دہلی : سپریم کورٹ  نے کہا کہ چیف جسٹس (سی جے آئی) ‘ ماسٹر آف روسٹر ‘ ہوتا ہے اور ان کے پاس سپریم کورٹ  کی مختلف بنچوں کے پاس معاملوں کو باٹنے کا خصوصی اختیار ہوتا ہے۔ جسٹس اے کے سیکری اور جسٹس اشوک بھوشن نے اپنے الگ الگ لیکن یکساں رائے والے آرڈر  میں کہا کہ سی جے آئی کا رول  ہم منصبوں کے درمیان سربراہ کا ہوتا ہے اور ان کے پاس عدالت کے انتظامیہ کی قیادت کرنے کا حق ہوتا ہے جس میں معاملوں کو باٹنا  بھی شامل ہے۔

یہ حکم سابق وزیر  قانون شانتی بھوشن کی عرضی پر آیا ہے جنہوں نے چیف جسٹس کے ذریعے سپریم کورٹ  میں معاملوں کو باٹنے کے حالیہ  روسٹر نظام کو چیلنج دیا تھا۔ 5 ججوں والی آئینی بنچ اور 3 ججوں والی بنچ پہلے کے اپنے احکام میں کہہ چکی ہے کہ چیف جسٹس ‘ ماسٹر آف روسٹر ‘ ہوتا ہے۔ جسٹس سیکری نے اپنے فیصلے میں آج کہا، ‘ جہاں تک ماسٹر آف روسٹر کے طور پر سی جے آئی کے رول  کی بات ہے تو اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے  کہ وہ ماسٹر آف روسٹر ہیں اور سپریم کورٹ  کی مختلف بنچ کو معاملے باٹنے  کا ان کے پاس حق ہے۔ ‘

جسٹس بھوشن نے بھی جسٹس سیکری کی رائے رکھتے ہوئے کہا کہ سی جے آئی کے پاس معاملے مختص کرنے اور ان کی سماعت کے لئے بنچ نامزد کرنے کا خصوصی اختیار ہے۔ جسٹس بھوشن نے یہ بھی کہا کہ سپریم کورٹ  کی مخصوص روایات  اور دستور ہیں  جو وقت پر کھرے اترے ہیں اور ان کے ساتھ چھیڑچھاڑ نہیں کی جانی چاہیے ۔

جسٹس سیکری نے کہا کہ درخواست گزار کی  اس درخواست کو منظور کرنا مشکل ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے اصول کے تحت ‘ ہندوستان کے چیف جسٹس ‘ لفظ کو معاملے مختص کرنے کے لئے ‘ 5 سینئر ججوں کے کالیجئم  ‘ کے طور پر پڑھا جانا چاہیے ۔ انہوں نے کہا، ‘ لوگوں کے من  میں عدلیہ کا وقار کم ہونا  عدالتی نظام کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ ‘ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے سینئر جج ہونے کے ناطے چیف جسٹس ‘ عدلیہ کا رہنما اور ترجمان ‘ ہوتا ہے۔ ‘

بنچ نے کہا کہ کوئی بھی نظام پوری طرح پختہ نہیں ہوتا اور عدلیہ کے طریقہ کار میں اصلاح کی ہمیشہ گنجائش ہوتی ہے۔ غور طلب ہے کہ بھوشن نے اپنی پی آئی ایل  میں الزام لگایا تھا کہ ماسٹر آف روسٹر ‘ بغیر اصول و ضوابط اور بےلگام ‘ خصوصی اختیار نہیں ہو سکتا جس کا استعمال سی جے آئی من مانے طریقے سے اپنے منتخب  ججوں کی بنچ چننے یا خاص ججوں کو معاملے مختص کرنے کے لئے کرے ۔

واضح  ہو کہ اس سال کی شروعات میں جنوری مہینے میں سپریم کورٹ کے تین سینئر ججوں نے ایک پریس کانفرنس کر معاملوں کے مختص پر سوال اٹھائے تھے۔ انہوں نے کہا تھا کہ ‘ منتخب طریقے سے ‘ معاملوں کے مختص ہیں ، ساتھ ہی انہوں نے کچھ عدالتی احکام پر سوال بھی اٹھائے تھے۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے  ان پٹ کے ساتھ)