فکر و نظر

مسلم دانشوروں سے راہل گاندھی کی ملاقات : کانگریس کو ماضی کی سیاست سے سیکھ لینی چاہیے

راجیو قدامت پسند اور ترقی پسند مسلمانوں کے بیچ پھنس گئے تھے۔ آخرکار انہوں نے قدامت پسندوں کا ساتھ دیا اور مسلم خواتین تحفظ بل پاس کرا کر سپریم کورٹ کا فیصلہ الٹ دیا۔راہل گاندھی کے لیے بہتر ہوگا کہ وہ ماضی کو دیکھیں کہ راجیو گاندھی نے شاہ بانو کیس کا معاملہ کیسے طے کیا اور اس کے کیا نتائج ہوئے۔

RahulGandhi_PTI

فوٹو: پی ٹی آئی

مسلم دانشوران کے ایک گروپ کے ساتھ راہل گاندھی کی ملاقات گفتگو کا موضوع بن گئی ہے۔ مسلم طبقے کو اس طرح جوڑنے کا خیال اچھا ہے لیکن اس کے ساتھ کئی سوالات بھی اٹھتے ہیں، جن پر کانگریس کو اپنا سیاسی نقطہ نظر واضح کرتے ہوئے فوری توجہ دینی ہوگی۔  ظاہر ہے کہ یہ تبادلہ خیال سن 2019 میں ہونے جا رہے لوک سبھا الیکشن  کے مدِّ نظر کیا گیا ہے۔ اکثریت کی بڑھتی ہوئی طاقت کو دیکھتے ہوئے مسلم طبقے میں اس وقت کچھ باتوں (ممکن ہے غلط فہمی ہوں یا افراط و تفریط) کو لے کر خاصا اضطراب پایا جاتا ہے۔ جیسے پنچایت سے لے کر پارلیامنٹ تک میں مسلمانوں کی گھٹتی نمائندگی، بھیڑ کے ذریعے کیا جانے والا جان لیوا تشدد اور گئو رکشا کا معاملہ وغیرہ۔

یقینی طور پر ان معاملات میں اگلے انتخابات کو 80 فی صد آبادی بمقابلہ 20 فی صد آبادی کا رخ دینے کی گنجائش ہے۔ یہ خدشات اس لیے بھی درست لگتے ہیں کہ ممبئی میں 12 مارچ 2018 کو سونیا گاندھی نے یہ کہا کہ بی جےپی لوگوں کے گلے یہ بات اتارنے میں کامیاب رہی کہ کانگریس ایک “مسلم” پارٹی ہے۔ ساتھ ہی انھوں نے راہل کے بار بار مندروں میں جانے اور پارٹی کی شبیہ سافٹ ہندُتو والی پارٹی بنانے کی کواشش کا بھی دفاع کیا۔  سیاسی حکمت عملی کے طور پر دیکھیں تو بدھ کو ہوئی اس ملاقات میں شفافیت اور مقصدیت کی کمی تھی۔

اگر اس کے پیچھے مقصد مسلم ووٹرس کو متحد کرنا تھا تو اس میں مذہبی اور ان شخصیتوں کی غیر موجودگی ناقابل فہم ہے، جن کا مسلم سماج میں اثر ہے۔ ملاقاتیوں کی فہرست میں لبرل و بائیں بازو سے متاثر دانشوران اور پیشہ وروں کی اکثریت تھی، جن کے افکار و خیالات میں بر سرِ اقتدار متحدہ محاذ کی سرکار سے گہری نفرت، نہرو-گاندھی خاندان سے ہمدردی اور بائیں بازو کی طرز پر معاشرے کی فلاح کی خواہش یکساں طور پر پائی جاتی ہے۔ ایسے میں کانگریس کی قیادت کے سامنے، اُس کی فکر و طرزِعمل سے متضاد خیالات پیش کرنا اور اس کوآئینہ دکھانے کی گنجائش کم سے کم رہ جاتی ہے۔

لبرل، روشن خیال اور جدید خیالات سے متصف کمیونٹی کا خیال بہت اعلیٰ اور قابل احترام ہے، لیکن ایسی پارٹی کے لیے جو کسی بھی کمیونٹی کے ووٹ بڑے پیمانے پر چاہتی ہو، روایت پسند طبقے کو نشانہ بنانا، اسے نظر انداز کرنا یا علاحدہ کر دینا کسی بھی طرح سے فائدہ مند نہیں ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں کے یہاں مذہبی عقائد کی بہت اہمیت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ تین طلاق کے خلاف کروڑوں مسلمانوں کے دستخط حاصل کر پایا۔

یہی نہیں ملک کے مختلف چھوٹے بڑے شہروں میں لاکھوں برقعہ پوش خواتین کو احتجاجی مظاہروں کے لیے باہر نکالنے اور منموہن سنگھ کی قیادت والی یو پی اے سرکار کو دفعہ 377 سے چھیڑ چھاڑ کرنے سے روکنے میں کامیاب رہا۔ جبکہ مسلم معاشرہ جن معاملات میں منقسم تھا، ان میں بھی کانگریس کوئی واضح رخ نہیں اپنا سکی۔ جیسے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی طلبہ یونین کے دفتر میں محمد علی جناح کی تصویر کالگا ہونا یا اے ایم یو میں ہی پروفیشنل سیٹس کے “داخلی کوٹے” کو برقرار رکھنے کی حمایت یا جامعہ ملیہ اسلامیہ، اے ایم یو و دیگر اقلیتی اداروں میں دلِتوں، درج فہرست ذاتوں، پچھڑے طبقات کو ریزرویشن دینے کے معاملات۔

اگر کوئی گہرائی سے دیکھے تو پائےگا کہ کانگریس کے سامنے بہت سے تضادات اور ایسے معاملات ہیں جنہیں منموہن سرکار نے جان بوجھ کر ان سُلجھا ہی چھوڑ دیا۔ مثلاً سرکاری فائلوں میں اے ایم یو کو اقلیتی ادارہ نہیں کہا گیا ہے، بلکہ لکھا گیا ہے “اسے ہندوستانی مسلمانوں نے قائم کیا۔” اس کا کوئی جواز نہیں ہے کہ اپنے دورِ اقتدار میں کانگریس سرکار مسلم پرسنل لا (شریعت) ایپلیکیشن ایکٹ 1937 میں ترمیم کرنے میں ناکام رہی۔ اگر کانگریس اُس میں ترمیم کر دیتی تو ایسے بہت سے معاملات سے بچا جا سکتا تھا، جو آج موضوعِ بحث بنے رہتے اور عموماً ہندتووادی سیاست کو ہی فائدہ پہنچاتے ہیں۔ جیسے نان نفقہ، کثرتِ ازدواج اور جنسی تعلقات کی رضامندی دینے کی عمر۔

یہاں تک کہ دارالقضا کے نظام کو توسیع دینے والے معاملے کو لے کر بھی کانگریس ابھی گومگو کے عالم میں ہے۔ ایسے وقت جبکہ کرناٹک میں کانگریس سرکار کے وزیر برائے اقلیتی امور نے مسلم پرسنل لا بورڈ کے اس فیصلے کی ستائش اور استقبال کیا، پارٹی کی مرکزی قیادت نے خاموش رہنا مناسب سمجھا۔ حالانکہ نظامِ دارالقضا اور کئی دہوں سے اس کے جاری رہنے کی حمایت میں کئی دلائل دیے جا سکتے ہیں. کتنا قابلِ رحم ہے کہ ایک قدیمی  پارٹی اس حالت میں بھی نہیں ہے کہ وہ ببانگِ دُہل کہہ سکے کہ ایک زندہ اور ترقی پسند معاشرہ، معاشرتی اور مذہبی اصلاح کا عمل ازخود جاری رہتا ہے۔ اصل میں پارٹی کو خوف ہے کہ ایسی کوئی بات اسے سیاسی نقصان پہنچا سکتی ہے۔ شترمرغ کی طرح ریت میں سر چھپا لینا ہی پارٹی کو نہ ادھر کا رکھتا ہے نہ ادھر کا۔

اسی طرح راجستھان، مدھیہ پردیش، جھارکھنڈ یا کسی دیگر ریاست میں ہونے والے ہجومی تشدد پر پارٹی مون دھارن کر لیتی ہے۔ یہاں تک کہ گئو تحفظ کے نام پر ہونے والے ہنگاموں پر بھی یہ خاموشی برقرار ہتی ہے۔ متاثرین کو کسی طرح کی حد یہ ہے کہ قانونی امداد بھی نہیں پہنچائی جاتی۔ کانگریس سیوا دل یعنی مبینہ سدبھاونا کے سپاہی ان متاثرین سے اظہارِ یکجہتی کے لیے کبھی کوئی مارچ نہیں نکالتے۔ ساری تگ و دو صرف پریس ریلیز یا ٹوئٹر پر مذمت کرنے تک محدود رہتی ہے۔ زمینی سطح پر کوئی ٹھوس قدم دکھائی نہیں پڑتا۔

کانگریس کی جواں سال قیادت ہر انتخاب جیتنے کو بیتاب دکھائی دیتی ہے۔ اس خواہش کو پورا کرنے کے لیے اسے بی جے پی کا سامنا کرنا ہے، جس نے اکثریتی طبقے کو گرفت  میں لے رکھا ہے۔ ساتھ ہی وہ ممتا بنرجی، اکھلیش یادو اور مایاوتی کی طرح اقلیتی حقوق کی ٹھیکےدار بھی نہیں دکھنا چاہتی۔ ایک مستقل حکمت عملی و استقلال کے فقدان، زمینی سطح پر عدم فعالیت کانگریس کو دو ملا میں مرغی حرام والی پوزیشن پر پہنچا دینے کی اہلیت رکھتے ہیں۔راہل کے لیے بہتر ہوگا کہ وہ ماضی کو دیکھیں کہ راجیو گاندھی نے شاہ بانو کیس کا معاملہ کیسے طے کیا اور اس کے کیا نتائج ہوئے۔

کئی لوگوں کی نظر میں اس کے بعد پارٹی کا مستقل تنزل ہی ہوا۔ وکیل محمد احمد اور ان کی شریکِ حیات شاہ بانو بیگم کے بیچ طلاق کے مقدمے کا فیصلہ، جسے عموماً شاہ بانو کیس بھی کہا جاتا ہے، سپریم کورٹ کے پانچ ججوں کی بنچ نے 23 اپریل 1985 کو سنایا تھا۔ عدالتِ عالیہ نے کہا کہ فوجداری ضابطہ 125 کے تحت ایک مطلقہ مسلم خاتون کو اس کے شوہر کی طرف سے گزارہ بھتہ پانے کا حق ہے۔ تب وزیرِاعظم راجیو گاندھی نے پہلے تو اس فیصلے کا استقبال کیا، اس کے بعد انہوں نے مسلم علما کی بات سنی، جن کے مطابق یہ فیصلہ شریعتِ اسلامی میں دخل اندازی تھا۔

اس معاملے میں راجیو کی ہچکچاہٹ دیکھ ملک کی لبرل اور بائیں بازو کے خیالات کی حامی 125 ممتاز مسلم شخصیتوں نے انہیں ایک عرضداشت سونپی۔ اس میں اصرار کیا گیا تھا کہ دفعہ 125 میں کوئی ترمیم نہ کی جائے، نیز مسلم مطلقہ خواتین کے شوہر سے گزارہ بھتہ پانے کے حقوق کا تحفظ کیا جائے۔ اس عرضداشت پر دستخط کرنے والوں میں پروفیسر رئیس احمد، علی سردار جعفری، عابد حسین، پروفیسر عرفان حبیب، خواجہ احمد عباس، پروفیسر مونس رضا، پروفیسر رشیدالدین خاں، بدرالدین طیب جی، جاوید اختر، شبانہ اعظمی، سعید مرزا و دیگر کئی لوگ شامل تھے۔

راجیو قدامت پسند اور ترقی پسند مسلمانوں کے بیچ پھنس گئے تھے۔ آخرکار انہوں نے قدامت پسندوں کا ساتھ دیا اور مسلم خواتین تحفظ بل پاس کرا کر سپریم کورٹ کا فیصلہ الٹ دیا۔ کانگریس کے کچھ لوگ ابھی بھی اس غلطی پر اظہارِ ندامت کرتے ہیں۔کسی کمیونٹی پر خصوصی توجہ دینے کا ہمیشہ استقبال کیا جانا چاہیے، لیکن اس کا سیاسی رخ کیا ہوگا، اس کا تجزیہ بھی اہم ہوتا ہے۔ خاص طور سے تب، جب عام الیکشن نزدیک ہوں۔

(صحافی و قلمکار رشید قدوائی اوآرایف کے وزیٹنگ فیلو ہیں۔)