فکر و نظر

پاکستانی عام انتخابات کے نتائج سے ہند و پاک تعلقات کا کیا رشتہ ہے؟

مودی اور شریف میں ایک وصف مشترک ہے وہ یہ کہ دونوں نے پوری سیاست کو اپنی انانیت اور ہرچیز کو اپنی ذات کے گرد محصور کرکے، ذاتی وفاداری کو اہمیت دےکر اور فیصلوں میں من مرضی پر اڑکر، پارٹی کی اندرونی جمہوریت کا جنازہ نکال کر رکھ دیا ہے۔

فوٹو: ٹوئٹر

فوٹو: ٹوئٹر

پاکستان میں عام انتخابات کی مہم اب اپنے عروج پر ہے۔ 25جولائی کو ہونے والے انتخابات پر جہاں دنیا بھر کی نظریں ٹکی ہوئی ہیں، وہیں ہندوستان میں بھی حکومتی حلقے اور تجزیہ کار ان پر گہری نگاہ رکھے ہوئے ہیں۔ پچھلے انتخابات کے برعکس پاکستان کے موجودہ انتخابی عمل سے یہاں ایک طرح سے تذبذب کی سی کیفیت ہے۔

ماضی میں چونکہ اقتدار کی دیوی نواز شریف کی مسلم لیگ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے گرد ہی گردش کرکے کسی ایک کی چوکھٹ پر بیٹھتی آئی ہیں، اس لئے ا ن کی پالیسیوں اور ان کے لیڈروں سے متعلق تحقیق و تجزیوں کی زیادہ ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ اس بار چونکہ پاکستان تحریک انصاف کے قائد عمران خان وزارت عظمیٰ کے ایک واضح دعویدار کی صورت میں میدا ن میں ہیں۔

ان کی سوچ، متوقع پالیسیاں حکومتی حلقوں ، انٹلی جنس ایجنسیوں اور ماہرین کےلئے معمہ بنی ہوئی ہیں۔ پچھلے کئی ہفتوں سے کئی تھنک ٹینکوں کے ماہرین پاکستان کے خیبر پختونخواہ میں تحریک انصاف کی قیادت والی حکومت کی کارکردگی اور اس کے معاملات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ ہندوستان کے کئی میڈیا اداروں نے پاکستانی انتخابات کو کور کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے اور ویزا وغیرہ کی درخواست دی ہے۔

امید ہے کہ اگلے ہفتہ درجن بھر کے قریب ہندوستانی صحافی پاکستان میں موجود ہوں گے۔ ان میں سے اکثر صحافیوں کو بریف ہے کہ دہشت گردی سے نمٹنے، ہندوپاک تعلقات اور کشمیر کے موجودہ حالات کے حوالے سے عمران خان کو ٹٹولنے کے علاوہ بلاول زرداری بھٹو کا بھی جائزہ لیں۔ ہندوستانی حکومت، اپوزیشن، سیکورٹی ادارے اور تھنک ٹینک عمران خان کے ایک ایک جملے اور ان کے ہر قدم پر قریبی نگاہ رکھے ہوئے ہیں۔

 ہندوستان کی سب سے بڑی اپوزیشن کانگریس اور اس کے موجودہ صدر راہل گاندھی کا خاندان روایتی طور پر خود کو بھٹو خاندان سے زیادہ قریب محسوس کرتا ہے ‘جس کا اظہار متعدد مواقع پر ہوتا بھی رہا ہے۔ تاہم ہندوستانی سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ بھٹو خاندان کے مقابلے نواز شریف کو زیادہ بااعتماد و بااثر مان کر اسکے ساتھ زیادہ اطمینان محسوس کرتا رہا ہے۔

بہر حال یہاں سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے، گوکہ ہندوستان کے پختہ ‘ ٹھوس اورمستحکم سیاسی نظام اور پاکستان کے لڑکھڑاتے قدموں سے آگے بڑھنے کی کوشش کرنے والی جمہوریت کے درمیان کوئی موازنہ نہیں ہے،لیکن پاکستان کے حالیہ انتخابات میں حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی اور وزیر اعظم نریندر مودی کے لیے بھی ایک بڑا سبق ہوگا کیونکہ دیکھا گیا ہے کہ دونوں ممالک کے عوام کا مزاج تقریباً یکساں ہے۔

 پاکستان کے 2013 اور ہندوستان کے 2014 کے انتخابی نتائج کا ایک مشترکہ سبق یہ تھا کہ صرف فلاحی اسکیموں اور مراعتوں کا ڈھنڈورا پیٹ کر ووٹروں کواپنی طرف مائل کرنا ممکن نہیں ہے۔ جب تک یہ اسکیمیں دیانت داری اور پوری شفافیت کے ساتھ نافذ نہیں کی جاتی ہیں۔ عوام اگر ملک کے نظم و نسق سے غیر مطمئن ہیں اور بدعنوانی سے نالا ں ہیں تو انہیں ’’کھلونے دے کر بہلانا ‘‘ ممکن نہیں ہے۔

موجودہ انتخاب بھی اس لحاظ سے اہم ہوں گے کیونکہ یہ طے کریں گے کہ انفرا اسٹرکچر پر بے دریغ پیسہ خرچ کرنے ،کارپوریٹ سیکٹر کو بے تحاشا مراعات دینے ، شہروں میں سڑکوں اور ٹرانسپورٹ کی سہولیات کے بہتر بنانے سے کس حد تک عوام کو لبھایا جا سکتا ہے۔ نواز شریف اور مودی کی پالیسی ان معاملات میں تقریباً ایک جیسی ہی تھی۔

ویسے مودی اور شریف میں ایک وصف مشترک ہے وہ یہ کہ دونوں نے پوری سیاست کو اپنی انانیت اور ہرچیز کو اپنی ذات کے گرد محصور کرکے، ذاتی وفاداری کو اہمیت دےکر اور فیصلوں میں من مرضی پر اڑکر، پارٹی کی اندرونی جمہوریت کا جنازہ نکال کر رکھ دیا ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی میں لاکھ برائیاں سہی، مگر اس میں شورائیت اور جمہوریت کا تصور کانگریس اور دیگر علاقائی پارٹیوں کی نسبت ہمیشہ سے ہی مضبوط رہا ہے۔

 حتیٰ کہ اس کے قد آور لیڈروں جیسے اٹل بہاری واجپائی اور ایل کے اڈوانی کا بھی احتساب ہوتا تھا اور پارٹی کی نیشنل ایگزیکیٹو کے اجلاس میں ان کو عام ورکروں کے سامنے جوابدہ ہونا پڑتا تھا۔اپوزیشن کانگریس کے لیڈروں کا خیال ہے کہ پاکستان میں جمہوری طاقتوں کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان کے دلوں سے فوج اور دہشت گرد عناصر کا خوف کم ہو۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان کے بھٹو خاندان اور یہاں گاندھی خاندان میں قربت کےکئی اسباب کی بنا پر فطری ہے۔ لیکن کئی مواقع پر ہندوستان کی ناز برداری کے باوجود یہاں کا سیکورٹی اسٹیلشمٹ بھٹو خاندان کو ہمیشہ شبہ کی نگاہ سے دیکھتا رہا ہے۔ جس کو مغرب نے روایتی طور پر پاکستان میں جمہوریت کا مکھوٹا بنا کر پیش کیا ہے۔

مجھے یاد ہے کہ 2007 میں انڈیا ٹوڈے کانکلیو میں شرکت کے لیے بے نظیر بھٹو دہلی آئیں تھیں تو وزیر اعظم منموہن سنگھ سے انہوں نے اس رویہ کی شکایت کی تھی۔ ملاقات کے بعد ہندوستان کے اس وقت کے قومی سلامتی مشیر ایم کے نارائنن سے جب سوال کیا گیا تو انہوں نے امن مساعی میں پیپلز پارٹی کے رول کے حوالے سے شبہ کا اظہا ر کیا ۔ان کا کہنا تھا کہ جب یہ پارٹی اپوزیشن میں ہوتی ہے تو امن کی دہائی دیتی ہے اور جب حکومت میں ہوتی ہے تو ہندوستان مخالف رویہ اپناتی ہے۔

انہوں نے 90کی دہائی میں مرحوم بے نظیر بھٹو کی طرف سے ہندوستان مخالف رویہ کی طرف اشارہ کیا ۔ دوسری طرف نواز شریف کے تئیں ہندوستان میں نرم گوشہ موجود ہے۔اندر کمار گجرال کے پنجاب کنکشن کے نتیجہ میں 1997میں شروع ہونے والے جامع مذاکرات ہوں یا اٹل بہاری واجپئی کا لاہور کا بس کا سفر یا مودی کا دسمبر 2015 میں اچانک لاہور وارد ہونا، نواز شریف کے دور حکومت کی خوشگوار یادیں ہیں۔

نیوکلیائی دھماکہ کرنے کے بعد جب ہندوستان الگ تھلگ پڑگیا تھا تو نواز شریف نے ہی اس برے وقت میں واجپائی کو لاہور بلاکر ہندوستان کی ایک طرح کی سفارتی مدد کی تھی، مگر مذاکرات کا درواز کھول کر ہندوستان کو پیچیدہ مسئلوں کو حل کروانے پر بھی تقریباً آمادہ کرا لیا تھا۔ جس کے نتیجے میں بیک چینل مذاکرات کا آغاز ہوگیا تھا۔

1999 میں جب فوجی سربراہ پرویز مشرف نے شریف کو اقتدار سے معزول کردیا تھا اس وقت سابق وزیر اعظم اندر کمار گجرال نے ایک اہم انکشاف کرتے ہوئے کہا تھا کہ نواز شریف کی طرف سے فراہم کردہ تفصیلات کی مدد سے ہی وادی کشمیر میں پانچ عسکریت پسندوں کو اسٹنگر میزائل کے ساتھ گرفتار کرنے میں کامیابی ملی تھی۔اس کے بعد پاکستان نے یہ یقینی بنایا کہ اسطرح کے ہتھیار کشمیر میں سرگرم عسکری گروپوں کو فراہم نہ ہوں۔

گجرال کے مطابق انہوں نے شریف کو بتایا تھا کہ اگر عسکریت پسند کسی جہاز کو ٹارگٹ کرتے ہیں تو یہ اعلان جنگ تصور کیا جائیگا۔اکثر تجزیہ کاروں کا یہاں خیال ہے کہ عمران خان کی صورت میں پاکستانی فوج اقتدار پر گرفت مضبوط کرنا چاہتی ہے۔ جہاں ایک طبقہ کا کہنا ہے کہ ہند وپاک تعلقات کے حوالے سے فوج کے حمایت یافتہ اور معتمد سیاستدان کے ساتھ ڈیل کرنازیادہ آسان اور کار آمد ہوگا، وہیں دوسرے حلقہ کے مطابق جمہوریت کے علمبردار ہونے کے ناطے ہندوستان کو پاکستان میں سیاستدانوں کو اس حد تک مضبوط کرنے میں مدد کرنی چاہئے تاکہ فوج ایک سویلین انتظامیہ کے تابع ہوجائے اور اس ملک میں ہندوستان کی طرز پر ایک مستحکم جمہوریت قائم ہوسکے۔

مگر پاکستان کے حوالے سے کوتاہ نظری اور عملی صورت حال سے نظریں چرانا تو ہندوستانی تجزیہ کاروں کی پرانی عادت ہے۔ جمہوریت کے استحکام کیلئے مڈل کلاس ریڑھ کی حثیت رکھتا ہے۔ ہندوستان کی 125کروڑ کی آبادی میں مڈل کلاس کا تناسب21.36فیصد ہے، جبکہ پاکستان کی 25کروڑ کی آبادی میں اس طبقہ کی تعداد صرف 6.8فیصد ہے۔ دوسری طرف ہندوستانی سسٹم میں فوج کے محدود رول کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ آبادی کے حساب سے اس کی تعداد کا تناسب محض 0.136فیصد ہے۔ جبکہ پاکستان میں یہ شرح0.5فیصد بنتی ہے۔ جو کہ ایک بڑی تعداد ہے اور ان کو نظر انداز کرنا اور سسٹم سے باہر رکھنا ناممکن ہے۔

ویسے بھی ہندوستان میں سبھی سویلین حکومتیں قومی سلامتی کے ایشوز پر فوج کی ہی رائے کو فوقیت دیتی ہیں۔ ہندوستان میں درون خانہ یہ تاثر بھی عام ہورہا ہے کہ سویلین حکومت کے بجائے ہندوستان کو امریکہ اور دیگر مغربی ممالک ک طرز پر پاکستانی فوج کے ساتھ معاملات براہ راست طے کرنے چاہیں۔ ان کے مطابق پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے حالیہ بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ خود بھی اس بات کا عندیہ دے رہے ہیں۔

 ہندوستانی خفیہ ادارے راکے سابق سربراہ امر جیت سنگھ دلت نے حال ہی میں یہ مشورہ دیا تھا کہ قومی سلامتی مشیر کوجنرل باجوہ کو دہلی آنے کی دعوت دینی چاہیے، تاکہ وزیر اعظم مود ی کے ساتھ ان کی براہ راست بات چیت ممکن ہوسکے۔خیر عمران خان کے حوالے سے ہندوستان میں کئی خدشات پائے جاتے ہیں۔ 2014میں عمران خان نے اپنی ایک تقریر میں عندیہ دیا تھا کہ اقتدار میں آنے کے بعد وہ امریکہ کے ساتھ تعلقات کو ایک حد میں رکھیں گے۔

اب یہ محض چناوی جملہ بازی ہے یا وہ عملی طور پر ایسا کریں گے، یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ مگر ہندوستانی تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان میں محدود امریکی رول ، افغانستان اور خطے میں ہندوستانی مفادات کو زک پہنچائے گا۔ ویسے بھی ا ب ہندوستان کے عام انتخابات تک دونوں ممالک کے تعلقات میں پیش رفت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ فی الحال مودی اور ان کے دست راست امت شاہ اقتدار میں واپسی کیلئے کسی بھی حد تک جانے کیلئے بے قرار ہیں اور اس میں ووٹروں کو لبھانے کیلئے پاکستان کا ہوا کھڑا کرنا بھی شامل ہے۔

 ہندوستان میں گائے، مسلمان اور پاکستان کا ایشو اٹھا کر ووٹ حاصل کرنا ایک آزمودہ فارمولہ بن چکا ہے۔ہو سکتا ہے کہ عام انتخابات کے بعد ہندوستان میں نئی حکومت روایتی روش چھوڑکر خطے کے سیاسی مسائل کو حل کرنے کی طرف سنجیدہ کوشش کرےگی ۔ تاکہ ایک پر امن ماحول میں خطے کے حقیقی ایشوزکی طرف توجہ مرکوزکرکے عوام کی زندگیوں میں انقلابی تبدیلیاں لائی جائیں لیکن تا حال اس کے آثار نظر نہیں آرہے ہیں۔

ضروری ہے کہ انتخابات کے بعد جو بھی پاکستان میں وزیر اعظم کی کرسی پر فائز ہوجاتا ہے وہ ہوشمندی سے کام لیکر wait and watch کی پالیسی اپنا کر ہندوستان کے عام انتخابات کے مکمل ہونے تک ملک کے دیگر اداروں اور سیاسی جماعتو ں کے ساتھ ملکر اتفاق رائے پیدا کرے اور جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک نیز دیگر پڑوسیوں ایرا ن و افغانستان کے ساتھ تعلقات کو مزید بہتر بنانے اور ایک اقتصادی بلاک کو کھڑا کرنے کیلئے عملی اقدامات کا آغاز کرے، چاہے اس کے لئے کتنی ہی مراعات دینی پڑیں ۔

 اس مقصد کے لیے مخلص اور مسائل کو جڑ سے اکھاڑنے والی جرأت مند اور سنجیدہ قیادت کی ضرورت ہے۔ بہر حال اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ جنوبی ایشیاکے ان دونوں پڑوسیوں کے درمیان خوشگوار تعلقا ت کی آج پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے۔یہ نہ صرف دونوں ملکوں اور ان کے عوام کے لئے بلکہ اس خطے او ر دنیا کے لئے بھی ضروری ہے۔ان حالات میں پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ ہندوستان میں موجودہ حکومت پر توجہ مرکوز کرنے کے ساتھ ساتھ اپوزیشن اور دوسری جماعتوں کے رہنماؤں کو بھی اعتماد میں لے کرامن مساعی کے لیے راہ ہموارکرے۔

موجوہ حکومت فی الحال شاید ہی پاکستان کے حوالے سے کوئی فیصلہ کرسکے گی۔اگرآئندہ کی متوقع حکومت کے ذمہ داروں سے تعلقات بنائے جائیں اورانہیں دیرپا امن کے قیام اور اس کے خوشگواراثرات کے بارے میں قائل کیاجائے توامید کی جاسکے گی کہ ہند وپاک رشتوں کی گاڑی یقیناپٹری پر دوڑنا شروع ہوجائے گی۔ اس کے لیے ہندوستان میں پاکستان کے ہائی کمشنرکو بھی خاصی محنت کرنا پڑے گی۔