خبریں

جن ویڈیو سے بچہ چوری کی افواہ پھیلی، ان میں سے 5 کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی تھی: مہاراشٹر پولیس

مہاراشٹرا میں گزشتہ ڈیر ھ مہینے میں افواہ کی وجہ سے  ماب لنچنگ کے 14معاملے میں 10 لوگوں کی جان جا چکی ہے۔

علامتی فوٹو: رائٹرس

علامتی فوٹو: رائٹرس

نئی دہلی :گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر بچہ چوری ہونے کی افواہ  سے جڑے ویڈیو اور پوسٹ وائرل ہونے سے کئی ریاستوں میں بھیڑ کے ذریعہ معصوم لوگوں کو پیٹ پیٹ کرماردینے کے معاملے سامنے آئے ہیں۔مہاراشٹرا میں گزشتہ ڈیرھ مہینے میں افواہ کی وجہ سے بھیڑ کے ذریعہ پیٹ پیٹ کر مار دینے کے 14معاملوں میں 10 لوگوں کی جان جا چکی ہے۔1 جولائی کو دھلے ضلع میں بھیڑ نے بچہ چوری کے شک میں 5 لوگوں کو پیٹ پیٹ  کر قتل کردیا تھا۔ان معاملوں کی جانچ کر رہی مہاراشٹر پولیس نے کہا ہے کہ بھیڑ کے ہاتھوں لوگوں کے پیٹ پیٹ کر قتل کردیئے جانے کے لئے ذمہ دار کم سے کم ان پانچ ویڈیو کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کیا جانا ہے جس کی وجہ سے بچہ چوری کی افواہ پھیلی تھی۔

ایک سینئر پولیس افسر نے دعویٰ کیا کہ زیادہ تر ویڈیو کو ’ڈر پیداکرنے کے لئے غلط طریقے سے پیش کیا گیا‘اور یہ ویڈیو مہاراشٹرا  کے نہیں تھے بلکہ انہیں کہیں اور شوٹ کیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ کچھ کلپ بنگلور ،سیریا اور پاکستان کے کراچی جیسی جگہوں کے ہیں۔مہاراشٹر کے اے ڈی جی پی بپن بہاری نے کہا؛ ایسے ویڈیو  نہیں پھیلائے جانے چاہئے ، چاہے ان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ ہوئی ہو یا انہیں ایڈٹ کیا گیا ہو یا فرضی ویڈیو ہو۔ان کلپ سے بہت گمبھیر مسئلے پیدا ہوتے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ ان کی سائبر کرائم ٹیم اس طرح کے ویڈیو کے ذرائع کی جانچ کر رہی ہے۔

انڈین ایکسپریس کی خبر کے مطابق ایک ویڈیو میں موٹر سائیکل پر جاتے دو آدمی بچوں کو اٹھاتے دکھ رہے ہیں۔دوسرے میں ایک خاتون اس سٹرک پر چلتے چلتے برقع پہن لیتی ہے اور تیسرے ویڈیو میں  دکھائی دیتا ہے کہ ایک بچہ  کچھ صحافیوں کو بتا رہا ہےکہ اسے بلڈھانا سے اغوا کیا گیا تھا۔ناسک رورل حلقے کے اے ڈی جی پی ہرش پودار بتاتے ہیں کہ افواہ پھیلانے کے لئے استعمال کئے گئے ان ویڈیو میں بچہ چوری کے واقعات کو غلط طریقے سے دکھایا گیا  ہے، تاکہ افواہ پھیلے اور حالات  بے قابو ہو جائیں ۔

ایک ویڈیو جو ملک کے تما م حصوں میں سب سے زیادہ وائرل ہوا ہے اس میں دو موٹر سائیکل سوار نوجوان کھیلتے ہوئے بچوں کے ایک گروپ کی طرف بڑھتے دکھ رہے ہیں اور وہ ایک بچے کو وہاں سے اٹھا کر بھاگ جاتے ہیں۔ وہاٹس ایپ پر وائرل کئے گئے  اس ویڈیو کے مختلف ورژن کے کیپشن میں یہ دعویٰ کیا گیا ہےکہ یہ واقعہ ہندوستان میں ہوا تھا۔حالاں کہ یہ ویڈیو سال 2016 میں کراچی  سے لاپتہ بچوں کے بارے میں بیداری پھیلانے کے لئے  چلائی گئی ایک غیر سرکاری تنظیم کی مہم کا حصہ ہے۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے روشنی ہیلپ لائن نامی این جی او نے اس مہم کے لئے شارٹ ویڈیو بنانے کے لئے وہاں کی ایڈورٹائزنگ ایجنسی اسپیکٹرم  وائی اینڈ آر اس مہم میں شامل کیا تھا۔اس ایجنسی کے  ایک نمائندہ نے انڈین ایکسپریس کو ای میل میں بتایا کہ یہ ویڈیو کراچی میں لاپتہ بچوں کے مدعے کو اجاگر نے کے لئے ایک بڑی مہم کا حصہ تھا جہاں تقریباً 3000 بچے ہر سال غائب ہو جاتے ہیں۔وہ آگے بتاتے ہیں  کہ اس ویڈیو کی وجہ سے10 بچوں کو ان کی فیملی سے ملایا جا سکا ہے۔اسے فیس بک پر 60 لاکھ مرتبہ شیئر کیا گیا ہےاور میڈیا میں بھی اسے کافی کوریج حاصل ہوا ہے۔

پاکستانی ایڈورٹائزنگ ایجنسی کے نمائندے نے ہندوستان میں اس ویڈیو کے غلط استعمال اور اس کی وجہ سے ہونے والے تشدد پر حیرانی ظاہر کرتے ہوئے کہا؛ ان ویڈیو کے ساتھ اس طرح چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے کہ اس کے پیچھے کا مقصد ہی غائب ہو گیا ہے۔وہ بتاتے ہیں کہ اس ویڈیو میں سی سی ٹی وی  کیمرے کی فوٹیج میں صرف دو بائیک سوار نوجوان لڑکے بچوں کو اغوا کرتے  ہوئے دکھائی دیتے ہیں لیکن اصل ویڈیو کا وہ حصہ غائب ہے جس میں دو نوجوان بچوں کو واپس چھوڑتے ہیں۔ اس میں ایک شخص پھر پیغام دکھاتا ہے جس میں لکھا ہے؛ صرف ایک منٹ ہی لگتا ہےکراچی سےکسی بچے کو اغوا ہونے میں‘۔اصل ویڈیو میں ایک اور پیغام بھی شامل تھا جس میں ہر سال کراچی سے 3000  بچوں کے اغوا ہونے کی بات لکھی تھی۔

اپنے بیان میں ایجنسی نے لوگوں کو سوشل میڈیا پر اس طرح کے ویڈیو کو لے کر خوب محتاط رہنے اور اس کی تحقیق کر نے کے لئے کہا ہے۔گزشتہ دو مہینوں میں ناسک ضلع کے مالیگاؤں میں سوشل میڈیا پر وائرل دو اور ویڈیو حاصل ہوئے ہیں۔ جس دن دھلے میں 5 لوگوں کو مار مار کر قتل کیا گیا تھا اسی دن مالیگاؤں میں وہاں کے لوگوں نے ’گوساوی‘ قبیلے کے کچھ لوگوں پر بچہ چور ہونے کے شک میں حملہ کیا تھا۔ اس وقت وہیں کے کچھ لوگوں نے آگے بڑھ کر ان کی جان بچائی تھی۔

اے ڈی جی پی ہرش پودار آگے بتاتے ہیں کہ جس ویڈیو میں کچھ خواتین سڑک پر چلتے چلتے برقع پہنتے نظر آتی ہیں اور ایک بچہ ان کے پیچھے چل رہا ہے، اس ویڈیو میں اغوا کا معاملہ بھی نہیں تھا لیکن ویڈیو کو اس دعوے کے ساتھ پھیلایا گیا تھا کہ وہ عورت بچہ چور ہے اور یہ واقعہ نندبار میں ہواتھا جو مالیگاؤں کے نزدیک ہے۔ حالاں کہ ہم نے پایا کہ اس ویڈیو کی اصل جگہ بنگلور میں ہے۔تیسرا ویڈیو جولائی کے پہلے ہفتے میں بڑے پیمانے پر دیکھا جانا شروع ہوا۔ اس میں ایک آدمی بچے کےساتھ جاتا دکھتا ہے اور شرڈی میں پولیس کے ذریعہ اسے اٹھایا جاتا ہے۔ ویڈیو میں بچہ صحافیوں کو یہ کہتے ہوئے نظر آتا ہے کہ اسے بلڈھانہ میں ایک آدمی کے ذریعہ اغوا کیا گیا تھا۔

جانچ میں پتہ چلا ہے کہ یہ صرف آدھی کہانی ہے۔ پولیس نے کہا کہ اس ویڈیو کلپ سے بھی چھیڑ چھاڑ کی گئی تھی۔ یہ کلپ اس سچائی کو نہیں دکھاتا کہ لڑکے نے بعد میں اپنی کہانی واپس لی تھی اور کہا تھا کہ وہ بلڈھانہ سے شرڈی کے لئے اپنی مرضی سے اس آدمی کے ساتھ آیا تھا۔ وہ آدمی اس کی فیملی کا دوست ہے اور اس نے پہلے جھوٹ اس لئے بولا کیوں کہ اس کی فیملی کو اس آدمی کو پیسے واپس دینے ہیں۔غور طلب ہے کہ ملک کے کئی صوبوں میں سوشل میڈیا پر بچہ چور گینگ کے سرگرم ہونے کی افواہ پھیلی ہوئی ہے۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)