خبریں

جھوٹے مقدمہ میں پھنسایا تو اس کو معاوضہ ملنا چاہیے: مدھیہ پردیش ہائی کورٹ

 اگر گمراہ کن جانچ  اور غلط استغاثہ کی وجہ سے بےقصور ملزم کو پریشانی جھیلنی پڑتی ہے تو زندہ رہنے کے حق کے تحت اس کو حکومت سے معاوضہ پانے کا حق ہے۔

Madhya Pradesh High Court Gwalior

مدھیہ پردیش ہائی کورٹ

نئی دہلی : ’ کسی بھی بےقصور کو جھوٹے معاملے میں پھنسانے  سے قانون کا وقار  مجروح  ہوتا  ہے ۔اس وجہ سے سماج میں ایک باغی پیدا ہوتا ہے جو قانون کی خلاف ورزی کرتا  ہے۔ گمراہ کن  جانچ اور غلط استغاثہ آخرکار اس کی وجہ  بنتے ہیں۔’ اغوا کے معاملے میں ایک شخص کو  پھنسانے کے لئے حکومت کو معاوضے کی ہدایت دیتے ہوئے کورٹ نے کہا کہ اگر گمراہ کن  جانچ  اور غلط استغاثہ کی وجہ سے بےقصور ملزم کو پریشانی جھیلنی پڑتی ہے تو زندہ رہنے کے حق کے تحت اس کو حکومت  سے معاوضہ پانے کا حق ہے۔

مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کے گوالیار بنچ‌کے جسٹس ایس اے دھرمادھیکاری اور جسٹس آنند پاٹھک نے ان دونوں لوگوں کی عرضی قبول‌کر لی جن کو نچلی عدالت نے آئی پی سی کی دفعہ 364 کے تحت اور مدھیہ پردیش ڈکیتی وپرن  پربھاوت شیترا ادھینیم (Dakaiti Aur Vyapharan Prabhavit Kshetra Adhiniyam)کی دفعہ 13/11 کے تحت مجرم مانتے ہوئے سزا دی ہے۔ نچلی عدالت نے ان ملزمین کو عمر قید کی سزا سنائی ہے۔

ملزمین کو بری کرتے ہوئے کورٹ نے کہا کہ یہ معاملہ جھوٹے الزام میں پھنسانے کا ہے۔ کورٹ نے کہا، ‘ یا تو شکایت دائر کرنے والا شخص اور جس کو سزا دی گئی ہے وہ سچ سے واقف نہیں تھے یا استغاثہ اپنا فرض ٹھیک طریقے سے نہیں نبھا پایا اور اپنی کمیوں کو چھپانے کے لئے موجودہ اپیل کرنے والے کو  پھنسا دیا جو کہ پہلے ہی کسی دوسرے  معاملے میں جیل میں بند تھا ۔یہ  انصاف کا مذاق اڑانا ہے ۔’

بنچ نے کہا کہ ان لوگوں کی  زندگی کے بیش قیمتی 12 سال جھوٹ کی نذر ہو  گئے کیونکہ جانچ  میں غلطی  تھی  اور سماعت بہت ہی لاپرواہی سے  کی گئی۔ کورٹ نے کہا، ” اگر یہ درخواست گزار اپنے اب تک کے سفر کی طرف پیچھے مڑ‌کر دیکھتے ہیں تو اس کو بہت سی تکلیف دہ یادوں سے بھرا ہوا  پاتے ہیں ‘۔ بنچ نے یہ بھی کہا کہ آئین شہریوں کو انصاف دلانے کو ترجیح دیتا ہے اور یہ بنیادی حق کا حصہ ہے۔ اس لئے یہ حکومت  کا فرض ہے کہ گمراہ کن جانچ  اور غلط استغاثہ کے لئے حکومت اس کو مناسب معاوضہ دے۔

بری  کئے گئے ملزمین کو ایک ایک لاکھ کا معاوضہ دینے کا آرڈر  دیتے ہوئے کورٹ نے کہا، ” وقت آ گیا ہے جب قانون  کے تحت سڑک، پانی، بجلی وغیرہ معاملوں کو دیکھا جائے،  نہیں تو بنیادی سہولیات کے ان شعبہ  کی ترقی بدانتظامی اور انتشار کی نذرہو  جائے‌گی۔ قانون کے تحت حکومت  اور بدعنوانی کے درمیان کی کھائی کو پاٹنا وقت کی مانگ ہے۔ ریاستی حکومت کے  محکمہ قانون، وزارت داخلہ اور استغاثہ محکمہ  سے امید کی جاتی ہے کہ وہ تفتیش کے لئے سائنسی اور منظم طریقہ اپنائیں گے تاکہ شہریوں کو انصاف مل سکے۔ ”

کورٹ نے یہ بھی کہا کہ اگرچہ سی آر پی سی میں کسی ملزم کو معاوضہ دینے کا کوئی اہتمام نہیں ہے، پر حکومت اپنی آئینی ذمہ داریوں سے بھاگ نہیں سکتا۔ جسٹس وویک اگروال اور جسٹس جی ایس اہلووالیا کی بنچ نے بھی تقریباً 10 سال تک جیل میں گزارنے  والے ملزم کو بری کرتے ہوئے اسی طرح کے آرڈر دیے تھے۔