فکر و نظر

ایودھیا : مسلم راشٹریہ منچ کی خیر سگالی تقریب  اور آر ایس ایس کی فضیحت

ایودھیا میں سریو کے پانی سے وضو کرنے اوروہیں  نماز پڑھنے سے مسلم راشٹریہ منچ کے مبینہ خیر سگالی پروگرام  سے آر ایس ایس کے پلا جھاڑنے کے بعد پورے پروگرام میں تبدیلی کر دی گئی۔

ایودھیا (فوٹو بشکریہ : وکی میڈیا)

ایودھیا (فوٹو بشکریہ : وکی میڈیا)

خیرسگالی کی کوئی مہم شروع کرنے یا اس سے جڑنے کی راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کی کوئی تاریخ ہے، نہ ہی مشق، اس لئے اپنے سیاسی فرنٹ بھارتیہ جنتا پارٹی کے اقتدار اور سیاست کی مجبوریوں کے تابع ہوکر نئی غلط فہمی پیداکرنے کے لئے دکھاوے کے طور پر بھی وہ ایسی کوئی قواعد شروع کرتا ہے تو اس کو انجام تک نہیں پہنچا پاتا۔الٹےاس کی جگ ہنسائی ہوتی  ہے اور اس کے داخلی انتشار ہیں کہ چھپانے کی کوشش میں اور بے پردہ ہو جاتے ہیں۔  گزشتہ جمعرات کو ایودھیا میں اپنے ضمنی تنظیم مسلم راشٹریہ منچ کی ایسی ہی ایک قواعد جب آخری لمحوں میں اس کو خود پر بھاری پڑتی نظر آنے لگی تو اس نے اس سے کنارہ کر لینے میں ہی بہتر سمجھا۔

دراصل، مسلم راشٹریہ منچ کی اودھ اکائی ادھر زور شور سے تشہیر کر رہی تھی کہ 12 جولائی کو اس کی سرپرستی میں کوئی ڈیڑھ ہزار مسلم دھرم گرو رام مندر تعمیر سے متعلق اپنی کمیونٹی کی حمایت جتانے ایودھیا آئیں‌گے، جہاں وہ پاکیزہ صلیلہ سریو کے پانی سے وضو کرکے اس کے ہی کنارے پر نماز پڑھیں‌گے۔نماز کے ساتھ قرآن خوانی ہوگی اور ملک میں  امن و چین اور امن کی دعائیں مانگی جائیں‌گی۔  یہ بھی کہا جا رہا تھا کہ اس کے اس پروگرام کو اتر پردیش کی یوگی آدتیہ ناتھ حکومت کی حمایت حاصل ہے۔

یہ حمایت اس سے بھی ظاہر تھی کہ سنگھ کے ایک رہنما کے ساتھ یوگی حکومت کے اقلیتی فلاح و بہبود  وقف کے  وزیر لکشمی نارائن چودھری کو اس پروگرام کا خصوصی مہمان بنایا گیا تھا۔فطری طور پر منچ کو امید تھی کہ اس کے رام مندر کے حامی مسلم دھرم گروؤں کے پیچھے ہندو عقیدت مندوں کا ریلا لگ جائے‌گا، جس سے نہ صرف ایودھیا بلکہ ملک بھر میں خیر سگالی کا پیغام جائے‌گا۔اس کے ذریعے طے کئے گئے پروگرام کے مطابق مسلم دھرم گروؤں کو ایودھیا کے سینکڑوں صوفی سنتوں کے مزاروں اور مقبروں کی زیارت بھی کرنی تھی۔

منچ کی خاتون رہنما شبانہ اعظمی، جو لکھنو یونیورسٹی میں اسلامی اسٹڈیز کی پروفیسر ہیں، اس انعقاد کو لےکر اتنی پر امید ہو اٹھی تھیں کہ ان کا دعویٰ تھا، ‘اس سے یہ تشہیر کرنے والوں کو کرارا جواب ملے‌گا کہ ایودھیا میں مسلمانوں کو اپنے مذہبی رسوم و رواج پر عمل کرنے کی اجازت نہیں ہے اور سنگھ ان کے خلاف ہے۔  دنیا بھر میں پیغام جائے‌گا کہ ایودھیا ہندو اور مسلمان دونوں کی ہے اور سنگھ مسلمانوں کا سچا دوست ہے۔  ‘پھر بھی غیر جانبدارانہ جانکاروں کو اس بابت کوئی شک نہیں تھا کہ منچ کی یہ ساری قواعد سنگھ پریوار کے اس بڑے منصوبہ کا ہی حصہ ہے، جس کے تحت اس کی اکثر ساری تنظیم نریندر مودی حکومت کے آنے کے بعد سے ابھی کچھ مہینے پہلے تک ایودھیا میں خود کو رام جنم بھومی بابری مسجد کے حل کا سب سے بڑا پیروکار ثابت کرنے میں لگے ہوئے تھے۔

البتہ، تب بھی ان کو مسلمانوں کی مکمل خود سپردگی ہی مطلوب تھی اور وہ چاہتے تھے کہ ملک میں مودی اور اتر پردیش میں یوگی کے اقتدار سے دہشت زدہ مسلمان یکطرفہ طور پر بابری مسجد پر اپنا دعویٰ واپس لےکر عظیم الشان رام مندر کی تعمیر کا راستہ صاف کر دیں۔ہاں، ادھر اس ہدف کی حصولیابی میں کامیاب نہ ہو پانے کے اندیشوں سے دہشت زدہ ہوکر، اور ساتھ ہی، اپنی ‘ نیک خواہشات ‘ کی پول کھلتی دیکھ کر ان تنظیموں  نے اپنا سر بدل لیا تھا اور مندر مسجد تنازعہ کو نئے سرے سے گرمانے لگے تھے۔  یقیناً، 2019 کے لوک سبھا انتخابات کے مدنظر۔

پھر بھی مسلم راشٹریہ منچ کی سرگرمی کا اشارہ یہی تھا کہ سنگھ کی قیادت کے ذریعے اس منصوبہ کو ایک دم سے بند نہیں کیا گیا ہے لیکن اچانک داخلی انتشار گہرائے اور لگا کہ اس قواعد سے تو لینے کے دینے پڑ جائیں‌گے یعنی نیک نیتی اور دوستی کا پیغام تو نہیں ہی دیا جا سکے‌گا، الٹے اپنے ہی چھاؤنی میں لطیفہ شروع ہو جائے‌گا، تو سنگھ نے عین وقت پر اس کو لےکر ایسا رویہ اپنا لیا جیسے مسلم راشٹریہ منچ اس کی فیملی کا ہو ہی نہیں اور نہ ہی اس کے انعقاد سے سنگھ کا کوئی لینادینا ہو۔

اس حوالہ سے، 2002 میں اس وقت کے سنگھ کے صدر کے ایس سدرشن کی پہل پر اندریش کمار کی رہنمائی میں ضمنی تنظیم کے طور پر اس منچ کا قیام کیا گیا تھا اور ایودھیا تنازعہ کے سلسلے میں اس کی عجیب وغریب سرگرمیوں کے سہارے سنگھ اور بی جے پی کے ذریعے اکثر مشتہر کیا جاتا رہتا ہے کہ عام مسلمانوں نے رام مندر کی تعمیر کی مخالفت اور مزاحمت چھوڑ دی ہے اور اب اس کی راہ میں نامراد ‘ سیکلرسٹ ‘ ہی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

دلچسپ بات یہ کہ جیسے ہی خبر آئی کہ ایودھیا کے کچھ سادھو منچ کے ‘سریو پانی سے وضو کرکے نماز پڑھنے ‘ کی مخالفت کر رہے ہیں کیونکہ ان کو لگ رہا ہے کہ اس سے ایک سراسر غلط روایت کا جنم ہوگا اور ہنمان گڑھی کے ایک پجاری نے تو خودسوزی تک کی دھمکی دے ڈالی ہے، سنگھ کی دوستی اور نیک خواہشات پوری طرح شکست خوردہ ہو گئی۔اس کے کل ہند تشہیر کے صدر ارون کمار نے اپنے سرکاری ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ٹوئٹ کر دیا کہ تشہیری ذرائع میں آئی یہ خبر پوری طرح سے بے بنیاد اور جھوٹ ہے کہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے ذریعے ایودھیا میں سریو کنارے پر اجتماعی نماز کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔  ان کے مطابق سنگھ نے ایسے کسی پروگرام کا انعقاد کیا ہی نہیں۔

سنگھ کے یوں پلا جھاڑ لینے کے بعد وہی ہوا، جو اس کے اب تک کی دوستی کے اکثر سارے ‘ ڈراموں ‘ کا ہوتا آیا ہے۔  رنگ میں بھرپور بھنگ کے بعد منچ کے قومی کنوینر مہردھوج عرف مراری داس نے سارا پروگرام رکوا دیا اور عالمی رام کتھا میوزیم میں جمع مبینہ مسلم دھرم گروؤں کو تاریخی نوگزی قبر لے گئے، جہاں وہ سب اقلیتی فلاح و بہبود کے  وزیر کے ذریعے درگاہ پر چادرپوشی کے گواہ بنے۔کئی مدرسوں سے آئے مسلم نوجوانوں نے وہیں درگاہ کے کنارے لگے ہینڈپمپ کے پانی سے وضو کرکے قرآن کی تلاوت کی اور آیت کریمہ پڑھا۔  وزیر نے وہاں یہ ثابت کرنے میں پوری طاقت لگا دی کہ منچ کے پروگرام پر کوئی روک نہیں لگائی گئی۔

ان کے مطابق ‘یہ پروگرام دونوں کمیونٹی کے درمیان یکجہتی کے لئے تھا، تنازعہ بڑھانے کے لئے نہیں، اس لئے کچھ لوگوں نے ہی سہی، اس پر اعتراض کیا تو کنوینر نے خود بدمزگی ٹالنے کے لئے اس کی جگہ بدل دی۔ ‘بعد میں اقلیتی فلاح و بہبود  کی ریاستی حکومت کی اسکیمیں گناتے ہوئے انہوں نے ان اعتراض کرنے والوں کی یہ کہہ کر تنقید کی کہ وہ اپنی دوکان چلانے کے لئے دوسروں کے مذہب کے نقاد بنے رہتے ہیں لیکن اس تنقید کا کوئی مطلب نہیں تھا، کیونکہ ان کے سامنے بیٹھے سامعین جانتے تھے کہ ایسی دکانداری کے لئے تو پوری بھارتیہ جنتا پارٹی مشہور ہے۔

چشم دید بتاتے ہیں کہ پروگرام پر اعلانیہ طور پر روک نہ ہونے کے باوجود پولیس نے اس کے طے وقت پر سریو پل کے مغربی گھاٹ پر مسلم دھرم گروؤں اور مسلم راشٹریہ منچ کے کارکنان کے شک میں عام عقیدت مندوں کو بھی روکنا شروع کر دیا تھا۔اس کی شکایت ہونے پر اس نے منچ کے کارکنان کو پہچان‌کر ان کو الگ سے روکنے کی تیاری کی تھی۔  اس سے صاف ہے کہ انتظامیہ کس کے ساتھ ملی بھگت سے کام کر رہا تھا اور کیوں منچ کی رہنما شبانہ اعظمی نے دو خاتون رہنماؤں کے ساتھ الگ سے جیسےتیسے ساحل سریو جاکر وضو کیا اور اتنے سے ہی مطمئن ہو گئیں؟

ایسے میں خیر سگالی کا کیا  ہی ہونا تھا۔  سو نہیں ہوا، لیکن اس سے بھی زیادہ المناک یہ ہےکہ دوستی کے اس کھیل کو شدت پسندوں نے آخرکار ہار جیت‌کے کھیل میں بدل ڈالا اور اب اس کو لےکر جیت کے جذبہ سے بھر گئے ہیں۔بھرے بھی کیوں نہیں، جس ملک کی گنگاکے ساحل پر بسے بنارس میں مرحوم نذیر بنارسی نے کبھی ڈنکے کی چوٹ پر اعلان کیا تھا کہ ‘سوئیں گے تیری گود میں ایک دن مر‌کے، ہم دم بھی جو توڑیں‌گے، تیرا دم بھر‌کے، ہم نے تو نمازیں بھی پڑھی ہیں اکثر، گنگا تیرے پانی سے وضو کرکے ‘، اسی ملک کی ایودھیا میں انہوں نے ‘ ثابت ‘ کر دیا ہے کہ آج کوئی نذیر کی ہی طرح سریو کے کنارے پر اس کے پانی سے وضو کرکے نماز پڑھنے کی حسرت پالتا ہے، تو بھلےہی وہ ان کے اپنوں کے سایہ میں رہنے کے ہی خواہش مند ہوں، سخاوت ان کا کردار نہیں  ہے۔

لیکن اب سوال صرف ایودھیا اور سریو کا نہیں ہے۔  یہ ہے کہ یہ بڑا ملک کب تک اس طرح کی بدتمیزیاں جھیلنے کی لعنت کا سامنا کرتا رہے‌گا؟

(مضمون نگار آزاد صحافی ہیں اور فیض آباد میں رہتے ہیں۔)