خبریں

ہاپوڑ لنچنگ کے عینی شاہد کا الزام ؛ پولیس قاسم کے قاتلوں سے ملی ہوئی ہے

ہاپوڑلنچنگ معاملے کے عینی شاہد سمیع الدین نے کہا ؛ وہ قاسم اور ان پر تشدد کرنے والوں کو پہچانتے ہیں اور ان میں سے کچھ لوگوں کے نام بھی جانتے ہیں ،لیکن گزشتہ ایک مہینے میں پولیس کے کسی افسر نے ان سے بات نہیں کی ہے۔

سمیع الدین / فوٹو : ہفنگٹن پوسٹ

سمیع الدین / فوٹو : ہفنگٹن پوسٹ

نئی دہلی: اتر پردیش کے ہاپوڑ میں گئو کشی کے الزام میں بھیڑ نے پیٹ پیٹ کر  قاسم کوقتل کر دیا تھا۔اس ماب لنچنگ کے عینی شاہد اور بھیڑ کے ہاتھوں زخمی ہونے والے سمیع الدین نے  دی وائر سے اپنی بات چیت میں کہا کہ پولیس قاسم کے قاتلوں اور ان کو مارنے والوں کے ساتھ ملی ہوئی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ وہ قاسم اور ان پر تشدد کرنے والوں کو پہچانتے ہیں اور ان میں سے کچھ کے نام بھی جانتے ہیں لیکن گزشتہ ایک مہینے میں پولیس کے کسی افسر نے ان سے بات چیت نہیں کی ہے۔

انہوں نے  دی وائر سے بات کرتے ہوئے بھیڑ میں شامل 5 لوگوں کے نام بھی بتائے ۔ انہوں نے کہا؛ مانگے ولد پریم پال،کرن پال،رنکو رانا،ہری اوم اور للت یہ لوگ مجھے اور قاسم کو مار رہے تھے ۔ان کے علاوہ اور بھی بہت سے لوگ مجھے مار رہے تھے جن کو دیکھ کر میں پہچان لوں گا۔مقامی لیڈردنیش تومر کے مطابق ،کرن پال اور ہری اوم پنچایت سمیتی کے  صدر کنچھت سسودیا کے رشتہ دار ہیں۔غور طلب ہے کہ اس سے پہلے  گزشتہ ماہ   جون میں سمیع کے بھائی مہر الدین نے دہلی پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس کے دوران  اس معاملے کو منصوبہ بند سازش بتایا تھا۔

سمیع الدین نے اس  دن کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ ؛ ان کے رشتے میں کسی کی موت ہو گئی تھی۔ جنازہ میں جانے سے پہلے وہ اپنے کھیت میں چارہ لانے کے گئے۔کھیت میں ہی جب وہ اپنے  ساتھی حسن کے ساتھ بیڑی پی رہے تھے تبھی انہوں نے قاسم کو پٹتے دیکھا، وہ دونوں وہاں ان کو بچا نے کے لئے پہنچے  تو  بھیڑ ان پر بھی ٹوٹ پڑی۔انہوں نے مزید کہاکہ؛حسن جان بچا کر بھاگ نکلنے میں کامیاب رہا۔اس کے بعد20-25 لوگوں کی بھیڑ نے قاسم اور سمیع الدین کو  خوب مارا۔وہ کہتے ہیں؛

وہ لات ،گھونسوں،ڈنڈے اور لاٹھی سے ہمیں مار رہے تھے۔اس کے بعد مجھے اور قاسم کو مارتے ہوئے  گھسیٹ کر  بجھیڑا گاؤں کے دیوی مندر کی طرف لے جا رہے تھے۔راستے میں جو بھی ملتا وہ ہمیں مار رہا تھا۔اس کے بعد میں بے ہوش گیا۔کوئی بہت نزدیک سے کچھ بولتا تو مجھے سنائی پڑتا تھا۔میری آنکھ نہیں کھل رہی تھی۔ وہ آگےکہتے ہیں  کہ پولیس کب آئی انہیں اس کا احساس نہیں ہوا۔اس کے بعد پھر پولیس نے ان کے انگوٹھے کا چھاپ لیا ۔انگوٹھے کے چھاپ  لینے کا احساس اس لئے ہو گیا کہ اس سے ان کے انگوٹھے میں درد ہو رہا تھا۔

اس معاملے کے بعد سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوا تھا جس میں کچھ لوگ گالی دیتے ہوئے اور سمیع الدین کی داڑھی پکڑ کر ان کے ساتھ زیادتی کرتے نظر آرہے ہیں ۔ سمیع الدین اس کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں؛ انہوں نے کہا کہ تم نے گائے ذبح کیا ہے تو میں نے پوچھا کہ گائے کہاں ہے؟چھری یا کلہاڑی کہاں ہے؟انہوں نے کچھ نہیں سنا اور پیٹتے رہے۔

اس روداد میں انہوں نے اپنے اندیشے کا بھی اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا؛ انہیں ڈر ہے کہ بھیڑ میں شامل لوگ اور پلکھوا تھانہ کی پولیس ان کو اور ان کی فیملی کوڈرانے دھمکانے کی کوشش کر سکتی ہے۔سمیع الدین بھیڑ کے ہاتھوں بری طرح زخمی ہو گئے تھے۔15 دنوں تک ان کا علاج ہاپوڑ کے دیو آنند اسپتال میں چلا۔پھر 6 جون سے دہلی کے الشفا اسپتال میں ان کا علاج چل رہا تھا۔

دی وائر سے ایک بات چیت میں ہیومن رائٹس وکیل ورنداگروور نے بتایا کہ سمیع الدین، ان کے بھائی یاسین اور مقامی لیڈر دنیش تومر  کے بیان کی روشنی میں  ہاپوڑ میں ہوئے تشددکی صحیح تفصیل سنیچر کو میرٹھ ژون کے آئی جی،اے ڈی جی اور ہاپوڑ کے ایس پی کو کوریئر کے ذیعہ بھیجی گئی ہے۔اس  میں سمیع الدین نے  ان پرتشدد کرنے والوں اور اس معاملےکو غلط روپ دینے والے پولیس افسروں کے خلاف قانونی کارروائی کی مانگ کی ہے۔اس میں انہوں نے اس معاملے کی جانچ  پلکھوا تھانہ سے نہیں کرانے کی گزارش کی ہے کیوں کہ اب انہیں وہاں کی پولیس پر کوئی بھروسہ نہیں ہے۔

واضح ہو کہ اس معاملے میں پلکھوا تھانہ  پولیس نے اس معاملے کو روڈ ریج کا معاملہ بتاتے ہوئے ایف آئی آر درج کیا اوراس ایف آئی آر پر سمیع الدین کے بھائی یاسین کو دستخط کرنے پر مجبور کیا۔یاسین نے دی وائرسے بات کرتے ہوئے کہا؛پولیس نے مجھ سے کہا کہ تم کو بھی جیل بھیج دیں گے۔ اس نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ پولیس نے دستخط کرانے سےپہلے تک ان کے بھائی کا صحیح پتہ نہیں بتایا۔ان کی بات کی تصدیق کرتے ہوئے دنیش تومر نے بتایا کہ پلکھوا تھانہ پولیس کے دباؤ میں انہوں نے غلط ایف آئی آر لکھا ۔انہوں نے کہا ؛ سی او (سرکل آفیسر )پون کمار نے کہا کہ قاسم کی موت ہو چکی ہےاور آپ جانتے ہو کس کی سرکار ہے؟پولیس کے ڈرانے دھمکانے کی وجہ سے انہوں نے اس تشدد کا سبب موٹر سائیکل ٹکر کو بتاتے ہوئے ایف آئی آر لکھا  جس پر یاسین  سے دستخط لیا گیا۔

غور طلب ہے کہ 18 جولائی کو ہوئے اس تشدد میں قاسم نامی ایک شخص کی موت ہو گئی تھی۔ان کو مارنے والی بھیڑ کا الزام تھا کہ قاسم گائے کاٹتا ہے ۔قاسم کے بارے میں پوچھے جانے پر دنیش تومر نے بتایا کہ وہ قریشی تھا ۔جانور خریدنے بیچنے کا کام کرتا تھا۔وہ گئو کشی کے معاملے میں  کئی بار جیل بھی جا چکا تھا لیکن اس دن گئو کشی کا کوئی واقعہ نہیں ہوا تھا۔

فوٹو: ٹوئٹر

فوٹو: ٹوئٹر

ٹائمس آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق  اس واقعہ کے بعدحاصل ہونے والے ایک ویڈیو اور سمیع الدین کے بیان کی بنیاد پر پولیس نے 11 لوگوں کے خلاف معاملہ درج کیا ۔ان میں سے 4 ملز گرفتار ہوئے  جب کہ 7 ملزمین کورٹ کے غیر ضمانتی  وارنٹ کے باوجود آزاد ہیں۔اس کے علاوہ گرفتار ہونے والے 4 ملزمین میں سے 3 ہی اب جیل میں ہیں کیوں کہ ملزم یدھشٹر سسودیا کو عدالت سے ضمانت مل چکی ہے۔

اس معاملے کے بعد سوشل میڈیا پر ایک ویڈووائرل ہوا تھا جس میں سمیع الدین کو کچھ نوجوان لڑکے ڈراتے اور گالیاں دیتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔اس کے علاوہ ایک فوٹو بھی وائرل ہواتھا جس میں پولیس کے افسر قاسم کو گھسیٹتی بھیڑ کی نگرانی کرتے ہوئے دکھ رہے ہیں۔اس کے بعد مختلف  طرح کی تنقیدوں کا سامنا کررہی یوپی پولیس نے ٹوئٹ کرکے معافی مانگی تھی۔

اس تشدد میں زخمی سمیع الدین یاد کرتے ہیں کہ دو سال پہلے بھی وہاں اس طرح  کی کشیدگی ہوئی تھی۔ کھیت میں کسی نے گائے کا کھال پھینک دیا تھا۔ اس کی خبر پاکر بجھیڑا گاؤں کے لوگ مداپور میں آ گئے تھے اور فرقہ ورانہ کشیدگی تیز ہونے والی تھی لیکن اس سے پہلے پولیس وہاں آگئی  اور حالات  کوبے قابو نہیں ہونے دیا۔

سمیع الدین  ہاپوڑ ضلع کے مدا پور گاؤں میں رہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مارنے والے بھیڑ میں سبھی لوگ پڑوس کے گاؤں بجھیڑا سے آئے تھے اور وہ مارتے ہوئے انہیں بجھیڑا کے دیوی مندر تک لے گئے تھے۔دنیش تومر نے بتایا کہ بجھیڑا گاؤں  میں بڑی آبادی اونچی ذات کے لوگوں کی ہے ۔80۔70 فیصد آبادی ٹھاکراور راجپوت کی ہے۔ جبکہ سمیع الدین  کے مطابق ان کے گاؤں مدا پور میں زیادہ مسلمان ہیں اور کچھ  آبادی ہریجن کی ہے۔

(خبررساں ایجنسی پی ٹی آئی کے ان پٹ کے ساتھ)