فکر و نظر

صحافی وشو دیپک نے کہا؛غیرمتفق آوازوں کو دبانا ممکن نہں ہے…

اقتدار میں بیٹھے لوگوں کو لگتا ہوگا کہ وہ صحافیوں اور غیرمتفق آوازوں کو مار‌کر خاموش کرا دیں‌گے اور حقیقت کو چھپا لے جائیں‌گے، لیکن ایسا نہیں ہونے والا۔

VishwaDipak_PressClub

مجھے لگتا ہے کہ جب تک ہماری آزادی میں کاٹ چھانٹ نہ کی جائے، تب تک ہمیں اس کی قیمت سمجھ میں نہیں آتی۔  میں مانتا ہوں کہ جب ہماری آزادی خطرہ میں ہو، تب ہمیں اپنے وجود محض سے اوپر اٹھ‌کر اس کے بچاؤ میں کھڑا ہونا چاہیے۔آزادی نہ تو عیش و عشرت ہے اور نہ ہی کوئی ایسی سہولت جو حکومت ہمیں اپنی اپنی مرضی سے دیتی ہو۔لوک مانیہ تلک نے کہا تھا؛

آزادی ہمارا پیدائشی حق ہے ۔

  پیدائشی اس لئے کیونکہ وہ انسانی زندگی کے لئے ضروری ہے اور ایک انسان کے ذی شعور ہونے کی پہلی شرط بھی ہے۔حالانکہ آزادی کے اس بنیادی خیال کو ہی مجرمانہ قرار دیا جا رہا ہے۔ہم بے شک یہ جانتے ہیں کہ شہریوں کے ذریعے اپنے حق کے لئے آواز اٹھائے جانے کو زیادہ تر حکومتیں ناپسند کرتی ہیں، لیکن مجھے لگتا ہے کہ ہمارے خیالات کو مجرمانہ ٹھہرانے کی کوشش اب منظم شکل میں کی جا رہی ہے۔  یہ ایک خطرناک مفروضہ کی پیدائش ہے۔

 غیرمتفق آوازوں کو دبانے کے لئے موجودہ اقتدار ایک پالیسی کے بطور خیالات کو مجرمانہ ٹھہرانے کا کام کر رہی ہے اور خود اس کے پیچھے چھپ گئی ہے۔  مجھے آج کل ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ غیر مساوی خیالات اور  ادراک کو ایک مجرمانہ کارنامے کا نام دیا جا سکتا ہے۔یہ میرے لئے نجی سے کہیں زیادہ ایک سیاسی مسئلہ ہے۔  ایک صحافی کے بطور میری سیاست ہے سچ کی حفاظت کرنا، کھل کر بولنا اور سوچنا، ان کی حمایت میں لکھنا جن کے پاس اپنی آواز نہیں ہے اور جب کبھی ضرورت پڑے، اقتدار سے سوال کرنا۔

سال بھر سے زیادہ وقت ہوا جب میں نے پریس کلب آف انڈیا میں ایک سیمینار ہال کو بک کرنے کی منظوری لی تھی، جہاں کا میں کئی سال سے ممبر ہوں۔  جس پروگرام کے لئے سیمینار ہال بک کروایا گیا تھا، وہ ایک سیمینار تھا جو جی این سائی بابا کی رہائی کے لئے پریس میں حمایت جٹانے اور ناگ پور جیل میں ان کی گرتی ہوئی صحت کی تشہیر کرنے کے لئے منعقد کیا گیا تھا۔  پریس کلب آف انڈیا کے اصولوں کے تحت یہ اہتمام ہے کہ اگر کسی کو یہاں سیمینار ہال لینا ہو تو کلب کے ایک ممبر سے اس کی تصدیق  کروانا ضروری ہوتی ہے۔  مذکورہ سیمینار کے لئے منظوری اگر میں نے نہیں لی ہوتی تو میری جگہ کوئی اور ممبر ہوتا۔  یہ صرف میری حصولیابی اور اتفاق کا معاملہ ہے۔

سائی بابا پوری طرح اپاہج ہیں۔  یہ شخص ہر گزرتے دن کے ساتھ تل تل کر اپنی موت کے قریب جا رہا ہے۔  ان کو ملک کے لئے خطرہ بتایا گیا ہے۔  میں یہ سمجھنا چاہوں‌گا کہ ایک مکمل طورپر اپاہج آدمی ہمارے جیسے ایک عظیم ملک کے لئے خطرہ کیسے بن جا سکتا ہے۔تین سال پہلے انگریزی میگزین آؤٹ لک میں ارندھتی رائے نے اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا؛

ان کی جسمانی حالت کو اور زیادہ بگڑنے سے روکنے کے لئے ضروری ہے کہ ان کی لگاتار دیکھ بھال کی جائے، ان کو دوائیں دی جائیں اور فیزیوتھریپی مہیّا کرائی جائے۔  ان سب کے بجائے الٹے ان کو انڈا سیل کے کونے میں ڈال دیا گیا (جہاں وہ آج بھی ہیں) جہاں ان کو قضائےحاجت جانے کے لئے مدد کرنے والا بھی کوئی نہیں ہے۔  ان کو اپنے ہاتھوں-پیروں سے رینگ‌کر جانا پڑتا ہے۔

ان کی سیاست سے ہم متفق یا غیرمتفق ہو سکتے ہیں، لیکن میں کچھ باتیں جاننے کا خواہش مند ہوں (جن کو یہ ملک نہیں جاننا چاہتا ؛ ایسا لگتا ہے وہ لمبی نیند میں چلا گیا ہے)؛

کیا ایک قیدی کو جینے کا حق نہیں ہے اور کیا صحت کی بنیاد پر ضمانت کی درخواست کرنا غلط ہے، خاص کر تب جبکہ معاملہ زندگی اور موت سے جڑا ہو؟اگر سائی بابا جیسا ایک شخص جو موت کے دن شمار کررہا ہے-ملک کے لئے خطرہ ہے، تو آپ قاتل  بھیڑ، آن لائن ٹرولروں اور ان تمام لوگوں کو کیا نام دیں‌گے جو پردے کے پیچھے ہمارا آئین بدلنے کی خواہش پالے چھپے بیٹھے ہیں؟اس شخص کو آپ کیا نام دیں‌گے جو سیاسی قتل میں مبینہ طور پر ملوث ہے اور جج لویا کے مقدمہ میں جس کا کردار سوالوں کے گھیرے میں ہے؟

ان کو آپ کیا نام دیں‌گے جنہوں نے ہمارے سماج کی فرقہ واریت اور تقسیم کے لئے رام کے نام کا استعمال ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر کیا ہے (دھیان رہے، گاندھی نے کہا تھا رام کا نام میرے لئے سچ کی پہچان ہے)؟ان کو آپ کیا کہیں‌گے جنہوں نے صحافی گوری لنکیش، ادیب کلبرگی، دابھولکر اور پانسرے کا قتل کیا ہے؟

میں نے ہال کی بکنگ کی منظوری یہ مانتے ہوئے کی تھی کہ میں ایک جمہوری‎ ملک میں رہتا ہوں جہاں لوگوں کو ایک جائز منچ پر اپنی رائے رکھنے کا پورا حق ہے۔  آج اس منظوری کو ہی اقتدار مجرمانہ سرگرمی کے طور پر دیکھ رہی ہے۔  کبھی کبھار مجھے شک ہوتا ہے کہ ہم ایک جمہوری‎ ملک میں جی رہے ہیں یا پھر ایک ایسے ملک میں جس کو سیاسی مافیا چلاتا ہے؟  ہمارے عظیم مجاہدین آزادی نے کیا اسی دن کے لئے جدو جہد کی تھی؟

چونکہ میں اس سیمینار میں نہیں گیا تھا، اس لئے میں نہیں جانتا کہ اس میں کتنے ” ماؤنواز / نکسلی ” آئے تھے یا یہ کہ وہاں کتنے ” غدار وطن ” موجود تھے۔  ہاں، میں یہ جانتا ہوں کہ اس پروگرام میں ماہرسماجیات نندنی سُندر اور پروفیسر ہرگوپال کا خطاب ہونا طے تھا اور یہ دونوں ملک کے لئے کوئی خطرہ نہیں ہیں۔  یہ بڑے عقلمند لوگ ہیں۔  ہمیں ان کی باتیں سننی چاہیے۔ورنہ خیالات کو مجرمانہ قرار دینا  آخرکار اس جمہوریت کو تباہ کر ڈالے‌گا۔

ایک صحت منداور ارتقاپذیر جمہوریت کے لئے پریس کی آزادی ضروری ہے-یہ بات اب بھی غیر مناسب نہیں ہوئی ہے، بھلے کئی بار کہی جا چکی ہو اور اس کو سننے میں اکتاہٹ محسوس ہوتی ہو۔  یہ  مایوس کرنے والی بات ہے کہ ہم اس مورچے پر بھی ناکام رہے ہیں۔اقتدار میں بیٹھے لوگوں کو لگتا ہوگا کہ وہ صحافیوں اور غیرمتفق آوازوں کو مار‌کر خاموش کرا دیں‌گے اور حقیقت کو چھپا لے جائیں‌گے، لیکن ایسا نہیں ہونے والا۔

میں پوچھنا چاہتا ہوں، دنیا بھر میں پریس کی آزادیوالے انڈیکس میں ہندوستان کی بدتر رینکنگ کے لئے کون ذمہ دار ہے؟ “مجھے کہنے میں شرم آتی ہے کہ میرا پیارا ملک 2018 کے انڈیکس میانمار، نیپال اور سری لنکا سے بھی نیچے ہے۔میرا ماننا ہے کہ تشدد پر مبنی کسی بھی نظریہ سے ملک میں تبدیلی / انقلاب نہیں لایا جا سکتا لیکن ساتھ ہی یہ بھی سچ ہے کہ آپ انقلاب کے خیال کو غیر قانونی نہیں ٹھہرا سکتے۔  ہمیں اس کی حفاظت کرنی ہوگی۔

ہم سبھی انسان ہیں۔  ظاہر ہے، ہم سب کے اندر ایک خواب ہوگا۔  ایک آئیڈیل ،  ہو سکتا ہے کہ آپ کاآئیڈیل میرے والے سے علیحدہ ہو لیکن دونوں ایک ساتھ موجود ہیں اور رہنے چاہیے۔  آزادی اسی کو کہتے ہیں۔  یہی تو ہندوستان ہے! میرے خیال سے اگر ہم اپنے درمیان موجود نظریاتی فرق کے ساتھ آسان ہوکر جینا نہیں سیکھ پائے تو ہم مردوں کے ملک میں تبدیل ہو جائیں‌گے۔

والٹیئر کے ان الفاظ کے ساتھ میں اپنی بات ختم کرنا چاہوں‌گاکہ؛

میں آپ کے خیال سے غیرمتفق ہو سکتا ہوں، لیکن آپ کے اظہار کی آزادی کی حفاظت کرنے کے لئے اپنی جان بھی دے سکتا ہوں!

(یہ مضمون بنیادی طور پر وشو دیپک کے فیس بک پیج پر شائع ہوا ہے ،یہاں MediaVigil کے شکریہ کے ساتھ اس کو شائع کیا جارہا ہے۔)