ادبستان

کارگل کی جنگ کا مفصل اور معتبر دستاویز؛’اے سولجرس ڈائری: کارگِل د اِنسائیڈ اسٹوری‘

ڈائری کی طرز پر لکھی گئی یہ کتاب کارگل کی جنگ کا اولین سچا، مفصل اور معتبر دستاویز ہے۔ اس میں ان واقعات کی حقیقی تصویر ملتی ہے کہ کیسے ہماری افواج نے بہادری سے لڑتے ہوئے انہیں مار بھگایا۔

Kargil War Memorial PTI

کارگل وار میموریل / فوٹو : پی ٹی آئی

دو پڑوسی ملکوں کے رشتے عجیب ہوتے ہیں اور یہ رشتے ان دو ملکوں کے ہوں، جو کبھی ایک ہی تھے تو معاملات اور پیچیدہ ہو جاتے ہیں۔ حالات کے مطابق کبھی یہ ایک دوسرے کے بہت قریب ہوتے ہیں اور کبھی ان میں بے انتہا تلخی آ جاتی ہے۔ ایسے میں اگر کارگل جیسی حرکت ہو جائے اور ایک پڑوسی ملک دوسرے ملک کے کچھ دوردراز کے پہاڑی علاقوں پر قبضہ جما بیٹھے تو؟ یہی ہوا تھا اور پاک کی اس گھس پیٹھ کے خلاف ہندوستان کا جارحانہ اور پاک کا اڑیل رویہ دیکھ خدشہ بڑھنے لگا تھا کہ کہیں دونوں کے بیچ ایٹمی جنگ نہ شروع ہو جائے۔

بہرحال کسی طرح معاملہ ٹل گیا۔ ہندوستانی افواج نے دراندازوں کی شکل میں کھس آئی پاکستانی افواج کو مار بھگانے میں کامیابی حاصل کی۔ ہزاروں فٹ اونچے پہاڑوں میں لڑی گَی اس جنگ کو لے کر اب تک بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ انہی میں مشہور صحافی ہریندر باویجہ (Harinder Baweja)کی کتاب بھی شامل ہے، جس کا دوسرا ایڈیشن اسی ماہ کے آخری ہفتے میں منظر عام پر آنے والا ہے۔

اس کا پیش لفظ کارگِل جنگ کے ہیرو شہید کیپٹن وِکرم بترا کے والد جی ایل بترا نے لکھا ہے۔ اس میں وہ کہتے ہیں؛

انہوں نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ ان کا بہادر بیٹا ایسے نادرالمثال اعزاز کا انہیں حقدار بنا جائےگا، جس سے ملک بھر کے لوگ انہیں پچھلے 20 سال سے نواز رہے ہیں۔

کارگل جنگ پر ادیب و صحافی ہرِیندر باویجہ کی قابلِ مطالعہ کتابA Soldier’s Diary: Kargil, the Inside Storyکے پیش لفظ میں انہوں نے لکھا؛

پرم ویر چکر سے اعزازیاب ایک بیٹے کے متفخر والدین کے طور پر اس نے ہمارا وقار بڑھا دیا۔

رالی بکس کے ذریعے شائع شدہ اس کتاب کے دوسرے او رنظرِ ثانی شدہ ایڈیشن کا اِجرا آئندہ 26 جولائی کو کارگِل وِجے دیوس پر کیا جا رہا ہے۔ اُس جنگ میں شامل صفِ اول کے کمانڈرس میں سے ایک کمانڈر کے عینی مشاہدات کی بنیاد پر باویجہ نے اس کتاب کا تانا بانا بُنا ہے۔ اس نئے ایڈیشن میں جی ایل بترا کا پیش لفظ بھی شامل ہے، جو بہادری کے لیے دئے جانے والے ملک کے سب سے بڑے اعزاز پرم ویر چکر سے سرفراز کیپٹن وکرم بترا کے والد ہیں۔

ہم نے تصور بھی نہیں کیا تھا کہ ایک فرزند اپنے والدین کو اتنا اعزاز دلا سکتا ہے، جتنا اس کی شہادت کے 20 سال گزر جانے کے بعد بھی ملک کے لوگ ہمیں دے رہے ہیں۔ پرم ویر چکر سے اعزازیاب فرزند کے مفتخر والدین کی شکل میں اس نے ہمارا وقار بڑھا دیا۔

 کتاب کے پیش لفظ میں انہوں نے گجرات کے تجارتی شہر سورت میں کیے گئے یادگار استقبال کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے؛

جب بگھی پر سوار ہوکر کوئی 20 کلو میٹر لمبی سڑک سے ہم گزرے تو راستوں کے دونوں طرف کھڑے لگ بھگ چار لاکھ لوگ پنکھڑیوں کی برسات کر ہمارا استقبال کرتے رہے۔ اس نے مجھے جذباتی کر دیا۔ بھیگی پلکوں کے سامنے وکرم آ گیا۔ میں نے سوچا کاش! یہ اعزاز دیکھنے کے لیے میرے بیٹے کو اور زندگی ملی ہوتی۔

بترا کا یہ کہنا فطری ہے کہ مجھے ہر پل بیٹے کی یاد آتی ہے، لیکن یہ سوچ کر مطمئن ہو جاتا ہوں کہ روحانی طور پر وہ ہمارے ساتھ ہے۔ انہوں نے لکھا؛

ایسے انمول رتن کا جانا یقیناً بہت دردناک ہے، لیکن ایسا بیٹا پانا بھی بڑی خوش قسمتی کی بات ہے۔ ہمیں تا حیات اس پر فخر رہےگا۔

کارگل کی جنگ 3 مئی 1999 کو شروع ہوئی، جب مقامی چرواہوں نے بتایا کہ پاکستانی در انداز ہندوستانی سرحد میں گھس آئے ہیں۔ پاکستانی فوج کی دو بریگیڈ ہندوستانی سرحدوں میں گھس کر ہماری فوج کے سامنے چنوتی بن کر آ کھڑی ہوئی تھیں۔ یہ ایسی گھس پیٹھ تھی جس کا ہندوستانی افواج کو وہم و گمان تک نہ تھا۔ ابتدائی مرحلے میں ہندوستانی افواج کے حملے کمزور رہے، لیکن 8 جولائی 1999 کی صبح ہندوستان نے پوائنٹ 4875 جیت لیا۔ البتہ اس جنگ میں ہم 24 سالہ، بہادر کیپٹن وکرم بترا کو کھو بیٹھے۔

پوائنٹ 4875 جیت لینے کے بعد لداخ سے رابطے والی ہماری گزرگاہ محفوظ ہو گئی۔ بھارتیہ افواج کی گاڑیاں اب سرینگر-لیہہ ہائی وے پر آسانی سے آنا، جانا کر سکتی تھیں۔

بترا ان لمحات کو یاد کرتے ہیں، جب وکرم کا جسدِ خاکی گھر لایا گیا۔ وہ سب بہت دلدوز تھا؛

گالوں پر بہتے آنسووں کے بیچ میری شریکِ حیات نے کہا، ‘کوئی بھی والدین اپنے جواں سال بیٹے کا لاشہ نہیں دیکھ سکتے۔ اپنے بیٹے نے تین چوٹیاں فتح کیں۔ اس نے ملک کو طوفان سے بچا لیا، لیکن اب وہ ہمارے بیچ نہیں ہے۔ جب بھی بھگوان ہمیں شدید دکھ دیتا ہے، وہ اسے سہنے کی شکتی بھی دیتا ہے۔ گرو گوبند سنگھ نے دیش پر اپنے چار بیٹے قربان کر دیے۔ شاید یہی وجہ ہوگی کہ بھگوان نے مجھے جڑواں بیٹے دیے ہیں؛ ایک ملک پر قربان ہونے کے لیے اور دوسرا میرے لیے۔

بترا نے اپنے پیش لفظ میں یہ بھی لکھا ہے کہ ؛

وکرم کے ایک دوست نے اسے ہوشیار کیا تھا کہ وہ محتاط رہے، کیونکہ جنگ شروع ہو چکی ہے۔ اس پر وکرم نے اسے جواب دیا، ‘فکر مت کرو، یا تو میں جنگ جیت کر ترنگا لہراتا ہوا آؤنگا یا اُسی کو اوڑھ کر واپس لوٹوں گا۔’

بترا کہتے ہیں، وکرم نے اپنی دونوں باتیں نبھا دیں۔دل کو چھو لینے والے انداز میں انہوں نے لکھا؛

جب اسے پوائنٹ 5140 فتح کرنے میں کامیابی ملی تو ہندوستان کی فتح کی علامت ترنگا اس نے 17 ہزار فٹ کی اونچائی پر لہرا دیا۔ بعد میں جب وہ ملک کے لیے پوائنٹ 4875 حاصل کرنے کی جنگ لڑتے لڑتے شہید ہو گیا، تو اس کا جسم ہمارے قومی پرچم میں لپیٹ کر گھر لایا گیا۔ ایسی بے مثال بہادری اور عظیم قربانی ہمارے بیٹے کی تھی۔

کتاب کی مصنفہ ہریندر باویجہ فی الحال معروف انگریزی روزنامہ  ہندوستان ٹائمز سے بطور سینئر ایڈیٹر وابستہ ہیں۔ طویل مدت تک متنازعہ علاقوں میں رپورٹنگ کے فرائض سرانجام دیتے ہوئے انہوں نے ایک نڈر اور ذمہ دار صحافی کا وقار پایا ہے۔ کشمیر تنازعہ کور کرتے ہوئے انہوں نے وسیع پیمانے پر اپنے خبر رساں ذرائع کا جال تیار کیا۔

کارگل جنگ کے لیے مورچے پر بھیجی گئی فوج کی ٹکڑیوں میں بھی ان کے کافی ذرائع تھے۔ ان ذرائع کے دم پر ہی انہوں نے اس مختصر مگر شدید جنگ کو معروف رسالے انڈیا ٹوڈے کے لیے کور کیا اور اپنے وسیع ذرائع کی مدد سے کارگل جنگ کی معتبر اور حقیقت سے قریب رپورٹنگ کرنے میں کامیاب رہیں۔

ڈائری کی طرز پر لکھی گئی یہ کتاب کارگل کی جنگ کا اولین سچا، مفصل اور معتبر دستاویز ہے۔ اس میں ان واقعات کی حقیقی تصویر کشی ملتی ہے کہ کیسے دراندازوں نے ہماری پہاڑی چوٹیوں پر قبضہ کر لیا اور کیسے ہماری افواج نے بہادری سے لڑتے ہوئے انہیں مار بھگایا۔ تقریباً دو دہائی بعد بھی کتاب ان متعدد بہادر ہندوستانی فوجیوں کے حالات پیش کرتی ہے، جنہوں نے اپنا فرض نبھاتے ہوئے جامِ شہادت نوش کر لیا۔

(صحافی و قلمکار رشید قدوائی اوآرایف کے وزیٹنگ فیلو ہیں۔)