خبریں

بہار :فساد متاثرہ دکانداروں کو کیوں لگ رہا ہے کہ نتیش حکومت ان کو ٹھگ رہی ہے؟ 

گراؤنڈ رپورٹ :بہار کے اورنگ آباد میں مارچ میں رام نومی کے وقت ہوئے فرقہ وارانہ تشدد میں کئی دکانوں میں لوٹ پاٹ کرکے آگ لگا دی گئی تھی۔اس وقت نتیش حکومت نے متاثر دکانداروں کو معاوضہ دینے کی بات کہی تھی، لیکن چار مہینے کے بعد بھی زیادہ تر دکانداروں کو ایک روپیہ بھی معاوضہ نہیں ملا ہے۔

نورالحسن کے گیراج میں جلی ہوئی ٹرک۔(فوٹو :امیش کمار رائے /دی وائر)

نورالحسن کے گیراج میں جلی ہوئی ٹرک۔(فوٹو :امیش کمار رائے /دی وائر)

اورنگ آباد ٹاؤن میں این ایچ-2 پر بائیں طرف بنی گیراج میں رکھی ٹرک کے پچھلے اور اگلے حصے میں دائیں کی طرف کے چکے جلے ہوئے ہیں۔چکہ سے لگے لوہا ایسے باہر نکلے ہوئے ہیں جیسے چمڑا جھلس جانے کے بعد ہڈیاں باہر نکل آئی ہوں۔ٹرک کے قریب جلے ہوئےٹائر کی راکھ پڑی ہے۔راکھ کے درمیان ایک کار ہے۔وہ کار بھی بری طرح برباد ہو چکی ہے۔تقریبا ًچار مہینے پہلے26 مارچ کو اورنگ آباد ٹاؤن میں ہوئےفرقہ وارانہ تشدد کے بعد دکانوں میں لوٹ پاٹ اور آگ زنی کے خوفناک واقعات کے یہ بچے کھچے نشان ہیں۔

مذہبی نفرت کی خوفناک تصویر پیش کرتے یہ نشان اس لئے بھی بچے ہوئے ہیں کیونکہ آگ زنی کے واقعہ کے بعد نتیش حکومت نے وعدہ کیا تھا کہ متاثرین کو جلدی معاوضہ دیا جائے‌گا۔لیکن، اب تک معاوضہ نہیں ملا ہے۔این ایچ-2کے کنارے بنے اس گیراج کونورالحسن چلاتے ہیں۔وہ کہتے ہیں، ‘ٹرک اور کرین سمیت چار گاڑیوں میں خوب توڑپھوڑ کی گئی اور پھر ان کو آگ کے حوالے کر دیا گیا۔اس آگ زنی میں 40 سے 50 لاکھ روپے کا نقصان ہو گیا، لیکن اب تک ایک روپیہ بھی معاوضہ نہیں ملا ہے۔  ‘

نورالحسن بتاتے ہیں، ‘فساد کے بعد انتظامیہ آئی تھی۔انہوں نے نقصان کا تخمینہ کر کے معاوضہ دینے کی یقین دہانی بھی کرائی تھی، لیکن تین مہینہ گزر جانے کے بعد بھی کچھ ہوتا نہیں دکھ رہا ہے۔  ‘اسی سال مارچ میں رام نومی جلوس اور شوبھایاترائیں نکالنے کے دوران بہار کے آدھا درجن ضلعوں میں دو کمیونٹی کے درمیان کشیدگی کے واقعات ہوئے تھے۔کچھ علاقوں میں تشددآمیز واردات بھی ہوئی تھیں۔راجپوتوں کی ٹھیک ٹھاک آبادی کی وجہ سے بہار کا چتوڑ گڑھ کہے جانے والا اورنگ آباد ضلع کے اورنگ آباد ٹاؤن میں سب سے زیادہ تشدد آمیز واردات ہوئی تھیں۔

بتایا جاتا ہے کہ 25 مارچ کو مسلم اکثریتی نواڈیہہ کے نواڈیہہ روڈ سے ہوکر رام نومی کو لےکر بائیک جلوس نکلا تھا۔مسلم کمیونٹی کے لوگوں کا الزام ہے کہ اس جلوس میں قابل اعتراض نعرے لگائے گئے تھے، جس کی مخالفت کرنے پر دونوں کمیونٹی میں کشیدگی پیدا ہو گئی تھی۔لیکن، معاملے کو فوراً ہی ختم کر دیا گیا۔اس کے ایک دن بعد یعنی 26 مارچ کو رام نومی کو لےکر شوبھایاترا نکالی گئی۔چونکہ 25 مارچ کو دو کمیونٹی میں کشیدگی ہوئی تھی، اس لئے انتظامیہ نے احتیاطی طور پر پورے علاقے میں دفعہ 144 لگا دی تھی۔

یہ حکم امتناعی26 کو بھی جاری رہا، لیکن رام نومی کی شوبھایاترا نکالنے کی اجازت دی گئی تھی۔دوپہر کو جلوس رمیش چوک سے ہوکر جامع مسجد کی طرف بڑھ رہی تھی، اسی وقت دکانوں میں توڑپھوڑ اور آگ زنی کی گئی۔غور کرنے والی بات یہ ہے کہ شوبھایاترا جس روڈ سے ہوکر گزر رہی تھی، اس روڈ کی کچھ دکانوں کے ساتھ ہی رمیش چوک سے دائیں طرف جانے والی ایم جی روڈ اور آگے چل‌کر ملنے والی این ایچ-2 کے کنارے کی دکانوں کو بھی نشانہ بنایا گیا تھا۔جبکہ اس روٹ سے شوبھایاترا کا کوئی لینادینا ہی نہیں تھا۔

بلوے میں کتنی دکانوں کو نقصان پہنچایا گیا، اس کو لےکر الگ الگ اعداد و شمار ہیں۔7 اپریل کو اورنگ آباد کے بلاک دفتر کا جائزہ لینے کے لئے ڈی ایم راہل رنجن مہیوال آئے تھے، تو سی اونے میڈیا کے سامنے کہا تھا کہ 99 دکانوں (جن کو نقصان پہنچا ہے) کی شناخت کی گئی ہے۔ان میں خوانچہ ٹھیلا  سے لےکر بڑی دکانیں بھی شامل ہیں۔

اودھیش پرساد کی کپڑے کی دوکان ہے۔وہاں کپڑے کی کئی دوکانیں ہیں، لیکن ان کی دوکان کو ہی نشانہ بنایا گیا۔آگ زنی میں ان کو تقریباً 8 لاکھ روپے کا نقصان ہوا۔(فوٹو : امیش کمار رائے / دی وائر)

اودھیش پرساد کی کپڑے کی دکان ہے۔وہاں کپڑے کی کئی دکانیں ہیں، لیکن ان کی دکان کو ہی نشانہ بنایا گیا۔آگ زنی میں ان کو تقریباً 8 لاکھ روپے کا نقصان ہوا۔(فوٹو : امیش کمار رائے / دی وائر)

وہیں، یونائٹیڈ اگینسٹ ہیٹ نام کے این جی او کے مطابق 50 سے زیادہ دکانوں کو نقصان پہنچایا گیا تھا۔بہر حال، پورے معاملے میں دلچسپ بات یہ ہے کہ ایم جی روڈ گنجان آبادی والا علاقہ ہے۔وہاں قطار میں سینکڑوں بڑی چھوٹی دکانیں گلزار ہیں، لیکن گنی چنی دکانوں کو ہی نشانہ بنایا گیا۔ایک مقامی صحافی کہتے ہیں، ‘جتنی دکانوں کو نقصان پہنچایا گیا، ان میں سے 90 فیصد سے زیادہ دکانیں مسلمانوں کی ہیں۔اس سے صاف طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ بلوائیوں کا مقصد ہی تھا مسلمانوں کی دکانوں کو ٹارگیٹ کرنا۔  ‘

مقامی صحافی کے بیان کی تصدیق رمیش چوک‌کے قریب واقع صدر ہسپتال کے پاس کپڑے کی دکان چلانے والے اودھیش پرساد بھی کرتے ہیں۔بلوائیوں نے ان کی دکان کو بھی آگ کے حوالے کر دیا تھا۔اودھیش پرساد کہتے ہیں، ‘میری دکان میں آگ تو دھوکے( بلوائیوں نے ان کی دکان کو مسلمان کی دکان سمجھ لیا تھا) میں لگا دی گئی تھی۔  ‘ان کی باتوں پر یقین کرنے میں کوئی اگرمگر نہیں، کیونکہ اس قطار میں کپڑے کی اور بھی دکانیں ہیں، لیکن ان کو نقصان نہیں پہنچایا گیا۔

اودھیش پرساد 20 سال سے یہاں کپڑے کی دکان چلا رہے ہیں۔معاملے کے دن 144 لگی ہوئی تھی، اس لئے انہوں نے اپنی دکان بند کر رکھی تھی۔انہوں نے کہا، ‘آگ زنی کی وجہ سے مجھے 7-8 لاکھ کا نقصان ہو گیا۔دو مہینے تک دکان بند رکھنی پڑی۔کسی طرح قرض لےکر دکان کو پھر سے کھڑا کیا۔  ‘ان کو فوراً راحت کے لئے 20 ہزار روپے کا ایک چیک ملا تھا۔لیکن،آگ زنی سے ہوئے نقصان کا معاوضہ ان کو نہیں ملا ہے۔اودھیش پرساد کہتے ہیں، ‘میں نے تمام دستاویز انتظامیہ کو دئے، لیکن کچھ نہیں ہوا۔  ‘

  نورالحسن اور اودھیش پرساد کی طرح ہی ایسے اوربھی دکاندار ہیں، جن کی دکانوں میں رکھا سارا سامان فسادیوں نے پھونک دیا تھا۔واقعہ کے فوراً بعد متاثرین سے مل‌کر انتظامیہ نے ان کو یقین دلایا تھا کہ جلد سے جلد معاوضہ دیا جائے‌گا۔اس یقین دہانی کوچار مہینے ہوگئے، لیکن معاوضہ کے نام پر ان کو پھوٹی کوڑی نہیں ملی۔  حالانکہ، فٹ پاتھ کے دکانداروں اور جن کو بہت کم نقصان ہوا ہے، ان کو 5 ہزار سے لےکر 20 سے 30 ہزار روپے تک کا معاوضہ ملا ہے، مگر جن کو زیادہ نقصان ہوا ہے، ان کو اب تک کچھ نہیں ملا۔

ایسے ہی ایک دکاندار ہے میر اسلم،48 سالہ میر اسلم اورنگ آباد کے ہی علی نگر میں رہتے ہیں۔وہ نورالاسلام کے گیراج کےسامنے ہی بھاری گاڑیوں کے پنکچر بناتے ہیں اور نیا   ٹائر بھی بیچتے ہیں۔15سال سے وہ یہاں دکان چلا رہے ہیں۔انہوں نے دکان کے باہر 150 سے زیادہ   ٹائر رکھے تھے۔بلوائیوں نے تمام ٹائر اور چکے میں ہوا بھرنے کی ٹنکی کو آگ کے حوالے کر دیا تھا۔آگ زنی میں ان کو ڈھائی سے تین لاکھ روپے کا نقصان ہو گیا۔میر اسلم روہانسی آوازمیں کہتے ہیں، ‘انتظامیہ نے جو بھی دستاویز مانگے تھے، دے دیا،لیکن کوئی معاوضہ نہیں ملا۔  ‘

آگ زنی کی وجہ سے میر اسلم کو ایک مہینے تک دوکان بند رکھنی پڑی۔قرض لےکر دوبارہ انہوں نے دوکان کھولی۔ان کو بھی معاوضےکا انتظار ہے۔(فوٹو :امیش کمار رائے / دی وائر)

آگ زنی کی وجہ سے میر اسلم کو ایک مہینے تک دکان بند رکھنی پڑی۔قرض لےکر دوبارہ انہوں نے دکان کھولی۔ان کو بھی معاوضےکا انتظار ہے۔(فوٹو :امیش کمار رائے / دی وائر)

آگ زنی کے بعد ان کو ایک مہینے تک دکان بند رکھنی پڑی۔لیکن، کب تک وہ دکان بند رکھتے، آخر فیملی کے کھانے پینے اور بچوں کی پڑھائی لکھائی بھی تو ہے۔لہذا، انہوں نے قرض لےکر کسی طرح پھر سے دکان کھولی۔وہ بتاتے ہیں، ‘جو نقصان ہوا، اس کی بھرپائی ہونے میں ایک سال لگ جائے‌گا۔’انہوں نے آگے کہا، ‘ ایک بار پتا چلا کہ 5-5 ہزار روپے مالی مدد کے طور پر دئے جا رہے ہیں۔لیکن، میں جب پہنچا، تو پتا چلا کہ پیسہ ختم ہو گیا۔  ‘

محمد شکیل کی دکان ایم جی روڈ میں ہے۔وہ نٹ وولٹ سے لےکر تمام چیزیں بیچتے ہیں۔26 مارچ کی صبح وہ دکان کھولنے آئے تھے، تو پولیس نے کہا کہ دفعہ 144 نافذ ہے، اس لئے دکان نہیں کھول سکتے۔وہ کہتے ہیں،انتظامیہ کی طرف سے منع کئے جانے کی وجہ سے ہم لوگ واپس گھر چلے گئے۔دوپہر کو مقامی لوگوں نے فون کر کے بتایا کہ دکان میں فسادیوں نے آگ لگا دی ہے۔  ‘

شکیل نے بتایا، ‘واقعہ کے بعد دکان کو ہوئے نقصان کا اندازہ کرنے کے لئے سرکاری افسروں کی ٹیم آئی تھی۔وہ تخمینہ کرکے رپورٹ لے گئے۔بتایا گیا کہ راحت فنڈ سے فی الحال 1.5 لاکھ روپے ملے‌گا۔لیکن، ابھی تک ڈیڑھ روپیہ بھی نہیں ملا ہے۔  ‘این ایچ-2پر ہی گاڑی ریپیرنگ کی دکان چلانے والا محمد محفوظ کی دکان تو بچ گئی، لیکن کئی ٹائر اور ہوا بھرنے کی مشین جلا دئے گئے تھے۔انہوں نے کہا، ‘بلوائی دکان بھی جلا ہی دیتے، لیکن دکان سے ہی سٹی ہوئی گیس کی دکان ہے اور اوپری منزل پر لوگ رہتے ہیں۔گیس دکاندار اور دیگر لوگوں نےبلوائیوں سے منت کیں کہ آگ زنی سے گیس سلنڈر پھٹیں گے اور بہت سے لوگ کی موت ہو جائے‌گی، تو انہوں نے دکان چھوڑ دی۔ ‘

محفوظ کو 30سے35 ہزار روپے کا نقصان ہوا تھا۔انہوں نے کہا، ‘معاوضہ کے لئے ڈی ایم کے پاس گئے، تو انہوں نے بلاک دفتر جانے کو کہا۔بلاک دفتر میں گئے، تو واپس ڈی ایم کے پاس جانے کو کہا گیا۔معاوضہ کے نام پر اس دفتر سے اس دفتر میں چکر لگوایا جا رہا ہے۔  ‘ایم جی روڈ میں ہی امروز خان کے کپڑے اور جوتے کی دکان ہے۔بلوائیوں نے جوتے کی دکان کو بری طرح نقصان پہنچایا تھا۔امروز خان کہتے ہیں، ‘میری دکان کے سامنے پولیس کی گاڑی کھڑی تھی، لیکن چار گھنٹے تک بلوائیوں نے دکان کی لوٹ پاٹ کی اور پھر اس کو آگ کے حوالے کر دیا۔کپڑے کی دکان کو بھی وہ نقصان پہنچانا چاہتے تھے، لیکن مذکورہ بلڈنگ کی مالکن (جو ہندو ہیں) نے اس کو کسی طرح بچا لیا۔  ‘

امروز کے مطابق، رام نومی سے ٹھیک تین دن پہلے 16 لاکھ روپے کا اسٹاک منگوایا تھا۔ان کا اندازہ ہے کہ آگ زنی میں55-60 لاکھ روپے کا نقصان ہو گیا۔انہوں نے کہا، ‘ نقصان کا اندازہ کرنے کے لئے ٹیم آئی تھی۔انہوں نے 5 لاکھ کا نقصان بتایا۔میں نے ڈی ایم کو بتایا کہ اس سے زیادہ نقصان ہوا ہے، تو ڈی ایم نے دوبارہ تفتیش ٹیم بنائی۔لیکن، ابھی تک معاوضہ کے نام پر ایک روپیہ بھی نہیں ملا ہے۔  ‘ان کی دکان میں 6 لوگ کام کرتے تھے۔آگ زنی کے بعد کئی دنوں تک دکان بند رہی جس کی وجہ سے 5 ملازم کام کی تلاش میں دوسرے ریاستوں میں چلے گئے۔

امروز خان کی دکان میں کام کرنے والے ایک ملازم نے کہا، ‘آگ زنی کے بعد جتنے دن تک دکان بند رہی، میں بےروزگار رہا۔ گھر چلانے میں بڑی دقت ہوئی۔  ‘امروز خان کہتے ہیں، ‘میری کسی سے دشمنی نہیں تھی۔میں رام نومی اور دیگر مذہبی عمل میں نہ صرف چندہ دیتا تھا بلکہ خود بھی شامل رہتا تھا، لیکن میری دکان کو بھی نشانہ بنایا گیا۔  ‘ان کو کسی کمیونٹی سے نہیں بلکہ نتیش حکومت سے ناراضگی ہے۔انہوں نے کہا، ‘ نتیش کمار کہتے ہیں کہ وہ سیکولر رہنما ہیں، لیکن متاثر دکانداروں کو ان کی حکومت کی طرف سے کسی طرح کا تعاون نہیں ملا ہے۔  ‘اورنگ آباد شہر کونسل کے چیئر مین ادے کمار گپتا نے کہا کہ سبھی تو نہیں مگر کچھ دکانداروں کو معاوضہ دئے جانے کی خبر ہے، لیکن اس بارےمیں تفصیلی اطلاع ڈی ایم دفتر سے ہی ملے‌گی۔

امروز خان کا کہنا ہے کہ ان کے جوتے کی دوکان میں پہلے لوٹ پاٹ کی گئی اور اس کے بعد اس کو آگ کے حوالے کر دیا گیا۔ان کے مطابق،آگ زنی کی وجہ سے ان کو 50 لاکھ کا نقصان ہوا ہے، لیکن معاوضہ میں چونی نہیں ملی۔(فوٹو : امیش کمار رائے / دی وائر)

امروز خان کا کہنا ہے کہ ان کے جوتے کی دکان میں پہلے لوٹ پاٹ کی گئی اور اس کے بعد اس کو آگ کے حوالے کر دیا گیا۔ان کے مطابق،آگ زنی کی وجہ سے ان کو 50 لاکھ کا نقصان ہوا ہے، لیکن معاوضہ میں چونی نہیں ملی۔(فوٹو : امیش کمار رائے / دی وائر)

مقامی ایم ایل اے اور کانگریس رہنما آنند شنکر سنگھ بھی قبول کرتے ہیں کہ زیادہ تر دکانداروں کو معاوضہ نہیں ملا ہے۔انہوں نے کہا، ‘معاوضہ ملنا تو دور نقصان کے نام پر محض خانہ پری کی گئی۔ہم نے اسمبلی میں اس مدعے کو اٹھایا، تب جاکر دوبارہ نقصان کا تخمینہ کیا گیا۔دکانداروں کو اب تک معاوضہ نہیں ملنا نتیش حکومت کی بے حسی کا ثبوت ہے۔  ‘سنگھ نے کہا کہ وہ مانسون سیشن میں دوبارہ اس مدعے کو اٹھائیں‌گے اور متاثرین کو جلد معاوضہ دینے کی مانگ کریں‌گے۔

معاوضہ کو لےکر اورنگ آباد کے ڈی ایم راہل رنجن مہیوال کا رد عمل لینے کے لئے ان کے سرکاری موبائل نمبر پر کال کیا گیا، لیکن انہوں نے فون نہیں اٹھایا۔البتہ، اورنگ آباد کے بلاک  دفتر کے ایک افسر نے نام نہیں چھاپنے کی شرط پر یہ قبول کیا کہ زیادہ تر دکانداروں کو اب تک معاوضہ نہیں ملا ہے۔لیکن، انہوں نے معاوضہ نہیں ملنے کی وجہ سے سرکاری بے حسی کی جگہ دستاویز کا نہیں ہونا بتایا۔انہوں نے کہا، ‘معاوضہ کو لےکر اخباروں میں اشتہار جاری کر کے ضروری دستاویز دفتر میں جمع کرنے کو کہا گیا تھا، لیکن زیادہ تر دکانداروں نے ضروری دستاویز جمع نہیں کئے۔  ‘

متاثر دکاندار مذکورہ افسر کے بیان سے اتفاق نہیں رکھتے۔زیادہ تر دکانداروں کا کہنا ہے کہ جو بھی دستاویز مانگے گئے تھے، جمع کئے گئے۔میر اسلم نے کہا، ‘بلاک دفتر سے ملازم آئے تھے اور جانچ‌کر گئے۔ان کو آدھار کارڈ سے لےکر بینک اکاؤنٹ اور دیگر تمام کاغذات دئے گئے۔ملازمین‎ نے کہا تھا کہ بینک اکاؤنٹ میں پیسہ جائے‌گا، لیکن کچھ نہیں ہوا۔  ‘بلاک کے مذکورہ افسر نے کہا کہ دکانداروں کو معاوضہ دینے کے لئے کیمپ لگانے کی اسکیم پر غور کیا جا رہا ہے۔اس کیمپ میں دکانداروں سے دستاویز لئے جائیں‌گے اور معاوضہ کا عمل شروع کیا جائے‌گیا۔پچھلے تقریباً چار مہینے سے معاوضہ کی راہ دیکھ رہے متاثر دکانداروں میں اس اطلاع سے ذرا بھی خوشی نہیں ہے۔ان کو لگتا ہے کہ چار مہینے سے معاوضہ لٹکائے رکھنے کے لئے اپنائے گئے تمام ہتھکنڈے کی طرح یہ بھی ایک ہتھکنڈہ ہے۔

(مضمون نگار آزاد صحافی ہیں اور پٹنہ میں رہتے ہیں۔ )