خبریں

کاس گنج : 350 پولیس اہلکاروں کی نگرانی میں 80 سال بعد گھوڑے پر نکلی دلت کی بارات

کاس گنج ضلع کے نظام پور گاؤں میں ٹھاکروں نے دھمکی دی تھی کہ اگر گاؤں میں گھوڑے پر بیٹھ کر کسی دلت کی بارات نکلی تو دونوں کمیونٹی میں تصادم کےحالات پیدا ہو جائیں گے۔

فوٹو: اے این آئی

فوٹو: اے این آئی

نئی دہلی :اتر پردیش میں کاس گنج ضلع کے نظام پور گاؤں میں پی اے سی اور پولیس کی نگرانی میں ایک دلت کی شادی کرائی گئی۔بتایا جارہا ہے کہ تقریبا 380ََ پولیس اہلکاروں کی موجودگی میں اتوار کو پر امن طریقے سے یہ شادی انجام پذیر ہوئی۔خبر رساں ایجنسی اے این آئی کے مطابق اس گاؤں میں 80 سال بعد کسی دلت شخص کی گھوڑے کی بگّی پر بٹھا کر بارات نکالی گئی ہے۔

ہاتھ رس کے رہنے والے 27 سال کے دولہے سنجے جاٹو نے کہاکہ؛ اونچی ذات کے لوگوں نے کہا کہ اس سے پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا اور اب وہ ہم پر حملہ کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں لیکن ہمیں ڈر نہیں ہے  کیوں کہ ہمیں پولیس کی سیکورٹی ملی ہوئی ہے۔

ٹائمس آف انڈیا  کی خبر کے مطابق 6 مہینے پہلے نظام گاؤں میں ٹھاکر ذات کے لوگوں نے دھمکی دی تھی کہ اگر گاؤں میں گھوڑے پر بیٹھ کر دلت کی بارات نکلی تو پھر دونوں کمیونٹی میں تصادم کے حالات پیدا ہو جائیں گے۔اس لیے لا ء اینڈ آرڈربنائے  رکھنے کے لئے پولیس سیکورٹی دی گئی ۔اس  اخبار سے بات کرتے ہوئے سنجے نے کہا کہ؛ہم نے یہ لڑائی اپنے سماج کے لئے عزت،وقار اور برابری پانے کے لئے لڑی ہے۔نہ تو ہمارا سماج اور نہ ہی میں ٹھاکروں کے خلاف  ہیں بلکہ ہم ذات پات کی بنا پر ہونے والے بھید بھاؤ کے خلاف ہیں۔

 اس شادی کو لے کر گزشتہ 6 مہینے سے تنازعہ چل رہا ہے۔سنجے جاٹو چاہتے تھے کہ وہ اپنی شادی میں گھوڑے پر بیٹھ کر جائیں لیکن گاؤں کے ٹھاکراس کی حمایت نہیں کر رہے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ ہمارے گاؤں کی یہ روایت نہیں ہے اور ایک دلت نوجوان کو گھوڑے پر بٹھاکر گاؤں میں نہیں گھمایا جا سکتا ہے۔دوسری طرف دلہن شیتل نے اس روایت کے ٹوٹنے پر خوشی ظاہر کی۔انہوں نے کہاکہ؛میں خوش ہوں کہ میرے شوہر کی وجہ سے اس گاؤں کی صدیوں پرانی بھید بھاؤ پر مبنی  روایت ٹوٹ گئی ۔گاؤں کے ٹھاکر دلتوں کو دبا کر رکھتے تھے۔گزشتہ 4 دہائیوں میں نظام پور گاؤں کے دلتوں کے بارات نکالنے کی وجہ سے ٹھاکروں نے ان پر تین بار حملہ کیا لیکن اب یہ چیز بدل چکی ہے۔

اس تقریب کے دوران پولیس نے پورے تحفظ کے ساتھ دولہے کو گاؤں  تک پہنچایا اور شادی کے دوران وہاں موجود رہے۔کاس گنج سے سب ڈویژن مجسٹریٹ دیویندر پرتاپ سنگھ نے ٹائمس آف انڈیا کو بتایاکہ؛ 6 پولیس تھانوں سے 350 سے زیادہ پولیس اہلکار،پی اے سی جوان،ایک اے ایس پی اور سرکل آفیسر شادی کے دوران دلت فیملی کی حفاظت میں لگے ہوئے تھے،جس راستے سے بارات گزر رہی تھی ادھر کی چھتوں پر پولیس والے ہتھیار کے ساتھ موجود تھے تاکہ کوئی مسئلہ نہ پیدا ہو۔پولیس اہلکاروں کے علاوہ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ راکیش کمار،ایس ڈی ایم دیویندر پرتاپ سنگھ اور نائب تحصیلدار کیرتی چودھری بھی حالات کا جائزہ  لینے کے لئے شادی کی جگہ پر موجود تھے۔

نظام پور گاؤں کے رہنے والے اجے کمار نے بتایاکہ؛ہم نے کبھی کسی بارات کے لئےاتنی کڑی سیکورٹی نہیں دیکھی تھی۔ہاتھ رس،کاس گنج بارڈر سے لے کرنظام پور گاؤں تک پورا علاقہ پولیس والوں سے بھرا ہواتھا۔وہیں ایک دوسرے شخص سنیل سنگھ نے بتایا کہ پولیس فورس کی وجہ سے زیادہ تر اونچی ذات کے لوگ یا تو اپنےگھروں میں تالا لگا کر اندر بیٹھے تھے یا پھر ایک دو دن کے لئے گھر چھوڑ کر کہیں باہرچلے گئے تھے۔بارات کو پورےگاؤں میں گھمایا گیا جو کہ ٹھاکروں کے گھروں کے راستے سے بھی ہو کر گزرا۔واضح ہو کہ پہلے یہ شادی 20 اپریل کو ہونے والی تھی لیکن لڑکی  کی عمر 18 سال سے کم ہونے کی وجہ سے کچھ مہینے بعد شادی کرانے کا فیصلہ لیا گیا تھا۔گاؤں کی مکھیا کانتی دیوی نے اس شادی کی مخالفت کی تھی۔وہ ٹھاکر گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ گاؤں کی یہ روایت نہیں ہے اور اس کی وجہ سے قانونی مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے۔قابل ذکر ہے کہ مدھیہ پردیش ،راجستھان،گجرات اور ہریانہ میں دلتوں کی بارات روکنے کے معاملے سامنے آتے رہے ہیں۔