فکر و نظر

دار القضاء کاؤنسلنگ سینٹرہےمساوی کورٹ نہیں

اس کو کاؤنسلنگ سینٹر سمجھا جائے، کورٹ نہیں کیوں کہ یہ اپنے فیصلے منوانے کا اختیار نہیں رکھتے، اوران میں نیا کچھ بھی نہیں کیوں کہ دار القضاء تو عرصہ دراز سے کام کر رہے ہیں۔

علامتی تصویر

علامتی تصویر

ملک  کے مختلف علاقوں میں عرصہ سے رائج دارالقضاء کے نظام کو مزید استحکام بخشنے اور اس کی توسیع کی تجویز کیا سامنے آئی، گویا ایک  قیامت بپا ہو گئی۔جب دارالقضاء کا ترجمہ ‘کورٹ’ کر لیا جائے اور ٹی وی چینلز پر اس کو ملک میں عدالتی نظام کے متوازی قرار دے دیا جائے، تب ہنگامہ تو ہونا ہی ہے۔

یہ بالکل اسی طرح ہوا جیسے تیرہ سال قبل ہوا تھا۔اس وقت بھی یہی موضوع تھا کہ معاشرہ میں طلاق کے بڑھتے رجحان کو دیکھتے ہوئے، دار القضاء کو ان شہروں میں قائم کیا جائے، جہاں یہ موجود نہیں ہیں۔حالاں کہ تب ‘شرعی پنچایت’ کالفظ استعمال ہوا تھا،جب اس پر اعتراض کیا گیا تھا،  تو علمانے پوچھا تھا کہ آپ  پنچایت کو کام کرنے سے کیسے روک سکتے ہیں۔

پریس کانفرنس میں وضاحت کرتے ہوئے کہا  گیاتھا کہ یہ کاؤنسلنگ سینٹر سمجھے جائیں، کورٹ نہیں کیوں کہ یہ اپنے فیصلے منوانے کا اختیار نہیں رکھتے، اوران میں نیا کچھ بھی نہیں کیوں کہ دار القضاء تو عرصہ دراز سے کام کر رہے ہیں۔تب مدھیہ پردیش کے ایک بڑے عالم نے صحافیوں سے کہا تھا  کہ اس کو آپ ‘ڈسپیوٹ رزولنگ میکانزم’ سمجھئے جہاں گھریلو اور مذہبی معاملے آتے ہیں جو کسی کورٹ میں زیر سماعت نہ ہوں۔ میاں اور بیوی کے درمیاں نفاق ہو تو مصالحت کی کوشش کی جاتی ہے، ورنہ،  پھر پولیس اور کورٹ تو موجود ہے ہی، جہاں ہرشخص جا سکتا ہے۔

اس دور میں ٹی وی چینلز تو کم تھے ہی، ان کے مباحثے کچھ حد تک آج کے دور سے بہتر ہوتے  تھے۔ایک دہائی سے زیادہ وقت گزرا اور پھر وہی ہوا۔ اس بار  دارالقضاء کا ترجمہ ‘شریعت کورٹ’  کر دیا گیا (یا ہو گیا)۔ ظاہر ہے، پھر ہنگامہ تو ہونا ہی تھا۔مسلم معاملات سے ناواقفیت تو خیر عام ہے ہی ، ایسا نظارہ پیش کیا جانے لگا  جیسے ملک میں مسلمان اپنا علیٰحدہ جوڈیشیل سسٹم کھڑا کرنے جا رہے ہوں۔

دار القضاء ممبئی میں ہیں اور پٹنہ میں بھی ، حیدرآباد کے علاوہ تلنگانہ اور آندھرا کے مختلف شہروں میں وہ  کام کر رہے ہیں۔بھوپال میں محکمہ قضا تین سو سالوں سے موجود ہے (قاضی محمد معظم  کا انتخاب  نواب دوست محمد خاں نے  سن  1720 کے آس پاس  کیا تھا) اور آزادی کے بعد، حکومت ہند اور ریاست کے آخری نواب حمید اللہ خاں کے درمیان ہوئے مرجر ایگریمنٹ کے تحت اس کی سرکاری حیثیت ہے اور وہ مساجد کمیٹی کے تحت کام کرتا ہے، جو وزیر برائے اقلیت و پسماندہ طبقات کے محکمہ کے دائرے میں ہے۔

یہ صاف بات ہے کہ دارالقضاء کا انسٹی ٹیوشن کوئی نیا نہیں ہے۔ مسلمانوں کے سماجی مسائل،شادی، وراثت اور خاندانی حقوق پر مذہب کی روشنی میں رہنمائی کی جاتی ہے۔ علما کا کہنا ہے کہ اس کا ملک کے عدالتی نظام سے کوئ ٹکراؤ نہیں ہے۔اس بار جب آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے اس نظام کو توسیع دینے کے اعلان پر ہنگامہ ہوا، تب بورڈ نےواضح کیا ہے کہ یہ ملک میں موجود نظام ہے جسے ذریعے ہر سال ہزاروں معاملات آپس میں طے کرائے جاتے ہیں  اور یہ کوئی متوازی کورٹ نہیں ہے۔ یہاں نہ زبردستی اپنی بات فریقین پر نافذ کی جاتی ہے بلکہ ثالثی کے ذریعہ خاندانی معاملات اور جھگڑوں کو حل کیا جاتا ہے، ساتھ ہی فریقین کو صلح کے لئے آمادہ کرنے کی کوشش ہوتی ہے۔

بورڈ کے سیکریٹری اور ترجمان مولانا خالد سیف اللٰہ رحمانی نے اپنے بیان میں یہ کہا کہ دار القضاء کے نظام کی وجہ سے خواتین کو بڑی سہولت ہوتی ہے کیوں کہ بغیر خرچ ان کے حقوق دلائے جاتے ہیں اور جب اندیشہ ہوتا ہے کہ نوبت طلاق تک آ رہی ہے تو مفاہمت کی کوشش کی جاتی ہے۔

بورڈ نےیاد دلایا  ہےکہ چار سال قبل دارالقضاء کے خلاف دائر معاملے کو سپریم کورٹ نے خارج کر دیا تھا۔ پرسنل لا بورڈ نے اپنی پریس ریلیز میں کہا ہے کہ بورڈ کے سیکریٹری نے ‘شریعت کورٹ’کا لفظ استعمال نہیں کیا تھا تا کہ کسی کو غلط فہمی نہ ہو، مگر افسوس کہ ذرائع ابلاغ کے بعض حلقے اتنے اہم کام کی تحسین کرنے کے بجائے اس کو بدنام کر رہے ہیں۔

ممکن ہے اس کو میڈیا کے ایک بڑے سیکشن کی مسلم مسائل کے تئیں ناواقفیت سے تعبیر کیا جائے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل بورڈ  ایک ایسی تنظیم ہے جس کے  جلسوں  اور اعلانات  پر میڈیا کی خصوصی توجہ رہتی ہے۔مسلمانوں میں کچھ حلقوں میں یہ مان لیا جاتا ہے کہ انکے اداروں کو جان بوجھ کرنشانہ بنایا جاتا ہے اور زبردستی کنٹروورسی پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

مگر اس پر بھی غور کیا جانا چاہیئے کہ مسلم تنظیمیں اور میڈیا کے درمیان خلیج کو کم کیا جائے اور کسی بھی ایشو پر وضاحت اس طرح ہو کہ غلط فہمی کی گنجائش کم سے کم  رہے۔