ادبستان

بک ریویو :سقوط حیدر آباد کے تاریخی حقائق کو نئے نتاظر میں پیش کرتی کتاب

مصنف نے سقوط حیدرآباد کے واقعات سے جو نتیجہ اخذکیا ہے کہ’یہ حملہ ناقابل گریزتھا ‘اس سے اختلاف کیا جاسکتا ہے مگرانہوں نے اپنی بات جس سنجیدگی کے ساتھ پیش کی ہے اس کا تقاضاہے کہ یہ کتاب سنجیدگی سے پڑھی جائے۔

book cover

سقوط حیدرآباد1948کو بھلے ہندوستان کی تاریخ کا سنہرا باب اورسردار ولبھ بھائی پٹیل کاایک عظیم کارنامہ سمجھا جاتا ہومگر اچھی خاصی تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہے،بالخصوص آندھرا پردیش میں‘جو آج بھی سقوط حیدرآبادکے عمل کوایک آزاد ریاست پر حملہ قرار دیتی اوریہ سوال اٹھاتی رہتی ہے کہ کیا حیدرآباد کا سقوط ہندوستان کا درست اورجائز قدم تھا؟مثلاً ’مجلس تعمیرملت‘سقوط حیدرآبادکو’پولیس ایکشن‘کے بجائےفوجی ایکشن‘قرار دیتی آرہی ہے۔ویسے حیدرآبادپر’چڑھائی‘کو بولاتو’پولیس ایکشن‘ہی جاتاہے پر یہ اپنی اصل نوعیت میں ’فوجی ایکشن‘تھا‘جس میں ایک بڑی تعداد میں لوگ مارے گئے تھے اوراملاک کابڑے پیمانے پر نقصان ہواتھا۔

کیا یہ’پولیس ایکشن‘حیدرآبادپر یہ چڑھائی یاحملہ ناگزیرتھا‘کیا اسے ٹالا نہیں جاسکتا تھا اورکیا اتنی بڑی تعداد میں جو لوگوں کی جانیں گئیں اوراملاک تباہ وبرباد ہوئی اسے روکا نہیں جاسکتاتھا‘یہ وہ سوالات ہیں جن کے جواب مختلف اسکالر اورمورخ اپنے اپنے انداز میں دیتے ہیں۔عام طورپرکہا یہی جاتاہے کہ حملہ ناگزیرتھا مگرحیدرآباد کی تاریخ پر گہری نظررکھنے والے حیدرآبادہی کے ایک اسکالر سید علی ہاشمی کاکہناہے کہ یہ ایک قابلِ گریزحملہ تھا یعنی اسے روکاجاسکتاتھا۔

سیدعلی ہاشمی کی انگریزی کتابAn Avoidable Invasion : 1948 Hyderabad (حیدرآباد۱۹۴۸:ایک قابلِ گریز حملہ)میں حکومتِ ہند اورنظام حیدرآباد کے نمائندوں کے درمیان مذاکرات کی آنکھیں کھولنے والی تفصیلات پیش کی گئی ہیں،بتایاگیا ہے کہ ہندوستان نے کس طرح سے حیدرآباد پر معاشی پابندیاں عائد کی تھیں اورکیسے ریاست حیدرآباد میں اہم عہدوں پر متمکن اشخاص نے انتہائی نازک وقت میں اپنی ’غداریوں‘سے حیدرآباد کے سقوط کو ممکن بنانے میں اپنا اپنا کردارادا کیاتھا۔کتاب میں حیدرآباد پر’پولیس ایکشن‘کی کارروائی ‘حیدرآباد کی تہذیب وثقافت کی تباہی وبربادی اورجن دنوں حیدرآباد جل رہاتھا ان دنوں نظام کے معمولات کو بھی تفصیلی طور پر پیش کیاگیاہے۔اورسندرلال کمیٹی نے سقوط حیدرآباد کے جو حالات درج کیے ہیں ان پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔مختصراًیہ کہ یہ کتاب ان واقعات اورڈرامے کو ترتیب وار پیش کرتی ہےجن کے نتیجے میں حیدرآباد کو’پولیس ایکشن‘سے گزرنا پڑاتھا۔

سید علی ہاشمی ‘حیدرآباد اورامریکہ سے تعلیم یافتہ ہیں اورملک اوربیرون ملک بالخصوص امریکہ اورعراق کی متعددلائبریریوں میں بطورلائبریرین کام کر چکے ہیں لہٰذان کے پاس آزادی کی تحریک،تقسیم وطن اورسقوط حیدرآباد پر مواد کے لیے نہ کتابوں کی کمی تھی اورنہ ہی دستاویزات کی ۔اور اس کتاب کے مطالعے سے بخوبی یہ اندازہ ہو بھی جاتاہے کہ مصنف نے بڑی ہی محنت اورمشقت سے حقائق جمع کیے،ان کاتجزیہ کیا اورایمانداری کے ساتھ لوگوں کے سامنے پیش کردیا۔مصنف نے سقوط حیدرآباد کے واقعات سے جو نتیجہ اخذکیا ہے کہ’یہ حملہ ناقابل گریزتھا ‘اس سے اختلاف کیا جاسکتا ہے مگرانہوں نے اپنی بات جس سنجیدگی کے ساتھ پیش کی ہے اس کایہ تقاضاہے کہ یہ کتاب سنجیدگی سے پڑھی جائے اورمصنف نے جو نتیجہ اخذ کیا ہے اس پرغیرجانبداری سے غورکیا جائے۔

مصنف نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ ’برسرِ اقتدار ٹولہ یعنی ہندوستان کے حکمراں ایک ترقی یافتہ شاہی ریاست کو ہر حال میں ہندوستان میں ضم کرناچاہتے تھے۔‘ان کایہ کہنا ہے کہ’اگرحیدرآباد پر ہندوستان کادعویٰ جائزتھا تو29؍نومبر1947ء کو اسے حیدرآباد کے ساتھ قرضہ جات کی ادائیگی کی مہلت کے معاہدہ پر دستخط نہ کرنا ہوتے،وہ بھی ثالثی کی شق کے ساتھ !ثالثی پررضا مندی تودویکساں فریقوں کے درمیان ہوتی ہے‘مطلب یہ ہے کہ ہندوستان ایک علیحدہ ریاست تھی اورحیدرآباد ایک علیحدہ ریاست لہٰذاحیدرآباد پر چڑھائی تقسیم کے بعدکی ہندوستانی تاریخ کاایک سیاہ نکتہ یاسیاہ باب ہے۔

کتاب بنیادی طورپر چار ابواب میں منقسم ہے۔دیپاچہ الگ سے ہے۔مصنف نےدیباچے میں اُن دنوں اترپردیش کی گورنر سروجنی نائیڈوکاایک واقعہ تحریر کرتے ہوئے اپنی ذہنی حالت کاان کی ذہنی حالت سے موازنہ کیاہے۔ وہ سقوط حیدرآباد کے تعلق سے اپنےجذبات کااظہاریوں کرتے ہیں……’’بتایا جاتاہے کہ قوم پرست لیڈر اورمجاہدین آزادی میں اہم مقام کی حامل سروجنی نائیڈو اپنے آنسو نہیں روک پائیں جب انہوں نے سنا کہ نظام حیدرآباد نے ہندوستان کی حکومت کے سامنے خودسپردگی کردی ہے۔انہوں نے کہا’آج میرے ملک نے اپنی آزادی کھودی ہے۔‘

انہوں نے لرزتی آواز میں کہا’ایک حیدرآبادی کے ناطے میں اپنے ملک کی شکست پرماتم کناں ہوں۔‘ان دنوں محترمہ سروجنی نائیڈواترپردیش کی گورنر تھیں۔میں ان کے جذبات میں شامل ہوں۔مصنف نے یہ کتاب اسی ذہنی ڈھانچے میں تحریر کی ہے۔‘‘وہ مزیدلکھتے ہیں’’یہ کتاب مصنف کے 1948 ء میں تجربہ کیے گئے واقعات کابیان ہے۔‘‘وہ مزید لکھتے ہیں’’حیدرآباد پولیس ایکشن کا معاملہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کیاگیا مگر اسے اس وقت تک پڑا رہنے دیاگیا جب تک کہ یہ اپنی موت آپ نہیں مرگیا۔‘‘

کتاب کاپہلاباب’تقسیم کاابتدائیہ‘کے عنوان سے ہے۔اس باب میں مصنف نے تقسیم ملک پرپنڈت جواہر لعل نہرواورمحمد علی جناح کے خیالات پیش کیے ہیں،مصنف کے بقول نہروتقسیم کے حق میں تھے اورجناح ’’ایسی وفاقی حکومت چاہتے تھے جس میں مرکزمیں وزراء برابر کےہوں۔‘‘اس باب میں مصنف نے مولاناابوالکلام آزاد کی اس پیشن گوئی کاکہ تقسیم سے سب سے زیادہ نقصان میں مسلمان ہی رہیں گے ذکر کرتے ہوئے تحریر کیاہے’’مولاناآزاد کی پیشن گوئی سچ ثابت ہوئی۔آزاد ہندوستان کی تاریخ فرقہ وارانہ فسادات،فرضی مڈبھیڑوں اورمسلمانوں کے تئیں تعصب سے بھری ہوئی ہے۔‘‘

نظام حیدرآباد کی دولت کاذکر کرتے ہوئے مصنف نے یہ دعویٰ کیاہے کہ اُس وقت نظام دنیا کے سب سے زیادہ مالدار شخص تھے،حیدرآباد بے حد دولت مندریاست تھی اورہندوستان نے اس پر جو معاشی پابندیاں عائد کی تھیں ان سے ریاست متاثرنہیں ہوئی تھی لہٰذا کے ایم منشی نے سردارولبھ بھائی پٹیل کوخط لکھ کر ان پر زوردیاتھا کہ ایسے اقدامات کیے جائیں کہ حیدرآباد مالی مشکلات میں گھر جائے اورہندوستان میں ضم ہونے کو تیار ہوجائے۔

کتاب کےبعدکے ابواب ’حیدرآباد مقامی ریاستوں کے درمیان‘’اتحاد قائدین کی تقدیر‘اور’زبانی تاریخ‘میں حیدرآباد کے تعلق سے مذاکرات اوراسے حملے سے بچانے کی کوششوں کا تفصیلی ذکر کیاگیاہے۔سقوط حیدرآباد کے وقت جوفوج کشی کی گئی اس کی تفصیلات پیش کرتے ہوئے قتل وغارتگری اورلوٹ مار کے واقعات کو’نسلی قتل عام‘قرار دیاگیاہے۔سید علی ہاشمی نے ہندواکثریت والی ریاست پرمسلم اقلیت کی حکمرانی پر مچنے والے شورکاذکر کرتے ہوئے اس حقیقت کو اُجاگرکیاہے کہ ذرائع ابلاغ اس پر واویلامچا رہاتھا مگر کشمیر پر خاموش تھا جہاں مسلم اکثریت پرہندومہاراجہ ہری سنگھ کی حکمرانی تھی۔بقول مصنف’’مہاراجہ کی استحصالی حکمرانی کےمقابلے نظام کی ریاست فلاحی تھی۔‘‘

سید علی ہاشمی نے ساری کانگریس قیادت کو ‘سوائے گاندھی جی اورسی راجہ گوپالاچاری کے ‘سقوطِ حیدرآباد کا’ملزم‘ٹھہرایاہے۔سردار پٹیل اورحیدرآباد میں ہندوستان کے ایجنٹ جنرل کے ایم منشی کو’منصوبہ ساز‘قرار دیتے ہوئے وہ پنڈت جواہر لعل نہرو کے بیان کاحوالہ دیتے ہیں کہ’’میں حیدرآباد کو خاک میں ملادوں گا۔‘‘مصنف کے بقول حیدرآباد کانگریس کے سارے قائدین نے دوغلے پن کاثبوت پیش کیا‘ریاستی کانگریس میں آریہ سماجیوں کی اکثریت تھی جوہندوستان اورحیدرآباد کے درمیان کسی مستقل صلح کے خلاف تھی کیونکہ اس طرح نظام کی یاباالفاظ دیگر مسلم حکمرانی برقرار رہتی۔دستاویزات کاحوالہ دیتے ہوئے سیدعلی ہاشمی کہتےہیں کہ کانگریس کی کتھنی اورکرنی میں فرق تھا،ابتداء ہی سے اس کی منشاتھی کہ حیدرآباد کو ہندوستان میں ضم کرناہے،پٹیل کے الفاظ میں ’’یہ شکم سے السرکونکالناہے۔‘‘

سید علی ہاشمی’’غداروں‘‘کا ذکر بھی سخت لہجے میں کرتے ہیں۔ان کے بقول حیدرآباد کی فوج کے میجرجنرل احمد العیدروس کی وفاداری ہمیشہ  مشکوک تھی لیکن ان کی غداری کا اندازہ اسی وقت ہوسکا جب ہندوستانی فوج آسانی کے ساتھ حیدرآباد میں داخل ہوگئی۔میجر جنرل کی بیوی ایک یہودی عورت تھی۔زین یارجنگ،دین یارجنگ،علی یاورجنگ،ہوشیارجنگ یہ نوابین ہندوستانی سرکار کے رابطے میں تھے یہی نہیں شہزادہ معظم جاہ بھی اپنے ولی عہد بھائی کے ہمراہ حکومتِ ہند سے سازبازکر رہے تھے۔لئیق علی اورقاسم رضوی کے تفصیلی ذکر کے ساتھ مجلس اوررضا کار تحریک کی سرگرمیوں کی تفصیلات بھی پیش کی گئی ہیں۔

مصنف نے ہندوستانی ذرائع ابلاغ کی ’رضا کاروں‘کو فرقہ پرست اورہندو دشمن ثابت کرنے کی جانبدارانہ کوششوں پر سخت تنقید کرتے ہوئے یہ یاد دلایا ہے کہ’رضا کاروں میں ہندوبھی شامل تھے۔‘مصنف نے قاسم رضوی کی تقریر کابھی حوالہ دیا ہے جس سے یہ سچ سامنے آجاتاہے کہ نہ قاسم رضوی فرقہ پرست تھے اورنہ ہی نظام حیدرآباد۔تقریر میں قاسم رضوی نے صاف لفظوں میں کہا تھا’’اوردھیان رہے،اپنے ملک کے کسی بھی غیر مسلم کو چھونا نہیں کیونکہ ہم حکومتِ ہند سے جنگ کر رہے ہیں ہندوؤں سے نہیں۔‘‘

کتاب میں کئی’غلط بیانیوں’یا’جھوٹ‘یا’افواہوں‘کے پیچھے کے حقائق بھی اجاگرکیے گئے ہیں،مثلاً یہ کہ نظام کی کار پر بم پھینکنے والے نارائن راؤپوار کو خود نظام نے بچایاتھا ورنہ لوگ اسے پیٹ پیٹ کر مارڈالتے اوریہ حکم دیاتھا کہ اس پر معمول کی عدالت میں مقدمہ چلے۔آج اسی پوار کو ’حیدرآباد کابھگت سنگھ ‘کہا جاتاہے۔یہ خبر اُڑی تھی کہ نظام اپنی ساری دولت بٹورکر ایک خاص ہوائی جہاز سے مصربھاگنے والے ہیں اورآسٹریلیا کے معروف ہوا بازسڈنی کاٹن کی خدمات انہیں طیارے سے لے جانے کے لئے لی گئی ہیں،پر سچ یہ ہے کہ جب سقوط حیدرآباد ہوا اورجس وقت 17؍دسمبر1948ء کو‘ان کے بھاگنے کی بات کی جارہی تھی وہ جانمازپر سجدے میں پڑے ہوئے تھے۔خبر اڑائی گئی کہ نظام نے ہندوستان پر استعمال کرنے کے لیے ایٹم بم حاصل کرلیاہے یہ خبربھی جھوٹ ہی نکلی۔

سید علی ہاشمی کاماننا ہے کہ حیدرآبادپر چڑھائی اوراس کے نتیجے میں مسلمانوں کو جن مصائب اورآلام کا سامنا کرنا پڑا ان سے بچا جاسکتاتھامگر اقتدار میں انتہائی فرقہ وارانہ ذہنیت کے جو لوگ تھے وہ یہ نہیں چاہتے تھے۔تقریباً تین سوصفحات پر مشتمل  اس کتاب کو’سقوط حیدرآباد‘سے متعلق تاریخ کا اہم حوالہ کہا جاسکتا ہے۔یہ کتاب ان کے مطالعے کے لیے بھی ضروری اوراہم ہےجو ’سقوطِ حیدرآباد‘کے محرکات اوراثرات سے دلچسپی رکھتے ہیں اوران کے لیے بھی جنہوں نے اب تک’سقوطِ حیدرآباد ‘کی تاریخ کو بس’ایک ہی رخ ‘سے پڑھا ہے۔

اس کتاب کا مطالعہ آج کے دورمیں جب کہ تاریخ کوسرکاری طور پر مسنح کیا جارہاہے اس لیے بھی ضروری ہے کہ یہ پتہ چل سکے کہ پہلے بھی تاریخ کو مسنح کرنے کی کوشش ہوئی ہے پر تاریخ کے سچ کو کبھی چھپایانہیں جاسکتا۔‘کتاب میں ٹائپ کی چند غلطیاں ہیں۔مصنف اورفاروس میڈیا اس کتاب کے لیے انتہائی مبارکباد کے مستحق ہیں۔اُمید ہے کہ کتاب مقبول عام ہوگی۔

(بہ شکریہ ؛اُردو بک ریویو)