خبریں

جینت سنہا کی صفائی : ’بنے ہیں اہل ہوس مدعی بھی منصف بھی ‘

بھیڑ کے ذریعے بےقصور لوگوں کو پیٹ پیٹ‌کر مار ڈالنے کے واقعات کی روک تھام کی مرکزی حکومت کے پاس کوئی پروگرام نہیں ہے، اس لئے وہ صرف ریاستی حکومتوں کو محتاط رہنے کو کہہ‌کر اپنے فرائض کو پورا کر لینا چاہتی ہے۔

گائے کا گوشت رکھنے کے شک میں پیٹ پیٹ کر مارے گئے علیم  الدین انصاری کے قتل کے  آٹھ ملزمین کو پچھلے ہفتے ضمانت ملی تھی۔ گزشتہ 4 جولائی کو ان کے جیل سے نکلنے پر مرکزی وزیر اور بی جے پی رکن پارلیامان جینت سنہا نے ان کا استقبال کیا۔ (فوٹو : پی ٹی آئی)

گائے کا گوشت رکھنے کے شک میں پیٹ پیٹ کر مارے گئے علیم  الدین انصاری کے قتل کے  آٹھ ملزمین کو پچھلے ہفتے ضمانت ملی تھی۔ گزشتہ 4 جولائی کو ان کے جیل سے نکلنے پر مرکزی وزیر اور بی جے پی رکن پارلیامان جینت سنہا نے ان کا استقبال کیا۔ (فوٹو : پی ٹی آئی)

مرکزی حکومت نے ریاستوں اور یونین ٹیریٹری ریاستوں کو سوشل میڈیا پر پھیلائی گئی افواہوں کے جوش میں آکر  جنونی بھیڑ کے ذریعے بےقصوروں کو پیٹ پیٹ‌کر مار ڈالنے کے ایک کے بعد ایک بڑھتے معاملے کو روکنے کو کہا ہے۔  وزارت داخلہ نے بھی اپنے مشورہ میں ان کو ایسے اکساوے سے روکنے کے کئی تدابیر سجھائے ہیں۔تب حکومت حامی میڈیا میں بھی کسی نے یہ نہیں کہا کہ اس کا یہ قدم ایسے واقعات کو لےکر حساس ہونےیا انہیں روکنے کی  نیت کا پتا دیتا ہے۔  کوئی اس کو اس کی کنبھ کرنی نیند کا ٹوٹنا بتاکر رہ گیا اور کوئی دیر سے ہی صحیح، درست آنا۔

وجہ یہ کہ جب حکومت کے یہ قدم اٹھانے کی خبر آئی، سوشل میڈیا پر وہ تصویریں وائرل ہو اٹھی تھیں، جن میں مرکزی وزیر جینت سنہا اپنے آبائی ریاست جھارکھنڈ کے رام گڑھ میں ‘ گئورکشکوں ‘ کی بھیڑ کے ذریعے کیے گئے گوشت کاروباری علیم الدین انصاری کے قتل میں عمر قید کی سزا پائے ملزمین کا ہزاری باغ ضلع کے جئے پرکاش نارائن سینٹرل جیل کے باہر پھول مالا پہناکر استقبال کر رہے تھے۔

تصویریں ان ملزمین کی، جن میں بی جے پی کے مقامی رہنما بھی شامل ہیں، ہائی کورٹ سے ضمانت پر رہائی کے وقت کی تھیں۔  اس بارے میں پوچھے جانے پر ‘ وزیر جی ‘ نے ڈھٹھائی سے کہہ دیا تھا کہ ہاں، وہ ان ملزمین کو عمر قید کی سزا دینے کی مخالفت کرتے ہیں۔سوال فطری تھا کہ جینت سنہا جیسے مرکزی وزیراپنی ریاستوں میں جاکر بھیڑ کو بھڑکاکر قاتل بنانے والوں کی عمر قید کی مخالفت اور ان کا استقبال کریں‌گے تو ریاستوں اور یونین ٹیریٹری ریاستوں کی حکومتیں افواہوں کا قہر روکنے کے مرکز کی ہدایتوں اور تدبیروں پر کیونکر عمل‌کے سکیں‌گی؟

اس کا جواب نہ ملنے پر، کیا تعجب کہ کئی لوگ کہہ رہے ہیں کہ مرکز نے ان ہدایتوں پر عمل کرنے کے لئے جاری بھی نہیں کیا ہے۔  ویسے ہی، جیسے وزیر اعظم نے گزشتہ دنوں اصلی-نقلی گئورکشکوں کو لےکر جو کچھ بھی بھلابرا کہا، وہ اور تو اور، گئورکشکوں کے بھی سننے کے لئے نہیں تھا!غور طلب ہے کہ یہ حکومت افواہ بازی کے بعد  بھیڑ کے ذریعے قتل کو لےکر واقعی حساس ہوتی تو سال 2015 میں 30 ستمبر کو اتر پردیش کے گوتم بدھ نگر ضلع‎ کے دادری علاقے میں واقع بسہڑا گاؤں میں مبینہ گئورکشکوں کے ذریعے کیے گئے  اخلاق کےقتل کے فوراً بعد جاگ جاتی۔

لیکن اس وقت تو اس نے اپنے گھٹیا سیاسی فائدوں کے لئے بار بار جگائے جانے کے باوجود چادر تانے رہنے کا فیصلہ کیا ہی، بعد میں بھی خراٹے سے باز آنے کی ضرورت نہیں سمجھی۔ادھر، گئورکشک اپنے وزیر اعظم کی اس  اپیل کی بھی ان سنی کرتے رہے کہ وہ دلتوں پر حملے نہ کریں اور گولی مارنی ہے تو ان کو (وزیر اعظم کو) ہی مار دیں۔ابھی بھی ریاستوں کو بھیجے اس کی جن ہدایتوں کو اس کی نیند کا ٹوٹنا بتایا جا رہا ہے، اس کا سچ یہ ہے کہ ‘ گئورکشکوں ‘ کی کارستانیوں کو چھوڑ بھی دیں تو اس کے پہلے کے ایک سال میں ہی آسام سے لےکر تمل ناڈو تک بچہ چوری کی افواہیں پھیلنے کے بعد بھیڑ کے ذریعے بےقصور کے قتل کے کم سے کم 27 واقعات ہوئے ہیں۔

مہاراشٹر میں ایسے 9اور جھارکھنڈ میں 7 معاملے روشنی میں آئے ہیں، جن میں پولیس جان-بوجھ کر بے بسی اوڑھے رہی یا جبراً بے بس کر دی گئی۔  ان میں سب سے زیادہ دل دہلانے والی واردات مہاراشٹر کے دھلے ضلع‎ کی تھی، جہاں بھیڑ نے بچہ چوری کے شک میں 5لوگوں کی جان لے لی۔کہتے ہیں کہ جب پولس موقع واردات پر پہنچی تو ان میں سے دو زندہ تھے، لیکن بھیڑ نے پولیس کو ان کو بچانے کی کوئی بھی کوشش نہیں کرنے دیا۔  یوں، اس کا دوسرا پہلو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جیسا عام طور پر ایسے واقعات میں دیکھنے میں آتا ہے، پولیس اور بھیڑ کی ذہنیت ایک ہو گئی ہو اور بھیڑ کی ہی طرح پولیس کو بھی لگا ہو کہ اب ان دونوں کا زندہ بچ جانا ٹھیک نہیں ہے۔

اب اس کو جاگی ہوئی مان لیا جائے توبھی اس جاگنے کا سہرا ن کے داخلی احساس  کو نہیں دیا جا سکتا۔  دراصل، گزشتہ دنوں سپریم کورٹ نے اپنے تلخ رد عمل میں اس کو جھنجوڑتے ہوئے کہا تھا کہ بھیڑ کے ذریعے قتل کے لئے اس کی کوئی بھی دلیل جائز نہیں ہو سکتی۔  یہ ایسا گھناؤنا جرم ہے، جس کو ہر حال میں روکا ہی جانا چاہیے۔عدالت نے ایک دوسرے موقع پر یہ بھی کہا تھا کہ بھیڑ کے کارناموں کے لئے ان لوگوں اور تنظیموں کو ذمہ دار ٹھہرایا جانا چاہیے، جنہوں نے اس کو جمع کیا یا اکسایا کیونکہ بھیڑ کے نام پر کچھ بھی کئے جانے کی چھوٹ ملک کو سنگین انتشار کی طرف لے جائے‌گی۔

خیر، وزارت داخلہ جاگا تو مرکزی وزارتِ اطلاعات و  ٹکنالوجی کا انگڑائی لینا بھی لازمی ہی تھا۔  ورنہ دکھاوے کی دوڑ میں اس کے پچھڑ جانے کا اندیشہ تھا۔  چونکہ زیادہ تر افواہیں سوشل میڈیا، خاص کر وہاٹس ایپ کے ذریعے پھیلیں، اس لئے مرکزی وزیر برائے اطلاعات و  ٹکنالوجی  روی شنکر پرساد نے وہاٹس ایپ کو نوٹس جاری کر خبردار کر ڈالی کہ وہ جوابدہی کے ساتھ پیش آئے اور تحفظ کے پہلو پر دھیان دے۔ا س کے جواب میں وہاٹس ایپ نے نیا حفاظتی معیار نافذ کرنے کی بات کہہ دی اور بات اس قدر آئی گئی ہو گئی کہ کسی کو نہیں معلوم کہ کتنی اور جانیں جانے کے بعد اس کے نئے حفاظتی معیار نافذ ہو جائیں‌گے؟

دکھ کی بات ہے کہ جب ملک میں سوشل میڈیا دودھاری تلوار کی طرح اپنے تکنیکی غلط استعمال سے روز روز نئی-نئی آفات لا رہا ہے، مرکزی حکومت کے پاس اس کو لےکر کوئی سوچی سمجھی  پالیسی ہی نہیں ہے۔  اس لئے وہ دھمکیوں ، خبردار اور پابندیوں سے آگے بڑھ ہی نہیں پا رہی، حالانکہ ضرورت بس اتنی سی تدبیر کی ہے، جس سے اشتعال انگیز پیغامات کا اصل گڑھنے والے کو پکڑا اور مسئلہ کی جڑ پر وار کیا جا سکے۔اس بات کو سرکاری نظام بھی سمجھتا ہی ہے کہ جب تک ایسے پیغام گڑھنے والے کا پتہ نہیں چلے‌گا، اس کو قانون کے حوالے نہیں کیا جا سکے‌گا اور مسئلہ پیچیدہ ہوتا جائے‌گا۔

گزشتہ دنوں اس میڈیا کے متاثرین میں وزیر خارجہ سشما سوراج تک کا نام شامل ہو جانے کے باوجود حکومت کے کرتادھرتا آرام کے ساتھ افسوس کرنے کی اپنی عادت نہیں چھوڑ پا رہے۔ان کے پاس لوگوں کو ایسی افواہوں کے خلاف باخبر کرنے کا بھی کوئی پروگرام نہیں ہے اور وہ صرف ریاست حکومتوں کو زیادہ چست رہنے کو کہہ‌کر اپنے فرائض کو پوراکر لینا چاہتے ہیں۔

بھیڑ کے ذریعے حملوں کے واقعات کے تجزیوں میں بار بار دوہرایا جا چکا ہے کہ ان کے پیچھے وہ  خوفناک غیرمحافظ عناصر ہیں، جن کے چلتے شہریوں کے الگ الگ گروہ الگ الگ وجہوں سے نہ صرف انتظامیہ بلکہ خود سے بھی ناراض ہیں۔ان کے بڑھتے عدم اعتماد کی حد یہ ہے کہ وہ عدالت، قانون اور پولیس پر بھی بھروسہ کھو بیٹھے ہیں۔  یہی وجہ ہے کہ کہیں کسی کا بدیسی ہونا یا کہیں انجان راستہ پکڑنا یا پوچھ لینا یا کہیں کسی بچے کو ٹافی کی پیشکش کر بیٹھنا، جان لیوا قصور ہو گیا ہے۔

لیکن یہ سوال آخرکار حکومت سے نہیں تو کس سے پوچھا جانا چاہیے کہ یہ حالات کس کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں اور ان کا ذمہ دار کون ہے؟  کیوں آج بھی ملک میں ‘سمرتھ کو نہیں دوس گوسائیں ‘ والا نظام چلا آ رہا ہے، جس کے چلتے کوئی شہری لگاتار کمزور تو کوئی لگاتار طاقتور ہوتا جا رہا ہے؟پھر بھیڑ کا کسی پر ہاتھ اٹھانا اتنا آسان کیوں بنا ہوا ہے؟  ان کو اس کا حوصلہ کہاں سے ملتا ہے؟  کون ہیں، جو ان کو اس کے بدلے کچھ بھی بگڑنے کے اندیشوں کی طرف سے بے خوف کر دیتے ہیں؟

نفرت پھیلانے کی منصوبہ بند مہم چلانے والوں کے ذریعے ایک-دوجے سے ناراض بھیڑ پیدا کرنا اور ان کا استعمال کرنا ابھی بھی اتنا آسان کیوں ہیں؟قاتل بھیڑ کو ان کے منطقی انجام  تک پہنچانا ہے تو نہ صرف ان سوالوں کے جواب تلاش کرنے ہوں‌گے، حکومت کے ان داخلی انتشار کے خلاف آواز بھی اٹھانی ہوگی، جن میں پھنس‌کر اس کے سونے اور جاگنے میں کوئی فرق ہی نہیں رہ گیا ہے۔

(مضمون نگار آزاد صحافی ہیں اور فیض آباد میں رہتے ہیں۔  )