فکر و نظر

الور ماب لنچنگ : کیا تشدد روکنے کے نام پر سیاسی کھیل کھیلا جارہا ہے؟

الور قتل معاملے میں تو ایک نیا پینترا بھی سامنے آیا۔ وہ یہ کہ گاؤں والوں نے پولیس کو اور پولیس نے گاؤں والوں کو موردِ الزام ٹھہرانا شروع کر دیا۔ درحقیقت یہ پورا کھیل کیس کو قانونی طور پر کمزور کرنے کا ہے۔

علامتی تصویر، فوٹو: دی وائر

علامتی تصویر، فوٹو: دی وائر

الور میں بھیڑ نے ایک گائے مالک کو گھیر کر پھر مار دیا۔ اسے لے کر اب بیان بازی کا دور جاری ہے۔ اس میں یہ بھی کہا جا رہا ہےکہ اگر ملک میں گئو کشی پر پابندی لگا دی جائے تو شاید ہجومی تشدد میں کمی آئے گی۔ لیکن ایسا کبھی نہیں ہوگا، کیونکہ یہ سارا معاملہ سیاست سے جُڑا ہوا ہے۔ گئو کشی پر پابندی لگانے کے بعد کچھ اور نئے شگوفے چھوڑے جائیں گے۔ جیسا کہ پہلے مسلمانوں کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ پانچ شادیاں کرتے ہیں اور پچیس بچے پیدا کرتے ہیں۔ اعدادوشمار سے یہ بات یکسر غلط ثابت ہوئی۔

اس پر بھی غور کیا جانا ضروری ہے کہ ہجومی تشدد کا راستہ کیوں چنا گیا ہے؟ دراصل اپنے ملک میں ہجومی تشدد کے خلاف کوئی موثر قانون نہیں ہے۔ اور گزشتہ دنوں ہوئے الور قتل معاملے میں تو ایک نیا پینترا بھی سامنے آیا۔ وہ یہ کہ گاؤں والوں نے پولیس کو اور پولیس نے گاؤں والوں کو موردِ الزام ٹھہرانا شروع کر دیا۔ درحقیقت یہ پورا کھیل کیس کو قانونی طور پر کمزور کرنے کا ہے۔

حالانکہ جہاں تک گئوکشی بند کرنے سے ہجومی تشدد میں کمی آنے کی بات کا سوال ہے، تو اس کا ایک دلچسپ جواب سوشل میڈیا پر دیا جا رہا ہے۔ وہ یہ کہ ایسی باتیں کرنے والے کل سے کہیں یہ نہ کہنے لگیں کہ خواتین کا باہر نکلنا بند کر دینا چاہیے، اس سےریپ  میں کمی آ جائےگی۔ قابلِ غور بات یہ ہےکہ ہجومی تشدد ختم کرنے کے لیے گئو کشی روکنے کی بات کرنے والا طبقہ وہی ہے جس میں شامل لوگ خواتین کا ڈریس کوڈ، ان کے باہر نکلنے، ملنے جلنے پر نظر رکھنے، ان پر دیگر پابندیاں عائد کرنے کی باتیں کرتے رہے ہیں۔

ہجومی تشدد جیسے معاملات میں اکثریتی طبقے، خاص طور سے سیکولر طاقتوں کی خاموشی افسوسناک ہے۔ خود کو سیکولرزم کی حامی بتانے والی پارٹیوں کو اگر اس ہِنسا سے لڑنا ہے تو یاد رکھیں کہ محض بیان جاری کر دینے سے، یا سوشل میڈیا پر آ جانے کا کچھ خاص اثر ہونے والا نہیں ہے۔ اس سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ اس کے لیے تو باقاعدہ مہم چلانی ہوں گی، سڑکوں پر آنا ہوگا۔ نفرت کا جواب پیار سے دینے کا عمل صرف سوشل میڈیا پر نہیں، بلکہ زمین پر اتر کر دینا ہوگا۔ اسے لوگوں کے دل و دماغ میں بٹھانا ہوگا۔

اس کے لیے راہل گاندھی کو ماضی کی دو مثالیں یاد کرنی ہوں گی:

1947 میں فرقہ وارانہ فسادات کے دوران سُبھدرا جوشی بیمار پڑ گئیں۔ علاج کے لیے انہیں دہلی کے کنگس وے اسپتال میں داخل کیا گیا۔ گاندھی جی ان کی خیریت پوچھنے اسپتال پہنچے تو انہوں نے سُبھدرا جوشی سے پوچھا کہ دہلی میں ہوئے فرقہ وارانہ تشدد میں کتنے معصوم لوگوں کی جانیں گئیں؟

سبھدرا جوشی نے بتایا کہ اس دوران ہوئے تشدد میں مارے جانے والوں کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ ہو سکتی ہے۔ اس پر مہاتما گاندھی نے پھر سوال کیا کہ کیا امن قائم کرنے کے لیے کوشاں کچھ سماجی کارکنوں کو بھی اُس ہِنسا میں اپنی جانیں گنوانی پڑیں؟ سُبھدرا یاد کرتی ہیں کہ گاندھی جی ان کا منفی جواب سننے کو بےچین (dismayed) تھے اور اس پر حیرت کا اظہار کرنے کو کہ ایسی حالت میں وہ کیسے یقین کر لیں کہ انہوں نے اور ان کے ساتھی امن کے سپاہیوں نے لوگوں کی جانیں بچانے کی پوری کوشش کی۔ ان کے الفاظ ہیں ‘جب میں نے یہ دلیل دی کہ ہم نے تشدد روکنے کی خوب کوشش کی لیکن پولیس نے ہماری ایک نہ سنی، گاندھی جی نے ناراضگی سے کہا “یہ میں کیا سن رہا ہوں! تم نے انگریزوں کی گولیوں کا سامنا کیا اور اب تم کہہ رہی ہو کہ تمہاری اپنی پولیس نے تمہاری بات نہیں مانی؟”‘

دوسری مثال عالمی شہرت یافتہ اداکار پرتھوی راج کپور کی ہے، سیکولرزم جن کے لیے زندگی کا سوال تھا۔ حقیقت میں تو یہ ان کے لیے زندگی جینے کا ایک طریقہ ہی تھا۔ پرتھوی تھیٹر کا تیار کردہ ڈرامہ “پٹھان” آپسی اتحاد کا پیغام دیتا مقبولِ خاص و عام فن پارہ تھا۔

آزادی سے پہلے کے دنوں میں کانگریس کے لیے سارے اہم فیصلے لینے کی مجاز کانگریس ورکنگ کمیٹی کے لیے پرتھوی راج کپور نے اس ڈرامے کا ایک شو رکھا۔ “ہم ایک تھے، ہم ایک ہیں، ہم ایک رہیں گے”کے پیغام کے ساتھ جب ڈرامے کا اختتام ہوا تو جغادری نیشنلسٹ سردار ولبھ بھائی پٹیل اس سے بہت متاثر ہوئے۔ بتاتے ہیں سردار پٹیل نے پرتھوی راج سے کہا کہ انہوں نے اپنے ایک شو میں وہ پیغام دے دیا، جو کانگریس دو سالوں میں نہیں دے پائی۔ پٹیل نے پورا ڈرامہ دیکھا اور ڈرامہ ختم ہونے کے بعد آدھے گھنٹے تک انہوں نے اس پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ جسے لوگوں نے بہت غور سے سنا۔ [دیال جے: آئی گو ساوتھ وِتھ پرتھوی راج اینڈ ہِز پرتھوی تھئیٹرس، پرتھوی تھئیٹرس، 1960]

ممبئی اور پُونے کے بیچ واقع کھنڈالہ اسٹیشن کا واقعہ ہے، جہاں ایک بار پرتھوی راج کپور کا سامنا آر ایس ایس کے مفکر گروجی ایم ایس گولولکر سے ہو گیا۔ گولولکر اس وقت جیل سے چھوٹے تھے۔ ان کے پُر جوش حامی، آر ایس ایس کے کارکنان اسٹیشن پر نعرے بازی کر رہے تھے۔ ان کے بیچ سے پرتھوی راج کپور، گولولکر کی بوگی میں داخل ہو گئے اور انہیں اپنے حامیوں کو تہذیب سکھانے کی تلقین کر آئے۔ “ایک کرسی پر کئی لوگ بیٹھنا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے دھکا مکی مچی ہوئی ہے۔ اس سے نہ صرف لوگوں کی ہڈیاں ٹوٹیں گی بلکہ کرسی بھی ٹوٹ جائے گی۔”استعاراتی زبان میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ “نظم و ضبط سیاست کا اہم حصہ ہے مگر آپ کے کارکنان میں اس کی بے حد کمی نظر آ رہی ہے۔”

سیاسی پارٹیوں، سیاستدانوں، اہم شخصیات، ماہرِ تعلیم، دانشوران اور معاشرے کے دیگر اہم لوگوں کو تھوڑا رُک کر سوچنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان وجود میں آ جانے کے بعد بھی کیوں مسلمانوں   لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے ہندوستان میں ہی رہنا پسند کیا۔ ایم ایس ستیو کی فکر انگیز فلم ‘گرم ہوا’ میں یہ سوال بہت سلیقے سے اٹھایا گیا ہے۔ ملک میں آباد دیگر قوموں کی طرح ہی مسلمانوں کی جڑیں بھی ہندوستان میں گہرائی تک پیوست ہیں۔ اس ملک پر ان کا حق بھی ہے۔ ہندوستان میں ان کا رہ جانا ہندوستانی مسلمانوں کے عقیدے کی پختگی کی بھی دلیل ہے۔ گرم ہوا کے کردار سلیم مرزا کی جذباتی کیفیت جسے بلراج ساہنی نے بہت خوبصورتی سے جیا ہے، آج بھی بہت سے مسلمانوں کی کہانی ہے۔ مٹی سے محبت آج بھی ان کی زندگی کی بڑی حقیقت ہے۔

(صحافی و ادیب رشید قدوائی اوآرایف کے وزیٹنگ فیلو ہیں)