خبریں

پولیس شک کی بنیاد پر کسی کی غیر منقولہ جائیداد کو ضبط نہیں کر سکتی: چھتیس گڑھ ہائی کورٹ

کورٹ نے اس معاملے میں وشوناتھ بنام ریاست جھارکھنڈ معاملے میں دیے  گئے  جھارکھنڈ کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیا جس میں کہا گیاتھا کہ جانچ کے سلسلے میں سی آر پی سی کی دفعہ 102 کے تحت پولیس کسی غیر منقولہ جائیداد کو سیل نہیں کر سکتی۔

HighCourt_CG

نئی دہلی: چھتیس گڑھ  ہائی کورٹ نے نثار حسین بنام  ریاست چھتیس گڑھ معاملے سے متعلق اپنے فیصلے میں کہا  کہ پولیس کو غیر منقولہ جائیدادکو  ضبط کرنے  کا حق نہیں ہے اور سی آر پی سی کی دفعہ 102 کے تحت  ’ضبط ‘کا مطلب ہے غیر منقولہ جائیداد کو اپنے قبضے میں لینا۔جسٹس سنجے کے اگروال نے سدھیر وسنت کرناٹکی  محی الدین محمد شیخ داؤد بنام ریاست مہاراشٹر معاملے میں بامبے ہائی کورٹ کے مکمل  بنچ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سی آر پی سی کی دفعہ 102 کے تحت کارروائی کرتے ہوئے پولیس غیر منقولہ جائیداد کو ضبط نہیں کر سکتی۔

سی آرپی سی کی دفعہ 102 کچھ جائیداد کو ضبط کرنے کے بارے میں پولیس کے اختیارات سے متعلق ہے۔اس میں کہا گیا ہے؛ کوئی پولیس افسر ایسے کسی بھی جائیداد کو ضبط نہیں کر سکتی جس کے بارے میں شک یا الزام ہے کہ وہ چرائی گئی ہے یا کسی جرم سے اس کا تعلق ہے۔اس معاملے میں پولیس نے اس بنیاد پر دایک دکان کو سیل کر دیا کہ اس دکان میں رکھی کچھ چیزوں کا تعلق جرم سے ہے۔

کورٹ نے اس معاملے میں وشوناتھ بنام ریاست جھارکھنڈ معاملے میں دیے  گئے  جھارکھنڈ کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیا جس میں کہا گیاتھا کہ جانچ کے سلسلے میں سی آر پی سی کی دفعہ 102 کے تحت پولیس کسی غیر منقولہ جائیداد کو سیل نہیں کر سکتی۔بنچ نے کہا؛

سی آر پی سی کی دفعہ 102 کے دائرہ اوراسکوپ  کو دھیان میں رکھتے ہوئے اور سدھیر وسنت کرناٹکی محی الدین محمد شیخ داؤد معاملے میں بامبے ہائی کورٹ کے مکمل  بنچ کے فیصلے کو دیکھتے ہوئے اس کورٹ کی بھی یہی رائے ہے کہ ضبط کا مطلب ہے منقولہ جائیداد کی حقیقی ضبطی۔میں غیر منقولہ جائیداد کو سیل کرنے کے بارےمیں سی آر پی سی کی دفعہ 102(1) کے تحت پولیس افسر کے اخیتارات کے بارے میں بامبے ہائی کورٹ کے مکمل  بنچ کے فیصلے سے پورا اتفاق رکھتا ہوں۔

اس کے بعد کورٹ نے ایس ایچ او کو غیر منقولہ جائیداد پر لگائے گئے سیل کو ہٹانے کا حکم دیا اور دکان میں رکھی چیزوں کی لسٹ تیار کرنے کے بعد اس جگہ کو خالی کرنے کی ہدایت دی۔پولیس کو یہ حکم بھی دیا گیا کہ وہ اس طرح ضبط کی گئی چیزوں کو ضرورت پڑنے پر کورٹ میں پیش کرے۔