خبریں

سائبر قانون کے ماہر کا دعویٰ ؛ موجودہ آئی ٹی قوانین افواہیں روکنے کے لئے  نا کافی

سوشل میڈیا پر فیک نیوز اور جھوٹی افواہیں پھیلنے سے ملک میں بڑھ رہے  ماب لنچنگ کے واقعات سے متعلق سائبر قانون کے ماہر اور وکیل پون دگل سے بات چیت۔

پون دگل /فوٹو : فیس بک

پون دگل /فوٹو : فیس بک

نئی دہلی : سوشل میڈیا پر فیک نیوز اور جھوٹی افواہیں پھیلنے کے بعد بھیڑ کے ذریعے پیٹ پیٹ‌کر قتل (لنچنگ) کے واقعات حال میں ملک کے کئی حصوں سے سامنے آئےہیں۔ ان واقعات نے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے استعمال پر سوال کھڑے کرنے کے ساتھ ہی ان ذرائع پر لگام کسنے کی ضرورت پیدا کی ہے۔ اسی مدعے پر سائبر قانون کے ماہر اور وکیل پون دگل سے 5 سوال؛

 فیک نیوز پر لگام لگانے کے لئے آپ کے کیا مشورے  ہیں ؟ بالخصوص لنچنگ کے واقعات اور اگلےسال ہونے والے عام انتخابات کو دیکھتے ہوئے؟

وہاٹس ایپ اور دوسرے  سوشل میڈیا سائٹ کے پاس ٹیکنالوجی ہے جس سے وہ ہر ایک ڈیوائس میں کنٹینٹ پتا کر سکتے ہیں۔ وہ ایسے حل تلاش کر سکتے ہیں کہ قابل اعتراض معلومات کی تشہیر نہ ہو۔ لیکن، وہ ایسا نہیں کر رہے۔ ان کو لگتا ہے کہ بغیر محنت، بغیر پیسہ خرچ کئے زیادہ سے زیادہ ہندوستانیوں کا ڈیٹا لیا جا سکتا ہے۔ اس لئے، اس پر سختی کی ضرورت ہے۔

خبر ہے کہ وہاٹس ایپ نے بلاگ لکھ‌کر کہا ہے کہ وہ ٹیسٹنگ کر رہے ہیں کہ وہاٹس ایپ کے ذریعے ایک ساتھ ایک میسیج کو صرف 5 جگہ بھیجا جا سکے‌گا۔ اس کے بعد میسیج بھیجنے پر روک ہوگی؟ کیا اس طرح کا کوئی انتظام افواہوں سے ہونے والے جرائم یا فیک نیوز کو روکنے میں کامیاب رہے‌گا؟

بالکل بھی نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ ایجنٹ ایک ایک کرکے پانچ سو لوگوں کو میسیج فارورڈ کریں‌گے۔ وہ بالواسطہ طریقے  اپنائیں‌گے۔ اور پھر کٹ اینڈ پیسٹ کرنے پر تو کوئی روک نہیں ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ گھر میں آگ لگی ہوئی ہے اور وہاٹس ایپ کہہ رہا ہے کہ میں 200 کلومیٹر دور جاؤں‌گا پانی لینے کے لئے، پھر آگ بجھاؤں‌گا۔ ان کے پاس پوری ٹیکنالوجی ہے، پوری صلاحیت ہے، لیکن وہ جان بوجھ کر دیر کر رہے ہیں تاکہ انڈین ایکٹ  کے تحت نہ  آئیں۔ اس معاملے میں سختی کی ضرورت ہے جو حکومت ہند کی طرف سے نظر نہیں آ رہی۔

کیا ہمارے  آئی ٹی / انفارمیشن  ٹیکنالوجی  لاء  کے اہتمام ان موضوعات سے نپٹنے کے لئے کافی ہیں یا ان کو صحیح طریقے سے نافذ کرنے کا مسئلہ ہے؟

قانون میں خامیاں کیا، اہتمام ہی نہیں ہے۔ موجودہ آئی ٹی قانون سوشل میڈیا کے بارے میں بات ہی نہیں کرتا۔ حالانکہ آئی ٹی قانون میں کچھ اہتمام ہیں جن کو ہم سوشل میڈیا پر نافذ کر سکتے ہیں جیسے ‘ ‘Intermediary liability۔ لیکن سیاسی قوت ارادہ کے فقدان میں ان کے تحت بھی کارروائی نہیں ہو پا رہی ہے۔ ایک الگ قانون ہونا چاہیے  جو فیک نیوز اور جھوٹی افواہوں کو پھیلنے سے روک سکے۔ ٹرولنگ کو ریگولیٹ کر سکے۔

کیا غیرملکی سوشل میڈیا کمپنیوں پر ہندوستان کے  قانون اسی طرح سے نافذ ہوتے ہیں جیسے ہندوستانی کمپنیوں پر؟

وہاٹس ایپ کہہ رہا ہے کہ یہاں ہمارا دفتر نہیں ہے۔ ہم امریکی کمپنی ہیں اور وہیں کے قانون کے ما تحت ہیں۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ آئی ٹی ایکٹ میں ہر وہ کمپنی جو چاہے ہندوستان کی ہو یا باہر کی ہو جس کی خدمات ہندوستان میں کمپیوٹر کے ڈیوائس پر دستیاب ہوں، وہ ہندوستانی قانون کے دائرے میں ہوگی۔ اس لئے، اگر وہاٹس ایپ کو اپنا کاروبار کرنا ہے تو ہندوستانی قانون پر عمل کرنا ہوگا۔

سستے انٹرنیٹ کے اس دور میں فیک نیوز اور جھوٹی افواہوں کو لےکر بیداری کی کتنی ضرورت ہے؟

ہندوستان کے جو صارفین  ہیں ان کو قانونی معاملوں  کی زیادہ معلومات نہیں ہے۔ وہ بغیر سوچے سمجھے چیزوں کو فارورڈ کرتے ہیں۔ اس لئے فارورڈ کیے  جا رہے  مواد پر بیداری کی تشہیر ضروری ہے۔