فکر و نظر

تحریک عدم اعتماد : اپوزیشن ناکام ،راہل گاندھی کامیاب

ہمارے وزیر اعظم گفتار کے غازی ہیں۔اپنی اسی صلاحیت کی بنا پر وہ یہاں تک پہنچے ہیں۔پارلیامنٹ میں اپنی حکومت کا دفاع کرتے ہوئے انہوں نے اپنی اس صلاحیت کا بھرپور استعمال کیا مگر سننے والوں کے لئے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ حقیقتاً ان سے جواب بن نہیں پڑ رہا ہے۔

RahulGandhi_Modi

یہ خبر کہ پارلیامنٹ میں عدم اعتماد کی تحریک ناکام ہو گئی اتنی بڑی نہیں ۔مگر جو بڑی خبر اس سے نکل کر آئی ہے وہ یہ ہے کہ 20جولائی کو راہل گاندھی ایک سیاسی قائد کی حیثیت سے کھُل کر – اورکِھل کر – سامنے آگئے۔ 16ویں لوک سبھا کی اس پہلی تحریک عدم اعتماد کے صرف دو دن بعد کانگریس ورکنگ کمیٹی نے اعلان کیا ہے کہ پارٹی اپوزیشن اتحاد کی قیادت کے لئے تیار ہے اور چونکہ کانگریس ایک نیشنل پارٹی ہے اس لئے اپوزیشن کی طرف سے وزارت عظمیٰ کے امید وار راہل گاندھی ہوں گے۔

کانگریس کا یہ واضح اور دو ٹوک بیان دراصل اُس اعتماد کی عکاسی ہے جو پارٹی کو شاید پہلی بار اپنے قائد کی طرف سے تحریک عدم اعتماد کی بحث کے بعد حاصل ہوا ہے۔بر سر اقتدار بی جے پی بھی شاید  راہل گاندھی کے اس نئےتیور کے دباؤ میں آگئی ہے تبھی پارٹی کی طرف سے کانگریس ورکنگ کمیٹی کو نان-ورکنگ کمیٹی کہہ کر رد کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔وزیر اعظم نریندر مودی بھی پارلیامنٹ میں بوکھلائے ہوئے لگے۔وہ اب تک جسے پپّوکہہ کر خارج کرتے رہے ہیں وہ اتنا پپّو  بھی نہیں۔اس پپّو کے ذریعہ اٹھائے گئے سوالات کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے جو باتیں کہیں اور اس کے لئے جو بھونڈا طریقہ اپنایا ان سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ وہ ان سے خائف بھی بہت ہیں۔

ہمارے وزیر اعظم گفتار کے غازی ہیں۔اپنی اسی صلاحیت کی بنا پر وہ یہاں تک پہنچے ہیں۔پارلیامنٹ میں اپنی حکومت کا دفاع کرتے ہوئے انہوں نے اپنی اس صلاحیت کا بھرپور استعمال کیا مگر سننے والوں کے لئے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ حقیقتاً ان سے جواب بن نہیں پڑ رہا ہے۔راہل گاندھی نے ملک کو درپیش تمام اہم مسائل جیسے مہنگائی، بے روزگاری، کسانوں میں پائی جانے والی بے چینی، رافیل سودے سے جڑے تنازعات وغیرہ  پر حکومت کو خوب خوب گھیرا۔نریندر مودی نے ان میں سے کسی کا بھی سیدھا جواب نہیں دیا حالانکہ تقریباً تمام سوالات کا تعلق براہ راست ان کی ذات سے تھا۔

جب انسان کے پاس جواب نہیں ہوتا ہے تو وہ اونچا بولتا ہے۔سو مودی جی اس دن پہلے سے بھی زیادہ اونچا بولے۔سیاسی ریلیوں اور پارلیامنٹ میں کی جانے والی تقریروں کا فرق وہ بھول گئے۔انھیں ویسے بھی کوئی سبق یاد نہیں۔راہل گاندھی نے اپنے انداز میں وسیع القلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئےان سے گلے ملنے کا غیر روایتی کام کیا۔اس بحث سے قطع نظر کہ انہوں نے صحیح کیا یا غلط اخلاق کا تقاضہ تھا کہ کوئی آپ کے سامنے آکر کھڑا ہوا ہے تو کھڑے ہو کر خندہ پیشانی کے ساتھ اس کا استقبال کیا جائے۔پہلے تو وہ اپنی جگہ سے ہلے نہیں اور بعد میں ان کے اس اخلاق کا مذاق اڑایا۔ اگلے دن ایک سیاسی ریلی میں دوبارہ مذاق اڑایا اور یہاں تک کہہ گئے کہ ان کی یعنی راہل گاندھی کی نظر وزارت عظمیٰ پر تھی۔جیسے مودی جی اگر ان سے ملنے کے لئے کھڑے ہوئے ہوتے تو راہل گاندھی نے جھٹ سے ان کی جگہ لوٹ لی ہوتی۔پارلیامنٹ نہ ہوا کلاس روم جہاں بچے سیٹ کے لئے لڑتے ہیں۔اتنی چھوٹی بات مودی جی ہی کہہ سکتے تھے۔

فوٹو : پی ٹی آئی

فوٹو : پی ٹی آئی

دیکھا جائے تو عدم اعتماد کی تحریک ناکام ہو کر بھی کامیاب رہی۔ایک طرف ہمیں  یہ معلوم ہو گیا کہ اپوزیشن پارٹیاں کس راستے پر جا سکتی ہیں تو دوسری طرف یہ اندازہ بھی  ہو گیا کہ دوبارہ چنے جانے کے لئے مودی جی کن ایشوز کو اٹھانے والے ہیں۔ان کی تقریر کا حاصل جمع صفر ہے۔انہوں نے حکومتی سطح پر ایسا کوئی کارنامہ انجام نہیں دیا ہے جسے بتا کر ووٹ مانگ سکیں۔اس لئے وہ  ایک بار پھر سے نعروں کا سہارا لیں گے۔عوام  کے جذبات ابھاریں گے۔اپنا آزمودہ ہندتوا کارڈ کھیلیں گے۔اس کام کے لئے ان کے حمایتیوں نےماب لنچنگ کی ٹیم ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک تیّار کر ہی لی ہے۔ان سب کے علاوہ نہرو-گاندھی فیملی پر حملے کو مرکزی حیثیت حاصل ہو گی۔ان کی تقریر سے اندازہ ہوا کہ یہ خاندان آج بھی ان کے اور پورے سنگھ پریوار کے اعصاب پر سوار ہے۔لہٰذا  اس خاندان کے نمائندہ ہونے کے ناطے راہل گاندھی ان کی انتخابی مہم کا مرکز و محور ہوں گے۔

اس تناظر میں کانگریس ورکنگ کمیٹی کا اعلان کہ پارٹی 2019 کے انتخابی مہم کا بگل بجا چکی ہے خوش آئند ہے۔عام انتخابات کا اعلان ہونے میں اب چند ماہ ہی رہ گئے ہیں۔کانگریس پارٹی یا کوئی بھی پارٹی اکیلے بی جے پی کا مقابلہ نہیں کر سکتی اس حقیقت کے باوجود کہ پارٹی اس وقت بہت کمزور پڑ چکی ہے اور وزیر اعظم مودی کی مقبولیت میں زبردست گراوٹ آئی ہے۔مودی اور امت شاہ کی پالیسیوں کی وجہ سے پارٹی کے بیشتر حلیف اس سے ناراض ہیں۔تیلگو دیشم پارٹی این ڈی اے اتحاد کو چھوڑ کر جا چکی ہے۔یہی نہیں اس نے مودی سرکار کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لا کر اسے ایک بڑا جھٹکا بھی دے دیا ہے۔شیو سینا بھی ناراض ہے جس کا اظہار اس نے 20 جولائی کو پارلیامنٹ سے دور رہ کر کیا۔نتیش کمار کی جنتا دل یونائیٹڈ اور رام بلاس پاسوان کی لوک جن شکتی پارٹی الگ ناراض ہے۔ایسے میں کانگریس کے لئے یہ سنہرا موقع ہے۔

اپوزیشن اتحاد کی راہ میں لیڈرشپ کا سوال ایک بڑی اڑچن تھی۔کانگریس نے وضاحت کر کے مطلع صاف کر دیا ہے۔گو ممتا بنرجی ایک الگ کوشش میں لگی ہیں لیکن موجودہ حالات میں کانگریس کے بغیر کسی اتحاد کے لئے بی جے پی کا متبادل بننا مشکل نظر آتا ہے۔کانگریس ترجمان رندیپ سرجےوالا نے کہا ہے کہ ان کی پارٹی اکیلی ایسی پارٹی ہے جو تنظیمی طور پر ملک کی ہر ریاست میں موجود ہے اس لئے ان کی ہی پارٹی اتحاد کی قیادت کرے گی اور انتخابی فتح کے نتیجے میں راہل گاندھی وزیر اعظم ہوں گے۔ راہل گاندھی کی لیڈرشپ پر اب تک  طرح طرح کے سوال اٹھتے رہے ہیں۔ایسا نہیں ہے کہ ایک اچھی تقریر کر دینے سے وہ سارے سوالات ختم ہو جائیں گے۔پھر بھی امید ایک کرن نظر آئی ہے۔مسئلہ یہ ہے کہ ایک طرف نریندر مودی ہیں اور دوسری طرف کوئی بھی نہیں۔جو لیڈران  وزیر اعظم بننے کا خواب لئے بیٹھے ہیں ان کی پہنچ محدود ہے۔ ایسے میں ہمارے پاس کانگریس کی طرف دیکھنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔اور حقیقت یہ ہے کہ جب کانگریس کی بات ہو گی توکانگریس کے اندر راہل گاندھی کے سوا کسی اور کی بات کرنا گناہ سے کم نہیں۔