گراؤنڈ رپورٹ

گراؤنڈ رپورٹ : جھارکھنڈ میں اقلیتی اداروں کا کوئی پرسان حال نہیں

گراؤنڈ رپورٹ :جھارکھنڈ میں جس طرح سے اقلیتوں سے جڑے ادارے کو ٹھپ کیا جا رہاہے، اس سے حکومت کی نیت پر سوال اٹھتا ہے۔

WaqfBoard

جھارکھنڈ وقف بورڈ کا دفتر

رانچی : غالباً جھارکھنڈ کے عازمین اسی مہینے 30 جولائی سے حج کے لئے اسٹیٹ حج کمیٹی کے بغیر ہی روانہ ہوں‌گے۔ کیونکہ گزشتہ  7 مہینے سے جھارکھنڈ اسٹیٹ حج کمیٹی کی تشکیل نو نہیں ہو پائی ہے۔ چار سال سے جھارکھنڈسنی  وقف بورڈ چیئر مین سے محروم ہے ۔ مانگ اور آندولن  کے بعد Jharkhand State Minorities Finance & Development Corporation (این ایم ڈی ایف سی)کی 2012 میں تشکیل تو ہو گئی، لیکن اقلیتوں کے فائدے کے لئے حکومت ایک روپے  تک کی رقم بھی نہیں لا پائی ہے۔

جھارکھنڈ اقلیتی کمیشن کو بنگال اور نیشنل  کمیشن کی طرز پر شنوائی اور کارروائی کرنے کا حق ہی نہیں ہے۔ وہیں  Bihar Reorganization Act 2000 کے اصول کے مطابق اردو اکادمی اور مدرسہ بورڈ کی تشکیل اب تک نہیں ہو سکی ہے۔ جبکہ دوسری  ریاستوں کی طرز پر اقلیتی معاملوں کی عمل آوری اور حل کے لئے اقلیتی ڈائریکٹوریٹ کی تشکیل بھی نہیں ہو پائی ہے۔

یہ حال جھارکھنڈ میں اقلیتوں سے جڑے آئینی اداروں کا ہے۔ اقلیتوں کو اس طرح سے نظر انداز کرنے  کے لئے 18 سالوں میں کم وبیش تمام حکومت ذمہ دار ہیں ۔ اقلیتی معاملوں کے جانکار اور آل مسلم یوتھ ایسوسی ایشن (اے ایم وائی اے) کے صدر ایس علی کہتے ہیں؛

” وزیراعلیٰ رگھوور داس نے 20 اگست 2016 کو رانچی کے  پروجیکٹ بھون  میں ریاست کے مختلف مسلم تنظیموں  کے نمائندوں کے ساتھ میٹنگ کی تھی ۔ ان کے مسائل کا حل اور ان کی ترقی کو لےکریقین دلایا تھا۔ تب مسلمانوں میں ‘ سب کا ساتھ سب کا وکاس ‘ جیسے نعروں کو لےکر امید جگی تھی۔ لیکن بیتے 18 مہینوں میں تصویر بدلنے کے بجائے اور بگڑی ہے۔ “

علی کہتے ہیں کہ ان کو آج بھی صوبے کے مکھیا سے امید ہے کہ ریاست میں اقلیتوں کی ترقی ہوگی۔ اصولاً کسی بھی آئینی کمیشن، کمیٹی یا بورڈ کا میعاد ختم ہونے سے پہلے ہی اس کی تشکیل نو کو لےکر پروسیس  شروع ہوتا ہے، تاکہ بروقت تشکیل نو ہو جائے۔ لیکن جھارکھنڈ میں ایسا کچھ بھی ہوتا نہیں دکھ رہا ہے۔ جھارکھنڈ سنی وقف بورڈ غیر فعال  ہے۔ ریاست کی تشکیل کے 8 سال بعد 2008 میں وقف بورڈ کی تشکیل ہوئی۔ اصول کے مطابق 5 سال  کے بعد اس کی تشکیل نو ہونی چاہیے  تھی، لیکن ڈیڑھ سال کی تاخیر  کے بعد 2014 میں بورڈ کی تشکیل نو کی گئی۔  بورڈ کی تشکیل کے 4 سال گزر جانے کے بعد بھی صدر کا انتخاب نہیں ہو سکا ہے۔ نتیجہ ریاست میں قریب ایک ارب روپے  کی وقف جائیداد غیر قانونی قبضے  کی زد میں ہے۔

وقف بورڈ کے لیگل ایڈوائزر شعیب رضا بتاتے ہیں کہ؛

اہتمام کے تحت تشکیل کے بعد سے آج تک وقف بورڈ کو مستقل سی ای او اور دفتر نہیں مل پایا ہے۔ بورڈ رانچی کے آڈرے ہاؤس میں 11 عہدے کی منظوری کے باوجود دو کمرے میں دو ہی ملازمین‎ کے بھروسے چل رہا ہے۔ چار محکمے کے انچارج معین الدین خان وقف بورڈ میں ایڈیشنل پوسٹ پر ہیں، جو بورڈ کو مناسب وقت نہیں دے پاتے ہیں۔

شعیب رضا نے کہا کہ وقف کی جائیداد پر غیرقانونی قبضہ اور تجاوزات کی شکایت تو آتی ہے، لیکن چیئرمین نہیں ہونے کی وجہ سے کوئی سماعت نہیں ہو پاتی ہے۔ اس وجہ سے ریاست میں وقف کی جائیداد پرتجاوزات  اور غیر قانونی قبضہ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔

ادھر وقف بورڈ کے ممبر مولانا تہذیب الحسن نے کہا ہے کہ ریاست کی کروڑوں روپے  کی جائیدادوں پر حکومت کا ہی غیر قانونی قبضہ ہے۔ کیونکہ معاملہ حکومت کا ہے اس لئے وقف بورڈ کے افسر اس پر کچھ نہیں بولتے ہیں۔ مولانا نے کہا اس کی مثال کے لئے پلامو ضلع کا جپلا سیمنٹ کارخانہ ہے، جہاں سو سے بھی زیادہ ایکڑ زمینوں پر قبضہ ہے۔ اس زمین کو لےکر معاملہ کورٹ میں بھی ہے۔ اس کے پورے کاغذات ہیں اور یہ پراپرٹی مشترکہ بہار میں وقف کے نام سے رجسٹرڈ ہے۔

کریم مینشن ساکچی، عید گاہ، قبرستان دھتکی ڈیہہ، جامع مسجد جگسلائی، جامع مسجد چکردھرپور (جمشیدپور)۔ گریڈیہہ کا قادریہ مسافر خانہ، مسجد مدرسہ (گریڈیہہ)۔ چمنی شاہ کی درگاہ (دھنباد)۔ حضرت مرادشاہ کی  مزارشریف اور ٹاؤن مسجد (ہزاری باغ)۔ جامع مسجد پلامو (پلامو)۔ جامع مسجد (پاکوڑ)۔ عید گاہ مزار مخدوم شاہ جہانیا (دیوگھر)۔ ایسے ہی کئی اور وقف جائیداد کی تفصیل جھارکھنڈ وقف بورڈ کے پاس نہیں ہے۔ جبکہ یہ جائیداد مشترکہ بہار میں وقف کے نام سے رجسٹرڈ ہے۔

 فی الحال جھارکھنڈ وقف بورڈ میں 152 رجسٹرڈ جائیداد ہیں، جبکہ 11 جائیدادوں کا رجسٹریشن نہیں ہو سکا ہے۔ اس پر بورڈ کے لیگل ایڈوائزر شعیب رضا کا کہنا ہے کہ ان میں سے کچھ پراپرٹی کے کاغذات بہار وقف بورڈ سے لائے جا چکے ہیں۔ جبکہ باقی جانچ‌کر MinoritiesComissionلایا جائے‌گا۔ وہیں اقلیتی معاملوں کے جانکار ایس علی کہتے ہیں کہ ان میں سے بیشتر جائیداد پر قبضہ ہوا ہے۔

این ایم ڈی ایف سی  کی تشکیل کمپنی ایکٹ 1956 کے تحت 30 ستمبر 1994 میں ہوئی۔ اسی کے تحت مختلف ریاستوں میں  اس کی تشکیل کی گئی، لیکن جھارکھنڈ میں 12 سال کی تاخیر  سے اس کی تشکیل ہوئی۔ کارپوریشن کا کام اقلیتی کمیونٹی کے لوگوں کو خودمختار بنانے کے لئے کاروبار اور تکنیکی تعلیم کے لئے کم از کم شرح پر قرض دستیاب کرنا ہے۔ ریاست کی ایم ایف ڈی سی ، اقلیتی آ بادی اور ضرورت کے مطابق قرض کی رقم کے لئےاین ایم  ڈی ایف سی کو ہرسال بجٹ کی تجویز بھیجتا ہے۔ پر جھارکھنڈ میں ا س کی تشکیل کے بعد بھی اقلیتوں کو اس کا فائدہ نہیں مل سکا۔

 ریاست میں این ایم ڈی ایف سی کی تشکیل 2012 میں ہوئی، لیکن بیتے6سالوں میں ایک روپے  کی رقم بھی نہیں آ سکی۔ جبکہ جھارکھنڈ کی  پڑوسی ریاست بنگال کو18-2017  میں این ایم ڈی ایف سی کے تحت 200 کروڑ روپے  کی رقم ملی ہے۔ جھارکھنڈ اقلیتی کمیشن کے سابق صدر ڈاکٹر شاہد اختر کا کہنا ہے کہ این ایم ڈی ایف سی کے قرض کا پروسیس  شروع کرنے کے لئے انہوں نے سی ایم کو خط تک لکھا۔ شعبہ جاتی وزیر، نیشنل اور اسٹیٹ این ایم ڈی ایف سی کے ایم ڈی کے ساتھ کئی بار میٹنگ کی۔

 ہر بار یقین دلایا گیا لیکن ویسی کوشش نہیں کی گئی، جیسی مجھے امید تھی۔ ڈاکٹر اختر کے مطابق ہرسال ریاست کم از کم 50 کروڑ کی رقم سے محروم رہا۔ اقلیتی کمیونٹی کے حق کا  800 کروڑ روپیہ لاپرواہی اور نظر انداز ہونے  کی وجہ سے لیپس ہو گیا۔ غور طلب ہے کہ 2011 مردم شماری کے مطابق 3.25 کروڑ کی آبادی ہے۔ اس میں اقلیتی کمیونٹی کی آبادی 63 لاکھ بتائی جاتی ہے۔ اقلیتوں میں سب سے زیادہ 47 لاکھ مسلم ہیں، جن میں 45 فیصد نوجوان بےروزگار ہیں۔

این ایم ڈی ایف سی  کے سی ایم ڈی محمد شہباز علی نے کہا کہ جھارکھنڈ کو رقم مختص کرنے کے لئے کئی بار حکومت سے گورمنٹ گارنٹی (جی  جی ) لیٹر مانگا گیا، لیکن ابھی تک حکومت نے لیٹر نہیں دیا ہے۔ قرض کی رقم مختص کرنے سے پہلے ریاستی حکومت کو جنرل لون  ایگریمنٹ کرنا ہوتا ہے، جوکہ کیا جا چکا ہے۔ لیکن جی جی لیٹر ابتک نہیں دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ لیٹر کیوں نہیں دیا جا رہا ہے، اس بابت الگے مہینے رانچی جاکر  افسروں سے بات کروں گا ۔

جولائی 2001 کو جھارکھنڈ اسٹیٹ حج کمیٹی کی تشکیل ہوئی، جس کے صدر سابق وزیراعلیٰ ارجن منڈا بنے تھے۔ 4 سال کی تاخیر کے بعد 2008 میں اس کی تشکیل نو ہوتی ہے۔ صدر سابق اقلیتی فلاح و بہبود وزیر حاجی حسین انصاری بنتے ہیں۔ 2011 میں اس کی پھر تشکیل نو ہونی چاہیے  تھی، لیکن 2014 تک حاجی حسین انصاری صدر بنے رہیں۔ تقریباً ایک سال کے وقفے کے بعد اکتوبر 2015 میں کمیٹی کی پھر سے سے تشکیل نو ہوئی۔ جس کے صدر حاجی منظور احمد انصاری منتخب کیے جاتے ہیں۔ فی الحال پچھلے 7مہینے سے کمیٹی کی تشکیل نو نہیں ہوئی۔ حج کمیٹی کے ایگزیکٹو آفیسر  پرویز ابراہیمی کا ماننا ہے کہ کمیٹی کے نہ رہنے پر پریشانی تو ہو رہی ہے، لیکن عازمین کی روانگی میں کسی طرح کوئی دقت نہیں ہوگی۔

وہیں کمیٹی کے سابق ممبر خورشید حسن رومی کہتے ہیں کہ جھارکھنڈ میں ہی یہ ممکن ہے کہ ؛

اسٹیٹ حج کمیٹی بنا تشکیل نو، بغیر مستقل دفتر اور بغیر اہلکار کے چل سکتا ہے۔ کیونکہ یہاں کی حکومت اقلیتوں کے تئیں بےحد جانبدارانہ رویہ رکھتی ہے۔

مرحبا ہیومن سوسائٹی کے جنرل سکریٹری اور حج خادم نہال احمد نے کہا کہ؛

عازمین کو کمیٹی کے نہ رہنے کی وجہ سے حج ٹریننگ کے دوران کافی دقتوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

جھارکھنڈ ریاستی اقلیتی کمیشن کو، قومی اقلیتی کمیشن اور مغربی بنگال اقلیت کی طرز پر مالیاتی اختیار دینے کی مانگ ہوتی رہی ہے۔ اس بابت کمیشن کے چیئر مین رہتے ہوئے ڈاکٹر شاہد اختر نے وزیراعلیٰ اور مرکزی اقلیتی وزارت کو خط بھی لکھا۔ شاہد اختر کا کہنا ہے کہ کمیشن کو سماعت اور کارروائی کرنے کا حق ہونا چاہیے، تاکہ اقلیتی  کمیونٹی سے جڑے معاملوں کو حل کیا جا سکے ۔ انہوں نے کہا کہ جھارکھنڈ میں کمیشن کا کام صرف حکومت سے سفارش کرنے تک ہی محدود ہے۔

ادھر 3 سال کے میعاد عہد والے جھارکھنڈ اقلیتی کمیشن کی تشکیل نو کو لےکر تاخیر کا مسئلہ ہمیشہ سے رہا۔ پہلی بار کمیشن کی تشکیل3 نومبر 2001 میں کی گئی۔ صدر کمال منتخب ہوئے ۔ دوسری تشکیل نو 3 دسمبر 2004 کو ہوئی، جس کے صدر نرمل چٹرجی بنے۔ لیکن پھر کمیشن کی تشکیل نو کے 14 مہینے کی تاخیر کے بعد 24 فروری 2009 کو ہوئی۔ صدر گلفام مجیبی  ہوئے۔ چوتھی بار تشکیل نو میں ایک سال بعد 09 جنوری 2013 کو ہوئی اور صدر ڈاکٹر شاہد اختر بنائے گئے۔ کمیشن کا پانچواں تشکیل نو بھی 14 مہینہ کی تاخیر کے بعد 18.4.2017کو ہوا اور ایک بار پھر کمال خان کو صدر بنایا گیا۔

جھارکھنڈ میں اقلیتوں کے فائدے کے لئے زیادہ تر اسکیم مرکزی حکومت کی ہی جاری ہو رہی ہے ۔ اس میں ملٹی سیکٹورل ڈیولپمنٹ پروگرام (ایم ایس ڈی پی)، انفراسٹرکچر ڈیولپمنٹ آئی ڈی ایم آئی، نئی روشنی، سیکھو کماؤ جیسی  کئی اہم اسکیم ہیں۔ ان  تمام اسکیموں کو سچر کمیٹی کی سفارش کے بعد 11 اور 12 ویں پنج سالہ منصوبہ کے تحت نافذ کیا گیا تھا۔ جھارکھنڈ میں اس اسکیم  کی صورت حال  پر ایس علی کا کہنا ہیں کہ مرکزی حکومت کی زیادہ تر اسکیم  جھارکھنڈ میں نافذ ہی نہیں ہوئی ہے۔ جو ہوئی ہیں، وہ زمینی سطح  پر غائب ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ ؛

اس ریاست کی بدقسمتی کہیں یا یہاں کے اقلیتوں کا کہ جھارکھنڈ میں نیو پردھان منتری  15 نکاتی پروگرام کے تحت دوسری  اسکیموں اور اسکیموں کے فائدے سے بھی اقلیتی کمیونٹی محروم ہیں۔ 2009 سے اس کے تحت حکومت کو غیر اقلیت اسکیم کا بھی 15 فیصد فائدہ اقلیتوں کو  دینا تھا، جس کو حکومت ہر سال تجزیہ رپورٹ کے ذریعے یقینی بناتی ہے ۔ لیکن آج تک تجزیہ نہیں ہوا۔ آر ٹی آئی سے مانگی گئی اطلاع میں کہا گیا کہ محکمے سے مانگا جا رہا ہے۔

وہیں سماجی کارکن رتن ترکی کہتے ہیں کہ حکومت اقلیتوں سے متعلق اسکیموں اور منصوبوں کی مرکزی حکومت یا اپنے محکمے کو یوٹلائزیشن رپورٹ نہیں سونپتی ہے، جس سے پتا نہیں چل پاتا ہے کہ اسکیموں کی رقم خرچ ہو پائی یا نہیں۔ سماجی کارکن اور آدیواسی قبائلی مشاورتی کاؤ نسل کے ممبر رتن ترکی کہتے ہیں کہ اقلیتوں کو ریاست اور مرکز دونوں ہی حکومت نظرانداز کر رہی ہے، جو ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔  جھارکھنڈ میں جس طرح سے اقلیتوں سے جڑے ادارے کو ٹھپ رکھا جا رہا، اس سے حکومت کی نیت پر سوال اٹھتا ہے۔ اقلیت کے لئے اسکیموں کی کافی رقم کے باوجود بھی ترقی کیوں نہیں ہو پا رہی ہے۔ مرکز جو پیسہ دیتی ہے، ریاستی حکومت اس کے استعمال کی تفصیل مرکزی حکومت کو جان بوجھ کر نہیں دیتی ہے، تاکہ اگلی بار رقم مختص ہی نہیں ہو۔ یہ ناانصافی ہے۔

جھارکھنڈ اقلیتی فلاح و بہبود وزیر لوئیس مرانڈی ریاست میں ٹھپ پڑے اقلیتی ادارے کے مسئلے پر ایک ہی بات کہتی ہیں کہ کام پروسیس میں ہے۔ حکومت کی نیت سب کا ساتھ، سب کا وکاس کرنے کا ہے۔ دوسرے  سوالوں کے جواب میں  وزیر لوئیس مرانڈی کا جواب رہتا ہے کہ دفتر آکر پوچھیے۔وہیں ذرائع کے مطابق ؛ویلفیئر ڈپارٹمنٹ نے حج کمیٹی کی فائل سی ایم آفس کو بڑھا دی ہے اور 10جولائی تک نئی کمیٹی کی تشکیل کی امید ہے۔